بھارت و پاکستان کے درمیان کشیدہ فضا ابھی ختم نہیں ہوئی

بھارت و پاکستان کے درمیان کشیدہ فضا ابھی ختم نہیں ہوئی

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی الٹی گنتی شروع ہوچکی

22اپریل پہلگام حادثے کے بعد سے بھارت و پاكستان کے درمیان جو کشیدگی شروع ہوئی، وہ بالآخر دونوں ملکوں کے درمیان ایک خوف ناک جنگ کی صورت اختیار کرگئی لیکن الحمد اللہ کہ امریکی صدر جناب ڈونالڈ ٹرمپ کی مداخلت سے دونوں ملک جنگ بندی پر آمادہ ہوگئے، باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ صورت حال ایٹمی جنگ تک جاسکتی تھی، چناں چہ بھارت و پاكستان دونوں ملکوں کے عوام کو امریکا بہادر کا شکر گزار ہونا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں کے درمیان کشیدہ صورت حال ختم ہوگئی ہے۔

خطرہ ہے کہ کم سے کم 07جون تک یہ کشیدگی بدستور جاری رہے گی کیوں کہ 29مئی تک راہو کیتو دونوں ملکوں کے سربراہان مملکت اور کابینہ کی دم پر پاوں رکھے کھڑے رہیں گے اور سیارہ مریخ بھی طبل جنگ بجاتا رہے گا جس کی وجہ سے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں بھی ہوسکتی ہیں اور اس کے نتیجے میں عوام متاثر ہوسکتے ہیں۔

بنیادی خرابی یہ ہے کہ بھارت میں نریندر مودی جیسے عقربی انتہا پسند وزیراعظم ہیں اور ان کی کابینہ کا انتہا پسند ٹولہ ان کا ہم نوا ہے۔ مودی میڈیا مسلسل جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے عوام میں غصہ اور اشتعال بڑھا رہا ہے۔ گویا مثبت سوچ کا فقدان ہے۔

الحمد اللہ پاکستان میں ہمارے حکمرانوں کی سوچ مثبت ہے اور وہ جنگ کی تباہ کاریوں سے واقف ہیں اور چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے عوام امن و آشتی کی زندگی گزاریں لیکن افسوس بھارت میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔

وزیراعظم مودی برسوں سے اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھ رہے ہیں اور انھوں نے گزشتہ سالوں میں ”ہندوتوا“ کا نعرہ ہی اسی مقصد کی تکمیل کے لیے لگایا ہے۔

خیال رہے کہ ہندوتوا کا مقصد ہندو ازم نہیں ہے بلکہ ہندو صیہونیت ہے۔ جیسا کہ یہودیت میں ایک گروہ صیہونیت کی جانب چلا گیا ہے۔ بہر حال اس سال ستمبر سے صورت حال تبدیل ہونا شروع ہوگی اور بھارتی عوام ہندوتوا کے بھیانک خواب سے بے دار ہونا شروع ہوں گے۔

نریندر مودی کے لیے بھی اب الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔ امکان ہے کہ آئندہ سال 2026 ان کے لیے ایک بہت ہی مشکل سال ثابت ہوگا اور ان کے سارے خواب آہستہ آہستہ چکنا چور ہوتے چلے جائیں گے۔

عزیزان من: ہم اس سے پہلے علم نجوم كے حوالے سے بعض غلط فہمیوں

اورغلط نظریات کے بارے میں نشان دہی کرچکے ہیں جن میں سرفہرست شمسی برج کے تحت اپنا برج اور ستارہ معلوم کرنا اور اپنے حالات سے آگاہی حاصل کرنا شامل ہے۔

ہم نے عرض کیا تھا کہ مغرب میں یہ کاروبار عام ہے اور پاکستان میں بھی اس کی تقلید کی جاتی ہے، اخبارات و رسائل میں شمسی برج کے تحت ہفتہ وار، ماہانہ اور سالانہ پیش گوئیاں کی جاتی ہیں اور ہر شخص نہایت ذوق و شوق کے ساتھ ایسے کالم یا مضامین پڑھتا ہے تاکہ وہ یہ جان سکے کہ اس کا ہفتہ، مہینہ یا سال کیسا گزرے گا لیکن اکثریت کو اس سلسلے میں کافی مایوسی ہوتی ہے، مغرب کا معاملہ پھر بھی بہتر ہے، وہاں اس کام کے لیے اعلیٰ درجے کے ماہرین نجوم کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور انہیں اس کام کا بھرپور معاوضہ دیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔

ہمارے ہاں تو لکھنے والوں کو معاوضہ دینا تو دور کی بات اکثر تو ان کا نام بھی شائع نہیں کیا جاتا بلکہ اکثر اُردو کے اخبارات و رسائل تو مغرب سے شائع شدہ سن سائن ایسٹرولوجی کی کتابیں منگالیتے ہیں اور کسی ترجمہ کرنے والے سب ایڈیٹر کے حوالے یہ کام کردیا جاتا ہے تاکہ وہ اُردو میں اس کا ترجمہ کردے۔

حقیقی صورت حال یہ ہے کہ چھاپنے والے اور پڑھنے والے، سب ہی اس کام کو بھرتی کا کام سمجھ کر صرف ضرورت پوری کرتے ہیں۔ چھاپنے والے اپنے قارئین کی دلچسپی کے ہاتھوں مجبور ہیں اور پڑھنے والے مستقبل میں جھانکنے کے شوق میں اسے ضرور پڑھتے ہیں، چاہے اس پر یقین کریں یا نہ کریں۔

اس قدر غیر سنجیدہ صورت حال میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسٹرولوجی کا یہ سلسلہ کوئی مفید نتیجہ دے سکے،البتہ یہ ضرور ہے کہ اپنے شمسی برج سے واقفیت اور پھر اس برج کی خصوصیات کا مطالعہ اپنی کمزوریوں اور خوبیوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ ہم نہایت عرق ریزی کے ساتھ تقریباً 6,7 سال تک ملک کے ایک کثیرالاشاعت ہفت روزہ ”اخبار جہاں“میں یہی کام کرتے رہے ہیں، ہم سے بھی یہ کہا گیا تھا کہ آپ کا نام نہیں دیا جائے گا لیکن ہم نے اس شرط کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور بالآخر انہیں ہماری بات ماننا پڑی۔

یہ دُرست ہے کہ ان 6,7 سالوں میں ہم نے 12 برجوں کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا اُس کے لیے دنیا کے مشہور ماہرِینِ فلکیات کی کتابوں سے مدد لی مگر اُس میں ہمارا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ بھی شامل رہا۔ہمارے وہ تمام مضامین اب کتابی شکل میں ”آپ شناسی “ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں ۔

اس تمام گزارش کا مقصد یہ ہے کہ صرف شمسی برج ہماری تمام خصوصیات، ہماری شخصیت، فطرت، کردار اور زندگی کے حالات وواقعات کا احاطہ نہیں کرتا۔

خالص علم نجوم کچھ اور چیز ہے جس میں شمسی برج کا کردار نہایت واجبی سا ہے، اہم ترین کردار پیدائشی برج ادا کرتا ہے جس کے بارے میں ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں، یہ برج اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتا جب تک کسی شخص کا وقتِ پیدائش معلوم نہ ہو، اس کے علاوہ قمری برج، عطاردی برج، زہروی برج، مریخی برج یا زحل اور مشتری کے برج وغیرہ کی اہمیت اپنی جگہ ہے،ایک پیدائشی زائچہ (برتھ چارٹ) اپنی ایک الگ دنیا رکھتا ہے۔

اس کی مجموعی ساخت کسی شخص کے انفرادی تشخص اور حالات وواقعات پر روشنی ڈال سکتی ہے،اس کے لیے ایک مثال ہم آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔

برج جوزا کو ذہانت اور ہوشیاری بلکہ بعض معاملات میں تیزی و طراری اور چالاکی کا برج تسلیم کیا جاتا ہے، یہ ڈبل باڈی سائن ہے یعنی یہ لوگ دہری شخصیت کے مالک ہوسکتے ہیں، اب جن لوگوں کی پیدائش 22 مئی سے 21 جون کے درمیان ہوئی ہو، عام طور پر انہیں برج جوزا کے زیراثر سمجھا جاتا ہے لیکن کیا اس دوران میں پیدا ہونے والے تمام افراد ایسے ہی ہوتے ہیں جیسا کہ برج جوزا کے بارے میں مشہور ہے؟

خیال رہے کہ برج جوزا کی مثبت خصوصیات بلاشبہ غیر معمولی ذہانت، سیکھنے سمجھنے کی عمدہ صلاحیت اور ورسٹائل ہونا ہے لیکن اس کی منفی خصوصیات میں ہرجائی پن، غیر مستقل مزاجی، اعتماد کی کمی، ذہنی انتشار وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اس اعتبار سے برج جوزا کا حکمران سیارہ عطارد ہے، جسے سیمابی کیفیات کا حامل سمجھا جاتا ہے۔

یہ لوگ نشرواشاعت، ایجوکیشن، ادب و لٹریچر ، آئی ٹی وغیرہ کے شعبے میں غیر معمولی کارنامے انجام دیتے ہیں،آج ہم انٹرنیٹ کے ذریعے جس طرح ساری دنیا سے رابطے میں ہیں اس کا بانی اور خالق بھی ایک جیمنائی تھا۔

اگر زائچے میں یا یوں کہا جائے کہ پیدائش کے وقت عطارد کسی ایسے برج میں ہو جہاں وہ کمزور ہوتا ہے مثلاً حوت میں تو مندرجہ بالا ساری خوبیاں خامیوں میں تبدیل ہوجائیں گی اور پھر ہم حیران ہورہے ہوں گے کہ یہ جیمنائی بچہ یا شخص اس قدر گھامڑ، بدعقل اور تعلیم سے بھاگنے والا کیوں ہے ؟

پس ثابت ہوا کہ صرف شمسی برج کی بنیاد پر کسی شخص کی دُرست خوبیوں اور خامیوں کا بھی اندازہ نہیں کیا جاسکتا لیکن ہمارے ہاں ایسٹرولوجی سے دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات اپنے شمسی برج ہی کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں اور پھر جب نتیجہ دُرست نظر نہیں آتا تو اس علم ہی کی مخالفت شروع کردیتے ہیں۔

سن سائن ایسٹرولوجی کی مقبولیت کی وجہ سے ایک اور خرابی عام ہوگئی ہے، عام لوگ دوافراد کے درمیان تعلقات اور ہم آہنگی بھی ان کے شمسی برج کے تحت جاننے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً اکثر ہم سے سوال کرتے ہیں کہ ایک برج حمل کے تحت پیدا ہونے والے لڑکے یا لڑکی کی شادی کسی اوربرج کے تحت پیداہونے والی لڑکی یا لڑکے ساتھ کیسی رہے گی؟

عام طور پراخبارات ورسائل اور بعض سن سائن ایسٹرولوجی کی کتابوں میں بھی دوبرجوں کے درمیان باہمی تعلقات پرروشنی ڈالی جاتی ہے جو حتمی اور یقینی نہیں ہوتی اس سلسلے میں بعض بنیادی اصول مقرر ہیں مگر وہ زیادہ بااعتماد نتائج نہیں دیتے مثلاً برج حمل والوں کے لیے برج جوزا، اسد، میزان، قوس اوردلو والوں کو بہتر سمجھا جاتاہے یا یہ کہ یہ تمام برج آپس میں بہتر تعلقات رکھ سکتے ہیں لیکن یہ فارمولا حتمی نہیں ہے اس کی بنیاد پر محبت، شادی یا کسی پارٹنر شپ کے لیے قابل بھروسہ فیصلے نہیں کیے جاسکتے کیونکہ ہر شخص عورت یا مرد اپنی ذات میں، مخصوص خصوصیات، خوبیوں اور خامیوں کامجموعہ ہے۔

بے شک ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس قسم کے فارمولے کسی حد تک ایک دوسرے کے لیے کشش کا باعث ہوتے ہیں اور لوگ ایک دوسرے کی طرف کھنچتے ہیں، ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں ان کے درمیان اچھے تعلقات بھی قائم ہوتے ہیں لیکن وہ تعلقات دائمی طور پر کیا حیثیت رکھتے ہیں اس کا اندازہ صرف ان کے انفرادی زائچوں کی روشنی میں ہی لگایاجاسکتاہے صرف دونوں کے شمسی برج اس مسئلے کا کافی وشافی حل پیش نہیں کرسکتے۔

پاکستان میں تو صرف نام اور والدہ کے نام سے دوافراد کے درمیان تعلقات اور ہم آہنگی اورخوش قسمتی کوپرکھنے کا رواج عام ہے اوریہ رواج علم اعداد کے نام نہاد ماہرین یا علم جفرکے نام نہاد ماہرین کاپھیلایا ہوا ہے۔ ہماری خواتین اکثر فون پر یا ای میل کے ذریعے صرف دوفریقین کے نام بتاکر پوچھتی ہیں کہ یہ شادی کامیاب رہے گی یا نہیں؟ یا فلاں نام کا شخص میرے لیے کیسا رہے گا؟وہ مجھ سے محبت کرتاہے یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔

جب ہم انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ طریقہ غلط ہے، اس معاملے میں نام کی کوئی اہمیت نہیں ہے تو وہ حیران ہوتی ہیں کہ نام سے حساب کیوں نہیں لگایاجاسکتا، فلاں فلاں تو نام سے ہی حساب لگاکر بتاتے ہیں ۔

ہم کئی بار اس حقیقت کا اظہار کرچکے ہیں کہ نام انسان کی پیدائش کے بعد رکھاجاتاہے اور اسے انسان ہی تجویز کرتے ہیں لیکن تاریخ پیدائش اور وقت پیدائش اللہ مقرر کرتاہے اور وہی زیادہ اہمیت رکھتی ہے اسے کبھی تبدیل نہیں کیاجاسکتا جبکہ نام بدل جاتے ہیں، بعض لوگ زندگی میں کئی نام بدلتے ہیں اور نام بدلنے سے وہ خود نہیں بدلتے اور نہ ہی ان کا مزاج ، فطرت یا قسمت بدلتی ہے کیونکہ یہ سب کچھ ان کی تاریخ پیدائش اور وقت پیدائش کے زیراثر ہے ۔

بہت سے لوگ اس حوالے سے مثالیں بھی دیتے ہیں کہ جناب مشہور فاتح نیپولین بونا پارٹ کو کسی نے مشہورہ دیاتھا کہ وہ اپنے نام کے ہجے تبدیل کرلے توبہت ترقی کرے گا چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور پھر بہت ترقی کی ایسی بہت سے مثالیں موجود ہیں کہ بعض لوگوں میں اپنی ناکامیوں سے پریشان ہوکر نام تبدیل کیا اورپھر ان کے حالات بدل گئے تواس معاملے میں بنیادی بات یہ ہے کہ نام کا نمبراگر تاریخ پیدائش کے نمبر سے ہم آہنگ نہ ہویعنی اس سے میچ نہ کرتاہو تو خرابی پیدا ہوتی ہے اور انسان کی زندگی میں بے ترتیبی اورانتشار پیدا ہوتاہے کیونکہ بلاشبہ اعداد کی قوت سے انکار ممکن نہیں ہے۔

اگر ہماری تاریخ پیدائش کے اعداد اور نام اعداد متضاد ہوںگے تو ہمارے کردار وعمل میں بھی تضاد پیداہوگا اور پھر ہماری کارکردگی بھی متاثر ہوگی لہٰذا نام اور تاریخ پیدائش کے نمبروں کو ہم آہنگ اور متوازن رکھنا ضروری ہوتاہے، اس طرح پیدائش کے بنیادی نمبروں کی قوت میں مزید اضافہ ہوجاتاہے اور ہماری کارکردگی بہترہوجاتی ہے، سمجھ بوجھ کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوجاتاہے لیکن نام کی خرابی سے ہماری بنیادی خصوصیات تبدیل نہیں ہوتیں ۔

اکثر خواتین بچوں کی مستقل بیماری یا غصہ وبدمزاجی ‘تعلیم سے بے رغبتی اور بعض بری عادات کا باعث ان کے نام کوسمجھتی ہیں یا بعض لوگ جو خود کوماہر علم الاعداد، جفر یا نجوم کہتے ہیں وہ بھی ایسے مشورے دیتے ہیں کہ بچے کا نام بدل دیں، یہ نام بھاری ہے حالانکہ کوئی نام ہلکا نہ بھاری، بات صرف اتنی ہوتی ہے کہ وہ نام اس کی تاریخ پیدائش سے میچ نہیں کررہاہوتا یا یوں کہہ لیں کہ اس نام کا نمبر، تاریخ پیدائش کے نمبر سے میچ نہیں ہوتا لہٰذا متضاد نمبروں کی کشمکش شروع ہوجاتی ہے اور بچہ ڈسٹرب رہنے لگتاہے ایسی صورت میں صرف اندازوں کی بنیاد پرنام تبدیل کرنا ٹھیک نہیں ہوتا۔بچے کی تاریخ پیدائش کے نمبر کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی تبدیلی عمل میں لانی چاہیے۔

 جہاں تک نام کے ذریعے دوافراد کے تعلقات اورخاص طور پر ازدواجی تعلقات یا پارٹنرشپ کے بارے میں معلومات کاتعلق ہے تو وہ کبھی قابل اعتماد نہیں ہوسکتااس کے لیے صرف اورصرف علم نجوم بنیادی طریقوں سے ہی مدد لی جاسکتی ہے۔

علیحدگی ضروری ہے

ایس ایچ ‘کراچی سے لکھتی ہیں‘ آپ کے کالم پڑھ کے جورہنمائی ملتی ہے وہ بہت انمول ہے کیونکہ فی زمانہ بہت کم لوگ بے لاگ تبصرہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں، آپ کی اسی لگی لپٹی کے بغیر بات کرنے کی عادت نے مجھے مجبور کیاکہ آپ کو خط لکھ کر آپ سے چند باتیں پوچھ سکوں۔پہلی بات یہ ہے کہ میری قسمت میں دوشادیاں ہیں یا نہیں؟

کیامیرا زائچہ ملک سے باہر جانا ظاہر کرتاہے؟ اگر میں اب ایم فل اورپی ایچ ڈی کرناچاہوں تو یہ میرے حق میں صحیح رہے گا؟ اولاد میری نہ ہوسکی‘ شادی کے6سال بعد بھی۔ شوہر دوسری شادی کرنے جارہے ہیں لیکن مجھ سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔

اب میں کچھ کرکے اپنی زندگی سیٹ کرناچاہتی ہوں برائے مہربانی اپنے قیمتی اورمفید مشوروں سے آگاہ کریں اورمیرے حالات پر روشنی ڈال کر مجھے فیصلہ کرنے میںمدد دیں۔طلاق شوہردیتے نہیں اور خلع میں لینا نہیں چاہتی۔

جواب:آپ نے بھی روایتی انداز میں اپنا برج جوزا لکھاہے جویقینا آپ کا شمسی برج ہے یعنی جب آپ پیدا ہوئیں تو شمس برج جوزا میں تھا لیکن یہ آپ کا حقیقی اور اصلی برج نہیں ہے، آپ کے پیدائش کے وقت کے مطابق آپ کا اصلی اورحقیقی برج حمل ہے اورحاکم سیارہ مریخ ہے جوزائچے میں ایک طاقتور پوزیشن رکھتاہے۔

آپ کا زائچہ مجموعی طور پر ایک طاقتور زائچہ ہے جس میں آپ کا اپنا ستارہ اوراولاد کاستارہ نہایت مضبوط ہے اگرآپ کی دوسری شادی ہو تویقینا آپ کے ہاں اولاد بھی ہوگی۔آپ کے زائچہ سے ظاہر ہے کہ خرابی آپ کے شوہر میں ہے وہ دوسری کرلیں توبھی اولاد نہیں ہوگی۔آپ کے زائچے سے آپ کے پہلے شوہر کی کمزوری واضح ہے کیونکہ ستارہ زہرہ زائچے کے آٹھویں گھر میں ہے اوراس پر منحوس اثرات پڑ رہے ہیں یعنی ساتویں گھر کا مالک سیارہ زہرہ کمزور ہے جس سے شریک حیات کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے ۔

آپ کے تعلیم کے ستارے بھی مضبوط ہیں یقینا آپ کے والدین نے جلدبازی کامظاہرہ کیا اورروایت کے مطابق شادی کردی ورنہ آپ بہت پہلے ہی ایم فل یا پی ایچ ڈی کرسکتی تھیں اور اب بھی کرسکتی ہیں۔

آپ کوضرور اپنی تعلیم کاسلسلہ شروع کرناچاہیے لیکن اس سے پہلے کچھ دیگرضروری قدم اٹھانے ہوں گے ۔

آپ کا یہ فیصلہ غلط ہے کہ آپ خلع نہیں لیں گی۔آپ کو فوری طور پرخلع لے لینا چاہیے تاکہ آپ ہر قسم کی پابندی سے آزاد ہوجائیں اور پھر پورے سکون واطمینان کے ساتھ اپنی تعلیم اور کرئرپرتوجہ دے سکےں۔ایک ادھورے اور ناقابلِ بھروسا تعلق میں بندھے رہنے سے آپ کو آئندہ اپنے دیگر منصوبوں میں مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گالہٰذا خلع لینا ضروری ہے اور ساتھ ساتھ آپ کو کوئی جاب بھی تلاش کرناچاہیے تاکہ آپ اپنے والدین پر بوجھ نہ بنیں۔

اگر ہمارے مشورے پر عمل کیا تو آئندہ مستقبل شاندار ہوگا ‘واضح رہے کہ خراب اور منحوس دورمیں انسان درست راستے سے بھٹک جاتاہے اور بعض احمقانہ سوچیں اسے گمراہ کرتی ہیں جیسا کہ آپ کی سوچ ہے کہ خلع نہیں لوں گی یا دوسری شادی نہیں کروں گی وغیرہ وغیرہ ۔یہ سب غیر حقیقت پسندانہ سوچیں ہیں ان سے نجات پانا ضروری ہے۔