روحانی اور جسمانی صحت مندی اور فطری تقاضوں کی پابندی

”اکثر آدمی برے ہوتے ہیں“ مغربی جمہوریت ایک قدیم یونانی فلسفی کی نظر میں

رمضان اور عیدالفطر رخصت ہوئے، سال کا بھی آٹھواں مہینہ شروع ہوچکاہے،یہ پاکستان کی آزادی اور قیام کا مہینہ بھی ہے،وقت کی تیز رفتاری کو لگام نہیں ، سال ،مہینے ،دن اپنی مخصوص رفتار سے گزرتے چلے جارہے ہیں، انسان ہر لمحہ اپنے ماضی سے دور مستقبل میں کسی نامعلوم مقام کی طرف بڑھتا چلا جارہا ہے۔
”نامعلوم“ کا لفظ ہم نے اصطلاحی طور پر استعمال کیا ہے ورنہ در حقیقت ہر انسان جانتا ہے کہ مستقبل میں اس کی آخری منزل کون سی ہے اور بالآخر اس کے سفر حیات کا اختتام فنا کے کس گھاٹ پر ہونا ہے لیکن عام طور سے ہر انسان اپنی آخری منزل سے نظریں چرائے حال کی مستی مےں مست رہتا ہے۔
”حال کی مستی“ ہر انسان کی ایک ایسی طلب ہے جس کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتا ہے اور اس کی خاطر ماضی و مستقبل کے تمام حقائق بھول جاتا ہے، شاید انسان اپنے حال کو خوش حال دیکھنا چاہتا ہے اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو اس کی روح اذیت و کرب میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ یہ اذیت و کرب اگر ایک مستقل صورت اختیار کرلے تو مستقل ”روحانی“ یا محتاط الفاظ مےں ”روحی“ بیماریاں اسے لاحق ہوجاتی ہیں، اگر ان کا فوری طور پر تدارک نہ ہوسکے تو پھر یہی روحی امراض انسانی جسم پر نمودار ہونے لگتے ہیں، ان کی شکل کچھ بھی ہوسکتی ہے اور ہم ان کا کوئی بھی نام رکھ سکتے ہےں۔ کینسر، ٹی بی، ہیپاٹائٹس، جلدی تکالیف، ہاضمے کی خرابیاں، السر وغیرہ وغیرہ
روح کی صحت مندی کے لیے ضروری ہے کہ ہم مثبت طرزِ عمل اختیار کریں اور منفی طرز عمل سے کنارہ کش ہوجائے جو بڑا ہی مشکل کام ہے ، ویسے تو تمام لوگ اپنے سارے اعمال اور خواہشات کو مثبت ہی سمجھتے ہیں لیکن خود احتسابی کے ساتھ اپنا جائزہ لینا، بجائے خود ایک بڑا ہی مشکل اور دشوار مرحلہ ہے، صرف ہمارے یہ سمجھ لینے سے بات نہیں بنتی کہ ہم درست راستے پر ہیں اور فلاں غلط ہے، ایسی صورت حال کا فیصلہ ہمیشہ کسی تیسرے منصف مزاج اور بے لوث انسان سے کرانا چاہیے، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ صرف حال کی خوشی پر ہی نظر رکھنا کافی نہیں ہوتا بلکہ ماضی کے تجربات اور مستقبل کے تقاضوں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔

مذہبی تعلیمات

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دنیا مےں تمام مذاہب کی بنیادی تعلیم کا مرکزی محور انسانی روح کی صحت مندی ہے کیوں کہ ایک صحت مند روح ہی در حقیقت صحت مند جسم کی ضامن ہوسکتی ہے اور ایک مکمل طور پر صحت مند (روحانی اور جسمانی طور پر) انسان ہی ایک صحت مند انسانی معاشرے کے قیام میں معاون ہوسکتا ہے۔
روحانی طور پر غیر صحت مند افراد ہمیشہ معاشرے مےں خرابیاں پیدا کرنے کا سبب ہوں گے شاید ابتدائے آفرینش سے ہی یہ حقیقت عیاں ہوگئی تھی کہ انسان عالم خاکی مےں اپنے مادّی وجود کے ساتھ اپنی روحانی حیثیت سے غافل ہوجائے گا اور اس کی یہ غفلت روحی یا روحانی بیماریوں کا سبب بنے گی لہٰذا اصلاح احوال کے لیے انبیاءاور اولیاءآتے رہے کہ انسان کو فطرت کے تقاضوں اور رازوں سے باخبر کرتے رہےں کیوں کہ فطرت کے تقاضوں کی خلاف ورزی ہی در حقیقت روحانی امراض کا سبب بنتی ہے۔

فطری تقاضے

فطرت کے تقاضے کیا ہیں؟ اکثر ہم انہیں جاننے اور سمجھنے میں غلطی کیوں کرتے ہیں ؟ ان سوالوں پر ضرور غور کرتے رہنا چاہیے،فطرت کے تقاضے بہت سادہ اور عام فہم ہیں،حضور اکرمﷺ کی ایک حدیث پاک بہت ہی آسان طریقے پر ہمیں فطرت کے تقاضوں سے آگاہ کرتی ہے،آپﷺ نے فرمایا ”ہر کام کا وقت مقرر ہے“۔
ملاحظہ فرمایا آپ نے! کائنات کا کتنا بڑا مسئلہ چند لفظوں میں بیان فرمادیا گیا ہے،اس کا مطلب یہ ہوا کہ کھانے پینے ، سونے، جاگنے، کام کرنے اور آرام کرنے الغرض ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے اور یہی فطرت کے تقاضے ہیں،اگر ان کی پیروی کی جائے تو ہماری روحانی صحت قابل رشک ہوسکتی ہے،اس کی مزید تشریح بھی ضروری ہے،کھیل کود، تعلیم و تربیت، کرئر کا آغاز، شادی،ازدواجی زندگی ، اولاد وغیرہ۔ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے،اگر یہ وقت ہم نے کسی اور مصروفیت یا دلچسپی کے تحت گزارا اور اسے ضائع کردیا تو بھی ہم اپنے فطری تقاضوں کے خلاف زندگی بسر کر رہے ہوں گے اور اس کوتاہی کے نتیجے میں جو خرابیاں روحانی اور جسمانی طور پر جنم لیں گی، وہ ہمیں زندگی بھر پریشان کرتی رہیں گی۔
اگر حقیقت پسندی کی سفاک نگاہوں سے معاشرے مےں موجود انسانوں کی بھیڑ کا جائزہ لیا جائے تو اس بھیانک حقیقت کا ادراک ہوگا کہ ہماری اکثریت کسی نہ کسی طور غیر فطری زندگی گزارنے پر مجبور ہے اورروحی مرض مےں مبتلا ہے، اس مرض کا اظہار جسمانی سطح پر ہو یا ذہنی و نفسیاتی طور پر، یہ ایک الگ بحث ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اکثریت روحی طور پر بیمار ہو تو ایک صحت مند معاشرہ کس طرح وجود میں آسکتا ہے؟

جمہوریت

آج دنیا بھر مےں جمہوری نظام کا چرچا ہے اور جمہوریت کو ساری دنیا کی فلاح و بہبود کا سرچشمہ قرار دیا جارہا ہے، جمہوری نظام مےں اکثریت کی رائے کو مقدم رکھا جاتا ہے، اکثریت کی خواہش کا احترام کیا جاتا ہے لیکن اگر اکثریت روحی طور پر مریض ہوگی تو اس کی رائے بھی ضعیف اور گمراہ کن ہوسکتی ہے۔
اس موقع پر ہمیں زمانہ قبل از مسیح کے ایک یونانی فلسفی کا قول یاد آرہا ہے۔
صدیوں پہلے یونان کے ایک سب سے بڑے معبد میں(شاید معبد مشتری) کسی خاص موقع پر یونان کے تقریباً سارے اہل علم و دانش جمع ہوئے، معبد کے منتظم اعلیٰ (چیف پروہت) کی خوشی قابل دید تھی، وہ اس اجتماع کو تاریخی اور ایک ناقابل فراموش واقعہ قرار دے رہا تھا، اس نے کہا کہ یہ ایک نہایت یادگار دن ہے کہ اس معبد کی چھت کے نیچے آج یونان کے تمام آفتاب و ماہتاب یک جا ہو گئے ہےں لہٰذا میں درخواست کرتا ہوں کہ یہ سب عظیم لوگ اپنا اپنا ایک قول معبد کے مرکزی ستون پر رقم کردیں تاکہ آج کا دن تاریخ کے صفحات مےں محفوظ ہوجائے۔
تمام دانش وروں نے اپنا اپنا ایک قول زریں اس ستون پر لکھ دیا مگر ایک دانش ور نے معذرت چاہی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دانش ور یونان کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ لیکن متنازع شخص تھا جس کے سارے اقوال اکثر کسی نہ کسی طرح کسی متنازع بحث کا دروازہ کھول دیتے تھے۔
معبد کے منتظم اعلیٰ اور دیگر دانش وروں نے جب بہت زیادہ اصرار کیا اور پوچھا کہ آخر آپ اس اہم موقع پر کیوں سچائی کے ساتھ اپنا قول ستون پر لکھنے سے گریزاں ہیں تو جواباً اس نے کہا۔
”سچائی نہایت کڑوی چیز ہے، اسے برداشت کرنا اکثریت کے لیے ممکن نہیں، میں نہےں چاہتا کہ میرا سچ اس شان دار تقریب میں کسی بدمزگی کا سبب بنے ۔“
سب نے یقین دلایا کہ آپ بے فکر ہوکر وہ بات لکھ دیں جسے سچ سمجھتے ہوں، ہمےں آپ کی ذہانت اور علمی خلوص پر اعتماد ہے چنانچہ سب کے پُرزور اسرار پر اس نے ستون پر ایک فقرہ لکھ دیا۔
”اکثر آدمی برے ہوتے ہیں“
کہا جاتا ہے کہ معلوم تاریخ مےں جمہوری نظام پر یہ پہلی بڑی تنقید ہے۔
شاعر و مفکر مشرق علامہ اقبالؒ نے بھی مغربی جمہوریت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس میں انسانوں کو گِنا جاتا ہے، تولا نہیں جاتا لہٰذا اکثریتی رائے کے مجہول ہونے کا قوی امکان باقی رہتا ہے۔

روحی یا روحانی علاج

عزیزان من! بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں نکل گئی۔ بہر حال ہم بنیادی طور پر انسانی روح کی صحت مندی پر بات کررہے تھے، ماضی مےں بھی ہم اس حوالے سے لکھتے رہے ہیں او ر انسانی روح کی صحت مندی پر خصوصی طور سے زور دیتے رہے ہےں کہ ہمارے نزدیک انسان کو اذیت میں مبتلا کرنے والی تمام جسمانی بیماریاں اور زندگی کو عذاب بنادینے والے تمام مسائل کی جڑ ہمارے روحی یا روحانی امراض ہی ہیں، اسی لیے ہم دیگر روحانی طور طریقوں کے علاوہ ہومیوپیتھی کو جسمانی علاج معالجے کے لیے زیادہ بہتر اور فطری طریقہءعلاج سمجھتے ہےں کیونکہ صرف ہومیو پیتھک دوائیں ہی روحی امراض تک رسائی کی صلاحیت رکھتی ہیں اور دلیل اس موقف کے لیے یہ ہے کہ روح لطیف ہے لہٰذا کسی بھی دوا کی لطافت ہی اس سے ہم آہنگ ہوسکتی ہے۔
ہومیو پیتھک تھیوری کے مطابق جب ہومیو پیتھک دوائیں اپنے مادی وجود کی تقسیم کے عمل سے گزرتی ہیں تو ایک مرحلے پر دوا کا مادّی وجود ختم ہوجاتا ہے اور صرف دوا کا جوہر یا روح باقی رہ جاتی ہے لہٰذا دوا کی ایک لطیف ترین شکل ہی در حقیقت ہماری روح پر اثر انداز ہوتی ہے اور اصلاح کا عمل روح سے شروع ہوتا ہے جب روح صحت مند ہونا شروع ہوتی ہے تو اس کے آثار جسم پر بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں۔
پیچیدہ اور دیرینہ امراض کے ہومیو پیتھک علاج کے دوران مےں اکثر ایسی صورت حال پیش آتی ہے کہ ہومیو پیتھک دوا کا رد عمل کسی پوشیدہ بیماری کو جسمانی سطح پر نمایاں کردیتا ہے جس کی وجہ سے عام طور پر مریض گھبرا کر ہومیو علاج چھوڑ دیتے ہیں اور فوراً کسی ایلوپیتھک ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہےں، نتیجے کے طور پر ایلوپیتھک دوائیں اس بیماری کو دوبارہ دبا دیتی ہیں اور مریض پہلی پوزیشن پر واپس آجاتا ہے حالانکہ اصول یہ ہے کہ ہومیو پیتھک دوا کے رد عمل سے جو پوشیدہ مرض ابھر کر سامنے آتا ہے وہ اسی دوا کے اثر سے خود بخود ٹھیک بھی ہوجاتا ہے اور اس طرح مریض کی بیماریوں مےں موجود پےچیدگی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک 11-10 سالہ بچی جسے مرگی کے دورے پڑتے تھے‘ ہمارے زیر علاج تھی، اچانک اس کے پورے جسم پر دانے نمودار ہوگئے جن مےں پس پڑگیا، یہ صورت حال گھر والوں کے لیے نہایت پریشان کن تھی، بچی کی ماں نے ٹیلی فون پر ہمیں صورت حال بتائی، ہم نے خوشی کا اظہار کیا اور ان سے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے، اس کا پرانا دبا ہوا ایگزیما ابھر آیا ہے، اب یہ جلدی ٹھیک ہوجائے گی مگر شاید گھر کے دیگر افراد اس صورت حال سے مطمئن نہ تھے لہٰذا اس کا ایلوپیتھک علاج شروع کرادیا گیا، ڈاکٹر نے اینٹی بائیو ٹک استعمال کیے مگر دلچسپ بات یہ رہی کہ ایگزیما اینٹی بائیو ٹک کے استعمال سے بھی قابو مےں نہ آیا بلکہ مزید بڑھ گیا تب بچی کی ماں نے دوبارہ ہم سے رجوع کیا اور اللہ کے فضل و کرم سے دو تین ہفتوں مےں جسم کے تمام دانے ختم ہوگئے اور جلد پر کوئی نشان بھی نہ رہا مگر چونکہ درمیان مےں اینٹی بائیوٹک استعمال کرادی گئی تھیں اور ہومیو پیتھک دوا روک دی گئی تھی لہٰذا دانوں کے ختم ہونے کے بعد دوبارہ دورے پڑنے شروع ہوگئے۔ بہر حال انہےں بھی ہومیو پیتھک دوا سے کنٹرول کیا گیا۔
قصہ مختصر یہ کہ علاج معالجے کے روحی یا روحانی پہلو کو سمجھنا بہت ضروری ہے اور ہم لوگ اس نکتے پر کبھی غور نہےں کرتے اور جب غور نہےں کرتے تو ظاہر ہے اپنی روحانی بیماریوں کے حقیقی مسائل کو بھی نہیں سمجھتے۔

پیراسائیکولوجی

روح کی اصلاح کے لیے اسلام اور دیگر مذاہب میں پیراسائیکولوجی کے اصولوں پر توجہ دی گئی،اسلام میں اس طریقہ ءکار کو ”تصوف“ کہا گیا اور مختلف ادوار میں صوفیائے کرام نے روحانی اصلاح کے لیے مختلف طریقہ ءکار تجویز کیے،یہ طریقے دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی نظر آتے ہیں،اگرچہ مذہبی تفاوت کے باعث بنیادی اصول و قواعد میں اہم تبدیلیاں موجود ہیں مگر بنیادی نکتہ ایک ہی ہے یعنی روح کو اس کے خالق حقیقی کی طرف متوجہ کرنا اور اس سے قریب ہونا۔
ہماری نزدیک ہومیو پیتھی کے بعد پیراسائیکولوجی کے طریقہ ءکار سے استفادہ روحانی صحت کے لیے نہایت شفابخش ثابت ہوتا ہے لہٰذا ہم ایک طویل عرصے سے اس سلسلے میں مضامین لکھتے رہے ہیں اور ہماری کتاب ”مظاہر نفس“ کا موضوع بھی یہی ہے،ہمارا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ یہ طریقے اختیار کرکے بہت تیزی سے روحانی صحت مندی کی جانب گامزن ہوا جاسکتا ہے،اس سلسلے میں اہم ترین تکنیک مراقبہ اور سانس کی مشقیں ہیں جو ہم اپنے کالموں میں بھی دیتے رہے ہیں لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اکثر لوگ زیادہ پابندی اور تواتر کے ساتھ اس راستے پر آگے نہیں بڑھتے لیکن جو لوگ ہمت کرکے یہ صبرآزما مشقت کرلیتے ہیں ، ان کی زندگی میں پھر کوئی مسئلہ، مسئلہ نہیں رہتا، ہمارا آج بھی دعویٰ ہے کہ 24 گھنٹوں میں سے صرف چند منٹ اگر سانس کی مشق اور مراقبے کے لیے وقف کردیے جائیں اور اس عمل کو تواتر کے ساتھ جاری رکھا جائے تو زیادہ نہیں صرف تین ماہ میں آپ کی زندگی تبدیل ہونا شروع ہوجائے گی،یہ مشقیں جب روحانی طور پر نئی توانائی اور تازگی بخشتی ہیں تو جسمانی طور پر بھی بہت سے امراض خود بہ خود ختم ہونے لگتے ہیں، تجربہ شرط ہے۔