نفسیاتی امراض کے علاوہ جنات کے مقابلے میں ہمزاد کے کیس زیادہ نظر آتے ہیں

ہمزاد،قرین،نسمہ یا پیکر نور

ہم نے جنات کے ایک حقیقی کیس کی تصویر پیش کی تھی، ایسی مثالیں اور بھی بے شمار ہیں جو اکثر لوگوں کے مشاہدے میں آئی ہوں گی لیکن جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ جنات کا کیس ہو یا ہسٹیریا وغیرہ کا، دونوں میں بے حد مماثلت پائی جاتی ہے اور یہ فیصلہ کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں کہ مریض کسی جن کے زیر اثر ہے یا ہسٹیریا کے دورے میں مبتلا ہے یا اس دورے کی نوعیت کوئی اور ذہنی یا نفسیاتی بیماری ہے،ایسے ہی کیسوں میں اکثر ہمارے جاہل پیر یا عامل حضرات اپنے غلط علاج معالجے کی وجہ سے کبھی کبھی مریض کی جان بھی لے لیتے ہیں،اکثر ایسے کیس اخبارات میں آتے رہتے ہیں، اس ذیل میں ایک تیسری وجہ بھی اکثر دیکھنے میں آئی ہے اور وہ وجہ جنات کی بہ نسبت زیادہ عام ہے۔
جنات کے کیس ایک فیصد سے بھی کم دیکھنے میں آئے ہیں اور تقریباً پچانوے فیصد کیسز ذہنی بیماریوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن تیسری وجہ کا تناسب جنات کے کیسوں کی بہ نسبت زیادہ ہوتا ہے، پچھلے مضمون میں حاضری اور سواری کے حوالے سے تذکرہ کرچکے ہیں، اس صورت میں مریض کسی ایسی نادیدہ قوت کے زیر اثر ہوتا ہے جو جنات ہرگز نہیں ہوتی لیکن اس کا تعلق یا رابطہ کسی جن سے ممکن ہے، اس موضوع پر ہم ”حاضرات ارواح“ کے حوالے سے پہلے لکھ چکے ہیں، اگر ہمارے وہ مضامین آپ کی نظر سے گزرے ہوں تو ہماری بات سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
یہ تیسری وجہ ہمزاد، قرین، نسمہ یا اورا جسے پیکر نور کہا گیا ہے ، کی ہی کارستانی کی وجہ سے صورت پذیر ہوتی ہے مگر یہ ہمزاد یا قرین ان افراد کا ہوتا ہے جو اب اس دنیا میں موجود نہیں اور ان کے مرنے کے بعد ان کی تجہیز و تکفین درست مذہبی طریقے کے مطابق نہیں ہوسکی لہٰذا ان کا ہمزاد اپنے جسد خاکی کے ساتھ دفن ہونے کے بجائے فرار کی راہ اختیار کرگیا اور دنیا میں بھٹکنے پر مجبور ہوا ، ایسے ہمزاد کسی ”معمول“(میڈیم) کی تلاش میں رہتے ہیں اور معمول وہی لوگ ہوتے ہیں جو زیادہ حساس ہونے کے سبب کسی نہ کسی ذہنی یا جذباتی تناو¿ کا شکار رہتے ہیں، ایسے معمول خصوصاً ان بھٹکتے ہوئے ہمزادوں کے رابطے میں آجاتے ہیں اور پھر مختلف نام اور روپ دھار کر اپنے معمول کے ذریعے لوگوں کو مستقبل کی باتیں بتانے ، ان کا علاج معالجہ کرنے اور ان کا رابطہ ان کے مرے ہوئے عزیزواقارب کی ارواح سے کرانے کے دعوے دار بھی ہوتے ہیں جب کہ درحقیقت وہ ان کا رابطہ صرف ان کے مردہ عزیزوں کے ہمزاد سے ہی کراسکتے ہیں، روح سے نہیں،وہ بھی اس صورت میں جب کسی مردہ عزیز کا ہمزاد آوارہ ہوگیا ہو۔
روح کیا ہے؟ ہمزاد اور روح میں کیا فرق ہے؟ اس موضوع کو ہم دہرانا نہیں چاہتے کیوں کہ اس حوالے سے پہلے بھی بہت تفصیل سے لکھ چکے ہیں ، اس کے علاوہ اس موضوع پر مغرب اور مشرق کے علماءو ماہرین کی آراءبھی کثرت سے موجود ہےں جنہیں ہم بھی اکثر و بیشتر آپ کے سامنے پیش کرتے رہے ہیں لہٰذا اس فرق کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے کسی وعدے پر یقین نہیں کیا جاسکتا کہ کسی انسان کی روح بعد از مرگ کسی زندہ انسان سے رابطہ کرسکتی ہے ہاں، اس امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ کسی انسان کا ہمزاد بعد از مرگ کسی زندہ انسان سے رابطہ قائم کرے۔
ہمزاد کے سلسلے میں مغربی یا یوں کہیں کہ غیر مسلم ماہرین روحیات کی رائے تو یہی ہے کہ وہ اسے ہی انسانی روح قرار دیتے ہیں لیکن دین اسلام اور مسلمان صوفیا کا موقف اس معاملے میں مختلف ہے، اسلامی نظریے کے مطابق روح امر ربی ہے اور ایک نہایت اعلیٰ اور پاکیزہ شے ہے جسے اللہ نے آدم کے جسد خاکی میں جاری و ساری فرمایا اور ہمزاد اسلامی نظریے کے مطابق وہ شیطان ہے جو ابلیس کا نمائندہ ہے اور جس کا کام زندگی بھر انسان کو ورغلا کر بدی اور شر کے راستے پر لے جانا ہے۔
انسان کے اندر خیروشر کی جو دو قوتیں باہم معرکہ آرا ہیں ان میں سے روح کو ہم نیکی کی قوت اور ہمزاد کو بدی کی قوت قرار دے سکتے ہیں جیسا کہ احادیث سے بھی ثابت ہے کہ ہمزاد یا قرین انسان کو گمراہ کرنے پر مامور ہے اور یہ انسان کے ساتھ ہی پیدا ہوتا ہے اور ہر وقت اس کے ساتھ ہی رہتا ہے پھر جب انسان طبعی یا غیر طبعی طور پر موت کا شکار ہوتا ہے تو اس کی روح یعنی روح اعلیٰ یا روح اعظم جو خالق کائنات کی نمائندہ تھی واپس اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جاتی ہے جہاں اس کے قیام کے لیے ”علیین“ اور ”سجیلین“دو مقام مقرر ہیں لیکن ہمزاد عموماً دنیا میں ہی بھٹکنے کے لیے رہ جاتا ہے ، کہا جاتا ہے کہ جو انسان نیک ہوتا ہے، اس کا ہمزاد بھی نیک بن جاتا ہے لیکن بدکار مشرک اور کفروظلم میں مبتلا انسان کا ہمزاد بھی ان ہی عیوب کا حامل ہوتا ہے اور وہ بعد ازاں ایسی ہی بدکاریوں میں مصروف رہتا ہے۔
حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد مستند احادیث کتب میں موجود ہے کہ میرے ساتھ بھی ایک قرین یا ہمزاد یا ساتھی جن موجود ہے لیکن میرے پروردگار نے مجھ کو اس پر غالب کردیا ہے یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوگیا ہے، پس وہ مجھے بھلائی کے سوا اور کوئی ترغیب نہیں دیتا، آئیے آپ کو ایک ایسے کیس سے روشناس کروائیں جو ہماری نظر میں سو فیصد کسی ہمزاد کی کارستانی ہے۔

عالمی شہرت پامسٹ میر بشیر کا مشاہدہ

مشہور پامسٹ میر بشیر عالمی شہرت کے حامل تھے، کچھ ہی عرصے پہلے ان کا انتقال لندن میں ہوا، انہوں نے ساری زندگی ہی لندن میں گزاری، تمام بین الاقوامی رسائل میں ان کے اشتہارات شائع ہوا کرتے تھے، بہ حیثیت دست شناس ان کی شہرت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے لیکن یہ بات کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ روحیات کے علم میں بھی دلچسپی لیتے تھے ، اس سلسلے میں انہوں نے بہت سے مضامین بھی تحریر کیے اور ایک کتاب بھی اپنے مشاہدات و تجربات کے سلسلے میں لکھی ہے، اپنا ایک ذاتی مشاہدہ بیان کرتے ہوئے وہ رقم طراز ہیں۔
”میں پہلگام (کشمیر) موسم گرما گزارنے گیا تھا جہاں ایک ہوٹل میں جو دریا کے کنارے تھا، قیام کیا میرپور کشمیر کے ایک بزرگ اس ہوٹل کے مالک و منتظم تھے، ہوٹل میں پندرہ سولہ سال کا ایک لڑکا ملازم تھا، یہ لڑکا کافی دور سے پینے کا پانی ہوٹل کی ضروریات کے لیے لایا کرتا تھا، ایک روز سہ پہر کا ذکر ہے کہ وہ لڑکا پانی سے بھرے ہوئے دو کنستر اٹھائے ہوئے ہوٹل میں داخل ہوا، اس نے وہ کنستر برآمدے میں رکھے اور مستانہ وار رقص کرنے لگا، لڑکے پر حال طاری ہوگیا تھا اور وہ بے تحاشا ناچے جارہا تھا، آخر کار نڈھال ہوکر چارپائی پر گر گیا، ہوٹل میں مقیم لوگ اس کی یہ کیفیت دیکھ کر گھبرا گئے اور بے تحاشا باہر بھاگ اٹھے، خیال ہوا کہ لڑکے پر کوئی دماغی دورہ پڑگیا ہے اس لیے فوری طور پر ڈاکٹر کی تلاش ہوئی لیکن وہاں معاملہ ہی کچھ اور تھا، ڈاکٹر کے بس کی بات ہی نہیں تھی، ہوٹل میں ایک عالم دین بھی تشریف فرما تھے، انہوں نے قرآن مجید کی کوئی آیت دہرانی شروع کی اور ابھی باآواز بلند قرا¿ت شروع کرنے ہی والے تھے کہ اس نیم بے ہوش لڑکے نے نہایت خوش الحافی سے وہی آیتیں باآواز بلند پڑھنا شروع کردیں جو مولوی صاحب اپنی دانست میں شیطان کو بھگانے کے لیے پڑھنا چاہتے تھے۔
”میں بیان نہیں کرسکتا کہ اس وقت اس ناخواندہ لڑکے کی قرات سے کیا سماں بندھ گیا تھا، قرات کے بعد لڑکے سے سوال کیا گیا کہ آخر آپ کون بزرگ ہیں اور اس لڑکے پر کیوں مسلط ہوگئے ہیں؟
جواب ملا” ہمارا نام یہ ہے اور ہم اس لڑکے کے دوست ہیں“
یہ سلسلہ ءگفتگو دیر تک جاری رہا پھر ہوٹل کے مالک نے پوچھا کہ اس سال میرا کام کیسا چلے گا؟ جواب ملا، بہت اچھا پھر کچھ اور لوگوں نے بھی سوال کیے، میں یہ سارا واقعہ خاموشی سے دیکھتا رہا، آخر مجھ سے بھی خطاب کیا گیا، لوگوں کا خیال تھا کہ اس لڑکے پر کوئی جن مسلط ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ وہ کشمیری نوجوان نہایت حساس معمول (Sensitive medium) تھا اور کسی روحی گائیڈ کے زیر اثر تھا، روحی گائیڈ کو موکل بھی کہا جاتا ہے، لڑکے کے جوابات بلاشبہ درست ثابت ہوئے، اس نے مجھ سے کہا تھا کہ تم کشمیر سے حیدرآباد جاو گے اور پھر وہیں کے ہورہو گے، اس کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی ہے (میر بشیر صاحب نے غالباً اپنے مشاہدات حیدرآباد میں قیام کے دوران تحریر کیے ہوں گے کیوں کہ بعد میں وہ لندن چلے گئے تھے اور وہیں انتقال کیا) خودی کے عالم میں معمول کا غیر زبان بولنا کتنا ہی حیرت ناک واقعہ کیوں نہ ہو لیکن اس قسم کے واقعات اکثر افراد کو پیش آتے ہیں“

سومار آف ٹھٹھہ

ہمارے معاشرے میں اس قسم کی مثالیں بے شمار نظر آتی ہیں جن میں خواتین اور مردوں کی اکثریت کسی روحی گائیڈ (ایسے ہمزاد جو زندہ لوگوں سے رابطہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں) کے زیر اثر آجاتی ہے، ماضی قریب میں اس کی ایک مثال ٹھٹھہ کی مشہور شخصیت ”سومار“ تھا، کراچی، حیدرآباد اور سندھ میں رہنے والے بے شمار افراد ایسے ہوں گے جو ٹھٹھہ گئے ہوں اور سومار سے ملے ہوں،ا س شخص کا روحی گائیڈ ایک دیوار کے ذریعے لوگوں سے ہم کلام ہوتا تھا اور دم درود وغیرہ کا کام یا لوگوں کو مستقبل کے حالات بتانے کا کام کیا کرتا تھا۔
اس قسم کے کیسوں میں لوگ خیال کرتے ہیں کہ معمول کا رابطہ کسی جن یا بزرگ کی روح سے ہوگیا ہے کیوں کہ مختلف ہمزاد اپنے معمول کے ذریعے لوگوں کے سامنے مختلف بہروپ بھرتے ہیں، وہ اکثر خود کو کسی مشہور بزرگ سے منسوب کرتے ہیں یا پھر خود کوئی مشہور بزرگ بن کر لوگوں کو رعب میں لیتے ہیں، مثلاً وہ اپنا تعارف استغفراللہ خواجہ غریب نواز، لعل شہباز قلندر وغیرہ کے طور پر کراتے ہیں یا کسی غیر معروف صاحبِ مزار کی حیثیت سے، یقیناً آپ نے ایسے کیس دیکھے ہوں گے، ہمارے بھی مشاہدے میں ایسے واقعات ہیں۔

مغرب میں حاضراتِ ارواح

مغرب میں اور مشرق میں بھی حاضرات ارواح کے جو طریقے مروج ہیں ان سب کا مرکز یہی روحی گائیڈ یعنی ہمزاد ہیں، حاضرات ارواح کا شوق رکھنے والے حضرات ان طریقوں کے مطابق ایسے کسی روحی گائیڈ سے رابطے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر اس روحی گائیڈ کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق سوالات کرکے معلومات حاصل کرتے ہیں یا پھر اس کے ذریعے کسی خاس شخص کے ہمزاد سے رابطے کی کوشش کی جاتی ہے، مغرب میں اسے روحوں سے رابطہ خیال کیا جاتا ہے۔
حاضرات ارواح کی ایسی نشستوں میں ماہرِ روحیات یا تو خود اعلیٰ درجے کے معمول کی خدمات حاصل کرتا ہے یا پھر وہ خود اعلیٰ درجے کا معمول ہوتا ہے اور کسی روحی گائیڈ کے زیر اثر ہوتا ہے، مغرب میں ”سائیکک پاور“ یا اسپریچوئل ازم کے حوالے سے لوگوں کی رہنمائی کرنے والے عام ہیں اور اب تو انہوں نے اپنی سیکڑوں ویب سائٹس بھی بنارکھی ہیں، آپ ان سے فون پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔
( ہم میں سے اکثر لوگ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں حاضرات کے جو طریقے مشہور ہیں ان میں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی معصوم بچے کو معمول بناکر اس کے ذریعے سوالات و جواب کیے جائیں، اس طریقے میں ہمارے ہاں عاملین حضرات کسی معمصوم بچے کو نہلا دھلا کر پاک صاف لباس پہناکر اس کی ہتھیلی یا انگوٹھے کے ناخن پر چمک دار کالی روشنائی کا لیپ لگاتے ہیں اور بچے کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ اس پر نظریں جمادے اور اپنے ذہن کو آزاد چھوڑدے اس کے بعد بچے کو مخصوص ہدایات و ترغیب دی جاتی ہے، تھوڑی ہی دیر میں بچہ اپنے ناخن یا ہتھیلی پر کسی منظر کے نمایاں ہونے کی اطلاع دیتا ہے، یہ سارا عمل اسی ذیل میں آتا ہے جس کی ہم نے اوپر نشان دہی کی ہے، بچے معصوم ہوتے ہیں، ان کا شعور ناپختہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک عمدہ میڈیم کے طور پر کام کرتے ہیں۔
ہمارے ایک واقف جو بنیادی طور پر دینی تعلیم کا مدرسہ چلاتے تھے لیکن عملیات اور دیگر روحانی علوم کا بھی شوق رکھتے تھے، انہوں نے اپنی معصوم بچی کو اپنا معمول بنالیا اور اس کے ذریعے حاضرات کیا کرتے تھے، اتفاق سے بچی پہلے ہی غیر معمولی حساس تھی لہٰذا بہت آسانی سے اس پر حاضرات کھلنے لگی یعنی وہ کسی بھٹکے ہوئے ہمزاد یا روحی گائیڈ کے زیر اثر آگئی، اس کے نتیجے میں اس کی صحت خراب رہنے لگی اور سائیکی میں بھی ایک نمایاں تبدیلی آگئی، آدمی ہوشیار تھے، جیسے ہی یہ محسوس کیا، فوری طور پر پہلے ادھر اُدھر علاج معالجے کے لیے بھاگ دوڑ کی اور پھر ہمارے پاس آگئے، ہم نے انہیں خاصی جھاڑ پلائی کہ آپ اپنی ہی بچی کی زندگی برباد کرنے پر کیسے آمادہ ہوگئے؟بہر حال انہوں نے اس غلطی سے توبہ کی اور بعد ازاں بچی علاج کے بعد صحت مند ہوگئی۔