علم النفس بڑا وسیع و وقیع علم ہے۔ اب اس کے جاننے والے اور اس سے کام لینے والے کم کم نظر آتے ہیں لیکن جو لوگ اس علم سے پوری واقفیت رکھتے ہیں اور اس سے کام لیتے ہیں، ان کے بہت سے مسائل اسی ذریعے سے حل ہو جاتے ہیں۔ انہیں پھر کسی دوسرے علم کی ضرورت نہیں رہتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس علم کا سیکھنا اور سمجھنا بھی آسان ہے۔ اس علم سے کام لینے میں ہماری جیب سے کچھ خرچ بھی نہیں ہوتا۔ صرف ہمیں اپنی سانس کی آمد رفت کے نظام پر پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ نظام دو راستوں سے جاری و ساری ہے۔ ایک راستہ عارضی کہلاتا ہے اور دوسرا حقیقی۔
عارضی راستہ ہمارا منہ ہے اور حقیقی راستہ ناک کے دونوں سوراخ ہیں۔ منہ سے ہم کبھی کبھی خاص ضرورت یا مجبوری کی وجہ سے سانس لیتے ہیں جب کہ ہمارے جسم کے اندر سانس کی حقیقی آمد و رفت کا سلسلہ ناک سے جاری رہتا ہے۔ ہماری ناک کے دونوں سوراخ (دایاں اور بایاں) اس عمل تنفس کا ذریعہ ہیں۔ دائیں طرف سے چلنے والی سانس شمسی کہلاتی ہے یعنی سورج سے منسوب ہے اور بائیں طرف سے چلنے والی سانس قمری کہلاتی ہے یعنی چاند سے منسوب ہے۔ گویا قدرت نے ہمارے چہرے پر چاند، سورج سجا دیے ہیں۔ ہماری ناک کے دونوں نتھنے در حقیقت چاند اور سورج ہیں اور ان نتھنوں سے چلنے والی سانس اپنے اندر بے پناہ اسرار و رموز رکھتی ہے۔
علم النفس کی اصطلاح میں داہنے سوراخ کی شمسی سانس کو “گرم سُر” کہا جاتا ہے اور ناک کے بائیں سوراخ سے چلنے والی سانس کو “ٹھنڈا سر” کہتے ہیں۔ ناک کے دونوں سوراخوں سے یہ سُر ایک خاص نظام کے تحت جاری و ساری رہتے ہیں۔ اگر اس مقررہ نظام میں خلل واقع ہونے لگے تو یہ اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ہمارے جسمانی یا روحانی نظام میں کوئی گڑ بڑ ہونے والی ہے یا ہو رہی ہے۔
ناک سے سانس کی آمد رفت کا یہ نظام اور بھی بہت سے امور حیات میں ہمارا معاون و مددگار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس نظام کا علم رکھتے ہوں۔ ہمیں یقین ہے کہ جب آپ اس علم سے کام لینے لگیں گے تو اس کے حیرت انگیز نتائج کے قائل ہو جائیں گے۔
یاد رہنا چاہیے کہ شمسی اور قمری سُر چاند کی تاریخوں سے مطابقت رکھتے ہیںاور چاند کی پہلی تاریخ کو صبح طلوع آفتاب کے وقت سب سے پہلے گھنٹے میں قمری سر چلتا ہے اور پھر یہ ہر دوگھنٹے کے بعد تبدیل ہوتا رہتا ہے یعنی پہلے قمری اور پھر شمسی اور پھر قمری۔ چاند کی پہلی تاریخ سے شروع ہونے والا یہ قمری سر قاعدے کے مطابق مسلسل تین روز تک چلتا ہے۔ چوتھے روز سے شمسی سر شروع ہوجاتا ہے یعنی صبح طلوع آفتاب کے وقت دایاں شمسی سر جاری ہوگا۔ پھر یہ شمسی سر بھی تین روز چلے گا اور چاند کی سات تاریخ سے دوبارہ تین دن کے لیے قمری سر جاری ہوجائے گا۔ اسی ترتیب سے پورا مہینہ شمسی اور قمری سر تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ اگر اس قاعدے اور ترتیب کے مطابق پورا مہینہ سانس جاری رہے تو یہ ایک نارمل بات ہے۔ زندگی میںکوئی الجھن یا پریشانی نہیں ہوگی، تمام کام بخیروخوبی انجام پائیں گے لیکن اگراس قاعدے کے خلاف سانس چل رہی ہو تو اس کے غلط نتائج سامنے آتے ہیں۔ کوئی دکھ بیماری ، حادثہ یا زندگی کے معاملات میں کوئی اچھی یا بری نئی تبدیلی آنے والی ہے ۔ آئیے علم النفس سے کام لینے کے لیے اس علم کے کچھ رموز و نکات کا مطالعہ کرتے ہیں۔
بہتر ہو گا کہ صبح سے شام تک اور شام سے رات تک ہم اپنی شمسی اور قمری سانسوں کو اور اس کی رفتار میں آنے والی تبدیلیوں کو چیک کرتے رہےں تاکہ روز مرہ کی انجام دہی میں مفید نتائج لانے کی کوشش کی جا سکے۔ مثلاً جب آپ کسی اہم مقصد کے تحت اپنے گھر سے روانہ ہونے لگیں تو دیکھیں کہ کون سا سُر چل رہا ہے۔ دایاں یا بایاں؟ اگر دائیں نتھنے سے شمسی سُر چل رہا ہے تو تمام کام دائیں طرف سے انجام دیں۔ مثلاً لباس تبدیل کریں تو شلوار یا پتلون کے دائیں پائنچے میں پہلے پاوں ڈالیں، قمیض کی داہنی آستین پہلے استعمال میں لائیں۔ موزہ یا جوتا پہلے دائیں پاوں میں پہنیں، اب گھر سے باہر جانا ہے تو پہلے دروازے سے دایاں قدم باہر نکالیں اور پھر گھر سے دائیں طرف کو ہی مڑ جائیں۔ اگر بایاں سر چل رہا ہے تو تمام کاموں میں جسم کے بائیں حصے اور بائیں سمت کو اوّلیت دیں۔
بعض ماہرین علم النفس تو یہ شرط بھی لگاتے ہیں کہ گھر سے باہر نکل کر سات قدم تک پہلے دایاں پاوں ہی آگے بڑھائیں۔ اگر آپ کا مکان ایسے رخ پر واقع ہے کہ آپ کو ہر صورت میں گھر سے نکل کر کسی ایک مخصوص سمت (دائیں یا بائیں) ہی مڑنا ضروری ہوتا ہے تو بھی اگر شمسی سر چل رہا ہو تو پہلے دائیں طرف ہی مڑیں اور چند قدم چل کر پھر بائیں طرف پلٹ جائیں۔ اب جس اہم مقصد سے جا رہے ہیں اس میں کامیابی کے امکانات بڑھ جائیں گے ورنہ ناکامی ہو گی۔
اگر قمری سانس چل رہی ہو تو تمام کام بائیں طرف سے کئے جائیں۔ جب اپنے شہر سے کسی دوسرے شہر یا ملک کی طرف روانگی کا ارادہ ہو تو بھی اس اصول کو مدنظر رکھیں۔ اس سلسلے میں شمسی اور قمری سُر سے متعلق سمتیں بھی مقرر ہیں۔
اگر قمری سانس چل رہی ہو تو مشرق یا شمال کی طرف نہ جائیں۔ اگر شمسی سانس جاری ہو تو مغرب کی طرف رخ نہ کریں۔ جب دونوں سانس برابر ساتھ ساتھ چل رہے ہوں تو سفر ملتوی کر دیں۔ کسی سمت جانا بھی مناسب نہ ہو گا۔ اگر سفر نہایت ضروری ہے تو سانس تبدیل کرنے کے طریقے پر عمل کریں اور جس سمت جانا مقصود ہو، اس طرف کی سانس جاری کر لیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جس سمت کی یعنی جس نتھنے کی سانس جاری کرنی ہو اس کے خلاف سمت میں کروٹ لے کر لیٹ جائیں اور ہاتھ بغل کے نیچے دبا لیں۔ تھوڑی دیر میں مطلوبہ سُر جاری ہو جائے گا۔ مثلاً آپ کا دایاں سر چل رہا ہے اور آپ کو ضرورت ہے کہ بایاں سر چلے تو آپ داہنی جانب کروٹ لے کر لیٹ جائیں اور اپنا بایاں ہاتھ دائیں بغل میں دبا لیں۔ چند منٹ اسی طرح لیٹے رہیں تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کا دایاں سُر بند ہو جائے گا اور بایاں چلنے لگے گا۔ اسی طرح اگر بائیں کو بند کر کے دایاں شروع کرنا چاہتے ہیں تو بائیں طرف کروٹ لے کر لیٹیں اور دایاں ہاتھ بائیں بغل میں دبایں۔ آنکھیں بند کر لیں۔ چند منٹ بعد مطلوبہ مقصد حاصل ہو جائے گا۔
علم النفس کی دو دھاری تلوار کا کرشماتی استعمال
کچھ سوال بھی اس حوالے سے پیدا ہوسکتے ہیں مثلاً یہ کہ اگر زکام اور نزلہ چل رہا ہو یا کسی اور بیماری کی وجہ سے ناک کا ایک نتھنا یا دونوں بند ہو جائیں، تو کیا کیا جائے؟
جواب یہ ہے کہ ایسی صورت میں علاج پر توجہ دی جائے اور اس بیماری کی صورت میں سانسوں کی آمد و رفت کے علم سے کام نہ لیا جائے ورنہ اطمینان بخش تصور نہ ہو گا۔ نزلہ و زکام یا جب پھیپڑوں سے متعلق کسی بیماری یا کسی اور مہلک بیماری کی صورت میں یقیناً سانس کی قدرتی آمد رفت کا نظام متاثر ہو سکتا ہے۔ اس کی بے ترتیبی اور غیر فطری انداز پر غور کرنے کی ضرورت ہو گی۔ اس صورت میں یہ ممکن ہے کہ اسے
فطری انداز پر لانے کی کوشش کی جائے۔ ایسا کرنا علم النفس کے ذریعے اپنا علاج کرنے کے مترادف ہو گا۔
ہم پہلے یہ بتا چکے ہیں کہ ہر انسان ناک کے دونوں سوراخوں سے ہر وقت سانس لیتا رہتا ہے۔ علم النفس کا دارومدار ناک سے سانس لینے کے اسی عمل سے ہے۔ دونوں نتھنوں سے سانس کے اخراج کی کمی بیشی ہی اس علم کی بنیاد ہے۔ ہمارے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے کہ ہم یہ معلوم کریں کہ ہمارے کون سے نتھنے سے ہوا زیادہ خارج ہو رہی ہے اور کس نتھنے سے کم اخراج ہو رہا ہے۔ بھرپور انداز میں سانس لیتے ہوئے اگر ہم اپنے ہاتھ کو ناک کے قریب لے جائےں تو چند لمحوں میں یہ اندازہ ہو جائے گا کہ ہوا دائیں نتھنے سے زیادہ واضح اور تیزی سے خارج ہو رہی ہے یا بائیں طرف سے۔ بس یہ معلوم ہونے کے بعد ہم سمجھ لیں گے کہ اس وقت ہم شمسی رو کے زیر اثر ہیں یا قمری رو کے ماتحت ہیں۔ اگر دونوں نتھنے برابر چل رہے ہوں تو علم النفس کی اصطلاح میں اسے نفس متساویہ کہتے ہیں اور ہندی میں سکھمنا۔ یہ صورت عطارد سے منسوب ہے اور ذو جسدین ہونے کی وجہ سے قابل اعتبار نہیں ہوتی یعنی اس دوران میں جو کام بھی انجام دیا جائے گا، وہ قابل بھروسہ نہ ہو گا۔ اس کا نتیجہ اچھا یا برا کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
تمام ماہرین علم النفس کے نزدیک انسان کے ساتھ جتنے بھی حادثے ، رنج و غم اور لڑائی جھگڑوں کے واقعات پیش آتے ہیں وہ سب مُتساویہ اور شمسی سُروں کے دوران میں واقع ہوتے ہیں لہذا جب مُتساویہ سُر یا شمسی سُر جاری ہو تواحتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے ، ٹھنڈے دل و دماغ سے کام لینا چاہیے ، ہمارا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ غصے، اشتعال اور کسی نا پسندیدہ یا ناگوار صورت حال میں دایاں سُر چلنے لگتا ہے۔ ایسے موقع پر ٹال مٹول اور درگزر سے کام لینا بہتر ہوتا ہے اور مصیبتوں اور مشکلات سے بچا جاسکتا ہے۔
شمسی سُر کے برعکس قمری سُر ٹھنڈا ہوتا ہے ۔ اس دوران میں خوشی اور خوش امیدی ، کامیابی اور مال و دولت کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ لوگوں سے ملنا جلنا ، محبت ، منگنی ، شادی وغیرہ کے معاملات طے کرنا قمری سُر کے دوران میں موافق ہوگا۔
ایک معمولی سا چُٹکلہ یہ ہے کہ جب بھی صبح جاگیں تو فوراً چیک کریں کہ کون سا سُر چل رہا ہے یعنی ناک کے کون سے نتھنے سے سانس کی آمدورفت واضح اور تیز ہے؟ جو سُر بھی چل رہا ہو اسی جانب کے ہاتھ کی ہتھیلی کو فوراً چوم لیں اور دوسرے نتھنے کو انگلی سے بند کرکے چلتے سُر سے ایک لمبا سانس کھینچیں۔ اس معمولی سے عمل سے آپ کا سارا دن خوش و خرم گزر سکتا ہے۔ آپ اس عمل کو اپنا روزانہ کا معمول بنا سکتے ہیں تاکہ زندگی میں کچھ نہ کچھ آسانیاں پیدا ہوجائیں۔
جب کوئی آپ سے ملنے آئے یا آپ کسی سے ملنے جائیں اور آپ کو اس سے اپنی بات منوانی ہو تواسے اپنے بند سُر کی طرف رکھ کر بات کریں۔ یعنی اگر بایاں سُر چل رہا ہے تو اسے اپنے داہنے ہاتھ پر رکھیں اور اگر دایاں سُر چل رہا ہے تو اسے اپنے بائیں ہاتھ کی سمت رکھیں اس طرح آپ کو اس سے گفت و شنید میں اچھے نتائج مل سکتے ہیں۔
سفر ہمیشہ شمسی سُر کے دوران شروع کریں۔ کسی کو مشورہ دے رہے ہوں یا اس کی رہنمائی مقصود ہو، بچوں کو کوئی بات سمجھانی ہو یا آپ ڈاکٹر ہیں اور مریض کے لیے دوائیں تجویز کررہے ہوں تو اس وقت شمسی سُر نہایت موثر اور مفید ثابت ہوگا۔ ماہرین کا یہ بھی دعوی ہے کہ مرد کا دایاں سُر چل رہا ہو اور عورت کا بایاں تو اس وقت قرار پانے والا نطفہ مذکر ہوگا یعنی اولاد نرینہ کی خوش خبری مل سکتی ہے۔ اس کے برعکس صورت حال میں نطفہ مونث قرار پائے گا۔
مریض دواﺅں کا استعمال قمری سُر میں کریں تو زیادہ فائدہ بخش ثابت ہوںگی۔ صحت کی خرابی یا بہتری کے لیے اپنی سانس کا ٹیسٹ کریں جس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی میز پر نرم روئی کے چھوٹے چھوٹے دو تین پھوئے رکھ دیں اور ناک کے نتھنے ان کی سیدھ میں رکھتے ہوئے نارمل انداز میں سانس لیں اور چیک کریں کہ وہ فاصلہ کتنا ہے جس میں سانس روئی کے پھوئے تک پہنچ رہی ہے اور وہ سانس کی وجہ سے ہل رہا ہے۔ اگر یہ فاصلہ ناک اور روئی کے پھوئے کے درمیان تقریبا سات سے نو انچ ہے تو آپ بالکل صحت مند اور تندرست و توانا ہیں لیکن اگر یہ فاصلہ نو انچ سے زیادہ ہے یعنی آپ کی سانس زیادہ لمبی رینج رکھتی ہے تو معاملہ گڑ بڑ ہے پھر یقینا صحت کی خرابی اور کسی بیماری کا امکان موجود ہے۔ پندرہ انچ لمبائی خرابی صحت کی انتہا کا نشان ہوسکتی ہے۔ کوئی بیماری یا تکلیف اگر شمسی یا قمری کسی ایک سُر میں شروع ہوئی ہے تو سُر بدل لینے سے آرام آجائے گا۔ سُر بدلنے کا طریقہ (کروٹ بدل کر) ہم پہلے بیان کرچکے ہیں۔ معدے کی خرابیاں دور کرنے کے لیے کھانا ہمیشہ اس وقت کھائیں جب شمسی سُر چل رہا ہو۔ اگر بایاں یعنی قمری سُر چل رہا ہوتو اسے پہلے تبدیل کرلیں۔ پانی یا کوئی مشروب وغیرہ قمری سُر میں استعمال کرنا بہتر رہتا ہے۔ وہ بیماریاں جو گرمی یا گرم اشیا کے استعمال کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ان کا علاج کرنے کے لیے شمسی سُر کو بند رکھیں اور جو بیماریاں سردی یا ٹھنڈی اشیا کے استعمال سے پیدا ہوتی ہیں ان پر قابو پانے کے لیے قمری سُر کو بند رکھیں اور شمسی سُر زیادہ سے زیادہ چلائیں۔ اس طرح شفا یابی کا عمل تیز ہوجائے گا۔
شمسی سانس نیند کی دشمن ہے اور بے خوابی لاتی ہے۔ لہذا دائیں طرف کروٹ لے کر لیٹیں اور قمری سُر جاری کریں تو جلدی نیند آجائے گی۔
اب علم النفس سے کام لینے کا ایک اور طریقہ بیان کیا جا رہا ہے۔ اس کو پوری توجہ سے ذہن نشین کر لیں۔ اکثر اہل علم و دانش صرف اس علم سے کام لے کر لوگوں کے سوالات کا جواب اور مسائل کا حل بتاتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی ملاقات کے کمرے میں نشست کا انتظام کچھ اس طرح رکھتے ہیں کہ خود ان کی نشست کے دائیں بائیں آنے والوں کے بیٹھنے کے لیے نشست کا اہتمام ہو اور آنے والا کمرے میں داخل ہونے کے بعد اپنی مرضی سے ان کے دائیں یا بائیں طرف بیٹھ جائے۔ وہ خود اسے ہاتھ سے کسی خاص سمت بیٹھنے کا اشارہ نہیں دیتے کہ علم النفس کے ذریعے کسی جواب کے لیے یہ شرط لازمی ہے۔ لہذا جب آپ کے پاس کوئی شخص آئے تو اسے دائیں یا بائیں طرف بیٹھنے کا اشارہ نہ دےں بلکہ دیکھےں وہ خود کس طرف بیٹھتا ہے۔ بہتر ہو گا کہ اپنی نشست کے سامنے بھی ملاقاتی کے لیے بیٹھنے کا کوئی اہتمام نہ رکھےں تاکہ وہ آپ کے دائیں یا بائیں ہی بیٹھنے کا فیصلہ کرے۔
جب وہ اپنا مسئلہ بیان کرے اور اس حوالے سے کامیابی یا ناکامی کے بارے میں سوال کرے تو جواب دینے کا اصول یہ ہو گا۔ مثلاً وہ اپنے کسی کام کے بارے میں سوال کرتا ہے کہ وہ ہو گا کہ نہیں؟ تو دیکھےں کہ آپ کاکون سا نتھنا چل رہا ہے۔ اگر دائیں طرف کی سانس چل رہی ہے اور آنے والا اسی طرف سے آ کر بائیں طرف بیٹھا ہے تو بے تکلف جواب دے دو کہ کامیابی تو ضرور ہو گی مگر کچھ تاخیر کے بعد۔
اگر وہ بائیں طرف سے آیا ہے اور دائیں طرف یعنی جاری سانس والے نتھنے کی طرف بیٹھا ہے تو کامیابی مشکوک ہے اورکوئی رکاوٹ ہے، یہ کام نہ ہو گا۔ اگر وہ دائیں طرف سے یا بائیں طرف سے آ کر اسی طرف بیٹھ جائے جدھر سے آیا ہو اور آپ کا وہی نتھنا چل رہا ہو تو جواب دو کہ اس کا کام ہو جائے گا۔ کوئی بڑی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی۔ مزید اپنے جواب کو اطمینان بخش بنانے کے لیے اس سے پوچھیں کہ اس وقت اس کی ناک کے کون سے نتھنے سے سانس کا بھرپور اخراج ہو رہا ہے۔ اگر اس کا اور آپ کا ایک ہی سمت کا سانس چل رہا ہو یعنی دونوں کا دایاں یا بایاں نتھنا جاری ہو تو کامیابی یقینی ہے ورنہ کچھ تاخیر ہو سکتی ہے۔
اگر وہ سوال کرے کہ مسافر سفر سے کب لوٹے گا؟ وطن کب واپس آئے گا؟ اور اس وقت کس حال میں ہے؟ تو دیکھو کہ اس کی کون سی سانس چل رہی ہے اگر شمسی سانس چل رہی ہے اور آپ کی بھی شمسی چل رہی ہے تو جواب تسلی بخش ہو گا کہ وہ جلد آرہا ہے اور وہ خیریت سے ہے۔ اگر قمری سانس چل رہی ہے تو جواب نفی میں ہو گا کہ اس کے آنے میں کافی تاخیر ہے۔ فی الحال اس کا آنے کا ارادہ نہیں ہے مگر خیریت سے ہے۔ اگر دونوں نتھنے برابر چل رہے ہوں تو بھی آنے میں تاخیر کی نشاندہی ہے اور ساتھ یہ بھی بتا دیں کہ وہ خیریت سے نہیں اور کسی پریشانی میں مبتلا ہے۔
اسی طرح اپنے ذاتی معاملات میں بھی علم النفس کے ذریعے جواب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً آپ کو معلوم کرنا ہے کہ فلاں شخص جس کا آپ کو انتظار ہے وہ آپ کے پاس آئے گا یا نہیں یا کب آئے گا اور کس حال میں ہے؟ یا پھر کوئی اور بھی سوال ہو سکتا ہے۔ ایسے سوالات کے جواب معلوم کرنے کے لیے اس علم سے زیادہ کام نہ لیں یعنی اسے کھیل نہ بنائیں کہ سوال سوچ سوچ کر ان کے جواب معلوم کرتے رہیں بلکہ جب اچانک ضرورت محسوس کریں اور اس بات کا خیال ذہن میں خصوصی ارادے کے بغیر آئے تو فوراً اپنے سوال کو کاغذ پر لکھیں اور پھر دیکھیں کہ آپ کا کون سا نتھنا جاری ہے؟ اگر دایاں یعنی شمسی سانس جاری ہے تو آنے والا جلد آئے گا یا کسی جگہ اس سے ملاقات ہو گی یا اس کی کوئی خبر جلد ملے گی۔ اگر بایاں یعنی قمری سانس جاری ہو تو اس سے ملاقات میں تاخیر کا امکان ہے۔ مگر دونوں صورتوں میں وہ خیریت سے ہو گا۔ اگر شمسی اور قمری دونوں نتھنے جاری اور دونوں میں رفتار سانس برابر ہے تو مطلوبہ شخص کی آمد میں تاخیر ہے اور اس سے ملاقات کا جلد کوئی امکان نہیں۔ ساتھ ہی یہ امکان بھی ہے کہ وہ کسی پریشانی میں ہے۔ وہ خیریت سے نہیں ہے۔
اگر آپ کی کوئی شے گم ہو گئی ہے اور آپ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ملے گی یا نہیں تو دیکھےں کہ اس وقت شمسی سانس جاری ہے یا قمری۔ اگر شمسی سانس چل رہی ہے تو گمشدہ چیز کا ملنا مشکل ہے مگر تھوڑے ہی عرصے میں یہ ضرور معلوم ہو جائے گا کہ وہ چیز جو چوری ہوئی ہے، وہ کس نے چرائی ہے اور پھر کافی تاخیر کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ کوشش سے وہ چیز مل بھی جائے۔
اگر وقت سوال قمری سانس جاری ہے یعنی بایاں نتھنا چل رہا ہے تو سمجھ لو وہ شے چوری نہیں ہوئی بلکہ کہیں ادھر اُدھر ہو گئی ہے یا کہیں رکھ کر بھول گئے ہیں اور وہ آخر کار مل جائے گی اور با لفرض کسی کے ہاتھ لگ گئی ہے یا کسی نے شرارت کی ہے تو بھی وہ چیز واپس مل جائے گی۔ اگر دونوں ناک کے نتھنوں سے سانس برابر جاری ہو تو سمجھ لو کہ اس گمشدہ شے کا ملنا بھی دشوار ترین ہے اور چور کا سراغ بھی نہیں ملے گا۔
علم النفس میں ناک کے دونوں سوراخوں سے سانس کا برابر رفتار سے چلنا نحس تصور کیا جاتا ہے۔ لہذا ایسے وقت میں کسی سوال کا جواب بھی مثبت نہیں ہو گا۔ اسی طرح اس وقت جو کام کیا جائے گا اس کا نتیجہ بھی بہتر اور موافق نہ ہو گا بلکہ ناقص و نقصان دہ اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔ ایسے وقت عبادت کی طرف متوجہ ہونا بہتر ہوتا ہے۔(جاری ہے)
#Parapsychology #Health #BreathingExercise