جادو کے موضوع پر اب تک جو گفتگو ہوچکی ہے، اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ سحر یا جادو ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعے حیرت انگیز اور عجیب اعمال امدادِ الٰہی کے بغیر ظہور پذیر ہوتے ہیں، یہی اعمال اگر اللہ کی رضا اور امداد کے ذریعے انجام پائیں تو ہر گز جادو نہیں کہلائیں گے، چناں چہ اعمالِ قرآنی و اسمائے الٰہی کے واسطے سے جو افعالِ عجیبہ یا کرامات و کرشمات ظہور پذیر ہوتے ہیں انہیں سحر یا جادو قرار نہیں دیا جاسکتا، خواہ ان کا کوئی بھی مادّی سبب موجود نہ ہو، مسلم صوفیہ اور علماء اسی لیے ایسے اعمال کو سحرو جادو قرار دیتے ہیں جن میں جنات و شیاطین یا ارواحِ خبیثہ کی کارفرمائی موجود ہو تو لازمی طور پر شرک اور کفر کا پہلو بھی موجود ہوگا لیکن اگر مادّی اشیاء کے ہنر مندانہ اور سائنسی استعمال کے نتیجے میں حیرت انگیز اور عجیب نتائج سامنے آئیں تو انہیں سحرو جادو یا شرک و کفر کی صف میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
حقیقت یہی ہے کہ قرآنِ حکیم اور کتبِ حدیث میں بھی ایسے ہی اعمال و افعال کو جادو قرار دیا گیا ہے جن میں جنات و شیاطین کی کارفرمائی ہوتی ہے، اس طرح یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ دیگر مادّی و کائناتی اسباب کے ذریعے اگر حیرت انگیز و عجیب نتائج حاصل کیے جائیں تو اُس پر شریعت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا،بالکل اسی طرح جیسے کسی مریض کی جان بچانے کے لیے معالج شرک اور کُفر سے بچ کر جو طریقے بھی اختیار کرتا ہے ، وہ جائز قرار پائیں گے، اس سلسلے میں مسلم صوفیا کا مؤقف تو واضح ہے البتہ علماء کے مختلف طبقات میں کچھ اختلاف ہوسکتا ہے۔ہم صوفیا کے اقوال و افعال کی پیروی کے قائل ہیں کیوں کہ انسانی روح کے مسائل کو علماء کی بہ نسبت صوفیا نے زیادہ بہتر طور پر سمجھا ہے اور انسانی نفسیات کے پیچیدہ مسائل کی تشریح بھی صوفیا نے ہی زیادہ حقیقت پسندانہ انداز میں کی ہے۔
جادو کے مسائل کو سمجھنے اور سمجھانے کے سلسلے میں ہم ابتدا ہی سے انسان اور انسانیت کے معاملات پر زور دے رہے ہیں، آیئے اسی حوالے سے مزید بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
عناصر کے درمیان باہمی ربط
اب ایک اور نکتے کی وضاحت ضروری ہے اور اگر آپ نے اسے سمجھ لیا تو پھر سارا مسئلہ نہایت آسان ہوجائے گا، یاد رکھیے عالمِ محسوسات و اجسام میں پائے جانے والے تمام عناصرایک دوسرے سے نہایت لطیف رابطہ رکھتے ہیں، ہر عنصر اپنے ما قبل و ما بعد میں بدل جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اوپر والا یا بالائی عنصر ماتحت عنصر سے لطیف تر ہوتا ہے، حتیٰ کہ دنیائے افلاک جو تمام عناصر سے اوپر ہے، ان سے زیادہ لطیف تر ہے۔
تخلیقی درجہ بندی میں بعض علماء کے نزدیک ابتدا دھاتوں سے ہوتی ہے پھر نباتات کی تخلیق کا درجہ ہے اور پھر حیوانات کا، یہ تمام مظاہر ایک عجیب ربط اور نادر تدریجی ہیّت سے ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں،مثلاً معدنیات کا آخری کنارہ نباتات کے اول کنارے سے ملا ہوا ہے جیسے گھاس وغیرہ اور بلا تخم اگنے والے نباتات کے آخری کنارے جیسے کھجور و انگور اور حیوانات وغیرہ کے اول کنارے سے متصل ہیں مثلاً گھونگھے اور سیپ وغیرہ کہ ان میں بجز قوتِ لمس و احساس جانداروں جیسے ترقی یافتہ افعال نہیں پائے جاتے، ان تمام عناصر و مخلوقات میں پائے جانے والے نقطہ ء اتصال کا مطلب ہے کہ ان کا آخری کنارہ اپنے مابعد کے اول کنارے میں بدل جانے کی صلاحیت بہر حال رکھتا ہے،انسان اس تمام تخلیقی چکر کا نقطہء کمال ہے، مگر انسان تو صاحبِ فکروادراک اور غورو فکر ہے،انسان میں حس وادراک دونوں جمع ہیں جب کہ اونچے درجے کے حیوانات بھی اس صلاحیت سے محروم ہیں،انسانی ذات میں موجود ’’احساس نفس‘‘ اور اس نفس کے ذریعے پائے جانے والے یا رونما ہونے والے مظاہر اتنے نادر اور پیچیدہ ہوتے ہیں کہ ان کا تعلق کسی ایسی دنیا سے لگتا ہے جو انسان کے بھی اوپر ہے۔
انسان کے بھی اوپر ہونے سے مراد یہ ہے کہ یہ کائنات انسان کے حواسِ خمسہ کے حد وادراک سے باہر ہے۔
سحرِ حرام و حلال
پیرا سائیکولوجی کے نقطۂ نظر سے یا دوسرے معنوں میں صوفیا کی تشریحات کے مطابق تمام کائنات نور کی لہروں یا روشنی کے اخلاط سے وجود میں آئی ہے، حتیٰ کہ مادّہ بھی روشنی ہی کی کثیف شکل کا نام ہے، اب تو جدید سائنس بھی اس حد تک رسائی پاچکی ہے کہ مادّے کو نور میں بدلتا ہوا دیکھ سکے۔’’نیوٹرون‘‘ کیا ہیں؟ اسی حقیقت کے آئینہ دار ذرات ہیں،مادّے کی وہ آخری شکل ہیں یا وہ آخری کنارہ ہے جہاں مادّہ روشنی میں تحلیل ہوجاتا ہے،ایسے لوگ جو مسلسل روحانی مشقوں اور ارتکازی طریقوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں ان میں یہ صلاحیت بے دار ہوجاتی ہے کہ وہ روشنی کی لہروں میں تصرف کرسکیں اور ان میں ردوبدل کے ذریعے تعمیرو تخریب کا عمل انجام دے سکیں،اسی کلّیے کے تحت ایک اوریجنل جادو گر بھی ارتکازی قوتوں کے ذریعے تخریب کا کام انجام دے سکتا ہے، جب کہ ایک اللہ کا ولی بھی اسی کلیے کے تحت تعمیر کا کام خدا کی رضا کے مطابق انجام دیتا ہے، یہی نکتہ سحرِ حلال اور سحرِ حرام کے درمیان فرق کرتا ہے۔
یہاں ایک بزرگ کا واقعہ یاد آرہا ہے جس کے راوی ہمارے عزیزازجان مرحوم دوست خان آصف ہیں جن کا تعلق ہندوستان کی ریاست رام پور سے تھا، بقول خان صاحب ایک بار شدید قحط پڑا اور بارش نہیں ہوئی تو ریاست کے کچھ معزز افراد ایک بزرگ کے پاس گئے جو عام لوگوں سے الگ تھلگ رہا کرتے تھے، ان کی کیفیات کسی حد تک مجذوبانہ تھیں،معززین نے درخواست کی کہ حضرت! بارش کے لیے دعا فرمایئے تاکہ قحط سالی سے نجات ملے، بزرگ نے فرمایا ’’ آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ میرا تو اللہ میاں سے جھگڑا چل رہا ہے، میں جو دعا بھی کرتا ہوں وہ اُس کے الٹ کام کرتا ہے،اگر میں نے بارش کے لیے دعا کی تو قحط اور شدید ہوجائے گا لہٰذا آپ لوگ مجھے معاف رکھیں اور کسی دوسرے سے دعا کرائیں‘‘
لوگ بڑے حیران ہوئے اور بزرگ کی بات پر یقین نہیں کیا،زیادہ شدت سے اصرار کرنے لگے، آخر بزرگ نے کہا ’’تم لوگ شاید مجھے جھوٹا سمجھ رہے ہو، اچھا! اب خود ہی دیکھ لو ‘‘یہ کہہ کر کاندھے سے چادر اتاری اور دھونے بیٹھ گئے، چادر دھو کر سکھانے کے لیے پھیلا دی اور بولے ’’اب دیکھنا تماشا‘‘
تھوڑی ہی دیر میں بادل امنڈنے لگے اور موسلادھار بارش شروع ہوگئی، بزرگ ہنسے اور فرمایا ’’دیکھا آپ لوگوں نے، اب وہ میری چادر سوکھنے نہیں دیں گے، ہر کام میں میری مخالفت کی ٹھان رکھی ہے‘‘
لوگ مسکرائے اور بزرگ کا شکریہ ادا کرکے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
اگر غور کیا جائے تو یہ واقعہ کسی سحری و جادوئی کمال سے کم نہیں ہے کہ جہاں دور دور تک موسم خشک تھا، لوگ بارش کو ترس رہے تھے، کھیتیاں سوکھ رہی تھیں، قحط کا عالم تھا، خلق خدا پریشان تھی کہ ایک صاحبِ عرفان نے تعمیری پہلو سے ایسی کرامت دکھائی جو یقیناً رضائے الٰہی کے عین مطابق تھی، فلسفہء مذہب ایسے محیّر العقول واقعات کو کرامت کا نام دیتا ہے،بالکل اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقع میں مصر کے عظیم جادوگروں کی کارگزاری اپنے علم و فن کا شاہ کار تھی مگر انہیں تائیدو امدادِ الٰہی حاصل نہیں تھی ان کے مقابلے میں حضرت موسیٰ ؑ تائیدو رضائے الٰہی کے ساتھ میدان میں اترے تھے۔
یاد رکھیے دنیا میں پیش آنے والے حیرت انگیز اور محیّر العقول افعال و کمالات قریب قریب ایک ہی کلّیے کے تحت انجام پاتے ہیں،البتہ ان کے ذرائع مختلف ہوسکتے ہیں، نبوت اور ولایت کے ذریعے ظاہر ہونے والے حیرت انگیز کمالات منجانب اللہ ہوتے ہیں اور معجزہ یا کرامت کہلاتے ہیں کیوں کہ انبیاء یا اولیا انسانی و اخلاقی اصولوں کی اعلیٰ ترین قدروں پر فائض ہوتے ہیں جب کہ جادو گر یا کاہن بالکل ان کے برعکس یا ان کی ضد ہوتے ہیں۔
جادو گروں یا کاہنوں کو جب کوئی ایسا محیّر العقول کام کرنا ہو تو وہ قوت فکریہ کی مدد سے قوت عقلیہ کو حرکت میں لاکر اپنے ناسوتی حواس سے علیحدہ ہوجاتے ہیں مگر منفی و تخریبی سوچ کی وجہ سے انہیں یہ صلاحیت کلّی طور پر (انبیاء اور اولیا کی طرح) حاصل نہیں ہوتی کیوں کہ سوچ کی محدودیت بھی ایک نقص ہے سو وہ اس نقص کی وجہ سے ناسوتی حواس سے پوری طرح چھٹکارا پانے میں جب دشواری محسوس کرتے ہیں تو دیگر غیر مرئی چیزوں سے مدد کے طالب ہوتے ہیں اور یہ غیر مرئی قوتیں یقیناً شیطان کی ذرّیات ہوتی ہیں، چناں چہ انہیں شیطان کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے،اس کی اطاعت و فرماں برداری کا اقرار کرنا پڑتا ہے،گویا وہ اپنی روح کا سودا شیطان اور اس کی ذرّیات سے کرلیتے ہیں اور شرک و کفر کی دلدل میں گر جاتے ہیں،ایسے ہی لوگوں کے لیے ارشادِ باری تعالی ہے کہ جادوگر کبھی فلاح نہیں پاسکتا۔
پیرا سائیکولوجی یا روحانی نظریات کے مشرقی طرز فکر کی رو سے حواس کی گرفت کو توڑنے کے لیے مادّی یا ناسوتی مظاہر سے کام لینا نقص کی علامت ہے مگر مغرب میں یا یوں کہہ لیں کہ غیر مسلم دنیا میں اس فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا،چناں چہ روحی یا روحانی تجربات کی ریاضتوں میں تعمیر کے ساتھ تخریب کا پہلو بھی شامل ہوجاتا ہے۔
عزیزان من! اب تک کی گفتگو میں اس بات کو مدِ نظر رکھا گیا ہے کہ جادو سے متعلق مسائل و معاملات کو مذہب اور خصوصاً اسلامی نظریات کی روشنی میں دیکھا جائے مگر ضروری ہوگا کہ جادو کے علم و فن سے متعلق قدیم تاریخ پر بھی نظر ڈال لی جائے۔
جادو مغرب کی نظر میں
اس سلسلے میں ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ مغرب کے محققین اور مصنفین جادو کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ، مغرب میں جادو کی حقیقت اور اہمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے ، کہا جاتا ہے کہ جادو ایک ایسا فن ہے جس کے ذریعے واقعات کے بہاؤ کو متاثر کیا جاتا ہے اور محیر العقول طبیعی مظاہر کو جنم دیا جاتا ہے ، اس مقصد کے لیے جو طریقے استعمال کئے جاتے ہیں ان میں مافوق الفطرت ہستیوں کو یا فطرت کی مخفی قوتوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے ، چنانچہ جادو کا بنیادی مقصد فطری مظاہر کے قوانین اور اصولوں کی خلاف ورزی ٹھہرا۔
سی جے ایس تھامسن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
’’ نوح انسان پر جادو کا گہرا اثر ابتدا سے ہی رہا ہے ، بابل اور مصر میں تو اسے مذہب کا حصہ بنا لیا گیا تھا ، توہم پرستی کی طرح جادو پر یقین کی جڑیں بھی خوف میں پوشیدہ ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ ’’نامعلوم‘‘ کے خوف کا شکار رہا ہے ، قدیم جادوگر مذہبی پیشوائی کا دعویٰ بھی کرتے تھے کہ وہ دکھائی نہ دینے والی طاقتوں مثلاً دیوی، دیوتاؤں پر کنٹرول رکھتے ہیں ، اس طرح وہ لوگوں کے خوف سے فائدہ اٹھاتے تھے ، ابتدا میں جہالت یا کم علمی ، نامعلوم مستقبل کے خوف سے پیدا ہوئی لیکن بعد میں لوگ رفتہ رفتہ ان رازوں کو سمجھ گئے اور انہوں نے پراسرار اشیا پر یقین کو اپنے مفاد میں استعمال کیا ، جادوگروں کو فطرت کے معمول کے کا موں میں دخل اندازی کرنے کے لیے پہلے کسی دیوی دیوتا کی پوجا کرکے اور اسے مختلف قسم کی قربانیاں پیش کرکے خوش کرنے کا ڈرامہ کرنا پڑتا تھا تاکہ ان کے بقول وہ اسے اچھی یا بری مافوق الفطرت قوتیں عطا کردے ۔‘‘
جادو اور قدیم مذاہب
مغرب کے بعض مستند محققین کا کہنا ہے کہ جادو مذہب کی اولین صورت ہے ، ان کی دلیل یہ ہے کہ جادو ہر قوم میں، ہر عہد میں موجود رہا ہے ، نیز ارواح پر عقیدے سے بھی زیادہ قدیم جادو کا وجود ہے ، ایک مغربی مصنف وائیڈ مین کے بقول جادو مکمل طورپر توہمات سے تشکیل پذیر نہیں ہوا تھا بلکہ یہ تو قدیم مذہبی عقائد کا ایک بنیادی حصہ ہوتا تھا ، اس کا کہنا ہے کہ مذہب کافی حد تک جادو پر براہِ راست استوار تھا اور ہمیشہ اس سے قریبی ربط رکھتا تھا ، اس کے برعکس جادو پر تحقیق کرنے والے مشہور محقق جیمس فریزر کا کہنا ہے کہ انسانی فکر کے ارتقا میں پست دانش ورانہ سطح کی عکاسی کرتے ہوئے جادو ہر مقام پر مذہب سے پہلے موجود تھا ۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ انسان کے اپنے ماحول کے جذباتی ردِعمل ، اشیا کو جاندار سمجھنے اور انہیں خفیہ طاقتوں کا حامل قرار دینے سے جادو پیدا ہوا تھا ۔
جادو کی رسومات
قدیم زمانے میں جادو کی کچھ خاص رسومات ہوا کرتی تھیں جنہیں ایک محیر العقول کام کرنے والی طاقت کو بروئے کار لانے والے روایتی عمل کا حصہ تصور کیا جاتا تھا ، تاہم ایسی جادوئی رسومات جو پہلے سے جاری اور منظم مسلک یا عقیدے کا حصہ نہیں ہوتی تھیں ، معاشرہ انہیں غیر قانونی تصور کرتا تھا ۔
ونڈٹ لکھتا ہے کہ تمام رسومات کے پیچھے ایک ہی اساطیری تصور موجود ہے یعنی روح کا تصور ، اسی تصور سے مسالک کی تین صورتیں پیدا ہوئی ہیں ، جادو ، بت پرستی اور شیطان پرستی ، چناں چہ جادو کی ابتدائی صورت میں یہ تسلیم کیا جاتا تھا کہ ایک روح دوسری روح پر بلاواسطہ عمل کرتی ہے ، جادو کی ثانوی صورت میں یہ بھی تسلیم شدہ امر تھا کہ ایک روح دور فاصلے سے کسی علامت کے ذریعے اثر انداز ہوتی ہے ، جوں جوں وقت گزرتا گیا زیادہ ذہین لوگ سمجھتے گئے کہ جادوئی رسومات ، تقریبات اور ٹونے ٹوٹکے حقیقتاً ویسے اثرات کو جنم نہیں دیتے جیساکہ فرض کیا جاتا ہے اور ایک طرح رفتہ رفتہ عقیدے میں تقسیم رونما ہوئی ، جاہل افراد جادوئی طاقتوں پر عقیدے اور توہمات سے چمٹے رہے جبکہ زیادہ ذہین افراد نے تمام کائنات میں ایک عظیم ترین طاقت کے ہاتھ کو کارفرما دیکھا اور انہوں نے خدا کو ماننا شروع کردیا۔
جادو کا معاشرتی کردار
رابرٹ اسمتھ کہتا ہے :
’’ یہ فرد نہیں بلکہ کمیونٹی تھی جسے اپنے دیوتا کی مستقل اور ہمیشہ کارگر رہنے والی مدد پر یقین تھا ، جہاں تک فرد کا تعلق تھا تو قدیم انسان انفرادی پریشانیوں میں جادوئی توہمات کی طرف مائل تھا، فرد مافوق الفطرت قوتوں کے ساتھ نجی مراسم قائم نہیں کرسکتا تھا ، حالانکہ ان کی مدد حاصل کرنے کے لیے اسے اپنی کمیونٹی کو چھوڑنا پڑتا تھا ۔
تمثیلی اور متعدی جادو
جیمس فریزر کہتا ہے کہ جادو کی اساس جس تصور پر قائم تھی اس کے دو حصے تھے ، اس نے ایک حصے کو تمثیلی جادو قرار دیا ہے گویا ’’سحر بالمثل ‘‘ جادو کی اس قسم میں جادوگر جس طرح کا اثر پیدا کرنا چاہتا تھا ویسا ہی عمل کیا کرتا تھا ، دوسرے حصے کو اس نے متعدی جادو کا نام دیا ہے ، اس میں جادوگر نے جس شخص کو نشانہ بنانا ہوتا تھا وہ اس کے استعمال میں رہنے والی کسی شے پر جادو کرتا تھا ، چناں چہ اس قسم کو ’’سحر لمس‘‘ قرار دیا گیا ہے ، عملی طورپر دونوں صورتیں اکثر و بیشتر مربوط ہوتی تھیں ، فریزر اس مربوط صورت کو ’’مانوس جادو‘‘ کا نام دیتا ہے ، کیونکہ دونوں صورتوں میں یہ فرض کیا جا تا تھا کہ چیزیں خفیہ ربط کے ذریعے فاصلے سے ایک دوسرے پر عمل کرتی ہیں ۔
دوسری قسم میں دشمن کو زخمی یا ہلاک کرنے کے لیے اس کے پتلے میں اس یقین کے ساتھ سوئیاں چبھونا کہ پتلے کے جس عضو میں سوئی چبھوئی جائے گی دشمن کے اسی عضو میں تکلیف ہوگی ، یہاں تک کہ پتلے کے تباہ ہوتے ہی دشمن بھی مرجائے گا ، یہ تمثیلی جادو کی اولین صورتوں میں سے ایک کی مثال ہے ۔
قدیم بابلی ، مصری ، ہندو اور دیگر نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بہت قدیم زمانوں سے اس صورت پر عمل کرتے رہے ہیں اور یہ صورت آج بھی دیکھنے میں آتی ہے ، جادو کے اس طریقہ کار کو اچھے مقاصد کے حصول کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا ، مثلاً بیماروں کا علاج یا دو افراد کے درمیان دشمنی ختم کرنا یا پیار و محبت پیدا کرنا وغیرہ ، ایسے جادوئی عمل میں متعلقہ شخص کا مومی پتلا بناکر اسے آگ کے قریب رکھ دیا جاتا تھا تاکہ موم حدت پاکر نرم پڑنے لگے یا پگھلنے لگے اس عمل کے پیچھے نظریہ یہ ہوتا تھا کہ مومی پتلے کے پگھلنے کے ساتھ ساتھ مذکورہ شخص کا دل بھی نرم ہوتا جائے گا ۔
دوسری قسم متعدی جادو کا دار ومدار ’’سحری مانوسیت ‘‘ پر تھا ، اس حوالے سے نظریہ یہ تھا کہ سحری مانوسیت کسی شخص اور اس کے جسمانی اعضا مثلاً بالوں ، دانتوں یا ناخنوں کے درمیان موجود ہوتی ہے اور یہ تصور بہت قدیم ہے کہ ایسی اشیا قبضے میں ہوں تو ان پر عمل کرکے متعلقہ شخص سے اپنی مرضی کا کام کروایا جاسکتا ہے ، خواہ وہ کتنے ہی فاصلے پر ہو ۔
متعدی جادو کی ایک اورمثال یہ قدیم نظریہ بھی ہے کہ کسی زخمی شخص اور اس زخم کا باعث بننے والے ہتھیار میں بھی باہمی تعلق ہوتا ہے ، چنانچہ ہتھیار پر جو بھی عمل کیا جائے گا اس کا اچھا یا برا اثر زخم پر ہوگا ۔
قدیم زمانے میں پیشہ ور جادوگر اصل میں ایک ایسا شخص ہوتا تھا جو پیدائشی طورپر نیز مطالعے اور تربیت کے ذریعے غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل ہوتا تھا ، وہ اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر معاشرے میں ممتاز ہوکر دوسروں پر طاقت ور اثر حاصل کرلیتا تھا ، مذہبی پیشوا بھی کچھ ایسے ہی طریقے اختیار کرکے مثلاً تپسیا اور فاقہ کشی کے ذریعے ان تخیلاتی ہستیوں کی حمایت حاصل کرلیتے تھے جن کے بارے میں انہیں یقین ہوتا تھا کہ وہ انسانوں کے معاملات پر اثر یا کنٹرول رکھتی ہیں ، چنانچہ ابتدا ہی سے جادوگر اور مذہی پیشوا بنیادی طورپر متحد ہوتے تھے ۔
جادو اور مذہب کا گٹھ جوڑ
جادوگر ہمیشہ اپنے سے زیادہ طاقت ور ہستی کے دست نگر رہتے تھے ، لہٰذا وہ جنتر منتر کے ذریعے دیوتاؤں کی مدد طلب کرتے تھے ، اس طرح جادو اور مذہب کا اتحاد عمل میں آیا ۔
مصری جادوگروں کادعویٰ تھا کہ وہ ایسی قوتوں کے مالک ہیں جن کے ذریعے عظیم دیوتاؤں سے بھی اپنی مرضی کے مطابق کام کرواسکتے ہیں ، یہی صورت ہندوستان میں بھی رہی ہے ۔
اولڈن برگ کہتا ہے کہ خاص موقعوں پر انجام دی جانے والی رسومات ہر قسم کے جادو کے مکمل نمونے ہیں اور ہر صورت میں جادو کی تمام اقسام پر قدامت کا ٹھپہ لگا ہوا ہے ، حد تو یہ ہے کہ وچ کرافٹ (سفلی علم) ہندو مذہب کا حصہ بن گیا تھا اور مقدس ترین ویدی رسومات کا لازمی جزو تھا ، شاید آج بھی یہ صورت حال کسی نہ کسی طور ہندوستانی معاشرے میں موجود ہے ، ہندوؤں کی ایک مشہور کتاب ’’ سام ودھان برہمن‘‘ درحقیقت جنتر منتر اور سحریات کی کتاب ہے ۔
قدیم زمانے کے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ مذہبی پیشوا اپنے منصب کی وجہ سے ایسی خاص قوت کا مالک ہوجاتا ہے کہ وہ مذہبی احکام کی خلاف ورزی کرنے والے شخص پر جادو کرسکتا ہے ، ایسی صورت کو بددعا دینا بھی کہا جاتا تھا ، یہ عقیدہ دور حاضر میں بھی موجود ہے ۔
جادو کے آغاز کے حوالے سے مختلف محققین کے پیش کردہ نظریات کو بیان کرنے کے بعد یہ جائزہ لینا بھی ضروری ہوگا کہ ابتدائی تہذیبوں میں جادو کس طرح پیدا ہوا اور اس پر کن کن انداز سے عمل کیا جاتا تھا ، مگر یہ گفتگو انشاء اللہ آئندہ ہوگی ۔
جادو یا جسمانی کمزوری
کراچی سے سید ہاشمی لکھتے ہیں ’’ آج سے 3 ماہ قبل میں تمام حالات لکھ کر آپ کی خدمت میں جوابی رجسٹرڈ لفافہ ساتھ بھیج چکا ہوں مگر بہت ہی تعجب کے ساتھ لکھتا ہوں کہ اگر آپ کو میرے خط کا جواب نہیں دینا تھا یا کوئی فیس وغیرہ ہے تو میرا 28 روپے والا لفافہ آپ کے پاس ہے جو میری امانت ہے اس کے ذریعے آگاہی فرمائی ہوتی‘‘۔
جواب: محترم ! یقیناً آپ کا تفصیلی خط ہمارے مطالعے میں آچکا ہے جس میں جوابی لفافہ بھی موجود تھا اس خط کے جواب میں آپ کو براہ راست جوابی اطلاع بھی دی گئی تھی لیکن آپ کے جوابی لفافے میں نہیں بلکہ دفتر سے دوسرا لفافہ استعمال کیا گیا تھا جو شاید آپ کے لیے قابل قبول نہیں تھا ، جواب میں آپ سے گزارش کی گئی تھی کہ اپنا علاج کرانے کے لیے کلینک تشریف لاسکتے ہیں لیکن شاید آپ علاج کرانے سے زیادہ صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کا مسئلہ درحقیقت کیا ہے ؟ اور اس حوالے سے بھی شاید آپ یہ چاہتے ہیں اپنے مرض کے بارے میں آپ خود جو تشخیص کیے بیٹھے ہیں اس کی تصدیق کردی جائے ، یعنی مسئلہ کسی جادو یا بندش کا ہے یا جسمانی کمزوری یا بیماری کا ؟
اس حوالے سے ہم صرف اتنا ہی عرض کریں گے کہ ہمارے نزدیک آپ کا مسئلہ جسمانی کمزوری سے تعلق رکھتا ہے ، آپ کا یہ خیال غلط ہے کہ کسی نے کوئی بندش وغیرہ کردی ہے ، آپ کو اپنی عمر کے تقاضوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ، بالآخر انسان وقت کے ساتھ ساتھ زوال کی طرف بڑھتا ہے ، اس حقیقت سے منہ نہیں موڑا جاسکتا لہٰذا آپ کی وہ دلیلیں بے کار ہیں جو آپ نے اپنی سابقہ صحت کے حوالے سے دی ہیں ، کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ جوانی میں یا ادھیڑ عمری تک جو جسمانی توانائی آپ کو حاصل رہی ہے وہ ہمیشہ قائم و دائم رہے گی ؟ اگر ایسا ممکن ہوتا تو پھر آپ اپنی ملازمت سے ریٹائر بھی نہیں ہوتے ، دراصل آپ کا خط پڑھتے ہوئے یہ اندازہ بھی ہوا کہ اس حوالے سے آپ کی انا کو شدید دھچکا لگا ہے ، آپ نے اپنی اس کم زوری کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہ تھا ، بہرحال آپ کا مسئلہ ایسا نہیں ہے جس پر اس کالم میں یا خط کے ذریعے کھل کر اظہار خیال کیا جائے ، اسی لیے آپ کو کلینک آکر ملاقات کا مشورہ دیا گیا تھا ، جہاں تک آپ کے 28 روپے والے جوابی لفافے کا مسئلہ ہے تو اول بات یہ کہ اس لفافے میں نہ سہی جواب تو آپ کو بھیج دیا گیا تھا پھر بھی آپ جب چاہیں اپنے 28 روپے وصول کرسکتے ہیں ۔