مخصوص حالات اور امراض بھی اعلےٰ درجے کا معمول بنا دیتے ہیں
ماورائیت ایک ایسا موضوع ہے جو کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتا کیوں کہ یہ انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی وجود میں آیا اور جب تک انسان زندہ ہے، یہ موضوع بھی زیر بحث آتا رہے گا۔ انسانی تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتانا ہے کہ زمانہ قبل از تاریخ کے انسان کو بھی کچھ ان دیکھی نامعلوم قوتوں کا احساس تھا اور وہ ان کا وجود اپنے ارد گرد محسوس کرتے تھے۔ شاید یہی سبب ہے کہ ہر زمانے میں اس احساس نے انسان کو نادیدہ ماورائی چیزوں کے بارے میں جاننے پر اکسایا لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ہر زمانے میں اور ہر قوم میں بعض متجسس اور بے خوف لوگوں نے ان چیزوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی جو انسانی ظاہری حواس سے ماورا ہیں اور جنہیں صرف محسوس کیا جا سکتا ہے لیکن احساسات کی سطح پر ان چیزوں کا ادراک بھی کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ کروڑوں اربوں افراد میں سے وہ لوگ الگ ہی ہوتے ہیں جو ہمارے ارد گرد موجود نادیدہ دنیا کو محسوس کر سکتے ہیں، اسے دیکھ سکتے، ان کی باتیں سن سکتے ہیں، ان سے راہ و رسم پیدا کر سکتے وغیرہ وغیرہ۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہم نے پیراسائیکلوجی کے حوالے سے کچھ مضامین لکھے تھے جس میں ایسے ہی لوگوں کو موضوع بنایا گیا تھا جنہیں انگریزی زبان میں سائیکک کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ میڈیم شپ کی عمدہ صلاحیت رکھتے ہیں یعنی اعلیٰ درجے کے معمول ہوتے ہیں۔ اس بات کو ہم دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان لوگوں میں اثر پذیری یا متاثر ہونے کی اہلیت موجود ہوتی ہے۔
ہماری تحقیق اور تجربہ کا نچوڑ یہ ہے کہ ایسے افراد کو ہم دو گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں اول وہ ہیں جو پیدائشی طور پر اعلیٰ درجے کی میڈیم شپ کی استعداد رکھتے ہیں اور دوسرے درجے پر وہ لوگ آتے ہیں جو پیدائشی طور پر اگرچہ اعلیٰ درجے کے معمول نہیں ہوتے مگر مخصوص حالات اور مخصوص بیماریاں انہیں ایسا بنا دیتی ہیں یعنی وہ حالات و امراض کا شکار ہو کر اس قدر حساس ہو چکے ہوتے ہیں کہ ان میں میڈیم شپ کی صلاحیت نمایاں ہو جاتی ہے۔ آیئے ایک خط کا مطالعہ کیجئے۔ یہ ایک ایسے ہی نوجوان کا ماجرا ہے جس کی میڈیم شپ کی صلاحیت نہ صرف یہ کہ حالات و واقعات کی وجہ سے ابھر آئی بلکہ کسی حد تک وہ پیدائشی طور پر بھی ایک اچھا معمول ہے لیکن چونکہ تعلیم کی کمی اور معقول رہنمائی نہ ہونے کے سبب غفلت کا شکار رہا لہٰذا خود کو سنبھال نہ سکا۔ وہ لکھتے ہیں۔
’’پہلے آپ کو ایک خط لکھا تھا مگر آپ نے جواب نہیں دیا۔ اب پھر آپ کو خط لکھ رہا ہوں، امید ہے آپ جواب ضرور دیں گے۔ میرے کچھ سوال ہیں آپ میرا زائچہ دیکھ کر ان کا جواب دیں۔ میں یہاں جاب کرتا ہوں لیکن اپنا کاروبار کرتے ہوئے ڈر محسوس ہوتا ہے۔ میں بیمار بھی رہتا ہوں۔ میرا پہلا آپریشن ناکام ہو گیا دوسرا الحمد اﷲ کامیاب ہو گیا۔ اب بہت کمزور ہو گیا ہوں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ بچپن سے میرے ساتھ ایک مسئلہ ہے وہ یہ کہ مجھے خوف بہت محسوس ہوتا ہے اور وہ خوف اس طرح کا ہے مثلاً اگر میں تنہا سو جاؤں تو میرے اوپر کوئی چیز سوار ہو جاتی ہے۔ میرا جسم اس کے قابو میں ہو جاتا ہے۔ سانس گھٹنے لگتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مجھے لوگوں سے بات کرتے ہوئے گھبراہٹ ہوتی ہے خاص طور پر میں عورتوں سے بات کرتے ہوئے شرماتا ہوں اور کبھی کبھی گھبراتا بھی ہوں۔ اگر کوئی بڑا مجمع دیکھ لوں تو گھبراہٹ ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک عجیب بات میرے اندر موجود ہے جو کہ مجھے سوچ میں ڈال دیتی ہے وہ یہ کہ میں اگر پرسکون ہو کر کہیں لیٹ جاؤں یا بیٹھ جاؤں تو تھوڑی دیر بعد 30، 40 گز کے فاصلے پر بھی اگر تنکہ بھی ہلے تو مجھے اس کی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔ یہ کیا معاملہ ہے مجھے کچھ نہیں معلوم۔
ہمارے کچھ رشتہ دار انڈیا میں رہتے ہیں جب میں وہاں گیا تو ایک رات تقریباً بارہ ایک بجے کے قریب میں ایک مندر کے پاس سے گزرا تو مجھے آواز آئی جیسے کوئی مجھ سے کہہ رہا تھا کہ یہاں سے چلا جا۔ وہ جگہ سنسان تھی مگر میں رک کر یہ دیکھنے کی کرشش کر رہا تھا کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے پھر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی میری طرف آرہا ہے لیکن وہاں آس پاس کوئی بھی نہیں تھا مگر میں اپنی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کی آہٹ سن رہا تھا لہٰذا مجھ پر خوف طاری ہو گیا۔ میری زبان پر اﷲ کا نام آ گیا میں نے اس کا ورد شروع کر دیا اور گھر کی طرف چل پڑا۔ گھر پہنچنے کے بعد مجھ کو بخار ہو گیا مگر میں نے اس واقعے کا ذکر کسی سے نہیں کیا کیوں کہ مجھے ڈر تھا سب میرا مذاق اڑائیں گے۔ براہ مہربانی آپ مجھے بتائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔ میرا زائچہ دیکھیں، مجھے لگتا ہے کہ جو مجھے کرنا چاہئے وہ میں نہیں کر رہا۔‘‘
جواب: عزیزم! ممکن ہے آپ کا پہلا خط ہم تک پہنچ نہ سکا ہو۔ بہر حال موجودہ خط کا جواب حاضر ہے۔ پہلی بات تو آپ یہ سمجھ لیں آپ پیدائشی طور پر بہت زیادہ نہ سہی لیکن ایک حساس انسان ہیں۔ مزید یہ کہ حالات اور بیماری نے بھی اپنا رنگ دکھایا ہے۔ آپ کے زائچے کے مطابق تقریباً 1994 سے 1999 تک کا عرصہ نہایت ہی خراب اثرات کا حامل نظر آتا ہے۔ اسی دوران آپ انڈیا بھی گئے اور یقیناً اس عرصے میں بلکہ اس سے کچھ پہلے سے ہی آپ نے اپنے کیریئر کے معاملات میں اپنی مرضی سے یا حالات کی مجبوری کے تحت کچھ غلط فیصلے کئے ہوں گے جن کے نتیجے میں آپ کی تعلیم بھی ادھوری رہی اور کیریئر بھی کوئی معقول رخ اختیار نہ کر سکا اور آج آپ کو معمولی نوعیت کی محنت مزدوری پر گزارا کرنا پڑ رہا ہے۔ بہر حال آب بھی کچھ نہیں بگڑا اگر آپ محنت اور لگن سے کام کرتے رہیں، اپنی صحت کا خیال رکھیں، علاج معالجے پر غفلت نہ برتیں تو زیادہ سے زیادہ چار پانچ سال کی جدوجہد آپ کو مضبوط معاشی بنیادوں پر ہمکنار کر سکتی ہے۔ اگر کوئی ذاتی کام کرنا چاہتے ہیں، چھوٹے پیمانے پر شروع کر دیں اور مستقل مزاجی سے اسے جاری رکھیں۔ زیادہ سے زیادہ سال بھر میں آپ کامیابی اور خوشحالی کے راستے پر چلنے کے قابل ہو جائیں گے۔ آپ کے اندر صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے۔ آپ محنتی بھی ہیں مگر آپ کی ایک خرابی یا خامی یہ ہے کہ آپ ہر معاملے میں کوئی ایسی جدت پسندی یا علیحدہ نوعیت کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں ’’مس فٹ‘‘ نظر آتے ہیں۔ آپ کی اس خامی کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی آپ کا ساتھ زیادہ عرصے نہیں دے پاتے۔ بہترین بات یہ ہو گی کہ دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا سیکھیں اور جب تک خود کوئی مضبوط پوزیشن کیریئر کے حوالے سے حاصل نہ کر لیں اپنی فطری جدت پسندی اور الگ تھلگ قسم کے نئے انداز اختیار کرنے سے گریز کریں۔
آپ کا دوسرا اور نہایت اہم مسئلہ بڑھتی ہوئی حساسیت سے متعلق ہے۔ مختصر طور پر یوں سمجھ لیں آپ بہترین ارتکاز توجہ (Concerntation Power) کی قوت رکھتے ہیں لہٰذا جب بھی پرسکون ماحول میں تنہا ہوتے ہیں اور اپنے خیال کی رو کو کسی ایک پوائنٹ پر مرتکز کرتے ہیں تو آپ کے باطنی حواس با آسانی بیدار ہو جاتے ہیں ان کی بیداری کی بدولت آپ خاصی دور تک کی آواز سن لیتے ہیں اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اپنے ارد گرد موجود ماورائی ماحول سے بھی رابطے میں آ جاتے ہیں اور اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ آپ کے لئے اس لئے پریشان کن اور خوف زدہ کرنے والا ہوتا ہے کہ آپ اس سے نمٹنے کے طریقے نہیں جانتے۔ ایسی صورت میں یہ ممکن ہے کہ کوئی ماورائی نایدہ وجود آپ پر قابو پالے اور آپ کو اپنا آلہ کار بنانے کی کوشش کرے۔ اس سے بچنے کی آسان ترین ترکیب یہی ہے کہ ایسی صورت میں اپنی انا کو ابھاریں اور اپنے ذہن کو فوری طور پر اپنے اصلی مالک حقیقی کی مدد و استعانت کی طرف لگا دیں۔ مثلاً تعوذ یعنی اعوذ باﷲ من الشیطنٰ الرجیم اور لاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم کا ورد شروع کر دیں۔ اپنی انا کو ابھارنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ بحیثیت انسان کائنات کی سب سے اول مخلوق ہیں باقی دیگر تمام مخلوقات آپ سے کم تر ہیں۔ آپ کو اس بات پر غصہ اور طیش آجانا چاہئے کہ کوئی بھی نادیدہ وجود آپ کی خلوت میں آ کر آپ پر غلبہ پانے کی کوشش کر رہا ہے جب غصے اور طیش کی لہر آپ کے باطن میں پیدا ہو گی اس وقت آپ کا جسم ایسی مخصوص لہریں خارج کر رہا ہو گا جو کسی بھی اجنبی نادیدہ مخلوق کے لئے تازیانہ ثابت ہو گی۔ ساتھ ہی زبان سے آپ اﷲ سے مدد مانگ رہے ہوں گے لہٰذا فوراً ہی اس کیفیت سے نجات مل جائے گی جس کا آپ شکار ہوئے ہوں گے۔
اس فوری نوعیت کی احتیاطی تدبیر کے علاوہ آپ کو چاہئے ہمیشہ پاک صاف رہا کریں، بستر پر لیٹنے سے پہلے چاروں قل، آیت الکرسی وغیرہ پڑھ لیں اور اپنے خیال کو اس طرح کی سوچوں سے پاک کر دیں جب تک نیند نہیں آتی سورۃ فلق اور سورۃ ناس پڑھتے رہا کریں دوسری بات یہ کہ اپنی روز مرہ کی خوراک میں نمک کی مقدار کم کریں۔ شہد اور پھل وغیرہ کا استعمال مستقل رکھیں، انشاء اﷲ اس مسئلے سے نجات مل جائے گی۔