ہومیو پیتھک ڈاکٹر کاشی رام

1908 ء میں جب میں تحصیل علم کی آخری منازل طے کر رہا تھا، اس اثنا میں مجھے خونی بواسیر کا عارضہ لاحق ہوا، سوتے، جاگتے، اٹھتے، پلٹھتے، خون ازخود نکل جایا کرتا تھا جس کا مجھے علم تک نہ ہوتا، میں نے پنجاب کے نامور ایلوپیتھک ڈاکٹر بیلی رام کا معالجہ بہت عرصے تک جاری رکھا مگر کوئی افاقہ نہ ہوا، آخر قدرت نے مجھے ڈاکٹر پی سے مورندا صاحب کے پاس کلکتہ پہنچادیا، اس وقت ڈاکٹر صاحب کی عمر تقریباً 72 سال تھی، انہوں نے میرے تمام حالات سنے، میرا معائنہ کیا اور رائی کے برابر دو گولیاں میری زبان پر رکھ کر شفا کا فتویٰ دے دیا۔
میں حیران تھا کہ آیا طویل عمری کی وجہ سے یہ مخبوط الحواس ہیں یا واقعی اس دنیا میں ابھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس قسم کی محیر العقول کرامات دکھانے پر قادر ہیں، غرض میں نے پنجاب واپسی کا ارادہ کرلیا، گھر پہنچنے سے پہلے ہی دوا نے اپنا اثر دکھایا اور خون بالکل بند ہوچکا تھا، میں اپنے آپ کو بالکل تندرست محسوس کر رہا تھا، آج چوتھائی صدی کا زمانہ گزر چکا ہے مگر ایک قطرہ بھی خون کا بواسیری شکایت کے تحت نہیں گرا۔
دوسرے سال آنتوں کے پھوڑے میں مبتلا ہوا، ایلوپیتھک ڈاکٹروں نے آپریشن کا مشورہ دیا، میں نے اپنے پرانے محسن ڈاکٹر مورندا کے دروازے کو کھٹ کھٹایا اور ان کے چند یوم کے علاج سے بغیر آپریشن کے میں صحت یاب ہوگیا۔
ہومیو پیتھی کے یہ دوکرشمے ایسے تھے جنہوں نے مجھے قدرتی طور پر ہومیو پیتھک سائنس کو حاصل کرنے پر مائل کیا، میں نے اس پیتھی کا کئی سال تک بغور مطالعہ کیا، میں نے اپنی پریکٹس کے دوران اس قسم کے سیکڑوں مریض دیکھے جن کو عام طور پر معالجین نے لاعلاج قرار دے دیا تھا مگر ہومیو پیتھی طریقہ علاج سے ان کی صحت میں دن بدن ترقی ہوتی رہی ، ہومیو پیتھی طریقہ علاج اس قدر سہل اور سادا ہے کہ اس کو ہر ذی فہم انسان قبول کرسکتا ہے۔
جہاں دوسرے طریقہ ہائے علاج بیماری کی تشخیص میں اپنا بیشتر قیمتی وقت صرف کرکے مریضوں کو تختہ مشن بناتے ہیں، ایک معمولی سمجھ دار ہومیو پیتھ ان کو اسی عرصے میں شفا دے دیتا ہے، ہومیو پیتھی میں تشخیص مرض اور بیماری کی اتنی اہمیت نہیں ہے جتنی کہ علامات کی جو ایک قابل ہومیو پیتھ کی رہنمائی کے لیے کافی ہے۔
بانیء ہومیو پیتھی سیموئل ہنی مین کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے ابھی بہت زمانہ نہیں گزرا لیکن تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں ہومیو پیتھک طریقہ ء علاج رائج ہوچکا ہے۔برصغیر ہندوپاک میں گزشتہ 30 سال میں جس قدر ہومیو پیتھک سائنس نے ترقی کی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، اگر اس کی یہی افشار رہی تو وہ وقت دور نہیں جب کہ ہر ایک تعلیم یافتہ اس علم سے بہرہ مند ہوگا۔
جب میں اس طریقہ علاج کی روز افزوں ترقی اور شہرت دیکھتا ہوں اور ساتھ ہی ساتھ جب میں اس کے نتائج پر غور کرتا ہوں تو مجھے خوشی اور تسکین ہوتی ہے، جرمنی، امریکا اور انگلینڈ کے بڑے بڑے ڈاکٹروں نے میڈیکل رپورٹوں میں یہ تسلیم کیا ہے کہ متعدی امراض مثلاً ہیضہ، طاعون، انفلوئنزا وغیرہ میں ہومیو پیتھک طریقہ علاج کے اندر اوسط اموات دوسرے کسی طریقہ ہائے علاج کی بہ نسبت کہیں کم ہیں اور اس کے نتائج دوسرے امراض میں بھی کہیں زیادہ بہتر اور خوش گوار ہیں۔
میں کئی سال سے ہومیو پیتھی لٹریچر میں کمی محسوس کر رہا تھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو اور ہندی میں متعدد کتب ہومیو پیتھی پر موجود ہیں مگر ان کی تعداد اس وقت کم ہے کہ عوام الناس اس سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھا سکے ہیں، میں دیکھتا ہوں کہ ان میں سے بہت سی کتابیں مکمل بھی نہیں ہیں اور اس قدر مختصر لکھی گئی ہیں کہ ایک طالب علم کا ان سے گمراہ ہوجانا بعید از قیاس نہیں، اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے میں نے تصنیف کی طرف قدم اٹھایا ہے، میری پہلی لیکن سخت محنت کا نتیجہ قارئین کے ہاتھوں میں ’’ ان سائیکلو پیڈیا آف ہومیو پیتھک ڈرگز‘‘ کی شکل میں موجود ہے، میں نے اس کو تحریر کرنے میں جہاں اپنے تجربات درج کیے ہیں، وہاں بے شمار ہومیو پیتھک انگریزی لٹریچر کی بھی ورق گردانی کی ہے۔
ہومیو پیتھک فلاسفی جو ابتدا میں دو سو صفحات پر مشتمل ہے، وہ بادی النظر انسائیکلو پیڈیا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتی مگر میں عرصے سے دیکھ رہا ہوں کہ بعض ہومیو پیتھک معالج بغیر کسی ہومیو پیتھک اصول کے سمجھے ہوئے انسانوں کی قیمتی جانوں سے کھیل رہے ہیں، دوا کا یکے بعد دیگرے دہرانا اور تبدیل کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے جس سے بسا اوقات مریض کو بجائے فائدے کے نقصان ہوتا ہے اور اس سے مرض میں پیچیدگیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں اور ایسے معالج نادانستہ گناہوں کے مرتکب ہورہے ہیں، میں قارئین کی خدمت میں استدعا کرتا ہوں کہ وہ فلاسفی کے چند اوراق کو نہایت غور سے پڑھیں، حتی الامکان میں نے اصطلاحات کو استعمال نہیں کیا ہے لیکن جہاں مجبوری سے اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں، ان کی تشریح کتاب ہٰذا کے شروع میں کرائی گئی ہے۔
ڈاکٹر کاشی رام نے کئی نادر ادویات کا انگریزی کتب سے ترجمہ کرواکر انسائیکلو پیڈیا میں شامل کیا ہے، ان میں سے ایک دوا اوسنیا باربریٹا ہے، اس دوا کا ذکر “New and old forgotten remedies” میں ملتا ہے۔ مصنف اس کا ترجمہ قارئین کی نذر کر رہا ہے، ملاحظہ ہو۔
’’مارچ 1878 ء میں ، میں جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہا تھا، میں نے نرم سی شاخیں کاٹیں، ان شاخوں پر کائی سی جمی ہوئی تھی، میں نے اس کائی کو غور سے دیکھا اور تھوڑی سی اتار کر کھالی، میرا سردرد کرنے لگا اور مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میرا خون دماغ کو دبا رہا ہے، میں نے ایک لٹھا لکڑی کا کاٹا اور گھر چلا آیا، میری بیوی میرا سر دباتی رہی اور میں سو گیا، دوسرے دن صبح میں اتنا بہتر تھا کہ آج تک ایسا اچھا میں نے اپنے آپ کو کبھی محسوس نہیں کیا تھا، میں پانچ دن کے لیے باہر چلا گیا، واپسی پر میں نے اپنے کاٹے ہوئے درخت کی طرف رخ کیا تو مجھے اپنا درد سر یاد آگیا۔
میں نے کچھ کائی جمع کی اور اس کا مدر ٹنکچر بنایا، میرے پاس درد سر کا ایک مریض تھا، اس دوا نے فوراً درد سر کو رفع کردیا۔
موسم خزاں میں ستمبر کے قریب کچھ نوجوان لڑکیاں بیر چننے آئیں، ان میں سے دو نوجوان لڑکیوں کو دھوپ میں پھرنے کی وجہ سے درد سر شروع ہوگیا اور وہ آرام کرنے کے لیے لیٹ گئیں، میں نے مدر ٹنکچر کی ایک بوتل ایک پیالہ پانی میں ڈال دیی اور ان کو ایک ایک چمچ ہر پندرہ منٹ پر استعمال کرنے کی ہدایت کی، دوسری ہی خوراک سے ان کا درد سر جاتا رہا۔
ایک نوجوان عورت اپنے ایک رشتے دار سے ملنے آئی، اس کے سر میں درد ہوا کرتا تھا، مجھے بلایا گیا، میں نے دیکھا کہ وہ عورت درد سے پاگل ہورہی ہے، مریضہ نے بتایا، یہ درد مجھے پانچ سال سے ہے اور میں ڈاکٹروں کی دوائیں کھا کھا کر تنگ آگئی ہوں، میں نے اس دوا کے مدر ٹنکچر کی ایک بوتل ایک پیالہ پانی میں ڈال دیی اور ہدایت کی ہر بیس منٹ بعد ایک ایک چمچ پیتی رہیں، درد جاتا رہا، میں نے دس قطرے ایک ڈرام کی شیشی میں ڈال دیے اور شیشی کو الکوحل سے بھر دیا یوں ix بنادیا۔
مصنف نے ہدایت کی کہ جب درد ہوا کرے اس شیشی میں سے ایک قطرہ پی لیا کریں، ایک سال کے بعد مریضہ نے خط کے ذریعے اطلاع دی کہ وہ بالکل صحت یاب ہوگئی ہے اور شکریہ بھی ادا کیا۔
میں کئی مریضوں کے متعلق بتا سکتا ہوں جن کا درد سارے سر میں یا پیشانی میں اس احساس کے ساتھ تھا کہ کنپٹیاں یا آنکھیں پھٹ جائیں گی، اس دوا کے استعمال سے ٹھیک ہوگیا، میں نے ہمیشہ اس دوا کو مدر ٹنکچر میں استعمال کیا ہے، میں نے اس کے علاوہ اور کوئی اثر اس دوا کا مشاہدہ نہیں کیا۔