- عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ شیاطین ہمزاد جب کسی انسان عورت یا مرد سے رابطے میں آتے ہیں تو وہ اس پر یا دیگر افراد پر کبھی اپنی اصلیت ظاہر نہیں کرتے بلکہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ایسی اچھائی کی باتیں بیان کرتے ہیں جن سے ان کا کسی بزرگ یا ولی ہونے کا تاثر پیدا ہو مثلاً اگر ہمزاد کسی مسلمان کا ہے تو وہ قرآنی آیت کی تلاوت اور اسلامی احکام پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتا ہوا نظر آئے گا، یہ باتیں سن کر عام لوگ فوراً اس کے سامنے مؤدب ہوجاتے ہیں اور اسے کسی پہنچے ہوئے بزرگ کی روح تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتے، ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہوتی ہے کہ کوئی شیطان جن یا آسیب یا کوئی بدروح ایسی باتیں کیوں کرے گا ؟
دراصل ہمارے ذہنوں میں یہ تصور بیٹھ گیا ہے یا جعلی پیروں فقیروں نے یہ قصور بٹھا دیا ہے کہ جو بھی اللہ رسول کا نام لے رہا ہے وہ اللہ والا ہے اور جو بری اور غیر شرعی باتیں کر رہا ہو وہ شیطان ہے حالاں کہ ہزاروں واقعات، مشاہدات اس حقیقت کو گواہ ہیں کہ شیطان نت نئے بہروپ بھر کر انسانوں کو گمراہ کرنے پر کمربستہ ہے، عام انسانوں کی بات تو چھوڑیے، بڑے بڑے انبیاء، اولیاء اور صالحین کو ورغلانے اور راہ مستقیم سے بھٹکانے کے لیے شیطان نے کیا کیا جتن کیے اور کیسے کیسے بہروپ نہیں بھرے، ایسے واقعات بے شمار ہیں، یہ الگ بات ہے ، یہ انبیا ، اولیا اور دیگر صاحب ایمان صالحین، شیطان کے ہر ہتھکنڈے کو اپنی قوت ایمانی سے باطل کردیتے ہیں اور اس کے کسی فریب میں نہیں آتے لیکن عام انسان اور خصوصاً وہ انسان جس کے ہاں قوت ایمانی کی کمی پائی جاتی ہے وہ شیطان کے ایک معمولی شعبدے یا بہلاوے کا شکار ہوکر اس پر ایمان لے آتا ہے۔
روح کے بارے میں ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ انھیں حاضر کرنے کا اور ان سے ہم کلام ہونے اور مزید یہ کہ ان سے کام لینے کا شوق انسان میں نیا نہیں،بہت قدیم ہے اور یہ صرف مسلمانوں ہی میں نہیں بلکہ تمام اقوام عالم میں پایا جاتا ہے، مشرق سے مغرب تک حاضراتِ ارواح کے بے شمار طریقے مروج ہیں، مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اپنے اپنے طور پر ان طریقوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور روحوں کی حاضری کا تماشا دیکھتے ہیں۔
ایسے واقعات کی کوئی کمی نہیں ہے جن میں حاضرات ارواح کے مشاہدے، روحوں سے گفتگو، روحوں کے ذریعے ماضی ، حال اور مستقبل کی باتیں معلوم کرنا اور اپنے مسائل کے حل میں مدد لینا ثابت ہوتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ اس صورت حال کا شکار صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام اقوام عالم ہیں، کچھ لوگ اس شوق کو اپنے فطری تجسس کے تحت اپناتے ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ بعد از موت انسانی روح کا ماجرا کیا ہے اور وہ کس حال میں ہیں اور جس حال میں ہیں اس کا دائرہ اختیار کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ اور کچھ لوگ اس کام کو پیشہ ورانہ طور پر اپنے مالی یا دنیاوی مفادات کے طور پر اختیار کرتے ہیں، ایسے لوگوں کی مشرق و مغرب میں کوئی کمی نہیں ہے۔
دونوں طرف صورت حال یکساں ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ مشرق میں ہمارے مسلمان اس کاروبار کو بھی مذہب کی سرپرستی میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ مغرب میں صورت حال اس کے برعکس ہے، وہاں یہ کاروبار کرنے والے کچھ دوسرے بہروپ بھرتے ہیں اور ان سے رابطہ کرنے والے بھی انھیں خالص مذہبی نکتہ ء نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ انھیں جادوگر یا ماہر روحیات قرار دیتے ہیں۔
مغرب میں روحیات کا موضوع تقریباًا نیسویں صدی عیسوی میں تحقیق کا مرکز بنا اور بڑے بڑے نامور سائنس داں اور اہل علم اس شعبے میں داد تحقیق دینے کے لیے میدان میں آگئے، ایسے لوگوں میں مشہور مصنف سرآرتھر کاٹن ڈائل جو مشہور جاسوسی ناول نگار تھے اور شہرہ آفاق کردار شرلاک ہومز کے خالق بھی تھے، سرفہرست ہیں، ان کے علاوہ امریکا کے پروفیسر ہارنل ہارڈ، سوئیڈن کے آئی بی جورکھم، ڈاکٹر آرایچ تھامس، آسٹریا کے ایچ آئی اربین، سوئٹزرلینڈ کے جین گیزر، اٹلی کے پروفیسر ای سرویدو اور فرانس کے پال دا سے بہت مشہور ہوئے۔
1882 ء میں ایک عالمی سوسائٹی قائم کی گئی جس کا نام ’’دی سوسائٹی فار سائکیکل ریسرچ‘‘ (مجلس تحقیقات مظاہر نفس) رکھا گیا، تمام دنیا کے روحانیات سے دلچسپی رکھنے والے شوقین حضرات اس سوسائٹی سے رابطے میں رہے جن میں مشہور پامسٹ میر بشیر اور پاکستان کے جناب رئیس امروہوی مرحوم بھی شامل تھے، اس سوسائٹی کے قیام کا مقصد خوارق عادات مظاہر کی تحقیقات تھا۔
یہ سوسائٹی آج بھی قائم ہے، اس کے بعد ایسی مزید سوسائٹیز بھی قائم ہوئیں اور روحانیات کے موضوع پر بین الاقوامی سطح پر نہایت اعلیٰ پائے کے رسائل بھی جاری ہوئے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام سوسائٹیز کی تحقیقات اور نظریات روح تک محدود ہیں اور روح کے بارے میں ان کی تحقیقات اور نظریات گمراہ کن حد تک باطل ہیں اور جہالت آمیز ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ روحانیات پر تحقیق کرنے والے یہ ماہرین یا تو کسی بھی دین الٰہی سے منکر تھے یا ایسے مذاہب و مسالک کے پیروکار تھے جن کی اپنی اصل شکل فی زمانہ بگڑ چکی ہے، لہٰذا انھوں نے جو کام بھی کیا اس کے نتائج مبہم اور غیر اطمینان بخش ہی رہے، اس کے برعکس مشرق میں مسلم صوفیا خصوصاً اس شعبے میں ہمیشہ بہت آگے رہے، ان کا کام نہ صرف اطمینان بخش رہا بلکہ پیچیدگیوں سے مبرا اور جدید سائنس سے ہم آہنگ رہا، یہ الگ موضوع ہے کہ ہمارے صوفیا نے جن مسائل کو صدیوں پہلے حل کردیا تھا جدید سائنس اب ان کا عرفان حاصل کر رہی ہے، اپنے اس دعوے کے ثبوت میں ہم صرف ایک بات کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ مادے اور نور کی حقیقت آئن اسٹائن کی تھیوری کی روشنی میں آج جس طرح سمجھی جاری ہے ،اسے صدیوں قبل شیخ اکبرمحی الدین ابن عربی مسئلہ وحدت الوجود میں سمجھا چکے تھے اور کئی سو برس قبل حضرت مجدد الف ثانی نے وحدت الشہود کا نظریہ پیش کرکے اس میں مزید چار چاند لگادیے۔
پس ثابت ہوا کہ سائنس آج جن پیچیدہ اور ناقابل حل مسائل کی تحقیقات میں سر پٹخ رہی ہے وہ ہمارے مسلم صوفیا بہت پہلے حل کرچکے ہیں، یہ ہماری کوتاہ نظری ہے کہ ہم انھیں نظر انداز کرکے مغرب کی طرف دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں، مزید ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں تصوف بھی کاروبار بن چکا ہے اور جاہل پیشہ ورانہ صوفیوں، پیروں، فقیروں، عاملوں، کاملوں کی اتنی دکانیں لگ چکی ہیں کہ ایک عام تعلیم یافتہ انسان ان سے صرف نظر کرکے سائنس کے مادی مظاہر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا اور حقیقی روحی سائنس کو کچھ نہیں سمجھتا، درحقیقت اس میں قصور اس کا نہیں ان کاروباری حضرات کا ہے جو اپنی جہالت کے سبب اس کے سوالات کا اطمینان بخش جواب دینے کے بجائے اس کے ذہن میں مزید الجھاوے اور شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔
بات کیا ہورہی تھی اور ہم جانے کہاں نکل گئے، قصہ مختصر یہ کہ حاضراتِ ارواح کے جتنے بھی مظاہر مشرق و مغرب میں ہماری نظروں کے سامنے آتے ہیں ان سب میں بنیادی کارفرمائی یا تو شعبدے بازی کی ہوتی ہے یا ہمزاد کی، روح اعلیٰ ہر گز ایسے کسی مظاہرے میں شامل نہیں ہوتی، ایسے مظاہرے جس میں روح انسانی جسے ہمزاد، نسمہ یا اورا کہتے ہیں کی کارفرمائی نظر آتی ہے، اب یہ بات قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ ہر انسان کا اورا یا ہمزاد نیک اور صالح نہیں ہوتا، اس کا تو کام ہی انسان کو ورغلانا اور بھٹکانا ہے،دینی ضابطوں یا قوانین کی پیروی کسی کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے لازمی قرار دی گئی ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی مردہ یا مرحوم شخص کا ہمزاد اگر کسی زندہ شخص سے رابطہ کرتا ہے تو وہ اسے گمراہی کے راستے پر نہیں لے جائے گا، یہاں اس معاملے میں صرف اتنی ہی چھوٹ دی جاسکتی ہے جتنی حضور پاک ﷺ کی حدیث پاک کی روشنی میں ہمیں مل سکتی ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرا ہمزاد یا قرین مسلمان ہوگیا اور اللہ نے مجھے اس پر غلبہ دیا اور وہ مجھے بھلائی کی باتیں ہی بتاتا ہے۔
بس ہم انھیں لوگوں کے ہمزاد سے خیر کی، بھلائی کی توقع رکھ سکتے ہیں جو ان کی زندگی میں ہی مسلمان ہوگئے تھے اور خیر کی طرف راغب ہوگئے تھے، ایسے لوگوں میں ظاہر ہے انبیا ، اولیا اور دیگر صالحین شامل ہیں مگر ہماری اس بات کا یہ مطلب بھی نہ لیا جائے کہ ایسے لوگوں کے ہمزاد یا قرین حاضرات ارواح کے مظاہروں میں با آسانی آسکتے ہیں یا ہر کس و ناکس سے رابطہ کرسکتے ہیں، ہمارے خیال میں تو انھیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، عام انسانوں سے رابطہ کرنے والے مردہ انسانوں کے ہمزاد کی اکثریت مفرورین کی سی ہے، یہ بھاگے ہوئے ہمزاد اپنے جسم خاکی کی تدفین کے وقت راہ فرار اختیار کیے ہوئے ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر اپنی بعض نا آسودہ خواہشات کے زیر اثر دنیا میں بھٹک رہے ہوتے ہیں، یہ خود کچھ نہیں کرسکتے جب تک انھیں کسی زندہ انسان کے کاندھوں کا سہارا نہ مل جائے، انھیں کسی آلہ ء کار کی ضرورت ہوتی ہے جہاں کوئی اچھا معمول انھیں نظر آیا یہ اس سے وابستہ ہوجاتے ہیں، اب اس وابستگی کی بے شمار صورتیں ہیں، کم علمی اور ناواقفیت کے سبب ہم ایسی وابستگیوں کو جنات، آسیب، سایہ، روح وغیرہ قرار دے کر بیٹھ جاتے ہیں۔
آپ نے اکثر ایسے واقعات سنے ہوں گے کہ کوئی مرد یا عورت کسی مقام پر حادثاتی موت کا شکار ہوا یا اسے قتل کردیا گیا، ایسے مقامات پر بعض اوقات اسی روز یعنی اسی تاریخ کو رات کے کسی پہر میں مقتول یا حادثے کا شکار ہونے والی کی روح دیکھی جاتی رہی ہے،ایسے سیکڑوں قصے مشہور ہوچکے ہیں، جدید تحقیق کے مطابق یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ایسی اموات کے بعد مرحوم کا ہمزاد اسی مقام پر چکر لگاتا رہتا ہے اور اس واقعے کی تاریخ پر خاص طور سے وہاں موجود ہوتا ہے، بعض لوگوں کو کسی نئے مکان میں یا کسی دکان یا کارخانے میں بھی ایسے پراسرار واقعات سے واسطہ پڑتا ہے جن میں وہ شکایت کرتے ہیں کہ انھوں نے اس جگہ پر کسی ماورائی وجود ، سایہ وغیرہ کو دیکھا یا محسوس کیا ہے یا کسی کی آواز سنی ہے، یقیناًوہاں کبھی نہ کبھی ایسی کوئی واردات ہوئی ہوگی۔
بعض کیسوں میں یہ بھی مشاہدے میں آیا کہ وہ مکان یا مقام ایسی کسی واردات کے بعد آباد نہ ہوسکا، اس میں رہنے والوں کو وہ جگہ چھوڑنا پڑی، کسی نہ کسی طور انھیں پریشان کیا جاتا رہا اور جگہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، عموماً مشہور یہی ہوجاتا ہے کہ یہاں جنات یا بھوت پریت کا اثر ہے،حقیقت یہ ہے کہ عام طور پر ایسے مقامات پر ایسے ہی کسی لرزہ خیز حادثے یا قتل کے نتیجے میں کسی ہمزاد کا ڈیرہ ہوتا ہے، اب یہ الگ بات ہے کہ وہ ہمزاد کس قسم کی شخصیت کا حامل ہے،زندگی میں اگر انسان نے اچھے کام کیے ہوں اور شریعت کے مطابق زندگی گزاری ہو تو اس کا ہمزاد تدفین کے وقت عموماً راہ فرار اختیار نہیں کرتا، صورت حال اس کے برعکس ہو یعنی وہ شخص بظاہر خواہ کتنا ہی نیک پارسا نظر آتا ہو لیکن اپنے باطن میں گناہ آلود زندگی گزارتا رہا ہو، شدید منتقم مزاج ہو تو وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے دنیا ہی میں بھٹکتا رہتا ہے اور اکثر اس مقام سے جڑا رہتا ہے جہاں اسے حادثہ پیش آیا تھا۔
حاضرات ارواح کے مظاہروں میں جب ایسے ہمزادوں سے رابطہ ہوا جنھیں مغربی دنیا انسانی روح سمجھتی رہی، انھوں نے اپنی زندگی کے بارے میں ایسی ہی باتیں بتائیں اور اپنے آئندہ کے عزائم کا بھی اظہار کیا، مثلاً وہ کسی سے انتقام لینا چاہتے ہیں، کسی کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں یا کسی اور خواہش کے شدید اثر میں ہیں، ایسے تمام ہمزاد اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے زندہ انسانوں کے محتاج ہیں، وہ خود کچھ نہیں کرسکتے،ممکن ہے ہماری اس بات سے بہت سے لوگ اختلاف کریں اور ہمیں بتائیں کہ جناب فلاں صاحب نے ایک ہمزاد قابو کیا تھا اور اس سے بے شمار ذاتی کام لیتے رہے،آج بھی بہت سے لوگ یہ دعوا کرتے ہیں کہ وہ ہمزاد پر قابو پانے کا عمل جانتے ہیں یا انھوں نے کبھی کوئی ہمزاد قابو کیا تھا اور ایسی باتوں کو سن کر یا کتابوں رسالوں میں پڑھ کر ہماری نوجوان نسل جو اپنی بے عملی کے سبب نالائقی اور ناکامیوں کا شکار ہوتی ہے، تسخیر ہمزاد کی جستجو میں مصروف ہوجاتی ہے،بے شمار لوگوں نے گزشتہ 25,30 سال میں ہم سے صرف اسی لیے رابطہ کیا کہ ہم انھیں ہمزاد پر قابو پانے کا عمل بتائیں یااپنی نگرانی میں یہ عمل کرائیں لیکن جب ہم نے انھیں اصل حقیقت سمجھانے کی کوشش کی تو اکثریت نے ہماری بات پر توجہ نہیں دی اور کسی دوسرے ایسے شخص کی تلاش میں نکل پڑے جو انھیں کامیابی سے ہمکنار کردے۔
تسخیر ہمزاد کے جتنے بھی عملیات ، چلّے وظیفے ، کتابوں رسالوں میں ملتے ہیں، درحقیقت ان میں سے ایک بھی درست نہیں ہے،ان وظیفوں کے نتیجے میں عمل کرنے والے کا اپنا ہمزاد یا کسی اور مرحوم کا ہمزاد قطعاً متاثر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے سامنے آتا ہے،ہاں یہ ضرور ہے کہ وظیفے میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے اس کے الفاظ چوں کہ اپنا ایک باطنی وجود رکھتے ہیں جسے عرف عام میں مؤکل کہا جاتا ہے،کبھی کبھی یہ مؤکل ضرور سامنے آجاتا ہے،اسی عامل کی شکل میں اور یہیں سے کچھ نئی خرابیاں شروع ہوتی ہیں، ہمزاد کو قابو میں کرنے والے عامل کو ایسے عملیات کے نتیجے میں نقصان اور بعض اوقات تباہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اکثر کا دماغ الٹ جاتا ہے،ہم نے ایسے کیس بھی دیکھے ہیں، اس کے بعد ایسے لوگ ایک نارمل زندگی گزارنے کے لائق نہیں رہتے،تاوقت یہ کہ ان کا معقول علاج معالجہ نہ ہو۔
دوسری شکل یہ ہے کہ وہ لوگ جو نہایت حساس طبیعت رکھتے ہیں گویا ان کے ظاہری حواس کے مقابلے میں باطنی حواس زیادہ ایکٹیو ہوتے ہیں، ان سے بعض بھٹکتے ہوئے ہمزاد رابطہ کرلیتے ہیں اور آہستہ آہستہ انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر آمادہ کرتے ہیں، کم عمر لڑکے لڑکیاں عموماً ایسے آوارہ ہمزادوں کا شکار ہوتے ہیں، اگر وہ ان سے تعاون کرنے لگیں اور ان کے گھر والے بھی تعاون پر آمادہ ہوجائیں تو یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ کوئی نیک روح یعنی کسی بزرگ کی روح ہیں، تعاون نہ کرنے کی صورت میں وہ لڑکے یا لڑکی کو صرف اس حد تک پریشان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ اکثر اس کے سامنے آجائے یا اپنی آواز اسے سنا سکے، جب کہ گھر کے دیگر افراد نہ اس کی آواز سن سکتے ہیں ، نہ اسے دیکھ سکتے ہیں لیکن اتنا ہی کافی ہے کوئی کم عمر یا نوجوان لڑکا لڑکی اس صورت حال سے کس قدر بے زار اور پریشان ہوسکتا ہے اس کا اندازہ آپ لگاسکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اس کے گھر والے بھی جس پریشانی اور اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر قریبی مولوی،عامل وغیرہ کی مدد لی جاتی ہے اور عارضی طور پر ایسے مریض کو فوری فائدہ بھی ہوتا ہے مگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے، ہمارے نزدیک اس کا درست علاج اس طرح ممکن نہیں ہے۔
اس موضوع پر ان شاء اللہ آئندہ بھی گفتگو ہوگی، اگر آپ بھی ایسے کسی واقعے سے دوچار ہوئے ہیں یا آپ کے مشاہدے میں ایسا کوئی واقعہ ہے جو آپ کے لیے حیران کن اور ناقابل فہم ہے تو ضرور ہمیں اس سے آگاہ کریں، ہم ان شاء اللہ اس کا مفصل جواب دیں گے اور اس کی اصل حقیقت سے آگاہ کریں گے۔
-
03002107035