زائچے کی خوبیاں اور خامیاں زندگی کے ادوار کا اتار چڑھائو
متحدہ قومی مومنٹ کے بانی الطاف حسین پاکستان کی سیاست کا ایک متنازع نام ہیں۔ اس تنازع میں کتنی حقیت ہے اور کتنا فسانہ، یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔مشہور اور غیر معمولی افراد ہمیشہ سے ہماری توجہ اور دلچسپی کا مرکز رہے ہیں۔ہم نے کراچی میں رہتے ہوئے ان کے عروج و زوال کو بہت قریب سے دیکھا ہے ۔ یہ 1991 کی بات ہے ، جب ہم اور ہمارے بہت عزیز دوست جمال احسانی ، حبیب جالب صاحب کا سوانحی انٹرویو کر رہے تھے ۔ انٹرویو میں وقفے کے دوران عام بات چیت میں جالب صاحب نے کہا ” یار ! مجھے الطاف حسین سے ملنا ہے ، میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں، اس نے مجھے حیران کردیا ، میں زندگی میں کبھی ایک سیٹ نہیں جیت سکا اور اس نے عام سیاسی ورکرز کو 14 سیٹوں پر کامیاب کرادیا“۔
جالب صاحب کی اس بات نے ہمیں بھی سوچنے پر مجبور کردیا کہ الطاف حسین میں ایسی کیا خاص بات ہے جس نے پاکستان کی سیاست میں ہلچل مچادی اور روایات کے خلاف مڈل کلاس افراد کے ساتھ ایک ایسی سیاسی جماعت کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھیج دیا جو ہمارے فیوڈل سسٹم میں تقریباً ناممکن تصور کیا جاتا تھا، یہاں تو وڈیروں ، جاگیرداروں اور چوہدریوں یا سرداروں کے لیے ہی گنجائش تھی، چناں چہ جناب الطاف حسین کے زائچہ پیدائش کی شدت سے طلب محسوس ہوئی ، ان کی تاریخ پیدائش تو مشہور تھی لیکن وقت پیدائش کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔
شاید 2006 ایسا سال تھا جب ہم ادارہ جاسوسی ڈائجسٹ سے علیحدہ ہونے کے بعد اپنا ہومیو پیتھک کلینک چلا رہے تھے اور ساتھ ہی ایسٹرولوجی کا شغل بھی جاری تھا۔ ان دنوں بہت سے ایسے سیاسی اور غیر سیاسی احباب سے تعلقات قائم ہوئے جن کے ذریعے ہم نے الطاف صاحب کی ہمشیرہ سے وقت پیدائش کے بارے میں معلومات لیں اور ان کا زائچہ بنانے میں کامیاب ہوئے لیکن اسے شائع کرنے یا اس پر کہیں گفتگو کرنے کی نوبت کبھی نہیں آئی جس کی بہت ساری وجوہات رہیں۔اس عرصے میں پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر گیا، الطاف حسین جن کی ایک کال پر کراچی بند ہوجاتا تھا جن کا لائیو خطاب خواہ کتنا ہی طویل ہو ، کوئی اسے رکوا نہیں سکتا تھا۔ اچانک 22 اگست 2016 کے بعد راندئہ درگاہ ٹھہرے اور لندن تک محدود ہوکر رہ گئے، بعد میں متحدہ قومی موومنٹ میں بھی خاصی توڑ پھوڑ ہوئی اور اس کی سابقہ پوزیشن برقرار نہیں رہ سکی۔یہ بھی خبریں آتی رہیں کہ الطاف حسین کی صحت انتہائی خراب ہے اور وہ زیر علاج ہیں، ان پر لندن میں مقدمات چل رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں ان کا ایک تازہ انٹرویو دیکھنے کا اور سننے کا موقع ملا جو وجاہت سعید خان نے کیا تھاتو دوبارہ پرانا شوق جاگ اٹھا، چناں چہ آج کی نشست میں ان کے زائچے کے اہم نکات پر گفتگو کا ارادہ ہے۔
جناب الطاف حسین کی تاریخ پیدائش 17 ستمبر 1953 کراچی صبح بوقت 08:25 کے مطابق طالع پیدائش اور شمسی برج سنبلہ ہیں جب کہ قمر برج قوس میں اور قمری منزل ” مولا“ ہے۔
زائچے میں برج سنبلہ طلوع ہے اور شمس و عطارد کے ساتھ نیپچون بھی اسی برج میں موجود ہے، سیارہ عطارد طالع کا حاکم سیارہ ہے اور اپنے شرف کے برج میں ہے لیکن غروب حالت میں ہے۔پنچم مہا پرش یوگ میں سے ایک اہم یوگ بنارہا ہے جسے بھدر یوگ کہا جاتا ہے۔سیارہ زحل دوسرے گھر برج میزان میں شرف یافتہ ہے ۔ قمر چوتھے گھر میں ، راہو پانچویں گھر میں ، مشتری اور یورینس دسویں گھر میں ، کیتو اور زہرہ گیارھویں گھر میں جب کہ پلوٹو اور مریخ بارھویں گھر میں ہےں، قمر سے مشتری کیندر میں ہونے کی وجہ سے گج کیسری یوگ تشکیل دے رہا ہے ، ایسے لوگ دوسروں کی فلاح و بہبود کے لیے کوشش کرتے ہیں اور کوئی ایسا کام کرجاتے ہیں جسے دنیا یاد رکھتی ہے۔دشمنوں پر غلبہ ، قابل عزت و احترام ، اپنے رویے میں جذباتی اور حساس ۔
کسی بھی زائچے کی بنیادی اساس زائچے کا پہلا گھر اور قمر کی زائچے میں پوزیشن ہوتی ہے۔چناں چہ گفتگو کا آغاز پہلے گھر برج سنبلہ سے کرتے ہیں۔سنبلہ افراد بنیادی طور پر پرفیکشنسٹ (Perfectionist) ہوتے ہیں۔غلطی ان سے برداشت نہیں ہوتی۔ ہمہ وقت دوسروں کی اصلاح و تربیت ان کے پیش نظر رہتی ہے اور نہایت تجزیاتی ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔
مثبت توانائی : سنبلہ افراد تحفظ ، شخصی صفائی ستھرائی، روز مرہ کا معمول ، وفاداری ، آزردگی کی کیفیت میں دل جوئی، مساوات ، رومانس کا لطیف اظہار، اپنے آپ کو وقف کردینا ، متحرک رہنا، کاملیت ، جزیات پر توجہ دینا، خیال آفرینی، ملازمت اور دستور و قواعد پسند کرتے ہیں۔
منفی توانائی : اپنی مدد آپ ، حاسد، خائف، بے اعتباری، اتنے باریک بیں کہ بڑے مسائل نظر نہیں آتے، اپنے عقیدے سے باہر ہر شے میں کیڑے نکالنا، صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کے اصولوں کے معاملے میں حد سے زیادہ محتاط اور وہمی ۔
پسندیدگی: یہ لوگ کاموں کو انتہائی درست انداز میں کرنا اور کرانا پسند کرتے ہیں، انھیں وقت ، ڈیوٹی اور اصول وقواعد پر کاربند رہنے والے ، زیادہ کام کرنے والے ، مہذب، سلیقہ مند، اپنے سے زیادہ مضبوط پوزیشن کے لوگ پسند ہوتے ہیں۔
ناپسندیدگی: یہ لوگ سستی ، بے ہودگی ، محبت کا کھلم کھلا اظہار ، شخصی بدسلیقگی، گندگی، منافقت، کمزوری، گلہ شکوہ، کاہلی ، نئے تعلقات قائم کرنا اور کام سے فارغ کردیا جانا برداشت نہیں کرسکتے۔
زائچے میں مثبت اور منفی خصوصیات میں کمی بیشی کا انحصار ، طالع پیدائش یا لگن کے حاکم سیارے کی اچھی یا بری پوزیشن پر ہے۔ برج سنبلہ کا حاکم سیارہ عطارد زائچے میں اگرچہ غروب ہے لیکن اپنے ذاتی گھر میں شرف یاب ہے ، کیندر میں ہے لیکن نوامس چارٹ میں ہبوط زدہ ہے، گویا مثبت اور منفی خصوصیات کا توازن برقرار ہے۔سونے پر سہاگا عطارد پر راہو کی پانچویں گھر سے نظر ہے۔ راہو کو مکروفریب ، قانون سے ماورا اور سیاست کا نمائندہ کہا جاتا ہے، یہ راہو کی مکمل اور بھرپور نظر ہی کا فیضان تھا کہ صاحب زائچہ سیاست کی طرف متوجہ ہوئے اور پھر پاکستان کی سیاست میں پہلی بار ایسے نعرے سامنے آئے جو اس سے پہلے کسی نے نہیں سنے تھے ۔ مثلاً مشہور شعر
ستم کروگے ستم کریں گے،کرم کروگے کرم کریں گے
ہم آدمی ہیں تمھارے جیسے،جوتم کروگے وہ ہم کریں گے
زائچے میں برج سنبلہ کے 28 درجے طلوع ہیں لہٰذا قمری منزل چترا ہے۔واضح رہے کہ پاکستان کے ایک اور شہرہ آفاق سیاست داں جناب نواز شریف کا طالع پیدائش بھی ہماری نظر میں برج سنبلہ ہے اور قمر بھی برج سنبلہ ہی میں ہے جب کہ قمری منزل بھی چترا ہے۔
چاند کی اس منزل میں اگر لگن کے درجات ہوں تو ایسے افراد کے اندر ایک مضبوط انا جنم لیتی ہے۔ یہ کئی طرح کے کاموں میں مصروف نظر آتے ہیں، دولت مند ہوتے ہیں اور اکثر اپنی جائے پیدائش سے دور رہتے ہیں، رنگ برنگ کے کپڑے اور زیورات پہنتے ہیں ، جرات اظہار اور دلکشی نمایاں ہوتی ہے، روحانی آزادی کی خواہش اور ایمان داری بھی ان کی خصوصیت ہے، جنس مخالف کو پسند کرتے ہیں، نکتہ چیں ہوتے ہیں اور کسی بدمعاشی میں بھی ملوث ہوسکتے ہیں کیوں کہ چترا کا حاکم سیارہ مریخ ہے ، یہ نچھتر اپنی فطرت میں آسیبی ہے۔
جیسا کہ پہلے نشان دہی کی گئی ہے کہ پنچم مہا پرش یوگ (ویدک علم نجوم میں غیر معمولی افراد کے زائچوں میں پانچ یوگ بہت مشہور ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ یوگ کسی خاص سمت میں غیر معمولی صلاحیت کا باعث بنتے ہیں جن کی وجہ سے ایسے لوگ مشہور اور توجہ طلب بن جاتے ہیں، اول بھدریوگ ، دوم ، ملاوی یوگ ، سوم رچاک یوگ ، چہارم ہمس یوگ ، پنجم ساس یوگ۔ یہ پانچوں یوگ پانچ سیارگان سے ترتیب پاتے ہیں ، عطارد ، زہرہ ، مریخ ، مشتری اور زحل ۔
بھدر یوگ زائچے میں غیر معمولی جلوے بکھیر رہا ہے ، خصوصاً راہو کی نظر نے اسے دوآتشہ کردیا ہے ۔ صاحب زائچہ ذہین و فطین ، دولت مند، متاثر کن مقرر اور سیاسی میدان میں اپنے مخصوص نظریات اور طریقہ کار کے لیے مشہور ہوئے لیکن زائچے کی دیگر آراستگی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، خصوصاً زائچے میں شمس ، مریخ اور زحل کی پوزیشن توجہ طلب ہے۔سیارہ شمس زائچے کے بارھویں گھر کا حاکم ہے اور پہلے گھر میں قابض ہے، قمر سے دسویں گھر میں ہے، شمس سے زحل پانچویں چھٹے کا حاکم ہوکر دوسرے گھر میں ہے جب کہ شمس سے مریخ تیسرے اور آٹھویں کا مالک ہوکر بارھویں گھر میں ہے۔یہ ساری صورت حال منفی رویوں اور خصوصیات کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ سخت و کرخت زبانی ، حلقہ ءاحباب میں منفی و مثبت ہر طرح کے لوگ اور خصوصاً نچلے درجے کے افراد کی اکثریت، شاہانہ مزاجی وغیرہ۔
فطری خصوصیات
کہتے ہیں انسانی فطرت نہایت عجیب ہے جو کبھی نہیں بدلتی، ہم زائچے میں فطری خصوصیات اور رجحانات کو سیارہ قمر سے دیکھتے ہیں، قمر کس برج میں ہے اور کس منزل میں ، صاحب زائچہ کا قمر برج قوس میں براجمان ہے اور منزل جسے سنسکرت میں نچھتر کہا جاتا ہے، مولا ہے، یہ نہایت ہی اہم منزل ہے ۔ برج قوس کے صفر درجہ سے 13 درجہ 20 دقیقہ تک دراز ہے، اسے شیر کی دم بھی کہا جاتا ہے۔ اس منزل کا حاکم غضب ناک کیتو ہے جو مادہ پرستی کے خاتمے اور روحانیت کے آغاز کی نشان دہی کرتا ہے۔اپنے اوصاف میں مذکر اورنفسانی ہے، اس کی فطرت آسیبی ہے۔ درحقیقت یہی لوگ دنیا میں کسی نئے انقلاب کی یا کسی نئے نظریے اور عقیدے کی بنیاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔مشہور لوگوں میں بہائی مذہب کے پیشوا بہاءاللہ ، دلائی لامہ، ڈاکٹر محمد اقبال، آیت اللہ خمینی، چاند پر پہلا قدم رکھنے والا نیل آرمسٹرونگ، کیپٹن رابرٹ اسکاٹ، سائنس داں تھامس ایلو ایڈیسن ، ناول نگار وکٹر ہیوگو وغیرہ اسی نچھتر میں پیدا ہوئے تھے۔
برج قوس آئین و قانون ، مذہب اور فلسفے کا برج ہے، یہ لوگ اپنے جداگانہ فلسفیانہ رجحان کے مالک ہوتے ہیں۔سچائی پسندی اس برج کا خاصا ہے،اکثر موقع و محل کی نزاکت کو نظرانداز کرتے ہوئے سچ بولتے ہیں اور بعد میں اس کا خمیازہ بھی بھگتے ہیں، قمری منزل مولا میں پیدائش صاحب زائچہ کو مغرور ، انا پرست ، خاصا خوش حال ، پرتعیش عادات کا مالک اور غیر متزلزل ذہن کا حامل بناتی ہے، اس کی تاثیرات روح کو متاثر کرتی ہیں اور روحانی شعور کی بے داری مشاہدے میں آتی ہے، پرکشش شخصیت ، خطابت کا اچھا ہنر ، غیر ممالک میں کامیابی، دولت مندی، دوستوں کو ساتھ فیاضانہ سلوک اور مخیر فطرت نمایاں ہوتی ہے، روحانی مشاورت کے لیے یہ لوگ موزوں ہوتے ہیں لیکن خیال رہے کہ اس نچھتر کی فطرت آسیبی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو بقول غالب اس مصرع کے مطابق زندگی گزارتے ہیں کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے ۔ مزید وسعت کی تلاش میں یہ لوگ کسی سمت بھی جاسکتے ہیں، وہ سمت مثبت بھی ہوسکتی ہے اور منفی بھی، اس کا انحصار زائچے کی ساخت اور سیاروی نشست پر منحصر ہے۔ علامہ اقبال کا طالع پیدائش بھی سنبلہ اور قمری برج قوس جب کہ نچھتر یہی مولا تھا لیکن دونوں کے زائچوں کی آراستگی بہت مختلف ہے۔
زندگی گزارنے کے ان لوگوں کے اپنے ہی اصول ہوتے ہیں اور اس حوالے سے ان کی ہٹ دھرمی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اپنے حق کے لیے لڑنے سے گریز نہیں کرتے ، ایک گہری فلسفیانہ سوچ ہر معاملے میں ان کے پیش نظر رہتی ہے اور زندگی کے ہر معاملے کو نہایت گہری نظر سے دیکھنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ کسی بھی مسئلے کی چھان بین اورتحقیق ان کے لیے لطف اندوز ہونے کا باعث ہوتی ہے، دلیر اور نڈر ہوتے ہیں، خطرات سے کھیلنا جانتے ہیں، کسی مہم جوئی کے دوران میں ان کے جوہر کھلتے ہیں۔
طالع برج سنبلہ ایک سخت اور مشکل زندگی دیتا ہے۔ ان لوگوں کو ابتدا ہی سے سخت حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن یہ حقیقت پسندی اور سخت محنت ، کام ، کام اور صرف کام کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلسل مصروف عمل رہتے ہیں اور بالآخر دنیا میں کوئی مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
بائیس سال کی عمر میں صاحب زائچہ کی زندگی میں بارھویں گھر کے حاکم سیارہ شمس کا دور اکبر شروع ہوا جس کا آغاز ستمبر 1975 سے ہوا اور ستمبر 1981 تک جاری رہا۔ یہ تمام عرصہ زندگی میں خاصی تلخیاں اور اتار چڑھاو لایا لیکن اس کے بعد سیارہ قمر کا دور اکبر شروع ہوا، قمر زائچے کا زیادہ مضبوط اور سعادت اثر سیارہ ہے۔قمر کے دور اکبر میں جب مشتری کا دور اصغر جاری ہوا تو 1986 میں مہاجر قومی موومنٹ ایک نمایاں سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ 1987 میں اس نے بلدیاتی الیکشن میں کامیابی حاصل کی اور 1988 کے انتخابات میں پاکستان کے بڑے بڑے سیاست دانوں کو چونکا دیا، اس طرح عملی سیاست میں مہاجر قومی موومنٹ کی حیثیت مستحکم ہوگئی اور دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ ایم کیو ایم کے بغیر حکومت بناسکے، گویا ایم کیو ایم حکومت بنانے اور حکومت گرانے کے لیے ایک ٹول بن چکی تھی۔
ستمبر 91 ءسے زائچے میں سیارہ مریخ کا دور اکبر شروع ہوا، مریخ زائچے کا سب سے زیادہ فعلی منحوس سیارہ ہے۔1991 میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور پھر جیسے ہی مریخ کے دور اکبر میں راہو کا دور اصغر 1992 میں شروع ہوا تو صاحب زائچہ کو ملک چھوڑنا پڑ گیا، اسی سال ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن بھی ہوا اور اسے انڈرگراو¿نڈ ہونا پڑا۔ ایم کیو ایم کے لیے بہت ہی سخت وقت فروری 1994 سے شروع ہوا جب مریخ کے دور اکبر میں سیارہ زحل کا دور اصغر جاری تھا، سیارہ زحل بھی زائچے کے چھٹے گھر کا حاکم ہونے کی وجہ سے فعلی منحوس سیارہ ہے لہٰذا دو منحوسوں کے دور میں جو کچھ ہوا وہ پورا پاکستان جانتا ہے۔
اگست 1996 سے زہرہ کا دور اصغر کسی حد تک سپورٹنگ رہا جس کے نتیجے میں 97 ءکے الیکشن میں ایک بار پھر ایم کیو ایم ن لیگ کے ساتھ شامل ہوئی لیکن اکتوبر 1997 سے شمس کا دور اصغر شروع ہوا جو بارھویں گھر کا حاکم ہے لہٰذا ایک بار پھر ایم کیو ایم زیر عتاب آگئی۔مریخ کا دور اکبر ستمبر 1998 تک جاری رہا اور اس کے بعد راہو کا طویل دور اکبر شروع ہوا، اس دور میں مشتری کا دور اصغر مئی 2001 سے شروع ہوا تو ایک بار پھر اکتوبر 2002 کے انتخابات میں ایم کیو ایم نے نمایاں پوزیشن حاصل کی اور جنرل پرویز مشرف کو حکومت بنانے کے لیے ان کی ضرورت محسوس ہوئی۔ راہو زائچے کے پانچویں گھر میں ہے لہٰذا راہو کا دور اسی سعد سیارے کے دور اصغر کے ساتھ بہتر نتائج کا باعث رہا اور جنرل مشرف کی نوازشات جاری رہیں، تاوقت یہ کہ خود مشرف صاحب کا خراب دور شروع ہوگیا اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی ایم کیو ایم شریک رہی لیکن اس دوران میں کراچی میں جو کچھ ہوتا رہا وہ یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سن 2013 کے الیکشن میں بھی ایم کیو ایم کامیاب رہی البتہ راہو کے دور اکبر میں جب 8 اگست 2015 کو مریخ کا دور اصغر شروع ہوا تو پارٹی میں اندرونی خلفشار کچھ زیادہ ہی نمایاں ہورہا تھا اور مریخ کے پیریڈ میں اگست 2016 کو ایک تقریرکے نتیجے میں صاحب زائچہ کو پارٹی سے الگ کردیا گیا۔کاش وہ تقریر نہ ہوتی کیوں کہ 11 ستمبر 2016 سے زائچے میں سیارہ مشتری کا دور اکبر شروع ہورہا تھا جو نہایت اہم اور سپورٹنگ تھا ۔ یہ مشتری کے طویل دور ہی کا ثمرہ ہے جو صاحب زائچہ تاحال خیروعافیت سے ہیں، ان پر لندن میں جو کیس تھے ان سے بھی نجات مل گئی ہے اور امکان ہے کہ جولائی2024 کے بعد وہ پاکستان کی سیاست میں دوبارہ فعال ہوسکیں۔