ڈیلفی کا دارالاستخارہ، کہانت یا غیب دانی

ایک یہودی کاہن کو معلوم تھا کہ نبوت بنی اسرائیل سے چلی گئی

اس موقع پر ہمیں ”ڈیلفی کا دارالاستخارہ“ یاد آرہا ہے۔ صدیاں گزریں، زمانہ قبل از مسیح میں ڈیلفی کا معبد بہت مشہور ہوا۔ اس کی کاہنہ ایک مذہبی پیشوا ہوا کرتی تھی لیکن اس منصب پر فائز ہونے کے لیے کسی بھی عورت کا یا مرد کا سائیکک ہونا ضروری تھا، یعنی وہ اعلیٰ درجے کی میڈیم شپ کی صلاحیت رکھتا ہو تاکہ عالم غیب سے رابطے میں آسکے۔
مذہبی پیشوائی کے اس منصب پر فائز ہونے کے لیے ایسے افراد کی باقاعدہ تربیت کی جاتی تھی اور پھر ان میں سے جو خواتین بہت اعلیٰ درجے کی کاہنہ ثابت ہوتیں وہ مسندِ پیشوائی پر فائز ہوجاتیں لیکن اس سب سے بڑے منصب پر فائز ہونے کے باوجود اس کی باگ ڈور دارالاستخارہ کی اعلیٰ مذہبی مجلس شوریٰ کے ہاتھ میں ہوئی تھی۔ یہ مجلس شوریٰ جو دیگر بڑے مذہبی پیشواوں پرمشتمل ہوتی تھی ، درحقیقت معبد کی با اختیار انتظامیہ بھی تھی۔ کاہنہ ان کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرسکتی تھی نہ ہی کوئی اس سے مل سکتا تھا۔ اس کی خوراک، رہن سہن اور عبادت وریاضت کا خصوصی انتظام کیا جاتا تھا۔
ڈیلفی کے دارالاستخارہ میں عام لوگوں سے لے کر بڑے بڑے امرائ، وزرا، روسا اور اپنے وقت کے حکمران تک مستقبل کا حال جاننے یا اہم کاموں میں آسمانی یا نادیدہ دیوی دیوتاو¿ں کی رائے اور مشورہ لینے جاتے تھے۔ عام لوگوں کے لیے بڑی کاہنہ کو زحمت نہیں دی جاتی تھی بلکہ دوسرے زیر تربیت کاہن یا کاہنائیں ان کے لیے استخارہ کیا کرتے تھے لیکن جب مسئلہ حکمران طبقے کا ہو یا ملک و قوم کے لیے کوئی پیش گوئی درکار ہو تو پھر ایک خصوصی عبادت کا اہتمام کیا جاتا جس میں مرکزی کردار مذہبی پیشواوکی زیر نگرانی بڑی کاہنہ کو ادا کرنا ہوتا تھا۔
استخارے کے لیے جو جگہ مقرر تھی، وہاں زمین میں ایک شگاف تھا جس میں سے بھاپ نکل رہی ہوتی تھی۔ بھاپ دراصل گندھک کو جلاکر پیدا کی جاتی تھی۔ کاہنہ اس شگاف پر بیٹھ جاتی اور پہلے مراقبہ کرتی۔ اس وقت مخصوص قسم کی موسیقی کا اہتمام کیا جاتا جسے سن کر کاہنہ پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی اور پھر اسی کیفیت میں اس سے سوالات کیے جاتے جن کا وہ جواب دیتی۔ ابتدا میں یہی سلسلہ رہا مگر جیسا کہ تاریخ گواہ ہے، طاقت ور حکمران رائے اور مشورہ بھی اپنی پسند کا سننا پسند کرتے ہیں کیوں کہ درحقیقت بعض زیادہ ہی خود سر اور مغرور لوگ ایسے کسی مذہبی، علمی یا روحانی مشورے میں دوسروں کے کہنے یا اپنی عقیدت کے سبب شریک تو ہوجاتے ہیں مگر جواب اگر خواہشات کے مطابق نہ ملے تو بہت افسردہ خاطر اور کبھی کبھی غضب ناک بھی ہوجاتے ہیں۔ چناں چہ ایسی کسی خطرناک صورت حال سے بچنے کے لیے بعد میں براہ راست سوال و جواب کا سلسلہ بند کردیا گیا تھا، یعنی محفل استخارہ میں کاہنہ کے ساتھ معبد کی انتظامیہ کے اہم مذہبی پیشواہی شریک ہوتے تھے اور عالم وجد میں وہ جو بھی پیش گوئیاں کرتی تھی انہیں وقت کے تقاضوں کے مطابق اور مصلحت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے صاحبان اقتدار تک پہنچایا جاتا تھا۔
کہانت پیش گوئی کی وہ قدیم ترین قسم ہے جس میں کوئی شخص دنیاوی حساب کتاب یا ذریعے سے مدد لیے بغیر صرف اپنی روحانی یا نفسانی قوت کے ذریعے پیش گوئی کرے اور مستقبل کے حالات بتائے۔ اسی کو غیب دانی کہا گیا ہے اور یہی طریقہ کار صدیوں اقوام عالم میں مختلف رنگ ڈھنگ سے مروج رہا، یہاں تک کہ عرب و عجم، ہندوستان، افریقہ وغیرہ میں بھی زمانہ طلوع اسلام تک جاری و ساری تھا اور اس سلسلے کو ایسے ہی لوگوں نے زندہ رکھا ہوا تھا جو یا تو پیدائشی طور پر سائیکک یعنی کاہن یا پھر ایسے لوگ جن میں تھوڑی بہت بھی میڈیم شپ کی صلاحیت تھی اور انھوں نے مزید ریاضت کرکے اسے پروان چڑھایا، یہاں تک کہ ایک اعلیٰ درجے کے کاہن بن گئے۔ ایسے کاہن اپنے قبیلے یا معاشرے میں بڑے معزز اور محترم اور قابل قدر خیال کیے جاتے تھے اور لوگوں کو مستقبل کا حال بتایا کرتے تھے۔ لوگ اپنے مسائل کے سلسلے میں ان سے مشورے کیا کرتے تھے۔
طلوع اسلام کے بعد اول تو ایسے کاہنوں کا خود بخود خاتمہ ہوگیا۔ یہ بھی ایک حیرت انگیز معجزہ خداوندی تھا جو آپ ﷺ کی آمد باسعادت سے پہلے ہی نمودار ہوچکا تھا۔ اس سلسلے میں جو اہم ترین تاریخی واقعہ ہمارے مطالعے میں آیا، وہ نہایت حیرت انگیز اور چشم کشا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وقت کے الٹ پھیرنے اس واقعے کا سارا تاریخی ریکارڈ ہمارے پاس سے ضائع کردیا کیوں کہ ایک زمانہ ایسا بھی ہم پر گزرا جب ہم شہر بھر میں گھر بدلتے پھرتے تھے۔ ان دنوں اپنی کتابوں کے ذخیرے کو سنبھالنا مشکل ہوگیا تھا۔ اب یہ بھی یاد نہیں رہا کہ کس کتاب میں یہ واقعہ پڑھا تھا، البتہ یہ ضرور یاد ہے کہ جب پہلی بار غالباً 1970 کی دہائی کا کوئی سال تھا، یہ واقعہ ہماری نظر سے گزرا تو ہم بے قرار ہوکر اپنے ہم دم دیرینہ اور عزیز ترین دوست جناب خان آصف مرحوم کے دفتر پہنچ گئے۔
خان صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ 2003 ءکا دسمبر انہیں ہم سے جدا کرگیا۔ حالاں کہ ابھی ان کے جانے کی عمر نہ تھی۔ پاکستان کے علمی، ادبی اور صحافتی حلقے خان آصف مرحوم کو ابھی بھولے نہیں ہوں گے۔ آخری دنوں میں وہ ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ تھے۔ ہم جن دنوں کی بات کر رہے ہیں ان دنوں میں خان آصف ایک ماہنامہ ”داستان ڈائجسٹ“ کے نام سے نکالا کرتے تھے جو اگرچہ افسانوی ادب کا نمائندہ پرچا تھا مگر خان صاحب کی تاریخی اور مذہبی دلچسپی کے سبب ایسی تحریری بھی شائع کرتا تھا جو تاریخ و تصوف سے متعلق ہوں اور بے شک خان آصف کے قلم سے نکلی ہوئی وہ تحریریں ایک شاہ کا ر کا درجہ رکھتی ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ ہم وہ واقعہ لے کر خان صاحب کے دفتر پہنچ گئے جو اس زمانے میں ناظم آباد میں ریلیکس سینما کے عقب میں واقع پارک سے ملحق تھا اور وہیں سے چند قدم پر حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کا مطب بھی تھا۔
خان صاحب اور عظیمی صاحب پرانے واقف اور باہم دوست تھے۔ دونوں نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز روزنامہ حریت سے ساتھ ساتھ کیا تھا۔
خان صاحب نے وہ واقعہ دیکھا تو پھڑک اٹھے اور اسے اپنے انداز سے دوبارہ تحریر کرکے ماہنامہ داستان ڈائجسٹ میں شامل کیا۔ کاش داستان ڈائجسٹ کا وہ شمارہ ہی ہمارے پاس محفوظ ہوتا۔ اتنی لمبی تفصیل دینے کا ہمارا مقصد ایک یہ بھی ہے کہ ہم جس واقعے کا ذکر کرنے جارہے ہیں اس کے حوالے سے اگر ہمارے قارئین میں سے کوئی صاحب ایسی کسی کتاب یا رسالے سے واقف ہوں تو ہمیں اس سے ضرور آگاہ کریں۔ یہاں ہم صرف مختصراً اس واقعے کا ذکر کر رہے ہیں۔ اس واقعے کے مطابق حضور اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت سے بہت پہلے ایک یہودی کاہن جو یہودیوں کا مذہبی پیشوا بھی تھا، اس راز سے باخبر ہوگیا تھا کہ تمام آسمانی کتابوں میں جس آخری نبی کی آمد کی خبر دی گئی ہے وہ آنے والا ہے اور وہ یہی سمجھتا تھا کہ وہ بنی اسرائیل میں ہی پیدا ہوں گے مگر پھر ایک رات اس پر جب یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ اس بار اللہ نے اس آخری عظیم سعادت کے لیے بنی اسرائیل کا انتخاب نہیں کیا بلکہ یہ سعادت عظیم بنی اسماعیل کی طرف منتقل ہورہی ہے تو وہ پاگل ہوگیا، اپنے بال نوچنے لگا۔ اس کا یہودی غرور و تکبر اپنی قوم کی اس توہین کو برداشت ہی نہیں کرسکتا تھا۔
بہر حال اس نے اپنی قومی فطرت کے مطابق ایک سازش تیار کی تاکہ معاذ اللہ، اللہ کے فیصلے کو بدل دے، چناں چہ وہ ایک نہایت حسین و جمیل یہودی دوشیزہ کے ساتھ مکہ آگیا اور اس نے بنو ہاشم میں راہ و رسم بڑھائی، یہاں تک کہ آپ ﷺ کے والد ماجد حضرت عبداللہ بن مطلب سے راہ و رسم استوار کرلی اور اس دوشیزہ کو آپ کے پیچھے لگادیا لیکن وہ اپنی اس ناپاک سازش میں کامیاب نہ ہوسکا۔ خدائی فیصلے انسان نہیں بدل سکتا، خواہ وہ کتنا ہی بڑا کاہن اعظم ہی کیوں نہ ہو۔
عزیزان من! اپنے پڑھنے والوں سے ہم ایک بار پھر یہ درخواست کریں گے کہ یہ تاریخی واقعہ اگر ان کے پاس کسی کتاب یا رسالے میں موجود ہو تو اس کی فوٹو کاپی ہمیں ضرور روانہ کریں۔
کتاب ہدایت قرآن حکیم اور احادیث نبوی کے علاوہ تاریخی کتب کے مطالعے سے بھی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بعثت نبوی سے قبل عرب و عجم، عراق، شام، فلسطین، مصر، افریقہ وغیرہ میں مستقبل کا حال بتانے والے یعنی پیش گوئی کرنے والے کاہنوں کی اکثریت سائیکک تھی اور جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں یہ سائیکک لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں، اول پیدائشی طور پر نہایت اعلیٰ درجے کی میڈیم شپ کی صلاحیت رکھنے والے، جنہیں کسی خاص تربیت و ریاضت کی ضرورت نہیں ہوتی، ان کی بیٹری خود بخود چارج ہوتی رہتی ہے یا یوں کہیں کہ چارج شدہ ہوتی ہے لیکن ایسے لوگ نامناسب ماحول میں بعض اوقات اس قدر بگڑ جاتے ہیں یا پیدائشی طور پر اس قدر ایب نارمل ہوتے ہیں کہ ان کی سائیکک صلاحیت کا درست اور بامعنی اظہار ممکن نہیں ہوتا کیوں کہ وہ اس پر کوئی قدرت نہیں رکھتے۔ لایعنی، بے ہودہ باتیں کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ آج بھی ہر معاشرے میں ہمارے ہاں بھی نظر آتے ہیں۔ ہم انہیں پاگل، مجذوب، فاتر العقل کہہ کر نظر انداز کردیتے ہیں لیکن کبھی کبھی اسی پاگل کے منہ سے نکلی ہوئی کوئی بات جب پوری ہوجاتی ہے تو اس وقت ہم چونکتے ہیں کہ ایسا کیسے ہوگیا؟ اور پھر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ایسے پاگل اور دیوانے، لوگوں میں مقبول اور محبوب بنے بیٹھے ہیں۔ ضرورت مند منتظر ہیں کہ ”بابا کچھ بکواس کریں“ تو اس میں سے وہ اپنے مطلب کی بات اخذ کرکے فائدہ اٹھاسکیں۔ ہمارے ہاں ایسے بہت سے پیر فقیر، مجذوب گلی کوچوں میں مزاروں پر یا ان ہوٹلوں میں بھی نظر آتے ہیں جہاں جوے، سٹے اور ریس کھیلنے کے شائقین جمع ہوتے ہیں۔
ایسے ہی ایک سائیکک لڑکے کا واقعہ عہد رسالت میں موجود ہے۔ اس کا چہرہ عام انسانوں سے مختلف تھا۔ کان، آنکھیں، ناک، دہانہ سب کچھ کافی حد تک غیر انسانی محسوس ہوتے تھے۔ وہ بھی لوگوں کے لیے استخارہ کیا کرتا تھا۔ لوگ اس سے اپنے حال و مستقبل کے بارے میں پوچھتے تو وہ انہیں دوسرے دن جواب دینے کے لیے کہتا اور پھر ایک رات کے لیے اپنے کمرے میں بند ہوجاتا۔ مشہور تھا کہ اس کی ماں کے کسی جن سے تعلقات تھے جس کے نتیجے میں وہ پیدا ہوا تھا۔ ایک دن اچانک اس کی زبان بند ہوگئی اور اس نے استخارہ کرنا چھوڑ دیا۔ قبیلے والوں کو سخت پریشانی ہوئی لیکن وہ کسی طرح بول کر ہی نہیں دیتا تھا۔ آخر ایک روز اس نے اشاروں سے کہا کہ مجھے تین دن کے لیے ایک کمرے میں بند کردیں۔ چناں چہ ایسا ہی کیا گیا اور جب تین روز کے بعد اسے کمرے سے باہر نکالا گیا تو وہ بولا:
” اللہ کے آخری نبی ﷺ دنیا میں آچکے ہیں ، لہٰذا میری زبان بند کردی گئی ہے۔ بس یہ میں آخری اطلاع دے رہا ہوں۔“
یہ کہہ کر وہ لڑکا مر گیا۔ ایک طویل عرصے بعد اس لڑکے کی ماں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے اسلام قبول کیا۔ اپنا سارا ماجرا سنایا۔ آپ ﷺ نے اس کی باتوں کی تصدیق فرمائی۔
ایسے ہی ایک اور یہودی کاہن کا واقعہ ہمیں ملتا ہے۔ اس کی بھی ساری سائیکک قوتیں اچانک سلب ہوگئی تھیں اور تمام شیطانی رابطے منقطع ہوگئے تھے۔ وہ بڑا حیران ہوا اور اپنے بال نوچنے لگا کہ آخر کائنات میں ایسا کیا ہورہا ہے کہ میری مستقبل بیٹی کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے۔ تب اسے خیال ہوا کہ یقینا دنیا میں کوئی بہت بڑا واقعہ ظہور میں آنے والا ہے۔ چوں کہ وہ تو ریت کا عالم تھا لہٰذا آخری نبی کی آمد کی خبر سے ناواقف نہیں تھا۔ چناں چہ فوراً بول اٹھا۔” یقینا اللہ اپنا وعدہ پورا کرنے والا ہے اور اب وہ آنے والا ہے جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اسی لیے میرا سارا دنیاوی علم، ساری روحانی قوت بے بس ہوکر رہ گئی ہے“۔
عزیزان من! یہ چند واقعات و اشارات یہاں اس لیے نقل کردیے گئے ہیں تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ سرور کائنات ﷺ کی آمد پرُوقار سے قبل یہ معجزہ بھی ظہور میں آچکا تھا کہ دنیا میں موجود تمام کہانت کی قوتیں بے دست و پا ہوچکی تھیں۔ تقریباً یہی حال ستارہ شناسی کے میدان میں بھی تھا، اس وقت کے اعلیٰ درجے کے منجمین سیارگان کی نئی ترتیب و صف بندی کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے جنہیں اللہ نے توفیق دی تھی، وہ یہ راز پا گئے تھے کہ کوئی ختمی مرتبت ﷺ ہستی دنیا میں آنے والی ہے اور نظام دنیا یکسر تبدیل ہونے والا ہے، اس حوالے سے اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو سینکڑوں شواہد اور ثبوت موجود ہیں لیکن فی الحال ہمارا یہ موضوع نہیں ہے۔ ہمارا موضوع اس وقت کہانت کے ذریعے پیش گوئی یا سپر نیچرل خصوصیات کا اظہار ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ طلوع اسلام کے بعد شریعت نے بھی اسی کہانت پر سخت پابندی لگائی ہے اور کہانت کے اور بھی جو دیگر طریقے اس وقت مروج تھے جن میں قرعہ، فال، رمل شامل ہیں، ممنوع قرار دیے گئے۔ اسی طرح جو کاہن ستارہ پرستی میں مبتلا تھے اور انھوں نے اپنی کہانت کے لیے ستاروں کو دیوی دیوتاوں کا درجہ دے رکھا تھا، یعنی وہ ستاروں کے ذریعے استخارہ کیا کرتے تھے، وہ بھی مطعون ہوئے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ صحابہ کے بعد کے ادوار میں جب صوفیا کا زمانہ آیا تو یہی کہانت اور اس سے متعلق دیگر اصول و قواعد اور طریقہ کار دوبارہ مسلمانوں میں مروج ہوگئے جو آج تک جاری و ساری ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کہانت کو مکاشفہ قرار دے کر منجاب اللہ کردیا گیا اور اس کے ثبوت کے لیے اتنا کافی سمجھ لیا گیا کہ ایک شخص مسلمان ہے، صوم و صلوٰہ کا پابند ہے، اللہ، رسولﷺ کا نام لے رہا ہے ۔ ہم پہلے ایک ایسی مثال پیش کرچکے ہیں جن میں حسن صباح اور اس کی جنت کا ذکر کیاگیا تھا۔ وہ بھی مسلمان تھا اور بہت بڑا عالم دین تھا۔ اس کے کشف و کرامات کا بھی بڑا شہرہ ہوا مگر بعد میں وقت نے اس کے جرائم پر سے نقاب اٹھادیا۔ تاریخ اسلام میں ایسے کاہنوں، یعنی مسلمان روشن ضمیروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ بے شک وہ لوگ جو اس صف میں نہیں آتے جنہوں نے توحید اور سنت رسول ﷺ پر خود کو سختی سے کاربند رکھا اور شریعت کو اپنے دنیاوی اعمال، افعال پر ہر صورت میں فوقیت دی لیکن جہاں معاملہ شریعت کی درست تفہیم سے ہٹ کر طریقت کے خود ساختہ گورکھ دھندوں میں الجھتا ہے، شیطانی قوتیں فوراً آگے بڑھ کر ایسے شخص کا استقبال کرتی ہیں اور پھر وہ اسی صف میں بیٹھا ہوتا ہے جہاں تاریخ کے سارے سائیکک افراد بیٹھے ہیں۔
کہانت کے ذریعے شریعت نے پیش گوئی پر جو پابندی لگائی اس کا دلچسپ استعمال ہمارے ہاں اس طرح ہورہا ہے کہ جو جدید سائنسی علوم مثلاً علم فلکیات و علم نجوم یا جدید دست شناسی اور علم الاعداد و علم حروف وغیرہ دنیا بھر میں مروج ہیں انھیں تو پابندی کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے لیکن درحقیقت جس مستقبل بینی اور پیش گوئی کے طور طریقوں پر پابندی لگائی گئی تھی انہیں مشرف بہ اسلام کرکے شخصی اقتدار اعلیٰ کا راستہ ہموار کرلیا گیا اور آج کل تو یہ کام صرف شخصی عزت و احترام، اقتدار و مرتبے سے بڑھ کر مالی مفادات تک جاپہنچا ہے۔
ایسا صرف اس وجہ سے ہوسکا کہ ہمارے دینی حلقے جدید علم اور سائنس سے اکثر نا آشنا رہے۔ انھوں نے کبھی یہ کوشش ہی نہیں کی کہ جدید سائنس کی ترقی کے اس دور میں دین کی روشنی میں دیگر دنیاوی علوم کا مطالعہ کیا جائے۔ ایک زمانہ تو وہ تھا کہ ہمارے بعض مذہبی حلقے ہر نئی سائنسی ایجاد و تحقیق پر لاحول اور استغفر اللہ پڑھتے نظر آتے تھے مگر ہادی عالم ﷺ کی امت کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ وقتاً فوقتاً ایسے علما و مجتہد سامنے آتے رہتے ہیں جو معاشرے میں پھیلی ہوئی جہالتوں اور گمراہیوں کے چہروں سے نقاب الٹ دیتے ہیں۔
عزیزان من! پیراسائیکولوجی کے حوالے سے یہ سلسلہ ءمضامین ابھی جاری ہے۔ اسے ہماری تحریر کی خامی سمجھ لیں کہ لکھتے لکھتے ذہن بھٹک کر کسی اور سمت میں نکل جاتا ہے۔ (جاری ہے)