علم ا لنفس کے حو ا لے سے گفتگو جا ر ی ہے ا ب تک ہم ا س علم سے کا م لینے کے بعض طر یقو ں پر با ت کرچکے ہیں ا سی حو ا لے سے ا ب ا یک ا ہم ا و ر بنیا د ی نکتہ سمجھ لیں۔ یہ نکتہ ان لو گو ں کے لیے خصوصی تو جہ کا حا مل ہے جو علوم ر و حا نیا ں کا شو ق و شغل ر کھتے ہیں۔
ہمارے د ا ئیں نتھنے سے چلنے و ا لی سا نس چو نکہ شمسی کہلا تی ہے لہٰذ ا ا س کا تعلق ما دّ ی ا شیاءا و ر د نیا و ی ا مو ر سے ہے، انسانی ذہن و عقل ا و ر فہم سے ہے، عا ر ضی نو عیت کے کا مو ں سے ہے، انسانی شعور اور حالت بیداری سے ہے۔ جب کہ ناک کے بائیں نتھنے سے چلنے والی سانس جو قمری ہے اس کا تعلق روحانیت سے ہے۔ انسانی روح اور وجدان اس کے زیر اثر آتے ہیں۔ ہمارے لاشعوری حواس اور اعمال کا تعلق بھی قمری سانس کی رَو سے ہے۔ اگر آپ کی سونے سے قبل قمری سانس چل رہی ہو تو نیند جلد ا و ر آ سا نی سے آ جا ئے گی ا و ر بہت عمد ہ و پر سکو ن ہو گی۔ قمر ی سا نس جاری ہو تو اس وقت میں عبادت یا اعمال روحانی کی انجام دہی کی جائے تو کامیابی یقینی ہو گی۔ اعمال میں اثر پذیری بڑھ جائے گی۔ تخلیقی نوعیت کے کاموں میں بھی مددگار و معاون ثابت ہوگی۔ جب کہ شمسی سانس دنیاوی امور کی انجام دہی، جسمانی مشقت کے کاموں میں معاون ہو گی۔ اگر آپ دنیاوی امور کی انجام دہی میں غلطیاں کرتے ہیں، اپنے کام کو بہتر طور پر نہیں انجام دے پاتے تو غور کریں کہ آپ کا قمری سانس تو زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہتا؟ اگر ایسا ہے تو یقیناً دنیاوی امور کی انجام دہی میں آپ سے غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوں گی۔
خصوصاً دوران مطالعہ میں، حساب کتاب کرتے ہوئے یا کوئی اور ذہنی سرگرمی کا کام کرتے ہوئے، اگر شمسی سانس چل رہا ہو تو بہتر ہوتا ہے، اس دوران میں حسابی مسائل آسان ہو جائیں گے۔ پڑھا ہوا سبق آسانی سے یاد ہو جائے گا، ذہن نشین رہے گا مگر اس دوران میں ایسے ہی کام کریں جو وقتی ضرورت کے ہوں اور جن میں پائیداری و استحکام کی زیادہ ضرورت نہ ہو۔ البتہ ان کاموں کو انجام دینے یا شروع کرنے کے لیے جن میں پائیداری مطلوب ہو، قمری سانس کی روانی کا خیال رکھیں۔ مثلاً مکان کی بنیاد رکھنا، کاروبار کا آغاز، اہم مسائل پر غور و فکر وغیرہ۔ عبادات میں مشغول ہونا، دعا کرنا، عملیات و نقوش کا کام یا روحانیات سے متعلق مشق و ریاضت کے امور کی انجام دہی۔
جن لوگوں کو بے خوابی کی شکایت رہتی ہو، وہ رات کو بستر پر لیٹ کر یہ معلوم کریں کہ ان کا بایاں نتھنا چل رہا ہے یا دایاں؟ اگر دایاں چل رہا ہو تو اسے بند کر لیں اور بایاں جاری کرنے کے لیے کوشش کریں جیسے ہی بایاں سانس جاری ہو گا غنودگی کی کیفیت طاری ہونے لگے گی اور پھر نیند آجائے گی۔
سانس کی قسمیں
بہتر ہوگا ایک بار پھر آتی جاتی سانس کی قسموں پر روشنی ڈالی جائے تاکہ آپ اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں کہ سانس کی کتنی قسمیں ہیں اور ان کے کیا اثرات ہیں۔
ناک کے بائیں نتھنے سے سانس جاری ہو تو اسے ”قمری سُر“ کہتے ہیں۔
اگر دائیں نتھنے سے سانس جاری ہو تو اسے ”شمسی سُر“ کہتے ہیں۔ جب دونوں نتھنوں سے سانس برابر چل رہی ہو تو اسے مُتاساویہ کہتے ہیں اور اس کا تعلق سیارہ عطارد سے ہے۔
جب سانس دائیں نتھنے سے بائیں نتھنے کی طرف یا بائیں سے دائیں کی طرف منتقل ہوتی ہے تو اس انتقال النفس کے وقت تقریباً دس منٹ تک نفس مُتاساویہ جاری رہتا ہے۔ نفس متاساویہ ختم ہوجانے کے بعد سانس ایک سے دوسرے نتھنے کی جانب منتقل ہوجاتی ہے۔
جب سانس دائیں نتھنے سے بائیں کی طرف منتقل ہونا چاہتی ہے تو نفس متاساویہ چلنے سے کچھ لمحہ پہلے کچھ ایسی صورت اختیار کرلیتی ہے جس کا تعلق ستارہ زہرہ سے ہے۔
اگر طلوع شمس سے غروب شمس تک کے تمام وقت کا شمار گھنٹوں اورمنٹوں میں کیا جائے تو اس کے عین درمیانی وقت جو سانس چلتی ہے اس سے ”ضحوائے کبریٰ“ کہا جاتا ہے اس کا تعلق مریخ سے ہے۔
جب سورج غروب ہو رہا ہو اور اس کی پہلی ساعت مشتری کی ہو، اس وقت کا نفس بھی مشتری سے تعلق رکھتا ہے ۔ساعت مشتری اور نفس مشتری سعد اکبر ہے۔ اس وقت ہر قسم کے کاموں کی انجام دہی مبارک ثابت ہوگی۔
زہرہ کی سانس کے وقت محبت کے عملیات تیر بہدف ثابت ہوتے ہیں، مریخ کی سانس جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے منحوس ترین ہے، اس وقت کوئی کام نہ کیا جائے ورنہ عمر پھر پچھتانا پڑے گا۔
جس وقت زحل کی سانس چل رہی ہو اگر اس وقت درد والی جگہ کو مس کیا جائے تو بغیر کسی علاج کے شفا ہوگی۔
سانس اور نیا چاند
ہماری سانس کی رفتار کا قانون قطعی طورپر یہ ہے کہ چاند کی پہلی تاریخ کو سورج نکلنے کے وقت ہمیشہ بایاں نتھنا چلتا ہوگا یعنی قمری سُر ہوگا ۔یہ ایک ایسا اٹل قانون ہے کہ اس میں کبھی فرق نہیں آئے گا۔ چاند کی پہلی تاریخ سے 3 تاریخ تک برابر طلوع آفتاب کے وقت قمری سُر چلے گا اس کے بعد 3 دن تک برابر شمسی سُر چلے گا اور پھر 3 دن کے لئے قمری سُر جاری ہوجائے گا۔ آپ صبح سورج نکلنے کے وقت اس کا تجربہ کرسکتے ہیں۔
اگر رویت ہلال میں مغالطہ ہوجائے جیساکہ اکثر ہمارے یہاں ہوتا ہے اور یہ شک پیدا ہوجائے کہ چاند ہوا یا نہیں تو آپ صبح سویرے طلوع آفتاب کے وقت اپنے ناک سے جاری ہونے والی سانس کا مشاہدہ کریں اگر قمری سر چل رہا ہے تو یقینا چاند ہوگیا ہے اگر داہنا نتھنا یعنی شمسی سر چل رہا ہو تو اس کا مطلب ہوگا کہ چاند نہیں ہوا ہے۔
آپ نے دیکھا اللہ رب العزت نے اپنی سب سے زیادہ اہم اور معرکہ آرا تخلیق انسان کے اندر کائناتی مظاہر سے ہم آہنگی کے لئے کیسا مضبوط اور منظم بندوبست قائم کیا ہے اور انسانی سانس کی آمد و رفت جو نہ صرف یہ کہ اس کی زندگی کی ضمانت ہے بلکہ اپنے اندر کیسے راز اور اسرار رکھتی ہے۔
چاند کی پہلی تاریخ سے 3 دن تک طلوع آفتاب کے وقت سے قمری سُر چلے گا اور ہر 2 گھنٹے کے بعد اپنے مقررہ قانون کے مطابق تبدیل ہوتا رہے گا اس حساب سے قمری اور شمسی تاریخیں ہر ماہ حسب ذیل ہوں گی۔
ہر ماہ چاند کی 1، 2، 3 ،7، 8 ، 9، 13، 14، 15، 19، 20، 21، 25، 26، 27 ،تاریخیں قمری سر کے لئے مخصوص ہیں۔
ہر ماہ چاند کی 4، 5، 6 ،10، 11، 12 ، 16، 17، 18، 22، 23 ، 24، 28، 29، 30 تاریخیں شمسی سُر کے لئے مخصوص ہیں۔
ان تاریخوں کو یاد کرلیں تاکہ اپنے روزانہ کے سانس کے شیڈول کو سمجھ سکیں۔ اگر سانس مقررہ تاریخوں کے مطابق درست چل رہی ہے تو آپ ایک کامیاب دور سے گزر رہے ہیں اور آپ کو کوئی روحانی یا جسمانی پریشانی کا خطرہ نہیں ہے۔ اگر خدا نخواستہ مقررہ تاریخوں کے مطابق سانس نہیں چل رہی اور اس کا شیڈول اپنے فطری تقاضوں کے مطابق نہیں ہے تو سمجھ لیں کہ زندگی کے معاملات میں کچھ گڑبڑ ہے ،آپ کسی نقصان، بیماری یا کسی اور نوعیت کے اپ سیٹ سے دو چار ہونے والے ہیں جس روز ترتیب اور اصول کے خلاف سانس کا سُر چل پڑے اسی دن کوئی نہ کوئی گڑبڑ روز مرہ کے معاملات میں واقع ہوسکتی ہے ایسی صورت میں جب آپ محسوس کریں کہ سانس خلاف اصول چل پڑا ہے تو فوری طورپر اسے درست کرلیا جائے یعنی اسے صحیح طورپر جاری کرلیا جائے جس کا طریقہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں تو معاملات میں زیادہ خرابی پیدا نہیں ہوتی یا اگر خرابی پیدا ہوجائے تو اسے دور کرنے میں دشواری نہیں ہوتی ۔
نیا چاند دیکھنے پر اگر صبح طلوع آفتاب کے وقت قمری سُر چل رہا ہو تو 15 روز تک بے فکری کی زندگی گزاریئے ،آپ کو خوشی، کامیابی اور عزت ملے گی اگر شمسی سُر چل رہا ہو تو 15 دن تک فکر مندی اور پریشانی کا دور دورہ رہے گا۔
اسی طرح چاند کی 15 تاریخ کی صبح کو اگر شمسی سُر چل رہا ہو تو خوشی اور کامیابی کی واضح دلیل ہے لیکن قمری سُر چل پڑے تو نقصان اور غم کی علامت ہے، تجربہ کرکے دیکھ لیجئے۔
نفس متاساویہ یعنی عطاردی سانس غصے، رنجیدگی، ملال، لڑائی جھگڑے وغیرہ سے متعلق ہے، دنیا میں جتنے غم و غصے کے یا لڑائی جھگڑے کے واقعات جنم لیتے ہیں یہ سب اسی نفس مُتاساویہ کے زیر اثر ہوتے ہیں لہٰذا اس وقت کو خاص طور سے نوٹ کریں اور اپنے اوپر کنٹرول رکھیں جب محسوس کریں گے نفس مُتاساویہ جاری ہے تو اسے تبدیل کریں یا پھر اس وقت گوشہ نشینی اختیار کریں۔
انسانی زندگی کا تمام دار و مدار سانس پر ہے ۔ ہمارے صبح و شام سانس لینے کا نام ہی زندگی ہے ۔ جب یہ سانس بند ہوجائے گی تو زندگی بھی ختم ہوجائے گی، گویا سانس کے بند ہونے کا نام موت ہے ۔ آخر جس چیز اور جس عمل کا انحصار زندگی اور موت پر ہے، وہ بجائے خود ایک عجیب و غریب شے کیوں نہ ہوگی ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری ناقص و نامکمل عقل اس معمے کو نہ سمجھ سکے اور ہمیں یہ معلوم ہی نہ ہو کہ اس ہم ترین چیز میں کیا کیا خواص اور خوبیاں پوشیدہ ہیں۔ (جاری ہے)