مرزا غالب نے کہا تھا کس قیامت کے یہ نامے مِرے نام آتے ہیں۔
شاید کچھ ایسی ہی صورت حال ہماری بھی ہے، جب سے اخبارو رسائل میں لوگوں کے مسائل پر لکھنا شروع کیا، خطوط، ای میلز وغیرہ کے ذریعے نت نئی کہانیاں، رنگ برنگ مسائل ہمیں برسوں سے موصول ہورہے ہیں لیکن کبھی کبھی ایسے خطوط بھی نظر سے گزرتے ہیں جنہیں اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے کیوں کہ تحریر شدہ مسئلہ یا قصہ ضروری نہیں کہ کسی ایک ہی فرد یا گھر کا ہو، ممکن ہے ایسی صورت حال سے اور بھی بہت سے دوسرے لوگ دوچار ہوں، آئیے ایک اہم خط کا مطالعہ کیجیے۔
اداسیاں دل میں نوحہ گر ہیں
این، ایس رقم طراز ہیں” میں یہ خط نہایت عاجزی کے ساتھ لکھ رہی ہوں لہٰذا آپ اسے ذرا توجہ سے پڑھیے گا، میں فطرتاً ایک کمزور دل کی لڑکی واقع ہوئی ہوں ، وہ اس طرح کہ میں جنوں بھوتوں سے بہت ڈرتی ہوں ، کوئی اگر ذکر بھی چھیڑ دے تو میں تنہا کمرے میں نہیں رہ سکتی، نماز تک نہیں پڑھ سکتی، ہر وقت یہ خوف ستاتا ہے کہ کوئی میرے پیچھے کھڑا ہے، بعض اوقات یہ وہم اس قدر شدت اختیار کرجاتا ہے کہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے میری گردن چھولی ہے، میں اکیلی باتھ روم نہیں جاتی، اگر چلی بھی جاوں تو واپسی پر تقریباً دوڑتی ہوئی واپس آتی ہوں اور اچھل کر مسہری پر چڑھتی ہوں کہ کہیں کوئی نیچے سے میرے پاوں کو نہ چھولے، خیر میں آپ کو یہاں اپنا کوئی اور مسئلہ بتانے جارہی ہوں، میری پرابلم یہ ہے کہ میں ہر وقت ذہنی دباو کا شکار رہتی ہوں، یہ حال گزشتہ دس سالوں سے ہے، ہر وقت بلاوجہ سوچتی ہوں، غصہ ہر وقت میرے اندر بھرا رہتا ہے، جلتی کڑھتی ہوں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر دوسروں پر طنز کرتی رہتی ہوں، کوئی بھی میری مرضی کے خلاف بات کرے تو شدید غصے کا اظہار کرتی ہوں، ہر وقت لڑنے کو جی چاہتا ہے، آپ یقین کریں میں ایسا نہیں کرنا چاہتی مگر میرے اندر برداشت کی بالکل بھی قوت نہیں ہے حالاں کہ کچھ بھی کرنے کے بعد بہت پچھتاتی ہوں، کسی کی معمولی بات بھی برداشت نہیں کرتی اور اسے برا بھلا کہہ دیتی ہوں، دوسروں کی بات کا غلط مطلب لے لیتی ہوں، پہلے میرے گھر والے برداشت کرلیتے تھے مگر اب وہ بھی نفرت کرنے لگے ہیں، کوئی میری بات سننا نہیں چاہتا، اپنے آپ کو بھی اذیت پہنچاتی رہتی ہوں، کئی دن تک کھانا نہیں کھاتی، تنہا کمرے میں بیٹھی رہتی ہوں، زندگی کی تمام سرگرمیوں سے لاتعلق ہوجاتی ہوں، چاہتی ہوں کہ ہر وقت کوئی میری خوشامد کرتا رہے، مجھے منائے، غرض یہ کہ ہر کسی کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانا چاہتی ہوں، خاص کر امی کی، کبھی انگلیوں کو دانتوں سے کاٹتی ہوں، اس قدر کاٹتی ہوں کہ زخمی ہوجاتی ہوں، اس وقت میرے اندر ایک ہیجان سا برپا رہتا ہے، چہرہ دہکنے لگتا ہے، بعض دفعہ رونے لگ جاتی ہوں، پیشانی کے اوپر مانگ کی جگہ پر نوچ کر اس قدر زخمی کردیا ہے کہ یہ مستقل سیاہ ہوگیا ہے اور ابھی تک اسے نوچتی ہوں، دانتوں سے ناخنوں کو بھی توڑتی رہتی ہوں، یعنی ایک چیز چھوڑتی ہوں دوسری طرف متوجہ ہوجاتی ہوں، ایسا کرتے ہوئے چکر اور الٹی آنے لگتی ہے اور جب تک پوری طرح ناخن یا کوئی جگہ نوچ نہ لوں، سکون نہیں ملتا، ایسا خاص کر مطالعے کے وقت ہوتا ہے جس کی وجہ سے کئی منٹ تک پڑھائی سے ذہن ہٹ جاتا ہے اور سبق بھی صحیح سے یاد نہیں ہوتا، اکثر چھپ کر روتی ہوں، دل ہر وقت اداس رہتا ہے ، ہر دم مایوس بیٹھی رہتی ہوں، کسی سے بات کرنے کو جی نہیں چاہتا، بھائی یا بہنیں کچھ کہہ دیں تو خود کشی کرنے کو جی چاہتا ہے، سب مجھ سے تنگ آچکے ہیں، سوچوں میں ایسی گم ہوجاتی ہوں کہ یہ تک یاد نہیں رہتا کہ میں کہاں ہوں، زندگی کے مشکل حالات کو فیس کرنے کا بالکل بھی حوصلہ نہیں ہے، گھر کے تمام افراد سے نفرت کرتی ہوں، حالاں کہ ایسا چاہتی نہیں ہوں، دل خوف زدہ رہتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ جیسے کچھ ہونے والا ہے، درود شریف پڑھنے کے باوجود کسی بھی اذیت سے نجات نہیں پاتی، اگر کسی وقت کسی سے ہنس کر بات کرلوں تو بعد میں پچھتاتی ہوں، اپنے اوپر غصہ آتا ہے، چاہتی ہوں کہ افسردہ رہوں ، کسی سے بات نہ کروں، غرض یہ کہ ہر منفی فیصلہ کرتی ہوں مگر اس پر عمل بھی نہیں کرسکتی کیوں کہ میری قوت ارادہ بھی مضبوط نہیں ہے، اپنی زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ، آج کل کی لڑکیوں سے بالکل مختلف ہوں، ایک تعلیم کے سوا کسی چیز سے دلچسپی نہیں رکھتی،ٹی وی بھی نہیں دیکھتی، کسی کے ہاں نہیں جاتی، محفل میں جانے سے گھبراتی ہوں، نماز پڑھتی ہوں مگر بے چینی کے ساتھ ہر دم ہر خیال رہتا ہے کہ خدا میری دعا قبول نہیں کرے گا، اپنی امی سے بہت محبت کرتی ہوں مگر اس کا اظہار ان سے نہیں کرتی، چاہتی ہوں انہیں کوئی دکھ نہ دوں مگر اپنے ارادے پر عمل پیرا نہیں ہوتی، میرے اندر سستی کاہلی بھی اس قدر ہے کہ ہفتوں بالوں میں کنگھا نہیں کرتی ، میں نے اگرچہ کالج میں داخلہ تو لے لیا ہے مگر ہر وقت الجھتی رہتی ہوں ، یہ سوچتی ہوں کہ جاو¿ں یا نہ جاو¿ں کیوں کہ اب میرے اندر کوئی امنگ نہیں ہے، دل کسی بات پر خوش نہیں ہوتا، یہ خط میں تقریباً روتے ہوئے لکھ رہی ہوں، زندگی سے بہت تنگ آچکی ہوں، ڈاکٹر کہتے ہیں کہ میری پرانی کمزوری ہے جس کا علاج بھی کروایا مگر بے سود، پلیز آپ میری مدد کریں، میرے لیے کوئی آسان قابل عمل طریقہ بتائیں، میں آپ کی بہت شکر گزار رہوں گی“۔
جواب: عزیزم! آپ کا مسئلہ بنیادی طور پر ڈپریشن کا ہے جسے عام زبان میں افسردگی یا اداسی کہا جاتا ہے، افسردگی غم کے احساساتی پہلو کو ظاہر کرتی ہے اور اس میں ہلکی سی دل گرفتگی یا عالم بے زاری کا احساس نمایاں ہوتا ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ معاملہ اس سے بڑھ کر بے پروائی کے احساس سے لے کر امید و نا امیدی کے شدید احساس تک چلا جائے،ا یسی صورت میں شدید مایوسیاں زندگی پر چھا جاتی ہیں اور تشویش، جسمانی بیماریاں، عجیب عجیب طرح کے مراق یا وہم جیسا کہ آپ کو ہیں اور خود کشی کے رجحانات یا خیالات نمایاں ہوجاتے ہیں درحقیقت یہ انسانی مزاج کا ایک جزووقتی سا بگاڑ ہوتا ہے جو کسی نا پسندیدہ واقعہ یا بدمزگی کے بعد پیدا ہوجاتا ہے یعنی افسردگی یا ملال کا جذبہ کسی فطری خواہش کو دبانے،مایوسی یا کچھ عرصے تک کسی فطری رویے میں رکاوٹ پڑنے پر پیدا ہوتا ہے، افسردگی انسانی ذہن اور رویے کو ناگوار بنادیتی ہے اور یہ ناگواری براہ راست انسان کی تخلیق استعداد اور صلاحیت پر اثر انداز ہوتی ہے، ہمارا مشاہدہ تو یہاں تک ہے کہ اکثر افسردگی کی مریض خواتین بے اولادی کا شکار بھی ہوجاتی ہیں، جدید سائنسی تحقیق کے مطابق اگر کسی شخص میں نا امیدی کا احساس بڑھتا چلا جائے اور اس پر اداسی کے بادل منڈلانے لگیں اور اس کی نیند میں خلل پیدا ہوجائے اور اس کے ذہن میں خود کشی اور موت جیسے منفی خیالات پیدا ہونے لگیں، بے چینی اور چڑچڑاپن اس کے مزاج کا حصہ بن جاے، عزت نفس کا فقدان یا احساس جرم دل میں بیٹھ جائے، کھانے میں بدنظمی ، بھوک اور وزن میں کمی ، تھکاوٹ اور کمزوری محسوس ہونے لگے، سوچ بچار کے دوران ارتکاز کی صلاحیت ختم ہوجائے، جن مصروفیات میں کبھی انسان دلچسپی لیتا رہا ہو ان سے دلچسپی ختم ہوجائے تو سمجھ لیں کہ وہ شخص ڈپریشن کا مریض ہے اور افسردگی اور اداسی کے کالے بادلوں نے اس کی شخصیت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
ڈپریشن کا مریض ایک خوف ناک قسم کی تنہائی محسوس کرنے لگتا ہے، اسے شخصیت کا ادراک نہیں رہتا اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس کی روح اس سے علیحدہ ہوکر بھوت کی شکل میں باہر کھڑی اس کی بے چارگی اور مظلومیت کا تماشا دیکھ رہی ہے، انسان کے حقیقی جذبوں کی گرمی ختم ہوکر رہ جاتی ہے، طبیعت اتنی بوجھل ہوجاتی ہے کہ مریض معمولی کام کی انجام دہی میں بھی غیر معمولی وقت سرف کرنا شروع کردیتا ہے یا مریض کوئی کام کرتے ہی نہیں، جیسا کہ آپ کے لیے کنگا کرنا بھی دشوار کام ہوگیا ہے،ا یسے مریض اکثر منہ ہاتھ دھونے، غسل کرنے، کپڑے بدلنے کی زحمت سے بھی بچنا چاہتے ہیں،ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ وہ بچے جو اوائل عمری میں اپنے ماں باپ سے بچھڑ جاتے ہیں ان میں سے اکثر ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہوسکتے ہیں، ڈپریشن کی بنیادی وجوہات کے بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ یہ درحقیقت جسم کے زخمی ہوجانے سے مشابہ ہے، کیوں کہ اس میں انسان کی روح زخمی ہوتی ہے، اگر چہ اس قسم کے معاملات میں جدید نفسیاتی علوم نے تشخیص کے میدان میں بے انتہا ترقی کی ہے اور اس کی مختلف وجوہات کا پتا لگایا ہے جیسا کہ ایک سبب ماں باپ سے جدائی یا ان کی توجہ میں کمی بتایا جاتا ہے، اسی طرح جدید سائنسی تحقیق سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ ڈپریشن کے پس منظر کا تعلق ماحول سے بھی ہے اور انسان کے اندر موجود کیمائی اور خلیاتی پوزیشن سے بھی ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ کچھ بچے ڈپریشن کا شکار ہونے کے قدرتی صلاحیت رکھتے ہیں اور جب بھی کبھی ماحول میں ایسی تبدیلی پیدا ہو تو ان کے قدرتی اوصاف میں ہلچل پیدا کردے تو بچہ ڈپریشن میں پیدا ہوجاتا ہے،جینیاتی سطح پر تحقیق سے بھی ایسے حقائق منظر عام پر آئے ہیں جن سے اس مفروضے کی تصدیق ہوتی ہے، سائنس دانوں نے انسان کے اندر 46 کروموسوم میں سے ایک کے نمونے کو ڈپریشن کے مریضوں میں ایک سا پایا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈپریشن پیدا کرنے والی جینز بھی موجود ہیں اور انسان کو مکمل طور پر اس سے بچنے کا اختیار موجود نہیں ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ماحول کے علاوہ انسان کی شخصیت کے اوصاف بھی انسان کے اندر موجود پرسکون جینز کو تنگ کرتے اور اسے کارروائی کے لیے ابھارتی ہیں اس لیے جلد جذباتی ہوجانے والے اپنے ذاتی مسائل کو احسن طریقے سے حل نہ کرنے والے یا حل کرنے میں تکلیف محسوس کرنے والے اور دوسروں کی خواہش اور آرا کو زیادہ اہمیت دینے اور ان کا محتاج رہنے والے لوگ بھی اس فہرست میں شامل ہوجاتے ہیں۔
جدید سائنسی تحقیقات اور ماہرین نفسیات کا مطالعہ و مشاہدہ ابھی تک اس ساری صورت حال میں حتمی نتائج مرتب کرنے سے قاصر ہے کیوں کہ ایسے مریضوں کی تشخیص کے دوران یہ معلوم کرنا کہ آیا ان کی افسردگی اور مایوسی کا سبب موروژی یا پیدائشی جینز ہیں یا ماحولیاتی عوامل، ایک شکل اور مرحلہ وار مطالعاتی کام ہے، اس سلسلے میں اگر علم نجوم سے رہنمائی لی جائے تو یہ کام بے حد آسان ہوجاتا ہے۔
علم نجوم کے ذریعے ہم یہ بھی معلوم کرسکتے ہیں کہ آیا مریض ڈپریشن کے پیدائشی رجحانات رکھتا ہے یا نہیں اور یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ ماحول کا کتنا اثر قبول کرنے والی شخصیت ہے، علم نجوم سے شغف رکھنے والے ماہرین نجوم یہ بات خوب جانتے ہیں کہ دائرة البروج کے بارہ برجوں میں کون سے برجوں کے تحت پیدا ہونے والے افراد کی شخصیت میں کون کون سے مثبت اور منفی پہلو موجود ہیں اور وہ ماحول کے اثرات کو کس حد تک اور کس طرح قبول کرتے ہیں، آپ نے اپنی تاریخ پیدائش نہیں لکھی لیکن ہمیں یقین ہے کہ آپ کے زائچے میں سیارگان کی زیادہ تعداد آبی اور ہوائی بروج میں ہوسکتی ہے، آپ کا شمسی یا قمری برج یقیناً سرطان ہوگا کیوں کہ سرطانی افراد بچپن میں ماں کی زیادہ توجہ چاہتے ہیں، انہیں اپنی ماں سے زیادہ محبت ہوتی ہے اور اگر زیادہ بہن بھائیوں کا ہجوم ہو اور ماں ان پر زیادہ توجہ مرکوز نہ رکھ سکے تو وہ افسردگی کا شکار ہونے لگتے ہیں، اسی طرح کینسر افراد دیگر گھریلو افراد سے بھی زیادہ توجہ کے طالب ہوتے ہیں، بہ صورت دیگر افسردگی اور مایوسی کا شکار ہونے لگتے ہیں، برج سرطان کے علاوہ آبی مثلث کے دوسرے برج حوت اور عقرب بھی ان معاملات میں بے حد حساس ہوتے ہیں، آبی مثلث کے بعد بادی یعنی ہوائی مثلث چوںکہ بے حد تصوراتی رجحان کی حامل ہے لہٰذا یہ لوگ بھی ماحول سے جلد متاثر ہونے اور اس کا منفی اثر قبول کرنے کی خصوصیات رکھتے ہیں، ہوائی بروج میں جوزا ، میزان اور دلو شامل ہیں بہر حال کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر ذہنی اور نفسیاتی مریضوں کی کیس ہسٹری کا جائزہ لیتے ہوئے اگر علم نجوم سے مدد لی جائے تو تشخیص و علاج کا راستہ زیادہ آسان ہوجائے گا، علاج کے حوالے سے ایلو پیتھک ادویہ کی کارکردگی اب محتاج بیان نہیں رہی ہے، دنیا بھر میں ماہرین نفسیات دواوں کے علاوہ دیگر طریقوں پر بھی توجہ دے رہے ہیں جن میں سانس کی مشقیں، مراقبہ اور ایسے ہی دوسرے طریقے جن میں حالیہ شہرت پانے والا ، طریقہ علاج ”ریکی“ بھی شامل ہے اور دواوں کے معاملے میں ہومیو پیتھک ادویہ کی اثر پذیری بھی تسلیم کی جارہی ہے چوں کہ ہومیو پیتھک دوا اپنی لطافت کے باعث روح کے زخموں کے اندر مال کے لیے زیادہ موزوں اور موثر ہے اور اس کے نقصان دہ اثرات بھی نہیں ہیں، جیسا کہ ایلو پیتھک ادویہ کے طویل عرصہ استعمال سے ظاہر ہوتے ہیں۔
مندرجہ بالا صورت حال میں مایوسی اور بے زاری اس حد تک موجود ہے کہ مریضہ خود کشی کے بارے میں سوچنے لگی ہے، ایسی صورت میں ہویو پیتھک دوا ”اورم میٹلکم“ اس کی اداس روح میں زندگی کی دلچسپیاں پیدا کرسکتی ہے مگر عزیزم! بہترین بات یہ ہوگی کہ آپ کسی تجربہ کار ہومیو ڈاکٹر کی زیر نگرانی یہ دوا استعمال کریں کیوں کہ ہومیو پیتھک دوا کے استعمال میں مقدار خوراک اور دوا کی طاقت کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے اور اس کا فیصلہ مریض کی حالت کے پیش نظر ڈاکٹر ہی کرسکتا ہے، اکثر لوگ اپنی بیماری کے بارے میں لکھتے ہیں اور دوا کا نام پوچھتے ہیں، ہم عموماً بتا بھی دیتے ہیں لیکن پے چیدہ اور پرانے امراض کے سلسلے میں یہ طریقہ غلط ہے، بعض اوقات ایک سے زائد دواوں کی وقفے وقفے سے ضرورت پڑتی ہے اور دواوں کا یہ ردو بدل ڈاکٹر کے مشاہدے کے بغیر درست نہیں ہوسکتا۔
اگر یہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ صرف ہمارے شہر کراچی میں ”ڈپریشن“ کے مریض بچے، جوان، بوڑھے، مردو خواتین ایک بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں اور اپنی بے شمار ایسی بیماریوں کے علاج کے لیے پریشان رہتے ہیں جن کا اصل سبب یہی اداسی اور افسردگی ہے مگر وہ اس کا علاج نہیں کراتے، نہ ہی عام ڈاکٹر ان کے اس اصل مسئلے پر توجہ دیتے ہیں بلکہ ڈپریشن کے سبب پیدا ہونے والی دیگر جسمانی بیماریوں کے لیے بے تحاشا دوائیں استعمال کرتے رہتے ہیں مگر مکمل شفایابی سے محروم رہتے ہیں کیوں کہ ان کے امراض کا بنیادی سبب تو کبھی ختم نہیں ہوتا۔
ہمیں دس گیارہ سال کی ایک بچی کا کیس یاد آرہا ہے ، اسے بھوک نہیں لگتی تھی، ہاضمہ ہمیشہ خراب رہتا ، قبض کی شکایت رہتی، پیٹ میں اکثر شدید درد اٹھتا جس کی وجہ سے پڑھائی بھی متاثر ہورہی تھی کیوں کہ پیٹ میں درد کی شکایت اسکول روانگی کے وقت ہوتی یا اسکول میں تقریباً ایک سال مختلف علاج معالجے ہوتے رہے، عارضی بہتری ہوئی اور پھر معاملہ جہاں تھا وہیں آجاتا، بچی کی خالہ اسے ہمارے پاس لائیں، ہم نے ابتدائی علامات پر دوا دی مگر ایک ہفتے دوا کھانے کے بعد کوئی تسلی بخش نتیجہ سامنے نہ آیا، بے حد خاموش طبع، شرمیلی اور کچھ سہمی ہوئی سی نظر آتی تھی، ہم نے پوچھا کہ اس کی ماں ساتھ کیوں نہیں آتی ہے تو خالہ نے بتایا کہ اس کا باپ اسے گھر سے نکلنے ہی نہیں دیتا، وہ تو اس کے علاج کے لیے بھی راضی نہیں ہوتا، میں زبردستی ساتھ لے آتی ہوں، اپنے ساتھ بہانہ کرکے، مزید سوالات کرنے پر معلوم ہوا کہ باپ نہایت ظالم و سفاک ہے، وہ ماں کو ہی نہیں بچی کو بھی مارتا ہے۔
اداس اور خوف زدہ بچی ہمیں آج بھی یاد ہے، جب اسے اس کی بنیادی علامات کے مطابق دوا دی گئی تو تھوڑے ہی عرصے میں اس کا نظام ہضم درست ہونے لگا اور پیٹ کا درد بھی ہمیشہ کے لیے رخصت ہوا، بھوک کھلی تو کھایا پیا جزوبدن بننے لگا اور وہ بچی جو روز بروز سوکھتی جارہی تھی ، تروتازہ ہونے لگی، علاج کے لیے ہم نے اس کی خالہ سے یہ شرط بھی رکھی تھی کہ اسے ایک ماہ کے لیے اپنے گھر بلا لو، اتفاق سے اسکول کی چھٹیاں بھی قریب تھیں لہٰذا یہ مرحلہ آسانی سے طے ہوگیا، اس شرط کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی وہ کچھ عرصے کے لیے اپنے گھر کے ظالمانہ و جابرانہ ماحول سے دور ہوجائے اور علاج کے دوران میں بہتر ماحول میں رہے ورنہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے وہ ماحول جس نے مریض بنایا ہے، مریض کو سنبھلنے ہی نہیں دیتا، ساتھ ہی ساتھ اس کے باپ کے غصے کا بھی علاج کیا گیا جو خفیہ طور پر جاری رہا یعنی ہومیو دوا شربت، دودھ یا مٹھائی وغیرہ کے ذریعے دی جاتی رہی، درحقیقت ایسے معاملات میں اکثر بڑی دشواریوں اور رکاوٹ سے سابقہ پڑتا ہے۔