ڈاکٹر رابن مرفی این ڈی

ڈاکٹر رابن مرفی بیسویں صدی کے مایہ ناز ہومیو پیتھک ڈاکٹروں میں سے ایک منفرد اور قابل ترین ڈاکٹر ہیں، وہ 15 اگست 1950 ء کو “Grand Rapids” مشی گن میں پیدا ہوئے، انہوں نے ابتدائی تعلیم مشی گن کی ریاست میں 1976 ء تک جاری رکھی، وہاں انہیں ہومیو پیتھی پر تاریخی کتب کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور وہ اس طریقہ ء علاج سے بہت متاثر ہوئے ، یہ وہ موڑ تھا جہاں سے آپ کا تعلیمی رخ پلٹا، 1976 ء میں وہ “National college of naturopathic medicines” (NCNM) سے وابستہ ہوگئے، وہاں انہوں نے ’’ہومیو پیتھی اور کینسر‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ تحریر کیا جس پر انہیں ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں ’’ہنی مین اسکالر شپ‘‘ اعزاز کے طور پر دی گئی، انہوں نے Dr John Bastyr کی سرپرستی میں تعلیم مکمل کی، فارغ التحصیل ہونے کے بعد 1980 ء تا 1984 ء وہ (NCNM) میں ہی ہومیوپیتھک پروگرام کو مزید ترویج دیتے رہے، اس اثنا میں انہوں نے Basty University میں بھی بطور ہومیوپیتھک لیکچرار فرائض انجام دیے، 1993 ء میں انہوں نے ’’ہومیو پیتھک ریپرٹری‘‘ کے نام سے ایک کتاب تحریر کی جس کی بے حد پذیرائی ہوئی۔ 1996 ء میں ان کا مشہور مٹیریا میڈیکا (Lotus materia medica)کے نام سے شائع ہوا ہے جس کو ہومیو پیتھک حلقے میں خوب پسند کیا گیا اور اب تک اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
ڈاکٹر رابن مرفی آج کل انگلینڈ کے شہر لندن میں “Lotus Medical centre” کے ڈائریکٹر ہیں، لوٹس میڈیکل سینٹر پوری دنیا میں ہومیوپیتھی پر بہترین سیمینار منعقد کرواتا ہے، اس سینٹر نے Q1 میڈیسن اور ہومیو پیتھک میڈیسن کا تعلیمی سلسلہ بھی جاری کر رکھا ہے، ڈاکٹر مرفی اس سینٹر کے سب سے پہلے مدیر ہیں، ان کی مسلسل جدوجہد اور انتھک کاوشوں سے انگلینڈ کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی ہومیو پیتھی متعارف ہوئی، ان کے تعلیم دینے کا انداز دوسروں سے بالکل مختلف اور دلچسپ ہے، انہوں نے ہومیو پیتھک فلاسفی، مٹیریا میڈیکا اور ریپرٹری میں انتہائی دلکش انداز میں باہمی ربط اور نکھار پیدا کیا ہے۔
ہومیو پیتھی کی پریکٹس میں جہاں مریض کی علامات، خدوخال، اناٹومی اور فیزیالوجی کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے وہیں ’’کیس ٹیکنگ‘‘ بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے، آپ کو اس فن میں جتنی مہارت ہوگی اتنا ہی آپ دوا کا انتخاب درست کرپائیں گے، اس سلسلے میں ڈاکٹر رابن مرفی نے “Case analysis and prescribing techniques” پر کتاب تحریر کرکے طلباء اور نئے پریکٹیشنز پر بڑا احسان کیا ہے،اس کتاب کے مطالعے سے آپ کے علم میں اضافہ ہوگا اور آپ کے ہاتھوں انشاء اللہ لاعلاج مریض صحت یاب ہوپائیں گے۔
ڈاکٹر روبن مرفی کی کتاب سے چند اقتباسات قارئین کی نذر کیے جارہے ہیں، ملاحظہ فرمائیں۔
رابن مرفی کہتے ہیں، اگر آپ کے پاس کوئی چوٹ کا مریض آتا ہے تو اس میں کسی ایک قسم کی چوٹ کی علامت واضح ہوں گی، پہلے اس کی دوا دیں پھر مزید جو علامتیں سامنے آتی جائیں علاج کرتے چلے جائیں، گھٹنوں میں درد کے لیے آپ آرنیکا دیں، اگلی مرتبہ جب مریض ٹانگوں میں کھنچاؤ اور دکھن کی علامات لے کر آئے تو رسٹاکس دیں، آئندہ آنے پر اگر مریض گولی لگنے کے سے دردوں اور حرکت سے تکلیف میں اضافے کی علامت لے کر آئے تو اسے برائی اونیا دیں، اگروہ پھر سے گھٹنوں کے درد اور دکھن کی شکایت کرے تو پھر سے آرنیکا دیں، اسے میں Zig zag istaid prescribing کہتا ہوں، یہ فرسٹ ایڈکا بڑا کارآمد طریقہ ہے۔
ہم کینسر یا دیگر تکالیف کے ایسے مریضوں کو جن کی تکالیف خلیات کی مدد (melastasis) سے آگے بڑھتی ہیں، میں بھی اسی طرح کی Zig zag قسم کی پریسکرائبنگ کے طریقے سے مدد لیتا ہوں، مثال کے طور پر کینسر کی مریضہ کے پستانوں میں درد ہے،ا س کی ہڈیوں میں بھی درد ہے یا پھر ذیابطیس کی مریضہ کے جسم پر زخم بن رہے ہیں اور اس کی آنکھوں کی پتلی سے بھی خون بہہ رہا ہے،ایسے کیسوں کو Zig zag قسم کی دوا تجویز کرکے ٹھیک کیا جاسکتا ہے، اس طرح کے مریض میں آپ ایک سے زیادہ قسم کی پیتھا لوجیکل تبدیلیاں بھی دیکھ سکتے ہیں، وہ بھی اسی طریقے سے ٹھیک ہوں گی، ایسے میں آپ ہر گز فیصلہ نہ کریں کہ پہلے کیا ٹھیک کرنا ہے، مریض کی قوت حیات کہاں زیادہ متاثر ہے، اسے پہلے ٹھیک کریں، اس کا اظہار مریض کرے گا کہ کون سی تبدیلی زیادہ متحرک ہے اور کون سی جگہ زیادہ تکلیف دہ ہے، سب سے پہلے اسے ٹھیک کریں پھر آپ دیکھیں گے کہ تکلیف تبدیل ہوجائے گی اور کیس اپنے الٹے رخ پر سفر کرے گا یہاں تک کہ مریض روز بروز صحت یابی کی طرف بڑھتا چلا جائے گا، ایسے میں اگر آپ بالمثل دوا کی تلاش شروع کردیں گے تو خواہ آپ کیس ریپرٹرائز کریں، آپ کامیابی سے بہت دور چلے جائیں گے، ایسے کیس میں بھی مریض کی کوئی ایک دوا نہیں ہوتی۔
ایک ایسا مریض جس کا جسم آگ سے جل گیا ہو اور وہ اس کے بعد مکمل طور پر خود کو ٹھیک محسوس نہ کرے تو ان کی مزمن تکلیف کی ادویات میں اہم ترین ادویات کاسٹیکم، پکرک ایسڈ اور ایسٹک ایسڈ ہیں لیکن آپ کو دیکھنا ہوگا کہ کیس میں اہم بات کیا ہے۔
ایک بچہ آپ کے پاس چیختا چلاتا ہوا آتا ہے کیوں کہ اس نے خود ہی اپنی کسی حرکت سے چوٹ کھائی ہے، آپ اس کے گھٹنے کی طرف دیکھتے ہیں جہاں آپ کو ایک چھوٹی سی جگہ سے جلد کُچلی ہوئی ملتی ہے، ایسے میں آپ اس بچے کو کیا دیں گے، میرے خیال میں تو اسے ایکونائٹ دینا چاہیے کیوں کہ وہ چوٹ سے کم اور خوف سے زیادہ متاثر ہوا ہے، ایسے میں اگر آپ اس کو ایکونائٹ دیں اور اس کے گھٹنے کو سہلادیں تو وہ چند لمحوں میں پھر سے کھیلنے لگے گا۔
جب کسی مریض کو بجلی کا جھٹکا لگے تو فاسفورس، الیکٹریکس اور مارفینم نمایاں ادویات ہوں گی،آپ ان کے نتائج دیکھیں، اکثر کیسوں میں آپ کو اوپیم کی ضرورت بھی پڑے گی کیوں کہ یہ بجلی کا ایسا جھٹکا ہوتا ہے جس سے مریض میں خوف زیادہ سرائیت کرجاتا ہے۔
1840 ء کے شمارے میں ایک خاتون کا کیس تھا جو حاملہ تھی اور حمل کے دوران وہ ایک آندھی سے خوف زدہ ہوئی اور وہ بچہ جو اس نے پیدا کیا اس کو دورے پڑتے تھے، ہومیو پیتھک معالج نے بچے کو فاسفورس دی جس سے اس بچے کے دورے ختم ہوگئے، معالج کے فاسفورس دینے کے لیے اس کے سامنے ماں کے حمل کے دوران آندھی سے خوف زدہ ہونا تھا اور یہی خوف بچے میں دوروں کا سبب بنا تھا، اس کے بعد جب بھی گرج چمک کے ساتھ آندھی آتی، بچہ دورے میں چلا جاتا، یہ کیس بتاتا ہے کہ ماں پر حمل کے دوران ہونے والے واقعات کا بچے پر کیسا اثر ہوتا ہے، گرج چمک سے آندھی میں تکلیف کا بڑھنا ایک موڈیلٹی ہے جو کہ فاسفورس کی تجویز کو کنفرم کرتی ہے، ایسے کیسوں میں اکثر آپ کو دیکھنا پڑتا ہے کہ حمل کے دوران ماں کو کس دوا کی ضرورت تھی، آپ وہی دوا بچے کو دیتے ہیں کیوں کہ بچے کی تکلیف کے لیے اسباب تکلیف ملنا ناممکن ہوتا ہے، اگر ماں کو حمل کے دوران اگنشیا، نیٹرم میور، ایکونائٹ کی ضرورت تھی تو یہی ادویات نومولود کو دیں کیوں کہ ماں کے ذہن پر پڑنے والے اثرات بچے میں نقش ہوجاتے ہیں۔