ستمبر کی فلکیاتی صورت حال، بد سے بدتر ہوتے حالات
یہ کہتے ہوئے بھی شرمندگی ہونے لگی ہے کہ پاکستان نہایت نازک موڑ سے گزر رہا ہے کیوں کہ برسوں سے یہی جملہ سنتے آرہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے حالات و واقعات ماضی میں کبھی نہیں دیکھے جیسے آج کل نظر آرہے ہیں۔ ملک میں ایک عبوری نگراں حکومت ہے، سیاسی جماعتیں رخصت ہوچکی ہیں۔ ایک سیاسی جماعت عتاب کا شکار ہے، اس کی اعلیٰ و ادنیٰ قیادت جیلوں میں ہے اور مقدمات کا سامنا کر رہی ہے۔ اصولاً نومبر میں عام انتخابات ہونا چاہئیں لیکن الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیوں میں مصروف ہے اور الیکشن میں تاخیر کا امکان ظاہر کر رہا ہے۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی مقررہ وقت پر انتخابات چاہتی ہے لیکن انتخابات سے پہلے احتساب کا نعرہ بھی گونج رہا ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوچکا ہے جس کے نتائج اچھے نہیں نکلے تھے۔
وہ کون سے فلکیاتی عوامل ہیں جو ملک کو انتہائی نازک موڑ پر لے آئے ہیں؟ وقتاً فوقتاً گزشتہ سال سے ہی ہم اس کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ 2022 سے موجودہ سال کے آخر تک جاری سیاروی گردش نہایت عجیب اور موثر ترین ثابت ہوئی ہے اور پاکستان کے نئے زائچے کی تصدیق کرتی ہے جو ہماری تحقیق کے مطابق درست ہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ 1947ء سے آج تک پاکستان کے اکثر زائچے غلط ثابت ہوئے ہیں، بعض کم فہم آج بھی 14 اگست 1947 شب 12 بجے کے مطابق زائچہ بناتے اور اس کے مطابق گفتگو کرتے نظر آتے ہیں جو بالکل غلط ہے۔ پاکستان کا قیام 14 نہیں 15 اگست کو ہوا تھا، اس کے مطابق پاکستان کا جو بھی زائچہ تھا وہ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد ختم ہوگیا، بالکل اسی طرح جیسے تقسیم ہندوستان کے وقت دو ملک بھارت اور پاکستان وجود میں آئے تھے اور دونوں کے الگ الگ زائچے تھے، اسی طرح پاکستان کی تقسیم کے بعد بھی دو ملک پاکستان اور بنگلادیش وجود میں آئے اور دونوں کے نئے زائچے بھی تشکیل پائے۔ ہمارے بڑے بڑے کہنہ مشق منجمین نامعلوم کیوں اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے جب کہ دنیا بھر میں یہ اصول مسلم الثبوت ہے۔ جب سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا جو دنیا کے تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی تو اس کے نتیجے میں کئی نئے ملک وجود میں آئے اور ان کے نئے زائچے تشکیل پائے۔ اسی کے مطابق ترکی کا بھی نیا زائچہ وجود میں آیا، سویت یونین، ایران، مصر، چین، انڈونیشیا، ملائشیا وغیرہ کے نئے زائچے بھی اسی بنیاد پر اور اسی اصول کے تحت تبدیل ہوئے۔ پاکستان کا نیا زائچہ ہمارے نزدیک 20 دسمبر 1971ء کے مطابق درست ہے کیوں کہ اسی تاریخ کو ٹرانسفر آف پاور کے بعد ایک نیا پاکستان وجود میں آیا جس کے سربراہ جناب ذوالفقار علی بھٹو مقرر ہوئے اور پاکستان کا ایک نیا آئین ان کی سربراہی میں بنایا گیا جو 14 اگست 1973ء کو نافذ ہوا اور آج تک ہم اسی آئین کو تسلیم کرتے آرہے ہیں۔
نئے زائچہ پاکستان کے مطابق طالع برج ثور تقریباً دو ڈگری ہے، گویا زائچے کا ہر گھر دو ڈگری سے شروع ہوتا ہے، گزشتہ ایک سال سے سیارہ پلوٹو زائچے کے نویں گھر میں ابتدائی درجات پر ہے۔ نویں گھر میں پیدائشی زہرہ دو درجہ اور قمر پانچ درجہ موجود ہیں۔ زہرہ چھٹے گھر کا حاکم اور پہلے گھر کا حاکم ہے جب کہ قمر زائچے کے تیسرے گھر کا حاکم ہے۔ گزشتہ ایک سال سے پلوٹو ان دونوں سیارگان سے نویں گھر میں قریبی قران کی حالت میں ہے۔ پلوٹو کایا پلٹ سیارہ ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ گزشتہ سال سے تحریک عدم اعتماد کے بعد سے جو صورت حال پیدا ہوئی وہ پورے ملک کی کایا پلٹ کرگئی، یہاں تک کہ ملک ڈیفالٹ کے دہانے تک پہنچ گیا۔ اس وقت بھی پلوٹو بحالت رجعت 4 درجہ برج جدی میں رہتے ہوئے پیدائشی قمر اور زہرہ سے قریبی قران میں ہے اور یہ قران اس سال کے آخر تک ایسے ہی جاری رہے گا اس کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر پاکستان کے مقتدر حلقے اور بیوروکریسی ہوئے ہیں اور مزید ہوں گے۔
دوسرے نمبر پر سیارہ نیپچون زائچے کے گیارھویں گھر میں اس سال داخل ہوا اور ابتدائی درجات پر پورا سال حرکت کر رہا ہے۔ گیارھویں گھر میں پیدائشی زائچے کا سیارہ مریخ ابتدائی درجات پر موجود ہے گویا زائچے کے بارھویں اور ساتویں گھر کا حاکم مریخ ٹرانزٹ کرتے ہوئے نیپچون سے حالت قران میں ہے، یہ سلسلہ بھی تاحال بدستور جاری ہے۔ نیپچون دھوکا اور فریب، پراسراریت اور ایسے حالات و واقعات لاتا ہے جنھیں سمجھنا فوری طور پر ممکن نہیں ہوتا۔ گویا جو کچھ نظر آرہا ہوتا ہے اس کا پس منظر حقیقتاً کچھ اور ہوتا ہے، ہماری آنکھیں دھوکا کھارہی ہوتی ہیں اور سماعت بھی پرفریب ہوتی ہے کیوں کہ سیارہ مریخ کا تعلق بارھویں گھر سے ہے اور وہ زائچے کا فعلی منحوس سیارہ ہے۔ فطری طور پر اس کا تعلق فوج، پولیس اور خفیہ اداروں سے ہے، ساتھ ہی غیر ملکی مداخلت سے بھی ہے لہٰذا ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے تمام دانش ور اور تجزیہ نگار بھی جو کچھ ہو رہا ہے اس کی حقیقت سے پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ یہ الیکشن کا سال تھا لیکن کوئی نہیں بتا سکتا کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں ہوں گے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد بھی الیکشن نہیں ہوسکے، اس سال 15 جنوری سے دونوں صوبوں میں نگراں حکومتیں کام کر رہی ہیں جو آئین پاکستان کے خلاف ہے۔ اب وفاق، سندھ اور بلوچستان میں بھی نگراں حکومتیں قائم ہوچکی ہیں لیکن آئین کے مطابق 90 دن میں انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے۔
موجودہ سال پاکستانی آئین کا پچاسواں سال ہے اور اس سال آئین کی پچاسویں سالگرہ منائی گئی لیکن افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ اسی سال میں نہ صرف یہ کہ آئین شکنی کورواج دیا گیا بلکہ پارلیمنٹ میں ایسی قانون سازیاں بھی کی گئیں جو آئینی ماہرین کے نزدیک متنازع ہیں، یہ صورت حال بھی پلوٹو کے اثرات کا شاخسانہ ہے۔
زائچہ پاکستان میں تقریباً سال 2008ء سے زائچے کے سب سے زیادہ منحوس سیارہ مشتری کا دور اکبر جاری ہے جو آئندہ سال دسمبر تک جاری رہے گا۔ اس میں دور اصغر سیارہ راہو کا جولائی 2022ء سے شروع ہوا اور دسمبر 2024ء تک جاری رہے گا۔ اسی دور میں اس سال سیارہ مشتری اور راہو حالت قران میں رہے جسے گرو چنڈال یوگ کہا جاتا ہے۔ اس صورت حال میں 9 مئی جیسے حادثات و سانحات دیکھنے میں آئے اور بھی بہت کچھ ہوا جو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
عزیزان من! ستمبر کا آغاز ہورہا ہے، ملک میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، ملک میں نگراں حکومتیں قائم ہیں۔ ڈالر آسمان سے باتیں کر رہا ہے اور عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ بجلی کے بلوں نے ان کی چیخیں نکلوادی ہیں اور وہ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اس جلتی پر راہو کیتو کی پوزیشن تیل ڈال رہی ہے۔ راہو کیتو بھی زائچے میں ابتدائی درجات پر ہیں گویا زائچے کے دوسرے گھر (معاشیات) چوتھے گھر (عوام اور اپوزیشن) چھٹے گھر (سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے فیصلے ) آٹھویں گھر (خانہء حادثات و سانحات) دسویں گھر (حکومت اور کابینہ) بارھویں گھر (خفیہ معاملات اور بیرونی مداخلت) کو متاثر کر رہے ہیں۔ اسی مہینے میں راہو اور کیتو اسٹیشنری ہوں گے اور ان کی یہ پوزیشن نومبر تک ایسے ہی رہے گی چناں چہ مندرجہ بالا زائچے کے گھروں کو بری طرح متاثر کریں گے۔ یہ صورت حال نہایت تشویش ناک ہے گویا آئندہ نومبر تک جو کچھ نہ ہوجائے، کم ہے۔
ستمبر میں چیف جسٹس آف پاکستان ریٹائر ہورہے ہیں اور ان کی جگہ نئے چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ مقرر ہوچکے ہیں۔ صدر مملکت جناب عارف علوی کی مدت بھی ستمبر میں پوری ہوجائے گی لیکن نئے صدر کا انتخاب بھی مسئلہ بنے گا۔ عدالتوں میں سیاسی اور غیر سیاسی مقدمات کی بھرمار ہے، عدالتیں اپنی ساکھ کھو چکی ہیں، ان کے فیصلوں کو ہوا میں اڑادیا گیا اور آئندہ بھی ایسا ہوسکتا ہے۔
ملک کے حالات اور فلکیاتی صورت حال دیکھتے ہوئے مولانا حالی کی شہرہ آفاق مسدس کا یہ شعر یاد آرہا ہے:
اے خاصہء خاصان رسل، وقت دعا ہے
امت پہ تِری آکے عجب وقت پڑا ہے
ستمبر کی سیاروی گردش
سیارہ شمس اپنے ذاتی برج اسد میں ہے، 17 ستمبر کو برج سنبلہ میں داخل ہوگا۔ سیارہ عطارد بھی بحالت رجعت برج اسد میں حرکت کر رہا ہے، 16 ستمبر کو مستقیم ہوگا اور یکم اکتوبر کو اپنے شرف کے برج سنبلہ میں داخل ہوگا۔ سیارہ زہرہ بحالت رجعت برج سرطان میں حرکت کر رہا ہے، 4 ستمبر کو مستقیم ہوگا اور پورا مہینہ برج سرطان ہی میں رہے گا۔ سیارہ مریخ برج سنبلہ میں حرکت کر رہا ہے جب کہ سیارہ مشتری بحالت رجعت برج حمل میں ہے اور اسی برج میں پورا مہینہ رہے گا۔ سیارہ زحل بحالت رجعت برج دلو میں، نیپچون بحالت رجعت برج حوت میں، سیارہ یورینس بحالت رجعت برج حمل میں اور پلوٹو بحالت رجعت برج جدی میں پورا مہینہ رہیں گے۔ راس و ذنب بالترتیب برج حمل اور میزان میں حرکت کریں گے۔
شرفِ قمر
قمر اپنے شرف کے برج میں 5 ستمبر کو داخل ہوگا جب کہ شرف قمر اور درجہء شرف پر شام 6 بجکر 6 منٹ سے 7 بجکر 55 منٹ تک رہے گا۔ یہ سعد وقت ہے، اس وقت ضروری اعمال و وظائف کیے جاسکتے ہیں۔ خصوصاً اسمائے الٰہی یا رحمن یا رحیم 556 مرتبہ پڑھ کر اپنے جائز مقاصد کے لیے دعا کریں، ان شاءاللہ کامیابی ہوگی۔
قمر در عقرب
قمر اپنے برج ہبوط میں 20 ستمبر کو داخل ہوگا اور ہبوط کے درجات پر 11 بجکر 56 منٹ سے 1 بجکر 49 منٹ تک رہے گا۔ یہ انتہائی نحس وقت ہے، اس دوران میں اہم کام نہ کریں۔ البتہ علاج معالجہ کرانا اس وقت میں بہتر ہوتا ہے، اس کے علاوہ بری عادتوں سے نجات کے لیے بھی اعمال و وظائف کیے جاسکتے ہیں۔