محبت خبط ہے یا وسوسہ ہے
مگر یہ واقعہ اپنی جگہ ہے
اب تک تین عناصر پانی، ہوا اور آگ سے متعلق بروج کے انداز و اظہار محبت پر گفتگو ہوئی ہے۔ ایک بار پھر ہم یہ واضح کرتے چلیں کہ صرف شمسی برج (Sun Sign) کی بنیاد پر کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرنا چاہیے، انفرادی طور پر کسی بھی شخص کے محبت یا زندگی کے دیگر معاملات میں رویے اور رنگ ڈھنگ شمسی برج کے ساتھ قمری برج (Moon Sign) اور پیدائشی برج (Rising Sign) پر بھی انحصار کرتے ہیں۔ ہم نے ابتداءمیں اس کی مثالیں بھی دی ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ شمسی برج کا اپنا اثر اور خصوصیات بہرحال اہمیت کا حامل ہے۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ قمری یا پیدائشی برج کی وجہ سے شمسی برج کی بعض خصوصیات میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔
چوتھا عنصر مٹی ہے۔ دائرہ بروج میں ثور(Tauras)، سنبلہ (Virgo) اور جدی (Capricorn) خاکی بروج کہلاتے ہیں۔ تمام بروج میں عناصر کی کارفرمائی کے حوالے سے ایک بنیادی کلّیہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔ وہ یہ کہ آگ کی بنیادی خصوصیت گرم جوشی اور شدت ہے۔ باد یعنی ہوا کی بنیادی خصوصیت تصّور و تخیّل ہے۔ پانی کی بنیادی خصوصیت احساس ہے جبکہ مٹی کی بنیادی خصوصیت مادیّت ہے۔
مندرجہ بالا وضاحت کی روشنی میں ہم سمجھ سکتیں ہیں کہ خاکی بروج محبت جیسے لطیف جذبے کے لیے کس قدر موزوں اور مناسب ہو سکتے ہیں۔ اگر پوری سچائی کے ساتھ بات کی جائے تو مادیّت اور لطافت تقریباً ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ خاکی بروج کا محبت سے کیا واسطہ؟ بقول میر تقی میر
ہو گا کسی دیوار کے سائے کے تلے میر
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو
کہا جاتا ہے کہ اگر خاک کا عنصر نہ ہوتا تو شاید یہ دنیا نہ ہوتی۔ ہماری یہ زمین مٹی کا ایک ڈھیر ہی تو ہے۔ ہمارے اجزائے ترکیبی میں خاک کا عنصر ہی ہمیں عملیت اور حقیقت کا شعور دیتا ہے۔ خوابوں اور خیالوں کی دنیا سے نکال کر میدان عمل میں صلاحیتوں کے اظہار پر آمادہ کرتا ہے۔ خاکی عنصر کی حقیقت پسندی اور برے بھلے کی تمیز ہی وہ جوہر ہے جس کی وجہ سے اس جہاں رنگ و بو میں نت نئی رنگینیاں اور بوالعجبّیاں نظر آتی ہیں۔
برج ثور کا انداز محبت
خاکی بروج میں پہلا نمبر برج ثور کا ہے جو اپنی ماہیت یا ثابت (Fixed) اور فطرت میں مونّث برج ہے۔ اس کا حاکم سیارہ زہرہ ہے جسے حسن و محبت کی دیوی کہا جاتا ہے۔ ثور دائرہ بروج کا دوسرا برج ہے۔ گویا فطری زائچے کا خانہ مال ہے۔ لہذا حسن و محبت کی دیوی اس برج کے تحت دولت کو نظر انداز نہیں کر سکتی بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ اس کی محبت کا رخ دولت کی طرف ہو جاتا ہے۔
یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ سیارہ زہرہ کے زیر اثر ثور افراد حسن و خوبصورتی اور محبت کے جذبے سے نظر چرا کر گزر جائیں لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی خاکی اور ثابت خصوصیات کی وجہ سے وہ محبت میں بھی زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھیں۔ بے شک ثور افراد محبت کے جذبے کی گہرائی اور گیرائی کو سمجھتے ہیں اور ان کی محبت نہایت ٹھوس بنیادوں پر استوار ہوتی ہے لیکن اندھی نہیں ہوتی۔
ثور شخصیات کے مثبت پہلوو¿ں میں نرم دلی اور مہربانی، عمل و استحکام، اعتماد و وفاداری، حسن پرستی اور فنکارانہ صلاحیتیں نمایاں ہوتی ہیں جبکہ منفی پہلوو¿ں میں ضد و ہٹ دھرمی، حسد، غلبہ پسندی، مادہ پرستی، سستی اور کاہلی، تنگ نظری، خود پرستی اور اکھڑ پن شامل ہیں۔ مثبت اور منفی خصوصیات میں کمی بیشی قمری اور پیدائشی برج کے امتزاج اور زائچے میں سیارگان کی پوزیشن کے باعث ہو سکتی ہے مثلاً نرم دلی اور فنکارانہ خوبیاں انتہا کو پہنچ سکتی ہیں یا ضد اور ہٹ دھرمی اور مادہ پرستی بھی انتہا کو پہنچ سکتی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ مندرجہ بالا خصوصیات میں کمی بیشی کا اندازہ کسی شخص کے انفرادی زائچے سے ہی ہو سکتا ہے۔
جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ برج ثور کا حاکم سیارہ زہرہ حسن و عشق، دوستی و توازن اور ہم آہنگی کا سیارہ کہلاتا ہے۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ برج ثور والے محبت کے معاملے میں کسی سے پیچھے رہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ یہ لوگ دیگر معاملات کی طرح محبت و تعلقات میں بھی اپنے مخصوص تحفظات کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ ان کی محبت یا دوسروں سے تعلقات سطحی یا رواداری کے انداز میں نہیں ہوتے۔ یہ اپنا آئیڈیل بھی تلاش کرتے نہیں پھرتے البتہ یہ ضرور ہے کہ ثور افراد محبت میں بھی اکثر ظاہری اور جسمانی حسن سے متاثر ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی دولت کی کشش بھی ان کی نظرمیں اہم ہو سکتی ہے۔
ثور ایک زبردست جذباتی پیار کرنے والا اور پرورش کرنے والا برج ہے۔ اس کی زرخیزی بھی مشہور ہے۔ اس کے زیر اثر پیدا ہونے والے افراد (مرد و خواتین) ایک پر سکون، مطمئن اور ذمہ دارانہ ازدواجی زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں گویا ثوری افراد کے دل میں حقیقی اور گہری محبت کا جذبہ شادی کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ شادی ایک ایسا معاہدہ ہے جو ثوری افراد کو تحفظ کا احساس دلاتا ہے اور خیال رہے کہ برج سرطان کی طرح ثوری افراد بھی ہر معاملے میں یقینی تحفظ کے خواہش مند رہتے ہیں۔
شادی سے پہلے بھی تعلقات یا رومانس میں ثوری افراد فریقین کے درمیان واضح حدود کا تعیّن چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کو صرف باتوں یا اداو¿ں سے متاثر نہیں کیا جا سکتا۔ وہ محبت اور تعلقات میں عملی ثبوت کے قائل ہوتے ہیں۔ اسی لیے ان کے اپنے جذبوں اور رویوں میں بھی بے حد گہرائی پائی جاتی ہے۔ ان کی وفاداری اور خلوص پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا بس مسئلہ یہ ہے کہ غیر یقینی صورت حال اور کیفیات سے انہیں نفرت ہوتی ہے اور خصوصی طور پر ذاتی تعلقات میں ان کے جذبات نہایت شدید ہو سکتے ہیں۔ باہمی تعلقات میں یہ کچھ زیادہ انا پرست بھی ہوتے ہیں۔ اگر آپ کے رویے اور طور طریقوں میں تھوڑی سی بھی اجنبیت اور بے توجہی محسوس کریں گے تو یہ ان کے لیے جذباتی اور روحانی طور پر ایک تازیانہ ہو گا۔ ایسی صورت میں یہ آپ سے دور بھاگ سکتے ہیں۔ محبت اور نرم رویہ انہیں موم کی طرح پگھلا دیتا ہے۔ اس کا جواب فوراً نہایت گرم جوشی سے دیتے ہیں۔
ثور افراد کی محبت کے بارے میں صرف شمسی برج کو مدِ نظر رکھ کر کوئی حتمی رائے قائم کرنا غلط ہو گا کیونکہ اپنے زائچے کی ساخت و پرداخت کی مناسبت سے وہ کوئی بھی ایسا رنگ دکھا سکتے ہیں جس کی کسی کو توقع بھی نہ ہو یعنی ایسی شدید محبت جو محبت کے اعلٰی ترین روایتی معیار کی نمائندہ ہو یا پھر اس کے برعکس محض حسن پرستی اور بوالہوسی، خود غرضی اور خود پرستی کا نمونہ ہو۔
برج سنبلہ کا انداز محبت
خاکی بروج کی تکون میں سنبلہ دوسرے نمبر پر ہے جب کہ دائرہ بروج میں چھٹے نمبر پر۔ اپنی ماہیت کے اعتبار سے ذوجسدین یعنی دو رخوں والا، فطرت میں مو¿نث اور منفی ہے۔ ادراک و فہم اس کی نفسیات اور تجزیہ اس کا طرہ¿ امتیاز ہے۔ اپنی علامت “دوشیزہ” کی مناسبت سے شرمیلا پن اس کی پہچان ہے۔ عالمی زائچے میں اس کا تعلق صحت اور کام سے ہے۔ اعضائے جسمانی میں ناف اور آنتیں اس کے زیر اثر ہیں۔
سنبلہ افراد اپنی مثبت خصوصیات میں سلیقہ مند، طور طریقوں کے پابند، جچے تلے انداز کے مالک، دوستی اور اصلاح پسندی پر مائل، منطقی، تجزیہ کار، صاحب امتیاز، ذی شعور اور باطنی قوتوں کے حامل ہوتے ہیں۔
اپنے دوسرے رخ میں یعنی منفی پہلوو¿ں کے اعتبار سے سنبلہ افراد خائف، بے اعتبار، حاسد، نہایت باریک بین، نکتہ چیں، اپنے عقائد اور نظریات کے خلاف ہر شے میں کیڑے نکالنے والے، صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کے اصولوں کے معاملے میں حد سے زیادہ محتاط، تنگ نظر اور سخت رویے کے حامل ہو سکتے ہیں۔
مثبت اور منفی خصوصیات میں کمی بیشی کا انحصار انفرادی زائچہ پیدائش پر ہوگا۔
اگر بات عشق و محبت کی ہو رہی ہو تو پھر یہ کہنا پڑے گا کہ شاید خالق کائنات نے برج سنبلہ کو اس لطیف ترین جذبے کے لیے نہیں بنایا ہے لہذا کسی سنبلہ شخصیت کو دنیا کے عظیم محبت کرنے والے افراد کی فہرست میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل یہ لوگ محبت اور شادی کے معاملے میں بے حد روایتی انداز کے حامل ہیں۔ چونکہ اس برج کا تعلق کام اور صحت سے ہے۔ لہذا جو چیز سب سے زیادہ ان کے ذہن پر سوار رہتی ہے وہ کام اور صحت کے معاملات ہیں۔ اسی طرح ان کی نکتہ چینی جو درحقیقت اصلاح پسندی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ وہ بھی محبت جیسے اندھے اور گونگے بہرے جذبے کے لیے کچھ مناسب نہیں ہوتی لہذا یہ لوگ عشق میں ہوش و ہواس سے بے گانہ ہو کر دیوانگی کی حدود کو نہیں چھو سکتے کیونکہ ان کی عقل کی کارفرمائیاں معاملات دل میں بھی غالب رہتی ہیں اور ان کے نزدیک رومان یا شادی بھی زندگی کی بس ایک ضرورت ہے جسے سود و زیاں سے بالاتر ہو کر نہیں دیکھا جا سکتا چناں چہیہ لوگ اپنے محبوب یا شریک حیات کی ذات میں خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لینے کے بعد ہی کسی پیش قدمی کا فیصلہ کریں گے اور پیش قدمی کے بعد بھی اگر انہیں کوئی خامی نظر آگئی تو ان کے بڑھتے ہوئے قدم رک سکتے ہیں۔
روایتی عاشقوں کی طرح پہلی نظر کا اندھا عشق سنبلہ افراد کے مزاج اور فطرت کے خلاف ہے۔ دراصل یہ لوگ محبت، شادی کے لیے کرتے ہیں اور شادی گھریلو سکھ اور چین، تحفظ و آرام اور آسائش کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ لہذا محبت میں پیش قدمی سے پہلے خاصی دور تک دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ جب تک انہیں مکمل اطمینان حاصل نہ ہو جائے کہ اس تعلق میں کوئی نقصان نہیں ہے، کسی مضبوط بندھن میں بندھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ اکثر سنبلہ افراد کی زندگی میں محبت کا جذبہ پوری شدت کے ساتھ شادی کے بعد اس وقت نمودار ہوتا ہے جب وہ اپنے شریک حیات سے پوری طرح مطمئن ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد محبت میں ان کی ثابت قدمی اور وفاداری انتہائی شاندار اور قابل قدر ہوتی ہے۔ یہ اپنے محبوب کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے، یہ الگ بات ہے کہ ان کا پوری طرح مطمئن ہوجانا بھی یقینی نہیں ہوتا، ان کی فطری کاملیت پسندی کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کمی ، کمزوری یا خامی ڈھونڈ ہی لیتی ہے۔
اپنے محبوب یا شریک حیات سے شدید محبت اور گہری وابستگی کے باوجود یہ رومانی تعلقات میں خاصے سرد مہر اور خشک مزاج نظر آتے ہیں۔ اپنے جذبہ محبت کا کھل کر اظہار کرنا ان کے لیے بڑا مشکل کام ہے۔ کچھ تو ان کا فطری شرمیلا پن آڑے آتا ہے اور کچھ کام کی مصروفیات میں خود کو حد سے زیادہ ملوث کرنا بھی ان کی رومانی اور سوشل زندگی کو متاثرکرتا ہے۔ بے شک ان کے تعلقات دوستی اور محبت میں ٹھوس اور پائیدار ہوتے ہیں مگر غیر معمولی نہیں ہوتے۔ یہ لوگ توقع رکھتے ہیں کہ ان کے شریک حیات میں بھی وہی ساری خوبیاں ہوں جو ان میں موجود ہیں۔ یہ ایک غلط سوچ ہے جس کی وجہ سے اکثر سنبلہ افراد خود اپنے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ ایک صاف ستھرا گھر اور کاموں میں عمدہ سلیقہ، مالی طور پر استحکام سنبلہ افراد کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
شادی کے بعد اکثر انتہائی نجی نوعیت کے مسائل ازدواجی زندگی میں اختلافات کو جنم دے سکتے ہیں کیونکہ محض جنسی تعلق ہی سنبلہ افراد کی وابستگی کو مستحکم کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ان کے لیے ذہنی ہم آہنگی بھی ضروری ہے۔ بہ صورت دیگر بعض نفسیاتی مسائل ان لوگوں کو پریشان کر سکتے ہیں۔
محبت اور شادی کے حوالے سے سنبلہ افراد کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وہ جس کاملیت کے متلاشی ہیں، درحقیقت اس کا کوئی وجود نہیں ہے اور یہ انسانی کمزوریاں ہی تو ہیں جن پر دوسروں کو اکثر سب سے زیادہ پیار آتا ہے۔ آخر ہم معصوم بچوں کی نادانیوں پر کیوں خوش ہو کر ان سے پیار کرتے ہیں؟ بے شک سنبلہ افراد نہایت اعلٰی ظرف، شائستہ اور پاکیزہ محبت کے اہل ہیں۔ جسے اپنا بناتے ہیں یا جسے چاہتے ہیں اس کی خاطر ہر تکلیف اور مصیبت برداشت کرنے کی خوبی رکھتے ہیں۔ تاہم چونکہ برج سنبلہ کا نشان دوشیزگی یعنی کنوارپن ہے اور کنوارا ظاہر ہے کہ تنہا ہوتا ہے۔ لہذا اکثر سنبلہ افراد کو محبت ایک کوہ گراں یعنی بھاری بوجھ محسوس ہوتی ہے اور یہ اس دشت بے اماں کی سیّاحی سے کتراتے ہیں۔ وہ کبھی کبھی یہ بھی سوچتے ہیں کہ اس سے بہتر تو تنہا وقت گزارنا ہی ہے۔ بات دراصل وہی ہے کہ اگر یہ لوگ کسی ایسی ہستی کو پا لیں جس سے ان کی ذہنی ہم آہنگی ہو تو پھر اس کی خامیوں کو بھی نظر انداز کر دیں گے اور اس کے ساتھ عمر بھر کی رفاقت جاری رہے گی۔
جیسا کے بار بار تذکرہ ہو چکا ہے کہ برج سنبلہ کا نشان دوشیزہ ہے اور کنوارا پن اس کا طرہ¿ امتیاز ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں کنواروں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق برج سنبلہ سے ہے۔ قوسی افراد دوسرے نمبر پر آتے ہیں۔ یہ لوگ اصلاح معاشرہ یا کسی اور عظیم مقصد کی خاطر بھی محبت اور شادی سے دور ہو سکتے ہیں۔ جیسے شہرہ آفاق اور نوبل انعام یافتہ مدر ٹریسا یا بابائے اردو مولوی عبد الحق۔ دونوں کا تعلق برج سنبلہ سے تھا۔
برج جدی کا انداز محبت
دائرہ بروج کا دسواں اور خاکی تکون کا تیسرا برج جدی ہے جس کا حاکم سیارہ زحل ہے۔
نظم و ضبط، اصول و قواعد اور تربیت کے لیے سفاکانہ طرز عمل سیارہ زحل سے منسوب ہے۔ برج جدی ماہیت کے اعتبار سے منقلب یعنی تغیر پذیر، اپنی فطرت میں مو¿نث اور منفی ہے۔ انسانی جسم میں جوڑ اور گھٹنے اس سے منسوب ہیں۔ مادیت، جاہ طلبی اور عاقبت اندیشی اس کا خاصہ ہیں۔ برج جدی کے زیر اثر پیدا ہونے والے افراد اعلٰی درجے کے منتظم اور قائدانہ صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ یہ عمدہ دماغی قوتوں کے مالک، نکتہ رس اور شاندار سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ محنت اور استقامت کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول کی جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں۔ برج جدی کا نشان پہاڑی بکرا ہے جو اپنی دھیمی رفتار سے ایک سیدھی راہ پر اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور بالآخر پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے۔
جدی افراد اپنے مثبت پہلوو¿ں میں بنیادی طور پر عملیت پسند، کارگزار، مستقل مزاج، معاون اور مضبوط کردار رکھتے ہیں۔ یہ لوگ محنتی، کم گو اور کسی حد تک تنہائی پسند ہوتے ہیں۔ ان کا منطقی ذہن صرف دلیل سے ہی مطمئن ہو سکتا ہے۔ جدی افراد کے منفی پہلو شک و بد ظنی، سرد مہری، خود غرضی، مزاحمت پسندی یعنی روک ٹوک، ضد، ہٹ دھرمی، کٹ ہجتی، ناراضگی، یاسیت پسندی اور غیر جذباتی انداز فکر ہیں۔
محبت کے حوالے سے کسی شاعر نے کہا تھا “یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا”۔ شاید برج جدی بھی ایک ایسا ہی ساز ہے جس کے لیے یہ نغمہ نہیں بنایا گیا۔ یہ لوگ دوسروں پر اپنی محبتیں نچھاور کرتے نہیں پھرتے۔ ان میں اصول پسندی اور فرض شناسی تو موجود ہوتی ہے لیکن رومان کے معاملے میں یہ خاصے خشک مزاج ہوتے ہیں۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ برج جدی کے زیر اثر پیدا ہونے والے افراد روایتی اعلٰی معیار کے عاشق نہیں ہوتے۔ اس برج کا خاکی عنصر ان لوگوں کو اس قدر عملی سوچ اور رویوں کا عادی بنا دیتا ہے کہ یہ لوگ اپنی حقیقت پسندی کے خبط میں رومانیت کے افسانوی لطف کو غارت کر بیٹھتے ہیں ۔
(اگر برج جدی کے ساتھ کوئی آبی برج بھی فعال ہو تو یہ صورت حال تبدیل بھی ہو سکتی ہے)۔
جدی افراد کی عملیت پسندی اور مادیت انہیں محبت جیسے لطیف جذبے کو سمجھنے اور اس کا احساس کرنے سے روکتی ہے۔ ان کی نظر میں یہ ایک کارِ بے کار ہو سکتا ہے جس میں زندگی کا قیمتی وقت ضائع کرنا ایک حماقت ہو گی۔ جدی افراد کو شادی یا ازدواجی زندگی کا بھی زیادہ شوق نہیں ہوتا۔ انہیں تو اپنے کرئیر میں کسی بلند مقام تک پہنچنے کا شوق خبط کی حد تک رہتا ہے چناں چہ یہ لوگ محبت کے معاملے میں صنف مخالف کی دلچسپی اور وارفتگی کا جواب مثبت انداز میں تو ضرور دیتے ہیں مگر خود ان کی دلچسپی اور جوش و جذبہ احتیاط کے حصار میں قید نظر آتا ہے جسے محسوس کر کے ان سے محبت کرنے والے پر جوش اور جذباتی افراد کا دل ٹوٹ سکتا ہے مگر انہیں اس کی بھی پروا نہیں ہو گی، یہاں بھی ان کی حقیقت پسندی اسے پاگل قرار دے کر آگے بڑھ جائے گی۔
عام طور پر ان کی نجی ضروریات اور خواہشات انہیں شادی کے بندھن میں بندھنے پر مجبور کرتی ہےں اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یہ شادی کے بعد اپنی ذمہ داریاں اور ازدواجی حقوق بڑی خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہیں یعنی شریک حیات کی ہر ضرورت کا پوری طرح خیال رکھتے ہیں مثلاً گھر، مالی استحکام، عزت اور وقار، معقول رویہ وغیرہ لیکن اس معقول رویے میں نظم و ضبط اور مزاحمتی انداز کی جھلکیاں موجود ہوتی ہیں۔ ان کا حاکمانہ مزاج اپنے شریک حیات کو ہر آزادی نہیں دے سکتا۔ وہ اسے اپنے ایک ماتحت کے روپ میں دیکھنا پسند کریں گے۔ البتہ دنیاوی آرام و آسائش اور سہولیات فراہم کرنے میں یہ کوئی کوتاہی اپنی جانب سے نہیں کرتے مگر صرف ایک چیز اس کے لیے ان کے پاس نہیں ہوتی اور وہ ہے تھوڑی سی رومانیت اور روایتی انداز محبت۔ یہ لوگ اپنے عملی انداز محبت کو ہی کافی سمجھتے ہیں مثلاً ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ میں نے دنیا کی ہر نعمت اور سہولت اپنے محبوب یا شریک حیات کو مہیا کر دی ہے ، اب اس کے بعد صرف زبانی اور روایتی اظہار محبت کی کیا ضرورت ہے؟ شاید ان کا یہ خیال دوسروں کے لیے نامناسب اور ناقابل قبول ہو۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ یہ دوسروں کو احساس محبت اور جذباتی تسکین بھی فراہم کریں۔ یوں زندگی زیادہ رنگین اور پرسکون ہو جائے گی۔
جدی افراد کی زندگی میں جو لوگ آئیں، انہیں تھوڑی سی توجہ دینے، محبت اور تعریف کے دو بول بول دینے سے کوئی نقصان نہیں ہو گا یا آپ کمتر نہیں ہو جائیں گے بلکہ جواب میں آپ کو بھی سچی محبت کی روحانی خوشی ملے گی۔ صرف آپ کی اصول پسندی اور فرض شناسی ہی زندگی میں سارے رنگ نہیں بھر سکتی۔ زندگی کا اصل اور دلچسپ ترین رنگ تو محبت ہے۔
جدی افراد پیدائشی طور پر نظم و ضبط کے قائل ہوتے ہیں اور اپنی رومانوی یا ازدواجی زندگی میں بھی نظم و ضبط اور اصول و قواعد کی پابندی پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح چونکہ ان کی عملیت پسندی زندگی کی مادی ضروریات اور مادی حقائق پر زیادہ توجہ دیتی ہے لہذا محبت اور دوستی کے معاملات میں بھی یہ لوگ دل کے بجائے دماغ سے کام لیتے ہیں اور اپنے مادی نفع و نقصان کو نظر انداز نہیں کرتے۔ جس طرح ایک جدی مرد اپنے پیشہ ورانہ مفادات سے کبھی غافل نہیں رہتا بلکل اسی طرح جدی خواتین بھی شوہر کی ترقی اور آمدن میں اضافہ کے لیے اس سے بھرپور تعاون کرتی ہیں اور وہ کسی نکمے اور آرام طلب شوہر کو پسند نہیں کرتیں جو انہیں مادی آرام و سکون مہیا نہ کر سکے۔
جدی افراد کی شادیاں عموماً پائیدار ہوتی ہیں۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ شاذ و نادر ہی جلدی میں شادی کرتے ہیں اور اس بات کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے کہ شریک حیات کا انتخاب کرنے میں ضرورت سے زیادہ احتیاط کے باعث ان سے کوئی غلطی ہو جائے کیونکہ وہ یہ کام جذبات کی رو میں بہہ کر یا بے پروائی سے کبھی نہیں کرتے۔
جدی افراد کم از کم محبت کے روایتی معیار اور تصور پر پورا اترتے نظر نہیں آتے۔ محبت کا روایتی تصور رکھنے والے ان کے انداز و اظہار محبت سے خوش نہیں ہو سکتے۔
عشق و محبت تقریباً ہر زبان کی شاعری کا بنیادی موضوع رہا ہے۔ اگر ہم رومانی شاعری کرنے والے قد آور شعراءکی فہرست پر ایک نظر ڈالیں تو اس میں بھی سر فہرست حوت اور عقرب نظر آئیں گے مثلاً ہمارے یہاں اردو شاعری میں میر تقی میر، علامہ اقبال،فیض احمد فیض، پروین شاکر، عطا شاد وغیرہ کے ہاں روایتی عشق کے اعلٰی ترین نمونے نظر آتے ہیں۔ یہ تمام شعراءبرج عقرب سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسری طرف اردو شاعری میں برج جدی سے تعلق رکھنے والے دو بڑے نام مرزا اسد اللّٰہ خان غالب اور جوش ملیح آبادی ہیں۔ غالب نے اگرچہ رومانوی موضوعات کو بھرپور طریقے سے اپنایا ہے اور ان کا دور رومانی شاعری کا دور تھا مگر غالب کے رومانی موضوعات پر عقل غالب نظر آتی ہے شاید اسی چیز نے انہیں اپنے دور میں دیگر رومانی شعراءسے منفرد بنا دیا تھا۔ وہ محبت میں میر کی طرح اندھے عشق کے قائل نہیں۔ زندگی کے مادی پہلوو¿ں کو سامنے رکھتے ہوئے محبت کی بات کرتے ہیں۔ جوش ملیح آبادی کی رومانی شاعری کسی بگڑے نواب کی آوارہ گردی اور عیش طلبی کا شاہکار نظر آتی ہے۔ البتہ ان کی حاکمیت پسندی انہیں انقلابی رجحانات کی طرف لے گئی اور اس طرح رومانی شاعری کا پودا قد آور درخت نہ بن سکا۔