یونان سے بھارت

ڈاکٹر جارج و تھولکس 1932 ء میں یونان کے شہر ایتھنز میں پیدا ہوئے، یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا عالمی کساد بازاری کا شکار تھی، دوسری عالمی جنگ کے لیے گراؤنڈ تیار ہورہا تھا اور بالآخر جب جارج دس سال کا تھا تو جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے، وتھولکس کے والدین دوسری عالمی جنگ کے ہنگاموں کی نظر ہوگئے، اس کے والد بنیادی طور پر انجینئر تھے، ان کی اپنی فیکٹری تھی جہاں لکڑی کا اعلیٰ سامان تیار ہوتا تھا۔
1942 ء میں جارج کے والد کو انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کردیا گیا تھا، یوں ان کے گھر پر غربت نے ڈیرے ڈال دیے، ساڑھے دس برس کی عمر میں وتھولکس چھابڑی میں سگریٹ، کٹھی میٹھی ٹافیاں لگاکر یونان کے گلی کوچوں میں فروخت کرکے اپنی گذر بسر کرتا، یہ جنگ کا اختتامی زمانہ تھا کہ اس کی والدہ جنگی فسادات کی بھینٹ چڑھ گئی،جنگ کی تباہ کاریوں کے باعث یونان کا ایک بڑا حصہ تباہ و برباد ہوچکا تھا لہٰذا اس زمانے میں یونان کی تعمیر نو کا سوال اٹھا ،یونان کی ایک بڑی یونیورسٹی میں وہ سول انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے لگے، ڈگری حاصل کرنے کے بعد ان کی صلاحیتیں انہیں آرمی تک لے گئیں، ایک عرصے تک آرمی میں رہنے کے بعد ان کی وہاں سے علیحدگی ہوگئی اور ان کا رابطہ افریقہ کی ایک بڑی تعمیراتی فرم سے ہوگیا جہاں اخراجات یونان کے مقابلے میں آدھے اور معاوضہ تین گناہ زیادہ تھا، چناں چہ وتھولکس وہاں شفٹ ہوگئے۔
جارج وتھولکس کی ریڑھ کی ہڈی کے پانچوے مہرے میں نقص زمانہ ء طالب علمی سے ہی پیدا ہوگیا تھا جس کی تصدیق ایکسرے رپورٹس سے ہوگئی تھی، موسم کے تغیرات اور کام کی زیادتی کے باعث وتھولکس اس درد کی وجہ سے اکثر بے چین اور پریشان رہنے لگے تھے، ڈاکٹروں نے متفقہ طور پر اس بیماری کو لاعلاج قرار دے دیا تھا، افریقی ملازمت کے دوران ڈاکٹر ولیم بورک کا تحریر کردہ شہرت یافتہ میٹریا میڈیکا کسی طرح جارج و تھولکس کے ہاتھ لگ گیا، وتھولکس نے اس میٹریا میڈیکا کو چند ہی ہفتوں میں کھنگال ڈالا، ہومیو پیتھی ان کے لیے بالکل ایک نئی چیز تھی،اس کے علاوہ کینٹ لیکچرز، ریپرٹری، فلاسفی اور دیگر کتب بھی ان کے مطالعے میں آئیں، انہوں نے ہومیو پیتھک دوا کو بذات خود استعمال کیا اور اپنے ارد گرد چند احباب کو بھی استعمال کروایا، نتائج حیرت انگیز اور پر اثر نکلے، یوں جارج وتھولکس کی ہومیو پیتھی سے دلچسپی جنون کی حد تک بڑھ چکی تھی۔
ڈاکٹر جارج نے اپنی اس شاندار ملازمت کو چھوڑ کر ہومیو پیتھی کی تلاش میں بھارت کی راہ لی اور 1966 ء میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ہومیو پیتھی سے ہومیو پیتھک ڈگری حاصل کی، اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ واپس یونان آگئے اور باقاعدہ طور پر اپنے کلینک کا آغاز کیا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وتھولکس کے گرد لاعلاج مریضوں کی بھیڑ لگنے لگی، ان کی شہرت یونان کے گلی کوچوں سے نکلی اور پورے یورپ میں پھیل گئی، دنیا بھر سے بھانت بھانت کے مریض ان سے رجوع کرنے لگے۔
ایک طویل عرصے سے ہر سال یونان میں عالمی سطح پر سیمینار منعقد کیے جارہے ہیں جس میں دنیا بھر سے عالی دماغ اس سیمینار میں شریک ہوتے ہیں اور ہومیو پیتھی کے حوالے سے نت نئے جدید پہلوؤں پر غور کیا جاتا ہے اور علاج معالجے کے نئے راستے تلاش کیے جاتے ہیں،دواؤں کے اثرات اور استعمال پر سیرحاصل مباحثے ہوتے ہیں۔
جارج وتھولکس کا ادارہ اس وقت دنیا بھر میں ہومیو پیتھی کی تعلیم کا سب سے مستند ادارہ خیال کیا جاتا ہے۔
جارج وتھولکس نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود ہومیو پیتھی لٹریچر میں اہم اور مستقل نوعیت رکھنے والے مضامین اور کتب تصنیف کیں، اس سلسلے کی ایک کتاب “Taks on classical homeopathy” پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
ہومیو پیتھی کی دریافت کے ساتھ ہی یہ مسئلہ سامنے آیا کہ ادویات کی علامات کو کیسے سمجھا اور یاد رکھا جائے یا ایسی ترتیب میں کیسے لایا جائے اور مریض کو دیکھتے ہوئے نہ تو بہت زیادہ وقت صرف ہو اور نہ ہی دوا کے چناؤ میں کوئی غلطی ہو، اس سلسلے میں بہت پہلے کام شروع ہوچکا تھا۔ایم ٹائلر، نیش، ایلن اور کینٹ نے اس ضمن میں شاندار کام کیا لیکن اس طریقہ کار کو اوج کمال تک لے جانے کا سہرا جارج وتھولکس کے سر بندھتا ہے۔
جارج وتھولکس کا ترتیب دیا ہوا میٹریا میڈیکا ایک دفعہ آپ سمجھ لیں تو دوا محض لکھی ہوئی عبارت یا علامات تک محدود نہیں رہتی بلکہ چلتا پھرتا انسان بن جاتی ہے، اس کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد آپ اپنے پاس دواؤں کو چلتا پھرتا دیکھنے لگیں گے، آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ ’’اناکارڈیم‘‘ کا دماغ ٹوٹ کر دو حصوں میں تقسیم کیسے اور کب ہوتا ہے، اس کا سبب کیا ہوتا ہے؟ اس کی علامات کیوں پیدا ہوتی ہیں؟ سب سے پہلے کیا ہوتا ہے، پھر اگلے مرحلے میں کیا علامات ظاہر ہوتی ہیں اور آخر میں مریض کس حالت کو پہنچ جاتا ہے یا ’’کیوپرم میٹ‘‘ کا مریض کس طرح ہر ہر سطح پر کڑل کا شکار ہوتا ہے اور کیوں اور کیسے اس حالت کو پہنچتا ہے، اس طرح مریض آپ کے پاس کسی بھی مرحلے میں آئے آپ اسے پہچان لیں گے کہ یہ کس دوا کا کون سا مرحلہ ہے؟
ڈاکٹر جارج و تھولکس کا طریقہ کار یہ ہے کہ ان کے گروپ میں تجربہ کار اور نومشق، ہر دو قسم کا ہومیو پیتھک گروپ موجود ہے، کوئی ایک دوا منتخب کرلی جاتی ہے اور وتھولکس اپنے ذاتی تجربات جو اس دوا سے وابستہ ہوتے ہیں، ڈسکس کرتے ہیں، لیکچر کے آخر میں ذاتی کلینکل کیس کی روشنی میں دوا کی علامات اور اس کے نتائج کو مرحلہ وار جادو اثر انداز میں یوں پیش کرتے ہیں کہ جیسے گلاب کی ایک پنکھڑی کو اٹھایا گیا، اس کے نیچے دوسری پنکھڑی اور پھر تیسرا پرت اور پرت در پرت دوا کی اتنی جہتیں سامنے آتی ہیں کہ اس کا درست اندازہ تو آپ جارج وتھولکس کی تحریر کردہ کتب کو پڑھ کر ہی لگاسکتے ہیں۔