کینیڈا سے ہمارے ایک پرانے قاری نے کچھ سوال کیے ہیں، وہ خود بھی صاحب مطالعہ اور علم دوست انسان ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ آخر مغرب میں اکثر خواتین و حضرات جو خود کو ماہر روحانیات (Spritualist) کہتے ہیں اور پیشہ ورانہ طور پر عمل حاضرات وغیرہ بھی کرتے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ وہ روحوں سے رابطہ کرسکتے ہیں بلکہ کسی کے عزیز یا رشتے دار کی روح کو بلاکر سائل کی بات چیت کراسکتے ہیں تو اس میں کتنی حقیقت ہے کیوں کہ یہاں میں ایسے لوگوں سے ملا ہوں جو اپنے تجربات بیان کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ فلاں ماہر روحانیت کی مدد سے وہ اپنے کسی قریبی عزیز روح سے مل چکے ہیں، انھوں نے اسے دیکھا نہیں لیکن ماہر روحانیت کی مدد سے بات چیت کی اور ایسی باتیں بتائیں جو ماہر روحانیات نہیں جانتے تھے، ہمارے عزیز ہی اس کا جواب دے سکتے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ میرے لیے یہ سب بڑا حیرت انگیز ہے کیوں کہ میں بہ حیثیت مسلمان ایسے ماہر روحانیات پر یقین نہیں رکھتا جو مسلمان نہیں ہے اور شریعت محمدی کا پابند نہیں ہے،امید کرتا ہوں کہ آپ میری الجھن دور فرمائیں گے اور اپنے کسی قریبی کالم میں اس مسئلے پر تفصیل سے بات کریں گے۔
بلاشبہ یہ موضوع تفصیل طلب ہے،مغرب میں اس حوالے سے جو کام ہوا ہے اس کی تفصیلات سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہے اور مشرق میں اس موضوع پر جو تحقیقات ہوئی ہیں ان پر بھی نظر رکھنا ازحد ضروری ہوگا، بہ صورت دیگر شدید گمرہی کا شکار ہونے کا خطرہ موجود ہے،عام الفاظ میں روحانیات کی اصطلاح پوری دنیا میں رائج ہے،مسلمان ، عیسائی، یہودی، ہندو، بدھ، الغرض سارے ہی مذاہب روحانیات کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور اس کے مطابق خود کو ماہرِ روحانیات ظاہر کرتے ہیں، روحانیات کی یہ اصطلاح روح سے بنائی گئی ہے نہ کہ کسی بھی دین مذہب کے عقائد کی بنیاد پر وضع ہوئی ہے اور روح ایک نہایت لطیف اور روشن دوسرے معنوں میں نوری شے تصور کی گئی ہے،روح ہر جاندار میں موجود ہے، وہ انسان ہو یا کوئی اور مخلوق لہٰذا اصولی طور پر ایسے ماہرین کے لیے ماہر روحیات کی اصطلاح مناسب معلوم ہوتی ہے نہ کہ ماہر روحانیات کی، آئیے اس معاملے کا ذرا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔
مغرب میں اسپریچولزم (Spritualism) کا سلسلہ آج سے تقریباً ایک سو اڑتیس سال قبل یعنی 1863 ء میں شروع ہوا اور حاضرات ارواح کے مشغلے نے خاصی شہرت اور مقبولیت پائی، مغرب کے بہت سے اہل علم، ادیب، شاعر، سائنس دان وغیرہ اس شوق میں مبتلا ہوئے اور انھوں نے بعد ازاں اپنی تحقیق اور مشاہدات سے دنیا کو آگاہ کیا، ان لوگوں نے حاضرات ارواح کے مشغلے میں ماورائی نادیدہ دنیا سے رابطے کی کوششیں کیں اور پھر اپنے مشاہدات و محسوسات کو کتابی شکل میں دنیا تک پہنچایا۔
مشہور جاسوسی ناول نگار سر آرتھرکانن ڈائل اور مشہور سائنس دان سراولیور لاج نے اس سلسلے میں رات دن کام کیا، ان کے نظریات کے مطابق روح انسانی کو بعد از مرگ غذا، دولت، جنس وغیرہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ کسی خاص جذباتی کیفیت سے متاثر ہوتی ہے، البتہ انسان کا روحی جسم (ایسٹرل باڈی)، موسیقی، خوشبو، روحانی اشغال اور اسی طرح کے دیگر لطیف معمولات میں دلچسپی لیتا ہے۔
کانن ڈائل کہتا ہے کہ روحوں کا قیام خوبصورت باغوں، ہرے بھرے میدانوں اور دلکش جھیلوں میں ہوتا ہے، اس کے قول کے مطابق روحوں کے پسندیدہ جانوروں کی روحیں بھی ان کے ہمراہ رہ سکتی ہیں، اس سوال کے جواب میں کہ روحی جسم کیسا ہوتا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ ’’ہمارا روحی جسم یعنی ہمزاد یا قرین ہو بہو ہمارے مادی جسم سے مشابہ ہوتا ہے جس کی لطافت ہماری ظاہرہ نظر سے اوجھل ہوتی ہے‘‘
پھر اس سے سوال کیا گیا کہ کیا روحی جسم یا ہمزاد ہر طرح سے مادی جسم کی طرح ہوتا ہے تو اس نے بتایا ’’ نہیں، بلکہ روحی جسم یا جسم مثالی ہر طرح کی خامیوں، بیماریوں اور کمزوریوں سے پاک ہوتا ہے، حلقہ حاضرات ارواح میں اس بات کے کئی ثبوت بھی مل چکے ہیں کہ جسم مثالی لطیف تر قوتوں کا مجموعہ ہوتا ہے‘‘۔
’’مرنے کے بعد کیا ہوگا؟‘‘
اس سوال کے بارے میں وہ ایک واضح جواب رکھتا تھا اور آخرت کے بارے میں بھی اس کا ایک واضح نظریہ تھا، کانن ڈائل لکھتا ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی روح خود کو ایسے ماحول میں پاتی ہے جہاں اس کے ارد گرد ایسی مانوس روحوں کا اجتماع ہوتا ہے جو اس سے قبل عالم ظاہرہ سے بر زخ کی طرف لوٹ چکی ہوتی ہیں، روح کو اس ابتدائی استقبال کے بعد آرام کا وقفہ دیا جاتا ہے اور آرام کے اس وقفے کا دورانیہ اس لحاظ سے مقرر ہوتا ہے کہ دنیا میں روح نے کتنے دکھ جھیلے ہیں، بعض روحیں ایک ہفتے کے لیے آرام کرتی ہیں جب کہ بعض کو مہینوں پر محیط وقفہ سونے کے لیے دیا جاتا ہے۔
یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ روح کا سونا ہماری نیند جیسا ہر گز نہیں ہوتا بلکہ اس سے مراد روح کا تمام اشغال و مصروفیات سے کنارہ کش ہوکر حالت ارتکاز یا عالم ممنونیت میں چلے جانا ہوتا ہے، یہ مراقبے کی ایک شکل ہے۔
کانن ڈائل کے نظریات سے اسلامی نظریات کی روشنی میں اختلاف تو کیا جاسکتا ہے مگر انھیں یک دم رد کردینا یقیناً غیر منطقی اور متعصبانہ رویہ ہوگا کیوں کہ اس کے ان نظریات کے پیچھے اس کی تمام زندگی کی کاوشیں ، تجربات و مشاہدات اور تحقیق کار فرما ہے۔
60 ء کی دہائی میں روسی سائنس دانوں نے یہ انکشاف کیا کہ انسانی جسم کے گرد ایک ہالہ نور پایا جاتا ہے، انھوں نے اس ہالہ ء نور کی رنگین اور روشن تصاویر بھی شائع کیں لہٰذا روحیت کے میدان میں تحقیق کرنے والوں میں یہ سوال بھی اٹھا کہ کیا یہی ہالہ ء نور انسان کا ہمزاد ہے جس کے اور کئی نام بھی لیے جاتے ہیں، روسی سائنس دانوں نے یہ بھی بتایا کہ انسانی جسم سے نہایت تیز برقی لہریں بھی نکلتی ہیں اور ان کا رنگ کبھی کبھی نارنجی اور نیلا ہوتا ہے۔
ایک اور سائنس دان ماہر برقیات ڈاکٹر والٹر جے کلنر جوتھامسن اسپتال لندن سے وابستہ تھے، انہی شعاعوں کے بارے میں تجربات کر رہے تھے، انھیں یہ خیال آیا کہ جسم انسانی سے توانائی کی جو لہریں خارج ہوتی ہیں ان کا مطالعہ کیا جائے، ڈاکٹر والٹر کو صرف یہ معلوم تھا کہ حرارت کے علاوہ جسم انسانی سے جو توانائی خارج ہوتی ہے اس کا تعلق انفراریڈ سے ہے، انھوں نے ایک ایسا فوٹو گرافک پردہ تیار کرنے کی کوشش کی جس کے ذریعے انسانی جسم سے وابستہ ہالہ ء نور کا مطالعہ کیا جاسکے، چناں چہ انھوں نے مختلف کیمیائی محلول استعمال کیے مگر انھیں ناکامی ہوئی، انسانی جسم سے نکلنے والی انفراریڈ شعاعیں کسی صورت پردہ اسکرین پر نظر نہ آسکیں، آخر کار انھوں نے کولتار کے کیمائی مواد سے فلم کو رنگنے کا ایک کیمائی مسالہ تیار کیا اور شیشے کی ایک اسکرین پر پہلے جیلاٹن اور کولڈین نامی مرکبات کا ایک استر کیا، اس طرح وہ اپنی ایجاد کردہ مشہور اسکرین کے ذریعے انسانی ہالہ ء نور یا ہمزاد کا جائزہ لینے میں کامیاب ہوسکا بعدازاں ڈاکٹر والٹر نے اپنی کتاب ہیومن اٹماسفئر (Human Atmosphere) میں نہایت تفصیل کے ساتھ انسان کے ہمزاد پر روشنی ڈالی ہے، ان کی تحقیقات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسانی جسم سے توانائی کا جو اخراج ہوتا ہے وہ ایک دائرے کی طرح انسانی جسم کے گرد نظر آتا ہے، ڈاکٹر والٹر نے اپنے ایجاد کردہ اسکرین پر انسانی ہمزاد کو دیکھنے کے بعد اسے ’’ایتھرک ڈبل‘‘ کا نام دیا، ان کے بقول ہمزاد ایک شفاف سایہ ہے اور یہ انسان کے ٹھوس جسم سے ایک انچ باہر کی طرف ہوتا ہے، ہمزادی جسم یا ہالے کے اندر ایک اور جسم ہوتا ہے جو پہلے جسم کے مقابلے میں لطیف تر ہوتا ہے پھر جسم لطیف کے اندر ایک اور روحانی وجود ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
ڈاکٹر والٹر کا خیال تھا کہ ماورائے بنفشی شعاعوں کے ذریعے بھی انسانی جسم مثالی کی تحقیق ممکن ہے۔
مسلم صوفیا کے نظریات کے مطابق روح ایک توانائی کا نام ہے جو صفات الٰہیہ کی لاتعداد جہات سے مرکب ہے مگر خود روح بھی اپنی حرکت کے لیے ’’مادہ روح‘‘ کی محتاج ہوتی ہے، تمام ہی ارواح کی توانائی ان تجلیات کی رہین منت ہوتی ہیں جو انھیں مادہ روح سے سپلائی ہوتی رہتی ہیں جب کوئی روح عالم برزخ کی طرف رجوع کرتی ہے تو اسے وہاں کے ماحول سے مانوس ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے، دنیا میں گزرا ہوا وقت کیوں کہ روح کے لیے اپنی اصل یعنی ’’مادہ روح‘‘ سے دوری کا وقفہ ہوتا ہے اس لیے جدائی کے اس عرصے کی نامانوسیت دور کرنے کے لیے روح کو محویت اور استغراق میں چلے جانے کے لیے وقت دیا جاتا ہے، یہی وقفہ روح کے آرام کا وقت کہلاتا ہے، اس عرصے میں وہ عالم برزخ کے ضابطوں، قوانین اور ماحول سے مانوس ہوتی ہے تاکہ اپنے قویٰ کے مطابق توانائی حاصل کرکے اپنے مقرر شدہ وظائف پر عمل پیرا ہوسکے۔
قیام دنیا میں اپنے مقصد تخلیق سے بے خبر رہ کر زندگی گزارنے والی ارواح کو علیحدہ مقام پر رکھا جاتا ہے جب کہ ایسی ارواح جس نے اپنے مقصد تخلیق کو پورا کیا ہوتا ہے اسے نہایت عزت و عظمت کے مقام پر جگہ دی جاتی ہے۔
مسلم صوفیا کے نزدیک روح یعنی انسان کا باطنی وجود تین زاویوں سے مرکب ہے، نمبر ایک روح حیوانی، نمبر دو روح انسانی ، نمبر تین روح اعظم۔
روح حیوانی کا تعلق انسانی فطرت اور جہالت سے ہے اور روح انسانی سے مراد روشنیوں کا وہ جسم ہے جسے اصطلاحاً حضرت شاہ ولی اللہ نے ’’نسمہ‘‘ کا نام دیا تھا،اسی کو پیکر لطیف، جسم مثالی، ہمزاد، قرین،ہالہء نور،ایسٹرل باڈی، پیکر نور یا اورا وغیرہ کہا جاتا ہے اور مغربی ماہرین روحیات کے نزدیک یہی انسان کے باطنی وجود کی آخری حد ہے، وہ روح اعظم کا ادراک نہیں رکھتے کیوں کہ روح اعظم کا ادراک صرف روحانی علوم کے ذریعے ہی ممکن ہے اور روحانی علوم کی فہم اور سمجھ اس وقت تک نصیب نہیں ہوسکتی جب تک مولائے کل ختم الرسل حضور ﷺ کی غلامی انسان کے ایمان کا جزو نہ بن جائے اور عشق رسول ﷺ انسانی رگ و پے میں جاری و ساری نہ ہوجائے، اس عشق کے سمندر میں ڈوب جانے والے ہی روح اعظم کے اسرار سے واقفیت حاصل کرتے ہیں ورنہ نناوے فیصد ماہرین روحیات ان کا تعلق مغرب سے ہو یا مشرق سے روح انسانی یعنی ہمزاد کے کھیل میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔
اس تمام تفصیل سے ہمارا مقصد صرف اس فرق کی وضاحت کرنا تھا جو روحانیات اور روحیات کے درمیان ہے کیوں کہ ہمارے ہاں بھی روحیات کو ہی درحقیقت روحانیات سمجھ لیا گیا ہے جو ایک نہایت گمراہ کن بات ہے۔
اس بات کو اچھی طرح جان لیں کہ حاضرات ارواح کے حوالے سے مغرب کے ماہر روحیات ہوں یا مشرق کے، جب وہ روحوں سے رابطے کی بات کرتے ہیں تو یہ رابطہ صرف اور صرف انسانی ہمزاد تک ہی محدود رہتا ہے کیوں کہ بعد از مرگ روح اعظم کے عالم برزخ میں چلے جانے کے بعد بعض صورتوں میں اکثر انسانوں کا ہمزاد دنیا میں آوارہ بھٹکنے کے لیے رہ جاتا ہے خصوصاً گناہ گار انسانوں کا ہمزاد یا ایسے لوگوں کا ہمزاد جن کی موت حادثاتی طور پر بے وقت واقع ہوئی اور موت کے وقت بھی وہ کسی خاص جذبے یا خواہش کی شدت کے زیر اثر ہو،ایسی ہی روح انسانی حاضرات ارواح کے عاملین سے رابطے میں آجاتی ہیں یا اعلیٰ درجے کے میڈیم شپ کی صلاحیت رکھنے والے عالم لوگوں سے رابطہ قائم کرلیتی ہیں، وہ ان کے سوالوں کے جوابات بھی دیتی ہیں اور کسی دوسرے مردہ شخص کی روح انسانی سے رابطے کا ذریعہ بھی بن جاتی ہیں، وہ روح انسانی جو دوسری روح انسانی سے رابطے کا ذریعہ بنتی ہیں’’گائیڈ روح‘‘ کے اصطلاحی نام سے مشہور ہوتی ہیں۔
مسلمانوں میں مردے کی تدفین کے وقت مخصوص دعا پڑھ کر تین مٹھی مٹی قبر پر ڈالنا وہ طریقہ ہے جس پر عمل کرکے انسانی روح کو بھٹکنے سے روکا جاسکتا ہے،اس کے علاوہ کثرت سے اس کے نام پر خیرات اور ایصال ثواب کرنا بھی اس کی بے قراری اور بے چینی میں کمی کا سبب ہوتا ہے۔
-
03002107035