عرفان ذات اور ارتکاز خیال کی نئی اقلیم
اس پر ہنگام اور پر آشوب زندگی اور مشینی ماحول میں جہاں ہم محض ضروریات زندگی بہم پہچانے کی مشین بن چکے ہیں وہیں ہم اپنے آپ سے بھی دور ہوتے چلے جارہے ہیں، یعنی اپنے آپ سے، اپنی ذات کے نقطہ ءاصل سے اور اس وجہِ شرف سے کہ جس کی بنا پر آج نوعِ انساں کا سرفکروشعور کے تاج سے مزین ہے اور اس کی روح جذبہ و احساس کی خلعت ِ فاخرہ میں ملبوس۔
اصول یہ ہے کہ کسی شے کاورائے ادراک ہونا اس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہوتا مثلاً کششِ ثقل کائنات کے ابتدائی حقائق میں سے ہے لیکن وہ مشہور سائنس دان آئزک نیوٹن کے دور میں دریافت ہوئی۔ اسی طرح پیراسائیکولوجی کی اصطلاح گو نئی سہی مگر اس کا وجود اتنا ہی پرانا ہے جتنا حضرت انسان کا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آدمی پیراسائیکولوجی کی ہی وجہ سے قید عدم سے آزاد اور شرف ِ انسانی سے ممتاز ہوا۔
آج خواص اور علما کے علاوہ ایک عام ذہن بھی پیرا سائیکولوجی یعنی مابعد النفسیات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے بارے میں مشتاق ہے جو کہ بجائے خود ایک حیرت انگیز امر ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟
تفکر کی روشنی میں دیکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے ، ہر شے اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے اور اسی کلیے کے تحت آج ہم اس علم میں دلچسپی محسوس کرتے ہیں کیوں کہ یہ علم ہماری فطرت میں شامل، ہماری ذات کا اصل اور ہماری جسمانی اور دماغی موشگافیوں کے پس پشت کار فرما توانائی ہے۔ یہ رشتے کی ایک ایسی زنجیر ہے جس میں تمام مخلوق باہم اور خاندان کی طرح پروئی ہوئی ہے۔ پیراسائیکولوجی کا طالب علم کائنات میں موجود یا کار فرما اس ربط کو پالیتا ہے جو اس تمام نظام کو مربوط رکھتا ہے اور اس کی نظر موجودات کی تمام انواع کے اصل مقصد تخلیق پر جاٹھہرتی ہے۔ مذکورہ بالا معروضات پر مزید تفصیلی بحث کرنے سے پہلے آئیے یہ دیکھ لیں کہ پیراسائیکولوجی کی تعریف کیا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ علم اتنا جامع اور کثیر الجہات ہے کہ اس کی ہر ہر جہت ایک مکمل اور مبسوط تعریف کی متقاضی ہے، اس کا ہر رخ معنی کی ایک نئی دنیا سمیٹے ہوئے اور اس کا ہر زاویہ اپنے اندر آگہی کا ایک نیا جہاں بسائے ہوئے ہے۔ یہاں اس شبہے کا ازالہ کرنا ضروری ہے کہ پیراسائیکولوجی جدید زندگی یا سائنس کی ترقی کے خلاف ہے۔ کوئی بھی سائنس ہو، علمی کام ہو یا دماغی کاوش ، یہ سب ذہنی ارتکاز کے مرہون منت ہیں۔ خیال کی یہی گہرائی اور ارتکاز پیراسائیکولوجی کہلاتا ہے۔
آئیے، اب اس کی تعریف مختلف جہات کے حوالے سے کرتے ہیں تاکہ اس کا مفہوم کھل کر سامنے آسکے اور عوام اسے نا صرف پوری طرح سمجھ سکیں بلکہ اس سے استفادہ بھی کرسکیں جو کہ اس کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے۔
عام فہم اور مروجہ اصطلاح میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ جہاں علم نفسیات کی انتہا ہوتی ہے وہیں سے پیراسائیکولوجی کی لافانی مملکت کا آغاز ہوتا ہے گویا ہمارے تمام شعوری اور لاشعوری رویے اور تحریکات اور وظائف زندگی بالواسطہ طور پر پیراسائیکولوجی کے تحت سر انجام پاتے ہیں۔ گہرائی میں دیکھا جائے تو انسان حواس ہی کا نام ہے یا ہم حواس ہی کی وجہ سے انسان ہیں۔ ذرا سوچیے، اگر ہم سے ہمارے حواس چھین لیے جائیں تو ہماری حیثیت کیا رہ جائے گی؟ لمس و احساس، نطق و بیان، فکرو شعور اور آگہی و ادراک ہم ان ہی کا مجموعہ و مرکب تو ہیں۔
ہمارے اندر اس حواس یا ادراک کی دس قوتیں پائی جاتی ہیں ان میں سے پانچ ظاہری ہیں اور پانچ باطنی، ہمارے ظاہری حواس قوت سامعہ (سننے کی قوت)، قوت لامسہ ( چھونے اور محسوس کرنے کی قوت)، قوت شامہ (سونگھنے کی قوت)، قوت باصرہ ( دیکھنے کی قوت) اور قوت ذائقہ ہیں جب کہ ہمارے باطنی حواسوں میں حسِ مشترک، خیال، وہم ، حافظہ اور متصرفہ ہیں۔ باطنی حواسوں میں حسِ مشترک وہ حس ہے جو حواس خمسہ ظاہری میں منقوش اور مرقسم ہونے والے تمام محسوسات کو قبول کرلیتی ہے۔
وقت پیدائش ہی سے چوں کہ ہم ایک مخصوص ماحول میںپرورش پاتے ہیں اس لیے ہمیں صرف شعوری اور ظاہری حواس ہی کا ادراک ہو پاتا ہے اور ہم اپنے باطنی حواسوں کے فہم و ادراک سے محروم رہتے ہیں۔
اپنی ذات یا اپنی باطنی یا پوشیدہ بے پناہ قوت سے فیض یاب ہونے کے لیے ہمیں پیراسائیکولوجی کا سہارا لینا ہوگا گویا پیراسائیکولوجی ہمیں اپنی ذات میں موجود اس قوت کی آگہی بخشتی ہے جس کے سامنے موجودہ سائنسی ترقی اپنے تمام تر کمال کے باوجود حقیر نظر آتی ہے۔
اگر ہم مذہبی اور روحانی نکتہ ءنظر سے دیکھیں تو ہم پیراسائیکولوجی کی تعریف یوں کریں گے کہ ارتکاز یا مراقبے کے ذریعے ذات کا عرفان اور تخلیقی قوت کے حاصل کرنے کا نام پیراسائیکولوجی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ مذہبی حلقے جس قوت کو روح اور ارباب فلسفہ جسے ذہنی طاقت کا نام دیتے ہیں اس قوت کے تخلیقی استعمال پر عبور حاصل کرنے کے طریقے کو پیراسائیکولوجی کہتے ہیں۔
پیراسائیکولوجی کی مختصر تعریف کے بعد آئیے، ذرا ان روایتی اور غیر روایتی طریقوں پر روشنی ڈالیں جن کا اس سے گہرا تعلق ہے۔
یہاں اس بات کا بیان کرنا غیر ضروری نہ ہوگا کہ علم نفسیات اس بات کا ادراک ہوسکتا ہے یا کوئی شے ہمارے لیے موجود اس وقت ہوگی جب ہمارے ظاہری حواس مثلاً شامہ، باصرہ، سامعہ، لامسہ اور ذائقہ وغیرہ ہمیں اس کا احساس دلانے کا ذریعہ بنیں با الفاظ دیگر ہمارے ظاہری حواس کا دائرہ کار جتنا وسیع ہوگابس وہی ہماری کائنات ہے، یہی وہ نکتہ ہے جس کی وجہ سے صاحبِ وجدان لوگوں کی رسائی پیراسائیکولوجی تک ہوئی اور اس کی حدود اور دائرہ کار علم نفسیات سے بلند ہوگیا کیوں کہ یہ بات تجربے میں ہے کہ ہمارے ظاہری حواس اکثر ہمیں دھوکا دیتے ہیں مثلاً سانپ کا ڈسا ہوا تلخی کو شیریں محسوس کرتا ہے، مٹھائی کھانے کے بعد چائے پھیکی محسوس ہونے لگتی ہے، سراب اور مالیخولیا یا شیزوفرینیا کے مریضوں کا فرضی شخصیات سے ملنا اور خیالی حالات و واقعات کا دیکھنا اور اس سے متاثر ہونا، ہمارے ظاہری حواس کے فریب کھانے کی نشانیاں ہیں۔
پیراسائیکولوجی کا علم ظاہری حواس کی نفی نہیں کرتا ہے بلکہ ان کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے مگر اس کے اور نفسیات کے نکتہ ءنظر میں فرق یہ ہے کہ نفسیات کی رو سے یہ حواس نقطہ ءآخر ہیں جب کہ پیراسائیکولوجی انہیں نکتہ ءاول قرار دے کر ایسی مخفی اور طاقت ور صلاحیتوں کی جانب بھی اشارہ کرتی ہے جو حواس خمسہ کی مدد کے بغیر بھی انسان کو علم یا ادراک بخشتی ہیں، ایسا ادراک جس کی گہرائی نامعلوم اور ایسا علم جس کی وسعت لا محدود ہے۔
روز مرہ کی بات ہے کہ ہم میں سے اکثر اپنی تمام زندگی میں کبھی کبھی ایسی نفسیاتی یا جذباتی کیفیت سے ضرور دوچار ہوتے ہیں جو ہمارے ذہن کو عام سطح سے بلند کرکے ہمیں اپنی ذات میں موجود نامعلوم قوتوں اور پراسرار گوشوں سے متعارف کراتی ہے گو وقتی طور پر ہی سہی اس کیفیت پر شعوری اور اختیاری عبور حاصل کرنا اور پھر اسے فلاح انسانی یا کم از کم فلاح ذات کے لیے استعمال کرنا پیراسائیکولوجی کے بنیادی مقاصد ہیں۔
ذہنی دباو سے شخصیت کی تبدیلی کا عمل اور دماغ کا کردار
ہیجان اور ذہنی دباو کے حوالے سے اب تک ہم جو کچھ لکھ چکے ہیں ، اس کی روشنی میں اگر غور کیا جائے تو ہمارے موجودہ معاشرے میں مختلف پے چیدہ اور لا علاج بیماریوں کی وجوہات کو جاننا اور سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ پاکستان ایک طویل عرصے سے جن اقتصادی، معاشی، سیاسی مسائل سے دو چار چلا آرہا ہے ان کے نتیجے میں معاشرتی ناہمواریاں بہت بڑھ چکی ہیں اور ایک عام آدمی کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ اسے اپنی اور اپنے خاندان کی فلاح و بہبود کے خیال سے ہر وقت ذہنی دباو کا سامنا رہتا ہے۔ معاشرے میں موجود لاقانونیت، بے اصولی، تشدد، مہنگائی، میڈیکل ایڈ میں کمرشل ازم کا رجحان اور دیگر بے شمار عوامل اسے مستقل ایک ہیجان میں مبتلا رکھتے ہیں۔ اس ہیجان اور ذہنی دباو کے نتیجے میں اسے جو بیماریاں لاحق ہوتی ہیں وہ اصل سبب ( یعنی ذہنی دباو) کے کبھی دور نہ ہونے کے سبب تقریباً لا علاج ہی رہتی ہیں۔
ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ بعض مریض ہمارے پاس صرف اس وجہ سے کلی صحت نہ پاسکے کہ وہ اپنے نامناسب حالات زندگی کی وجہ سے مجبور تھے۔ بہترین دواوں کے استعمال کے بعد جب وہ صحت کی طرف آرہے ہوتے تھے تو اچانک کسی نئے صدمے یا ناخوش گوار صورت حال کی وجہ سے دوبارہ ان کی حالت بگڑ جاتی تھی اور معاملہ پھرو ہیں پہنچ جاتا تھا جہاں اول دن تھا۔ ایسی صورت حال عموماً ذہنی اور اعصابی بیماریوں میں اکثر پیش آتی ہیں۔
ایک خاتون جنہیں مرگی کے دورے پڑتے تھے طویل عرصے تک ہمارے زیر علاج رہیں۔ ان کے گھر کا ماحول نہایت خراب تھا۔ ایک انتہائی تنگ اور خراب فلیٹ میں ان کی رہائش تھی جسے وہ سخت ناپسند کرتی تھیں اور اس فلیٹ سے انھیں خوف محسوس ہوتا تھا کیوں کہ انھوں نے سن رکھا تھا کہ اس فلیٹ میں پاکستان بننے سے قبل ہندو رہتے تھے اور جس جگہ ان کا باتھ روم تھا وہاں انھوں نے مندر بنایا ہوا تھا۔ ان کے شوہر کی معاشی صورت حال بھی نہایت خراب تھی۔ساس ، سسر اور دیگر سسرالی رشتے دار بھی ان کے خلاف تھے۔ وہ ان کے بچوں کو بھی ماں کے خلاف اکساتے رہتے تھے۔ بڑی بیٹی ماں کی سخت نافرمان تھی۔ شوہر کے مالی حالات اس بات کی اجازت ہی نہ دیتے تھے کہ وہ علیحدہ کسی رہائش کا انتظام کرسکے۔تنگ دستی کے سبب مناسب خوراک تک انھیں میسر نہ تھی۔ علاج معالجے سے جب بھی ان کی طبیعت بہتر ہوتی، گھر میں کوئی نہ کوئی ناخوش گوار واقعہ ایسا ہوتا کہ انھیں پھر دورہ پڑجاتا۔ نہایت افسوس ناک بات یہ بھی تھی کہ شوہر کو بیوی کے علاج معالجے سے بھی کوئی دل چسپی نہ تھی۔ قصہ مختصر یہ کہ ایسا مریض صرف دواوں کے سہارے پر کیسے مستقل بنیادوں پر صحت مند ہوسکتا ہے جسے چوبیس گھنٹے کسی نہ کسی ناخوش گوار صورت حال کی وجہ سے ذہنی دباو کا سامنا رہتا ہے۔
تازہ ترین تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ وہ افراد جن میں بیک وقت کئی شخصیتیں پرورش پارہی ہوں، خود اپنی شخصیت کے کسی ایک پہلو یاجذبات سے بھی بیمار پڑسکتے ہیں۔ آپ نے ایسے کئی لوگوں کو دیکھا ہوگا کہ وہ جان بوجھ کر جرم کرتے ہیں پھر اپنے کیے پر پشیمان ہوتے ہیں۔ عمل خود کرتے ہیں مگر اعتقاد دوسرے پر رکھتے ہیں، ان میں ہر وقت ہاں اور نہیں کی جنگ جاری رہتی ہے اور یہ کسی بھی حالت میں کیے گئے ایک عمل اور فیصلے سے مطمئن نہیں ہوتے۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی جسمانی حالت میں اس وقت زبردست تغیر رونما ہوتا ہے جب مختلف شخصیتیں بیک وقت ان پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں، یعنی وہ خود کو ذہنی طور پر مختلف روپ دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ روپ ان کی جذباتی دنیا کے اتار چڑھاو کی وجہ سے وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں۔ا یسی حالت میں ان پر اعصابی دباو، تشنج، مرگی اور مختلف اقسام کی الرجی کے حملے ہوسکتے ہیں یا پھر شیزوفرینیا اور ہسٹیریا اپنا کوئی ایسا رنگ بھی دکھا سکتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں بہت رواج پارہا ہے یعنی جنات، بھوت آسیب، سحرو جادو وغیرہ۔ اس کے علاوہ ایسے مریض رنگوں کی پہچان بھی بھول جاتے ہیں اور جلدی امراض بھی ان پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔
مختلف شخصیتوں کی اس جنگ کے دوران میں ایک شخص کئی حالتوں سے گزرتا ہے اور اس پر مختلف کیفیات گزرتی ہیں حتیٰ کہ آخر میں اس کی کوئی ایک شخصیت دوسری تمام شخصیات پر حاوی ہوجاتی ہے جب کہ دیگر شخصیتیں تھوڑے عرصے کے لیے پس منظر میں دب جاتی ہیں۔ ایک شخصیت سے دوسرے کی طرف تبدیلی کے عمل کے دوران میں فرد کے مزاج اور عادات میں حیرت انگیز تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں جس کے بعد وہ ان کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے مثلاً اگر وہ بے تحاشا سگریٹ نوشی کرتا ہے تو شخصیت میں تبدیلی کے بعد اسے سگریٹ سے نفرت ہوجائے گی اور وہ اس کے دھوئیں سے بھی بچنے کی کوشش کرے گا یا اگر وہ سگریٹ وغیرہ کبھی نہیں پیتا تھا تو نہایت شدت سے سگریٹ یا کسی اور نشہ کی لت میں مبتلا ہوجائے گا۔ اگر پہلے بہت ہنس مکھ، ملنسار تھا تو بعد میں چڑچڑا، بدمزاج اور آدم بے زار ہوجائے گا۔ عام طور پر ایسے رویہ کو موڈ کا بدلنا کہتے ہیں جب کہ درحقیقت یہ ایک بہت بڑے ذہنی انقلاب کے اثرات ہوتے ہیں جس میں کسی انسان کی پوری ذہنی کایاپلٹ جاتی ہے اور پچھلی شخصیت کے معمولی سے نشانات بھی نہیں ملتے۔ شخصیت کی یہ تبدیلی ذہنی دباو کے تحت ہی عمل میں آتی ہے۔
انسان جب اپنی شخصیت کے کسی ایک پہلو سے مطمئن نہیں ہوتا تو دوسرا اختیار کنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ چیز اس کی ذہنی کشمکش اور دباو میں اضافہ کردیتی ہے۔
مختلف شخصیتوں والے افراد کی صرف اندرونی رسا کشی ہی ایک جیسی نہیں ہوتی بلکہ ان کی باہر کی دنیا کو دیکھنے کی صلاحیت بھی یکساں ہوتی ہے، ماہرین امراض چشم کی جانب سے جاری کی گئی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر فرد کی آنکھوں کی ساخت مختلف ہوتی ہے۔ ان کے جسم، اندرونی بناوٹ اور نظری صلاحیتوں میں فرق ہوتا ہے لیکن کئی شخصیتیں رکھنے والے افراد اس کلیے سے آزاد ہوتے ہیں اور ان کی آنکھوں میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔
اوپر بیان کیے گئے عناصر ان کی آنکھوں میں ایک جیسے ہوتے ہیں، ان میں آنکھوں کی ساخت، حجم، نقائص، خوبیاں اور نظری صلاحیتیں تقریباً یکساں ہوتی ہیں۔ شاہد وہ سب کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔
ماہرین چشم کی رپورٹ کی سچائی ہمارے مشاہدے میں اکثر آتی رہی ہے۔ آپ بھی اس پر غور کرسکتے ہیں۔ شخصیتوں میں رسا کشی میں پھنسے ہوئے افراد اپنی اندرونی کشمکش کے سبب بیرونی دنیا کے بارے میں بھی درست اندازے نہیں لگاپاتے۔ وہ دنیا کو ایک ہی مخصوص زاویہ نظر سے دیکھتے رہتے ہیں اور عام محاورے کے مطابق کنوئیں کے مینڈک بن کر رہ جاتے ہیں۔ آپ جب انھیں کسی نئی بات کے بارے میں بتائیں، کوئی نیا آئیڈیا پیش کریں، خود ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی لانے کا مشورہ دیں تو وہ اسے یا تو شدت سے رد کردیتے ہیں یا پھر فضول بحث و مباحثے کا آغاز کردیتے ہیں۔ دراصل زاویہ نظر کی یکسانیت انھیں کسی اور سمت دیکھنے ہی نہیں دیتی۔ یہی صورت حال لوگوں سے تعلقات میں پیش آتی ہے۔ یہاں بھی وہ گھوڑا گدھا برابر کرتے رہتے ہیں۔ اکثر تو رشتوں کی تمیز بھی کھودیتے ہیں۔
ذہنی دباو میں انسان کا دماغ کیا کردار ادا کرتا ہے اس کے بارے میں ماہرین کی رائے ہے کہ ایک عام ذہنی معیار رکھنے والے فرد کے لیے یہ سائنسی حقیقت ہضم کرنا نسبتاً دشوار امر ہے کہ اس کا اپنی بیوی کی طرف محبت سے دیکھنا خود اس کے جسم میں کیسی کیسی کیمائی تبدیلیاں واقع کردیتا ہے جب کہ خود اس نے سوائے ایک فطری جذبے کے کچھ بھی محسوس نہیں کیا لیکن سائنس دان کہتے ہیں کہ کسی بھی قسم کا جذبہ اوراحساس جسم میں کئی طرح کی سرگرمیاں شروع کردیتا ہے اور جذباتی حالت کے اعتبار سے انسانی دماغ پچاس سے بھی زیادہ کیمائی مرکبات جنہیں ” نیورو پیپٹائڈز“ کہتے ہیں، پیدا کرسکتا ہے۔ اس کی سب سے واضح اور آسان مثال ” اینڈروفنز“ کی ہے۔ دماغ میں یہ کیمائی مرکب جان توڑ محنت اور ورزش کے بعد جسم کو سکون پہچانے کے لیے تیار ہوتا ہے جس میں خواب آور ادویات کی سی خصوصیات ہوتی ہیں، بھاگ دوڑ کرنے والوں میں ایتھلیٹس کے جسموں میں اس مرکب کی مقدار نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہے لیکن سوال ذہنی دباو اور بیماریوں میں تعلق کا پیدا ہوتا ہے۔ آخر ذہنی دباو کی حالت میں بیماریاں کیسے لاحق ہوجاتی ہیں؟ انسانی دماغ اور بدن کے درمیان یہ عمل بیماریوں کے خلاف اندرونی مدافعتی نظام کو آخر بھلا کیوں کر اور کس طرح متاثر کرتا ہے؟
ماہرین اس سوال کا جواب یوں دیتے ہیں کہ انسانی جسم میں چھوٹے چھوٹے جراثیم اور دیگر مضر صحت عناصر مستقل داخل ہوتے رہتے ہیں۔ اگر ان عناصر کو خون کے ساتھ آزادانہ گردش کی اجازت دے دی جائے تو جسم بیماریوں کی مستقل آما جگا بن کر رہ جائے لہٰذا قدرت نے ان کے خلاف بدن میں اندرونی طور پر ایک حفاظتی نظام قائم کردیا جس میں دباغ اور بدن میں موجود سفید خلیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ دونوں اپنے باہمی عمل سے مضر صحت عناصر کا راستہ روکتے ہیں، انھیں تباہ کرنے میں اور پھر بدن سے باہر لے جانے میں معاونت کرتے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ جوں ہی جسم میں کوئی شر پسند خطرناک ارادے لے کر داخل ہوتا ہے بدن کے حفاظتی نظٓم کا الارم بجنے لگتا ہے اور دماغ کو فوراً ہی اطلاع مل جاتی ہے کہ فلاں جگہ پر ایک تخریب کار نقصان پہچانے کے لیے تیار بیٹھا ہے لہٰذا اس کا فوری سدباب کیا جائے، اس کی اطلاع کے جواب میں دماغ متعلقہ غدود کو فوری کارروائی کے احکامات بھیجتا ہے جس کے بعد وہ غدود کیمیائی مادے خارج کرکے اس تخریب کار کا خاتمہ کردیتا ہے۔ یہ سارا عمل لمحوں کا محتاج ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ زندگی اور صحت کے لیے بنیادی بھی ہے۔
ذہنی دباو اور پریشانی کی حالت میں دماغ کو مضر صحت عنصر کی جسم میں موجودی سے متعلق اطلاع بہت دیر سے ملتی ہے جس کے بعد اسے کارروائی کرنے کا وقت بہت کم ملتا ہے اور اس عرصے میں شرپسند اپنا کام کر گزرتا ہے یعنی جسم کو بیماری کے لیے تیار کردیتا ہے۔ علاوہ ازیں ذہنی دباو کی حالت میں دماغ سے خود بخود بغیر کسی اطلاع اور مقصد کے کیمائی مرکبات کا اخراج ہوتا رہتا ہے جو آہستہ آہستہ جسم میں جمع ہوتے رہے ہیں اور جسم تھوڑے ہی عرصے میں ان کا عادی بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی مضر صحت عنصر جسم میں داخل ہوجائے تو دماغ مطلوبہ مرکب فوراً ہی مہیا کر دے گا لیکن جسم مدافعتی عمل میں بھرپور حصہ لینے کے قابل نہیں ہوگا۔