پاکستان کو اگر دنیا کے عجیب ترین ممالک میں سے ایک کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا،اس ملک اور قوم کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں، ایک طرف پورا ملک بم دھماکوں کی گھن گھرج سے گونج رہا ہے،دہشت گردی کے خلاف ملک کی مسلح افواج اور دیگر تمام ایجنسیاں مصروف کار ہیں، ابھی حال ہی میں آپریشن ردّالفساد پنجاب میں شروع کرنے کی منظوری دی گئی ہے اور کارروائی کا آغاز بھی ہوگیا ہے،ہم دنیا بھر کو بتارہے ہیں کہ ہمارے دشمن ہمارے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے اور کروارہے ہیں لیکن دوسری طرف لاہور میں کرکٹ کا فائنل منعقد کراکے شاید یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس ملک میں سب کچھ ٹھیک ہے اور امن و امان کی فضا ہر طرح سے بہتر ہے،کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟
اس حوالے سے ایک دلیل یہ بھی دی جارہی ہے کہ ہم دشمنوں کو بتادینا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارا کچھ نہیںبگاڑ سکتے اور ہم ان کے خوف کی وجہ سے اپنا ایک اہم پروگرام ملتوی نہیں کرسکتے،اس کمزور اور احمقانہ دلیل کا کوئی جواب نہیں ہے،دہشت گرد جب چاہتے ہیں اپنی مرضی کے اہداف مقرر کرکے بے شمار انسانی جانوں کا ضیاع کرتے ہوئے صاف بچ کر نکل جاتے ہیں اور تمام ادارے اور ایجنسیاں منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں،جس نوعیت کے انتظامات لاہور میں کیے جارہے ہیں اس کے بعد دہشت گردوں کو کیا ضرورت ہے کہ وہ لاہور کا رُخ کریں، وہ کوئی اور ٹارگٹ مقرر کرسکتے ہیں، انہیں تو کسی نہ کسی طرح ہمیں تکلیف دینا اور نقصان پہنچانا ہے،بہر حال حکومت چاہتی تھی کہ یہ فائنل لاہور ہی میں منعقد کیا جائے،خواہ اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے لہٰذا اب فائنل دیکھیے جس کے لیے نہایت زبردست نوعیت کے حفاظتی اقدام کیے گئے ہیں، کیا ایسے اقدام مستقل بنیادوں پر ہر شہر کے لیے کیے جاسکتے ہیں؟
دوسری طرف ہماری سیاسی جماعتیں ہیں جو ہر روز نت نئے دلچسپ تماشے دکھاتی رہتی ہیں،ایک دلچسپ صورت حال اس وقت سامنے آئی جب عرفان اللہ مروت کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان ہوا،فوری طور پر محترمہ کی صاحب زادیوں نے اس پر احتجاج کیا، گویا والد صاحب کی حکمت عملی سے اختلاف ، بعد ازاں یہ احتجاج کارآمد ثابت ہوا اور عرفان اللہ مروت کی پارٹی میں شمولیت کی تردید کردی گئی،اس حوالے سے سوشل میڈیا پر سب سے دلچسپ تبصرہ یہ تھا ”اگر جنرل ضیاءالحق زندہ ہوتے تو جناب آصف علی زرداری انہیں بھی پیپلز پارٹی میں شامل کرلیتے“
عزیزان من! ہم نئے سال کی پیش گوئیوں میں یہ اظہار کرچکے ہیں کہ اس سال کے آخر میں نئے الیکشن ہوسکتے ہیں،شاید زرداری صاحب بھی یہ محسوس کر رہے ہیں ، اسی لیے ابھی سے مضبوط امیدواروں کو پارٹی میں لارہے ہیں،جھنگ سے فیصل صالح حیات، کراچی سے نبیل گبول وغیرہ اس کی مثال ہیں،شاید عرفان اللہ مروت بھی ایسی ہی کسی حکمت عملی کا حصہ ہوں لیکن زرداری صاحب بڑے دانا و بینا سیاست داں ہونے کے باوجود اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ ساری شاطرانہ چالیں دھری رہ جاتی ہیں جب وقت خلاف ہوتا ہے اور یہ ایک زرداری صاحب پر ہی موقوف نہیں ہے،اکثر لوگ اس حقیقت کو نظراندازکرتے ہیں،زرداری صاحب نے اپنے 5 سالہ وفاقی دور اقتدار اور 8 سالہ صوبائی دور اقتدار میں جو کچھ بویا ہے، وہی انہیں کاٹنا ہے،قانون مکافات عمل اٹل ہے، اس سے مفر ممکن نہیں،اس حقیقت کو شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے
تو منکر قانونِ مکافات عمل تھا
لے دیکھ تِرا عرصہ ءمحشر بھی یہیں ہے
گزشتہ دنوں انسان اور جنات کے باہمی روابط و تعلقات پر کچھ حقائق بیان کیے گئے تھے اور وعدہ کیا تھا کہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا تو آئیے اس حوالے سے گفتگو کو مزید آگے بڑھایا جائے۔
شریف جنات
ایک اور دلچسپ واقعہ قاضی جلال الدین احمد بن حسام الدین رازی سے روایت ہوا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے مشرق سے اپنے سفر کا آغاز کیا، کچھ دور چلے کہ ہم لوگوں کو بارش کی وجہ سے ایک غار میں سونا پڑا، میرے ساتھ دیگر افراد بھی تھے، ابھی میں سویا ہی تھا کہ کسی نے جگادیا، دیکھا تو وہ ایک عورت تھی جس کی ایک ہی آنکھ چہرے پر لمبائی میں موجود تھی، میں سہم گیا تو عورت نے کہا ”گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ، میں اس لیے آئی ہوں کہ تم میری حسین و خوبصورت بیٹی سے شادی کرلو“۔
میں سہما ہوا تھا ہی، میں نے کہا ”اللہ کے اختیار پر ہے“ پھر میں نے کچھ لوگوں کو آتے ہوئے دیکھا، وہ لوگ پہلی عورت سے مشابہ تھے یعنی چہرے پر صرف ایک آنکھ تھی اور وہ بھی لمبائی میں یعنی ہم انسانوں سے مختلف، ان میں قاضی اور گواہ بھی تھے، قاضی نے خطبہ ءنکاح پڑھا اور ایجاب و قبول کرایا، میں نے قبول کرلیا، وہ لوگ چلے گئے، پھر وہی عورت ایک خوب صورت لڑکی کو اپنے ہمراہ لے کر آئی اور میرے پاس چھوڑ کر چلی گئی، اس لڑکی کی آنکھ بھی اپنی ماں کی طرح تھی، میرا خوف پھر بڑھ گیا، میں نے اپنے ساتھیوں کو بے دار کرنے کے لیے پتھر پھینکنے شروع کردیے لیکن کوئی بھی اٹھنے کا نام نہ لیتا تھا، آخر کار میں اللہ سے دعا و گریہ زاری کرنے لگا اور رات گزر گئی۔
صبح کوچ کا وقت ہوا اور ہم روانہ ہوئے تو وہ لڑکی میرے ساتھ تھی مگر میرے ساتھیوں کی نظروں سے اوجھل رہتی،انہیں نظر نہ آتی، وہ برابر تین دن میرے ساتھ رہی، چوتھے دن اس کی ماں آئی اور مجھ سے کہنے لگی ”لگتا ہے تمہیں یہ لڑکی پسند نہیں ہے، شاید تم اسے چھوڑنا چاہتے ہو؟ “
میں نے کہا ”ہاں، بخدا یہی بات ہے“۔
اس نے کہا ”اسے طلاق دے دو“ میں نے اسے فوراً طلاق دے دی اور وہ چلی گئی، اس کے بعد میں نے ان دونوں کو کبھی نہیں دیکھا۔
یہ روایات ہم نے بہت سی روایات میں سے منتخب کی ہیں، ورنہ ایسے واقعات بہ کثرت مستند اور معتبر کتابوں میں مل جاتے ہیں جن سے باقاعدہ شادی کی رسوم ادا ہونے کا بھی پتا چلتا ہے۔
سِکھ جن
بہت پرانی بات ہے، کراچی کے علاقے لائنز ایریا میں نظامی مسجد کے پاس مولانا جان محمد صاحب (اللہ ان کی مغفرت کرے) رہا کرتے تھے، جنات کے اُتار کے کام میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، بعض کافر جن ان کے ہاتھ پر اسلام بھی لائے، جیکب لائن اور جٹ لائن کے پرانے رہنے والے شاید اب بھی ان کے نام سے واقف ہوں، ان کے ایک شاگرد محمد یونس بھی تھے جن کا دو سال قبل 98 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا،ہمارے محبت کرنے والوں میں سے تھے، جان محمد صاحب کے ہاتھ پر مسلمان ہونے والے ایک جن ان کے انتقال کے بعد یونس صاحب سے رابطے میں رہتے تھے، ان کا نام محمد علی آتشی تھا، محمد یونس صاحب نے اپنے استاد کا یہ واقعہ ہمیں سنایا کہ ان کے پاس ایک نہایت حسین لڑکی کو لایا گیا جو رات کو اچھی بھلی سوئی تھی، صبح اٹھی تو دلہن بنی ہوئی تھی، ہاتھ میں مہندی رچی ہوئی، زیورات سے لدی پھندی، سہاگ کا سرخ جوڑا پہنے بیٹھی تھی ، گھر والے بہت حیران و پریشان ہوئے کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟لڑکی سے پوچھا گیا کہ یہ تجھے کیا ہوا ہے تو جواب ملا کہ یہ آج سے ہماری بیوی ہے، ہم نے اس سے اپنے مذہب کے مطابق شادی کرلی ہے۔
یہ جواب بظاہر لڑکی ہی نے دیا تھا یعنی آواز اس کے منہ سے نکلی جو مردانہ تھی مگر درحقیقت وہ کوئی جن تھا جو اس پر مسلط تھا، اس نے اپنا نام منگل سنگھ بتایا جس سے اس کے مذہب کا اندازہ ہوتا ہے، الغرض لڑکی کے والدین اسے علاج معالجے کی غرض سے دنیا بھر میں لے کر پھرے اور تقریباً کئی سال گزرنے کے باوجود اس جن نے لڑکی کا پیچھا نہیں چھوڑا، لڑکی ہمیشہ اسی طرح بنی سنوری دلہن کی طرح رہتی تھی، بالآخر یہ کیس جان محمد صاحب تک کسی طرح پہنچا، محمد یونس صاحب وہاں حاضر رہتے تھے لہٰذا دوران علاج جو کچھ معاملات رہتے تھے، ان سب کے چشم دید گواہ تھے، بڑے جتن کے بعد بہر حال جان محمد صاحب نے اس لڑکی کو اس جن سے نجات دلائی،بقول یونس بھائی اس لڑکی کا علاج تقریباً ایک سال تک جاری رہا، اس دوران میں جان محمد صاحب نے اُس جن کے بھائی بندوں اور رشتے داروں کو بھی بلایا اور کہا کہ اسے سمجھائیں تاکہ یہ لڑکی کا پیچھا چھوڑ دے،بہ صورت دیگر میں اس کے ساتھ کوئی سخت کارروائی کروں گا،اُس صورت میں آپ لوگ ناراض نہ ہوں لیکن وہ ضدی جن اپنے عزیزوں کی بات بھی نہ مانا اور وہ لوگ یہ کہہ کر چلے گئے کہ آپ اس کے ساتھ کچھ بھی کریں، ہم درمیان میں نہیں آئیں گے، تب جان محمد صاحب نے کوئی سخت قسم کا عمل کرکے اُسے ختم کردیا اور اس طرح لڑکی آزاد ہوگئی، ہم نے یونس بھائی سے سوال کیا کہ ختم کرنے سے کیا مراد ہے؟ کیا اُسے جان سے مار دیا؟ تو یونس بھائی بڑے سیدھے سادے اور بھولے بھالے انسان تھے،اپنے کام سے کام رکھنے والے، کہنے لگے، اب یہ تو پوچھنے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ آپ نے اس کا کیا حشر کیا ہے؟ لیکن یہ میں نے ضرور دیکھا کہ وہ ایک چھری کی مدد سے اُس لڑکی کے تمام جسم پر کوئی عمل کرتے رہے جس میں کافی وقت لگا اور اُس کے بعد وہ بے ہوش ہوگئی، جب ہوش میں آئی تو بھلی چنگی تھی۔
ملکہ سبا کی ماں
ایک دلچسپ بات ملکہ سبا جس کا نام بلقیس تھا کہ بارے میں بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس کی ماں جنّی تھی اور ملکہ بلقیس کے پاوں کا پچھلا حصہ، یعنی ایڑھی چوپایوں کے کُھر کی طرح تھی، اس حقیقت کو جاننے کے لیے حضرت سلیمانؑ نے شیشے کا فرش بنوایا تھا جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے مگر اس آیت کی تفسیر میں علماءمیں اختلاف پایا جاتا ہے یعنی شیشے کے فرش کی تعمیر کے مقصد پر ، البتہ اس کی ماں کے جنّی ہونے کو بعض مفسر تسلیم کرتے ہیں۔
بہر حال یہ حقیقت ثابت ہے کہ جنات اور انسانوں کے درمیان عام اور خاص دونوں طرح کے روابط و تعلقات ممکن ہیں اور اس حوالے سے بے شمار واقعات کتابوں میں بھی موجود ہیں اور تجربے و مشاہدے میں بھی آئے ہیں۔
عاشق جنّی
ہمارے ایک واقف نے ایک بار ہمیں بتایا کہ اس کے ایک جنّی سے ایسے تعلقات ہیں جیسے میاں بیوی کے درمیان ہوتے ہیں، وہ موصوف نہایت ٹھاٹ باٹ کی زندگی بسر کرتے تھے، ہم نے انہیں کبھی کوئی کام دھندا کرتے نہیں دیکھا، ہر قسم کا جوا اور ریس کھیلنا ان کا مشغلہ تھا، اکثر جیت انہی کی ہوتی، جب کبھی ہار جاتے تو بہت بری طرح ہارتے اور پائی پائی کو محتاج ہوجاتے، ایسی حالت میں اکثر اپنی آشنا جنّی کو مستقل گالیاں بکتے رہتے کہ اس نے دھوکا دیا ہے، ہم پوچھ لیتے کہ اس نے دھوکا کیوں دیا تو جواب دیتے آج کل میرا اس سے جھگڑا چل رہا ہے۔
جھگڑے کی وجہ کبھی نہ بتاتے، ہم سے ان کے مراسم کی وجہ ہمارا اور ان کا مشترکہ شوق یعنی مچھلی کا شکار تھا، یہ ہماری نوجوانی کا زمانہ تھا، اس وقت ایسے معاملات کی بہت زیادہ سمجھ بھی نہ تھی، بعد میں وہ ملک سے باہر چلے گئے تو ان کی کوئی خیر خبر برسوں نہ مل سکی، 1981 ءمیں ہمیں ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ کراچی میں ہی ہیں، ان کے اور ہمارے ایک مشترکہ دوست نے خبر دی اور ہمیں ان سے ملانے لے گئے، برسوں بعد ہم نے انہیں جس حالت میں دیکھا وہ قابل عبرت اور نہایت افسوس ناک تھی، اپنے وقت کا جوان رعنا تقریباً ساٹھ ستر برس کا نحیف و نزار بوڑھا نظر آتا تھا، حالاں کہ ہمارے حساب سے اس وقت وہ صرف تیس سال کے تھے، یہ بھی معلوم ہوا کہ خون کے کینسر میں مبتلا ہیں اور یہ عارضہ انہیں اپنے سعودیہ میں قیام کے دوران ہوا، ہم نے بے تکلفی سے ان کی دوست جنّی کے بارے میں پوچھا تو سخت بے زاری کا اظہار کیا اور صرف اتنا کہا کہ اسی کی وجہ سے تو اس حال کو پہنچا ہوں، زیادہ تفصیلات بتانے سے گریز کیا لیکن اب ہمیں بھی مزید کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ تھی، ساری بات ہماری سمجھ میں آچکی تھی، اسی سال ان کا انتقال ہوگیا۔
خفیہ تعلقات
ایک اور ذاتی واقعہ بھی بیان کرتے چلیں، یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارا اٹھنا بیٹھنا محمد یونس صاحب کے ساتھ زیادہ تھا، وہ بھی اپنے استاد جان محمد صاحب کی طرح جنات کے اتار کا کام فی سبیل اللہ کرتے تھے اور ان دنوں وہ ہم سے علم جفر کے رموز و نکات سیکھنے کے لیے بضد رہتے، ہم یہاں یہ بھی وضاحت کردیں کہ یونس صاحب عمر میں ہم سے بہت بڑے تھے،وہ ”محمد یونس برتن والے“ مشہور تھے کیوں کہ رزق حلال کے لیے وہ زندگی بھر ٹھیلے پر سلور کے برتن بیچا کرتے تھے۔
اسی زمانے میں ایک عورت یونس صاحب کی معرفت ہمارے پاس آئی کہ یونس صاحب نے اس کی مدد کرنے سے انکار کرکے اسے ہمارے پیچھے لگادیا تھا، ہم نے اس سے پوچھا کہ مسئلہ کیا ہے تو اس نے عجیب بات بتائی جو اس سے پہلے کسی نے ہم سے نہیں کہی تھی، اس کا کہنا تھا کہ وہ ایک جن سے مراسم رکھتی ہے یا یوں کہ ایک جن اس سے مراسم رکھتا ہے لیکن اب وہ ناراض ہوگیا ہے، اس نے آنا جانا چھوڑ دیا ہے، ہم نے کہا کہ چلو یہ تو اچھی بات ہے کہ خود بخود تمہارا پیچھا چھوٹ گیا تو وہ جواباً بولی کہ نہیں یہ اچھی بات نہیں ہے، اس کے ناراض ہونے کے بعد سے ہمارے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں، شوہر کا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے، گھر میں بچے بیمار رہنے لگے ہیں اور اب تو نوبت فاقوں تک آگئی ہے، خدا کے لیے کچھ بھی کیجیے مگر کسی طرح اسے واپس آنے پر مجبور کردیجیے۔
یہ سب سن کر ہم نے اس سے مزید تفتیشی سوالات کیے تو ہمارے شبہے کی تصدیق ہوگئی، اس عورت کے اُس جن سے ناجائز تعلقات تھے، حالاں کہ اس معاملے میں وہ صرف اتنی ہی قصور وار تھی کہ اس نے یہ تعلق جو زبردستی قائم ہوا تھا، برقرار رکھا اور اپنے علاج معالجے کی طرف توجہ نہ دی نہ ہی کسی کو ہمراز بنایا، اس کا کہنا تھا کہ وہ ڈرتی تھی کہ اس نے کوئی بھی ایسا قدم اٹھایا تو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے جب کہ خاموشی اور رضا مندی کی صورت میں گھریلو اور معاشی حالات بہتر ہونا شروع ہوگئے تھے، شوہر کا کاروبار ترقی کر رہا تھا، شوہر شرابی بھی تھا اور اسے مارتا پیٹتا تھا، اب یہ ہوا کہ اس نے شراب تو نہ چھوڑی البتہ مار پیٹ سے یوں توبہ کی کہ اب وہ جب بھی شراب کے نشے میں دھت ہوکر دست درازی کرتا، الٹا بیوی کے ہاتھوں پٹتا اور ایسا کہ پھر کئی دن بستر پر پڑا رہتا،ہم نے پوچھا کہ تم اتنی حوصلہ مند اور طاقت ور کیسے ہوجاتی ہو کہ اُس کی بری طرح پٹائی کردیتی ہو؟ تو وہ بولی” مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیسے ہوتا ہے بلکہ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میں نے اُسے مارا ہے، بعد میں اُس کی بری حالت دیکھ کر یقین کرنا پڑتا ہے“
جن کی ناراضی کی وجہ یہ ہوئی کہ شوہر کو اس راز سے ایک دن اس نے آگاہ کردیا کہ تمہاری خوش حالی میری وجہ سے ممکن ہوئی اور تمہارے غلط رویے اور مار پیٹ کے نتیجے میں تمہاری پٹائی بھی میری وجہ سے ہوتی ہے، تمام صورت حال جان کر شوہر الگ برہم ہوا اور جن صاحب بھی راز فاش کرنے کی وجہ سے ناراض ہوگئے۔انہوں نے اقرار کرلیا کہ ان کے اور جن کے درمیان میاں بیوی والا خاص تعلق تھا اور وہ اس طرح کہ اچانک ہی انہیں محسوس ہوتا تھا کہ وہ کسی بھاری بوجھ سے دب گئی ہے اور حرکت بھی نہیں کرسکتیں، پھر اس کے بقول ان کے سارے احساسات وہی ہوتے تھے جو شوہر کے ساتھ وہ محسوس کرتی تھیں، ہم نے جن کی واپسی کے سلسلے میں تو کوئی مدد نہیں کی کیوں کہ ہمیں اندازہ تھا کہ وہ کہیں نہیں گیا؟ صرف شرارت پر آمادہ ہے، البتہ انہیں بتائے بغیر ایسا بندوبست کردیا کہ ان کی اس سے مستقبل جان چھوٹ جائے۔