اگرچہ تبدیلیاں ہمیشہ ترقی کے راستے کا زینہ ہوتی ہیں بشرط یہ کہ انسان مثبت سوچ اور فکر رکھتا ہو لہٰذا امید کی جاسکتی ہے کہ مثبت سوچ کے ساتھ تبدیلیاں لائی جائیں تو وہ مستقبل کے لیے مفید ثابت ہوں گی لیکن ہمارے معاشرے کا اہم ترین مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر شخص اپنے نظریات اور اقدام کے بارے میں یہ سوچ رکھتا ہے کہ وہ مثبت راستے پر ہے اور دوسرے منفی راستے پر چل رہے ہیں،یہ سوچ اتنی پختہ ہوجاتی ہے کہ پھر دوسروں کی رائے یا نظریات کو جاننے اور اس پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی، اختلافی مسائل کو اس قدر حساس بنادیا جاتا ہے کہ ان پر بات کرنا بھی مشکل ہوجائے، نتیجے کے طور پر اختلافی موضوعات ایک ناسور بنتے چلے جاتے ہیں اور ان میں بدبودار مواد اندر ہی اندر پکتا رہتا ہے،اگر ایسے موضوعات پر کھل کر گفتگو ہوتی رہے اور مختلف نکتہ ہائے نظر سامنے آتے رہےں تو کوئی مسئلہ پیچیدگی کا شکار نہ ہو۔
ہم مغرب کی برتری اور ترقی کو حیرت سے دیکھتے ہیں اور ساتھ ہی مغربی معاشرے کی برائیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے بھی نہیں تھکتے بلکہ بہ حیثیت مسلمان ہم نے ایک کافر اور مشرک معاشرے کی خامیوں اور برائیوں کو نمایاں کرنے کا کام پوری تندہی سے اپنے ذمے لے رکھا ہے تاکہ عام مسلمان ان کے فریب میں نہ آئےں، کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے مسلمان معاشرے میں پھیلی ہوئی انسانیت سوز برائیوں کو بھی اجاگر کیا جاتا ان پر نہایت اعلیٰ سطح تک ہر مفاد و مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر گفتگو کی جاتی،ایسا نہیں ہے کہ ہر طرف خاموشی ہو، کسی نہ کسی حد تک اہل علم اور دانش ور حضرات حسب توفیق ایسے موضوع پر اظہار خیال کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی آواز سدا بہ صحرا ہی ثابت ہوتی ہے۔
سب سے اہم معاملہ ہمارے ملک و معاشرے میں انسان کے بنیادی حقوق کا ہے جو بری طرح کچلے جارہے ہیں ، ان حقوق کے بارے میں بات تو کی جاتی ہے مگر محض سیاسی نعرہ بازی کے طور پر ، عملی طور پر ان حقوق کے حصول کے لیے کوئی سنجیدہ جدوجہد ہوتی نظر نہیں آتی، یہی وجہ ہے کہ اہل سیاست پر سے عام لوگوں کا اعتبار ختم ہوتا جارہا ہے اور کوچہ ءسیاست کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے، آج یہ صورت حال ہے کہ ہر شخص سیاست دانوں کو برا کہہ رہا ہے اور جمہوری نظام پر لعنت بھیج رہا ہے،جمہوریت کسی طور بھی بری چیز نہیں لیکن ہمارے اہل سیاست نے اسے جس انداز میں پیش کیا ہے،وہ جمہوریت کے لیے بھی بدنامی کا باعث ہے،عوام نے سمجھ لیا ہے کہ سیاسی بازی گری کی منزل مقصود صرف اور صرف حصول اقتدار ہے ، عوامی مسائل کا حل نہیں۔
جب ملک میں آمریت ہوتی ہے تو تمام سیاست داں جمہوریت کے خوش گوار گیت گاتے نظر آتے ہیں، یہ گیت تو بہر حال اب بھی گائے جارہے ہیں مگر بے اثر ہیں کیوں کہ عوام تک حقیقی جمہوریت کے فوائد نہیں پہنچ رہے لہٰذا انہیں جمہوریت اور آمریت میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا، ایسی ہی صورت حال میں جب فوج مداخلت کرتی ہے تو عوام ان کے راستے میں پھول بچھاتے ہیں اور مٹھائیاں باٹتے ہیں تو کیا ہمارے سیاست داں حالات کو ایسی ہی کسی جانب لے جارہے ہیں ؟
جیسا کہ پہلے بھی ہم کئی بار لکھ چکے ہیں کہ لوگ اپنے مسائل کا درست طور پر تجزیہ نہیں کرتے‘ ان کے اسباب و وجوہات پر غور کرکے ان کا کوئی معقول حل تلاش کرنے کی زحمت کرنے کے بجائے صرف اپنی خواہشات کے زیر اثر عملیات و و ظائف کرتے رہتے ہیں‘ چونکہ درست اسباب و وجوہات کا تعین نہیں ہوتا صرف جووہ چاہتے ہیں اس کیلئے اللہ سے دعا کررہے ہوتے ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ ہم کہاں غلط ہیں اور کہاں راہ مستقیم پر‘ ہمارے لیے کیا بہتر ہے اور کیا بہتر نہیں ہے‘ آئیے ایک خط کی چند چیدہ چیدہ باتوں پر غور کرتے ہیں۔
ایس، آر کراچی سے لکھتی ہیں۔” میں آپ کی مستقل قاری ہوں میں نے سورئہ قریش کے عمل کے بارے میں پڑھا پھر آپ سے فون پر پوچھا کہ کیا میں یہ عمل اپنے شوہر کیلئے کرسکتی ہوں‘ آپ نے جواب دیا تھا کہ میں یہ عمل کرسکتی ہوں‘ میں نے عمل کیا اور بہت دل سے اور عاجزی سے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں مگر نہ تو پڑھائی کے دوران میں کچھ اثر محسوس ہوااور نہ ہی بعد میں کوئی حل نکلا۔محترم! میں اتنی مشکل میں ہوں کہ آپ کو بتا نہیں سکتی۔ اب کیا میں یہ عمل دوبارہ شروع کروں یا آپ نے جو وظیفہ برائے حل المشکلات دیا ہے وہ شروع کروں اور اللہ سے دعا کروں کہ میرا شوہر مجھے علیحدہ گھر میں رکھے اور اللہ تعالیٰ میری مشکلات اور پریشانیاں دور کرے‘ میں اپنی زندگی سے عاجز آچکی ہوں‘ میں کیا کروں‘ میری کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا‘ پندرہ سال سے میں باپ کے گھر بیٹھی ہوں‘ بہت بے بسی اور لاوارثی کی زندگی گزار رہی ہوں‘ میرے حالات کب ٹھیک ہوں گے؟ چابی تالے والا عمل چاند گرہن کے وقت میں نہیں کرسکی‘ اب یہ وقت کب آئے گا؟ کیا قمر در عقرب کے وقت یہ عمل کیا جاسکتا ہے؟“
عزیزم! تمہارے خط سے پہلے ہم نے جو چند سطور ابتدا میں لکھی ہیں انہیں غور سے پڑھو اور سو چو کہ کیا تم ایسی ہی کسی غلطی کا شکار تو نہیں ہو؟ تم نے اپنے پورے خط میں کہیں یہ ذکر نہیں کیا کہ تمہارے اور شوہر کے درمیان اصل تنازعہ کیا ہے؟ کیوں تم اتنے طویل عرصے سے شوہر سے دور ہو اور شوہر کو بھی تمہاری پروا کیوں نہیں ہے؟ تمہارے ایک جملے سے صرف یہ اندازہ ہورہا ہے کہ تم علیحدہ گھر کا مطالبہ شوہر سے کرتی ہو جسے وہ پورا نہیں کرتا اور غالباً تمھاری اپنے سسرال میں نہیں بنتی ہوگی اور شوہر اپنے گھر والوں سے علیحدہ ہونے کیلئے تیار نہیں ہوگا‘ یہ درست ہے کہ اپنا ذاتی مکان تمہارا حق ہے اور شوہر سے اس حق کا مطالبہ بھی جائز ہے مگر شوہر کی حیثیت اور پوزیشن دیکھ کر اس قسم کے مطالبات پر زور دینا یا ضد کرنا چاہیے‘ ورنہ صرف اس ایک وجہ کی بنیاد پر اتنی طویل جدائی نہایت احمقانہ اور ظالمانہ فعل ہے‘ اتنے طویل عرصے میں تو وہ دوسری شادی بھی کرسکتا ہے یا کسی اور آوارگی میں پڑسکتا ہے‘ یہ مطالبہ تم اس کے ساتھ رہ کر بھی کرسکتی تھیں اور یقینا کیا ہوگا مگر اس قدر شدت کے ساتھ کیا ہوگا کہ معاملہ جدائی تک آگیا اور دونوں فریقین نے ضد پکڑ لی‘ بہر حال صورت حال خواہ کچھ بھی رہی ہو‘ اس معاملے میں قصور وار تم بھی محسوس ہورہی ہو‘ اگرتمہارا جواب یہ ہو کہ وہاں میری زندگی عذاب بن گئی تھی تو اب اپنی زندگی کے بارے میں جو کچھ تم نے لکھا ہے‘ اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ بے شک وہاں سسرالی رشتوں سے تنازعات ہوتے مگر سر پرشوہر کا سایہ تو ہوتا‘ ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ ہر شرط کو بھول کر شوہر کے پاس چلی جاﺅ‘ تمھارا یہ قدم شوہر کے دل میں جگہ بنائے گا‘ انشاءاللہ۔
رہا سورئہ قریش کے عمل کا معاملہ تو عمل خواہ کوئی بھی ہو‘ وہ ہماری خواہشات کے مطابق تب ہی اثر دکھاتا ہے جب خواہشات حق و انصاف کے میزان پر پوری اترتی ہوں‘ اگر اس معاملے میں تمہاری کوئی غلطی اور قصور نہ ہوتا تو انشاءاللہ یہ عمل کبھی خطا نہ کرتا‘ اب بھی یہ مت سمجھو کہ اس کا اثر نہیں ہوگا‘ یقینا اللہ بہتری کی کوئی صورت ضرور نکالے گا مگر یہ الگ بات ہے کہ وہ صورت ممکن ہے تمہارے لیے قابل قبول نہ ہو یعنی تمہاری خواہشات کے مطابق نہ ہو‘ لہٰذا اب اگر کوئی صورت بہتری کی پیدا ہوتو اسے نظر انداز نہ کرنا‘ خواہ اس کے لیے تمہیں اپنی انا کو ہی کیوں نہ ختم کرنا پڑے ‘ ہمارے نزدیک شوہر سے اس طرح دوررہ کر تم گناہ کی مرتکب ہورہی ہو اور موجودہ حالات اسی گناہ کی سزا ہیں‘ اگر تمہارا موقف یہ ہو کہ تمہارا شوہر کوئی بہت ہی بڑا بد قماش آدمی ہے تو پھر تم کو اب تک اس کے انتظار میں اس طرح نہیں بیٹھنا چاہیے تھا‘ طلاق یا خلع کا دروازہ اسلام نے کھلا رکھا ہے‘ اگر دونوں فریقین ایک خوش گوار ازدواجی زندگی نہیں گزار سکتے تو وہ علیحدگی اختیار کرکے اپنے لیے نئے شریک حیات کا انتخاب کرسکتے ہیں‘ اگر ہم اسلامی اصولوں کی پاس داری کرتے ہیں تو اللہ ہماری ضرور مدد کرتا ہے لیکن ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ہم ویسے تو بڑے مسلمان بنتے ہیں اور زبان سے ہر وقت اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی باتیں کرتے ہیں مگر اپنی عملی زندگی میں اس پر عمل نہیں کرتے بلکہ دنیاوی اغراض و مقاصد اور ذاتی پسند نہ پسند کے چکر وں میں الجھ کر نت نئی بہانہ سازیاں کررہے ہو تے ہیں‘ مثلاً طلاق کو ہمارے ہاں برا سمجھا جاتا ہے لہٰذا یہ ٹھپہ تو نہیں لگنا چاہیے‘ پھر ایسی لڑکی سے شادی کون کرے گا ‘ وغیرہ وغیرہ‘ ایسے موقع پر اللہ یاد نہیں آتا بلکہ دنیا کا خیال دامن گیر ہوتا ہے کہ دنیا کیا کہے گی؟ اللہ کی ہدایت پر عمل تو کیا ہوتا‘ وہ تو لولی لنگڑی‘ اندھی‘ بہری‘ گونگی لڑکیوں کے لیے بھی معقول زندگی گزارنے کے راستے پیدا کردیتا ہے اور اس طرح کے دنیا حیران ہوتی ہے کہ آخر یہ کیسے ہوگیا۔ ہزاروں مثالیں اس حوالے سے دی جاسکتی ہیں لیکن جو لوگ برائی اور ظلم کے راستے پر سفر جاری رکھنے کے لیے بضد رہتے ہیں اور اسی کو اپنی منزل مقصود سمجھ لیتے ہیں تو اﷲ ان کی کیا مدد کرے گا اورکیوں کرے گا؟ ہاںوقتاً فوقتاً حالات کے بھنوران کو تنبیہہ ضرور کرتے رہتے ہیں۔ اچھے برے اور اپنے پرائے کا فرق ان پر واضح ہوتارہتا ہے‘ اب اگر وہ کوئی سبق نہ لیں اورخود راستہ بدلنے کی نیت وارادہ نہ کریں تو عمر بھرذلت کے غار میں پڑے رہتے ہیں۔ ہم نے واضح طورپر تم کو تمہارے سوالات کا جواب دے دیاہے اور اس مسئلہ پر اس قدر تفصیل سے اس لیے بھی بات کی ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ صرف تمھارا ہی مسئلہ نہیں ہے، بے شمار گھرانوں کا مسئلہ ہے اس مسئلے کا شکار ہوکر اگر ایک غلط فیصلہ کرلیاجائے تو پوری زندگی تباہ ہوکر رہ جاتی ہے جیسا کہ تمہارے ساتھ ہوا تمہیں شکایت ہو گی کہ تمہارے زائچے کی روشنی میں اب تک کوئی بات نہیں کی۔ تم بہت حساس اور جذباتی ہو‘ جلد بازاور غیر مستقل مزاج ہو‘ اچھی قوت فیصلہ تمہارے اندر نہیں ہے۔ اپنے خاندان سے تمہاری دلی وابستگی زیادہ رہی ہے۔ شاید اسی لیے تم نے شوہر اور اس کے گھر والوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ پندرہ سال قبل سیارہ زحل تمہارے زائچے کے ساتویں گھر میں آیا تو ازدواجی زندگی میں مسائل کے پیج پڑگئے جنہیں دانش مندی سے حل کرنے کے بجائے مزید الجھادیا گیا‘ اب تم سیارہ زحل کے ساڑھے سات سالہ سختی کے دور سے گزررہی ہو تو تم کو اندازہ ہورہاہے کہ دنیا کیا شے ہے اور وقت کی گردش کیاہوتی ہے۔ رام پور کے ایک شاعر شاد عارفی کا شعر اس وقت یادآرہاہے۔یہ شعر درحقیقت سیارہ زحل کی سختی کا حقیقی آئینہ دار ہے۔
وقت کیا شے ہے پتا آپ کو چل جائے گا
ہاتھ پھولوں پہ بھی رکھو گے تو جل جائے گا
تمہارے اورشوہر کے زائچے کے مطابق تمہاری طلاق کا وقت قریب آگیاہے۔اگر اب بھی تم نے اور تمہارے شوہر نے معقولیت پسندی کا راستہ اختیارنہ کیا تو پھر زحل کی موجودہ پوزیشن طلاق کرادے گی۔ بس اس مسئلہ پر ہم مزید کچھ کہنا نہیں چاہتے۔تالے چابی والا عمل قمردرعقرب میں بھی کیاجاسکتاہے اور قمر درعقرب کا وقت یادیگر اہم اوقات سیارگان ہم ہر ماہ پابندی سے دیتے ہیں اورآئندہ بھی دیتے رہیں گے۔