یورینس کے آئندہ سات سال
ہم نے ترقی اور استحکام کے سلسلے میں کون سے کار ہائے نمایاں انجام دیے، انہیں شمار کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ، عام آدمی کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے، لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں، اپنے بچوں کو بیچ رہے ہیں، پانی، بجلی ، رہائش اور خوراک کے مسائل بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں، مہنگائی کا طوفان سروں پر منڈلا رہا ہے اور اُس کی شدت میں روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے۔ عوام کے ووٹوں سے برسرِ اقتدار آنے والے حکمران عوام کے لئے کچھ نہیں کر رہے ، وہ صرف اپنے اقتدار کو قائم و دائم رکھنے کے لئے مصروف عمل ہیں اور صرف ایک ہی راگ کی الاپ جاری ہے کہ جمہوریت سے بڑی نعمت دنیا میں کوئی نہیں ہے لیکن ایک عام آدمی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جس جمہوریت کے فوائد سنتے سنتے اُس کے کان پک گئے ہیں اُس کا فائدہ کیا ہے ؟
لوگ سابق فوجی حکمرانوں کے دور کو یاد کر رہے ہیں اور جمہوری حکمرانوں کے دور سے اس کا موازنہ کر رہے ہیں ۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ واقعی جمہوریت اس ملک میں ایک ناکام طرز حکومت ہے ؟ اس ملک کے عوام کو جمہوریت راس نہیں آتی؟ ہمارے خیال میں یہ سوچنا بہر حال غلط ہوگا کیوں کہ دنیا کے بے شمار ملک جمہوری تجربات کی بدولت ترقی کر رہے ہیں اور جمہوریت کی بدولت ان ملکوں میں عوام سکھ اور چین کی زندگی گزار رہے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوری تجربے کبھی ایماندارانہ اور مخلصانہ انداز میں نہیں ہوئے ۔ ہر جمہوری حکومت کو برسرِ اقتدار آنے کے بعد صرف ایک ہی فکر لاحق رہتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح قائم و دائم رہے اور اسی فکر و الجھن میں اُس سے ایسی ایسی غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوتی ہیں جو بالاخر اس کے خاتمے کا سبب بن جاتی ہیں ، کروڑوں روپے خرچ کرکے عوامی نمائندگی کا تاج سر پر سجانے والے اربوں کمانے کی دھن میں مگن ہوجاتے ہیں اور بدنام بے چاری جمہوریت ہوتی ہے ۔ محترمہ شہید کا پہلا یا دوسرا دور، جناب نواز شریف کے دونوں دور اس کی مثال ہیں اور اب موجودہ جمہوری حکومت کا حال بھی یہی ہے کہ اُسے صرف اپنے قیام و بقاء کے مسائل سے دلچسپی ہے ، عوام کی فلاح و بہبود اُس کا مسئلہ نظر نہیں آتی ۔ 2 سالہ دورِ حکومت کو دیکھتے ہوئے تو یہی کہا جاسکتا ہے، اب ایک نئی چپقلش حکومت اور عدلیہ کے درمیان شروع ہوچکی ہے، میڈیا بھی اس میں حسبِ توفیق اپنا کردار ادا کر رہا ہے ۔ اس محاذ آرائی کا انجام کیا ہوگا؟ ہر شخص اسی سوال پر فکر مند ہے ۔
ملک کو درپیش چیلنج بہت بڑے ہیں، افغانستان سے امریکہ کی بساط لپٹ رہی ہے، ہمارا پڑوسی بھارت ہمارے وجود کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، وہ ہمارا پانی بھی بند کردینا چاہتا ہے ۔ آئی ایم ایف کے قرضے معاشی طور پر ہمارے گلے میں ایک پھندا ہیں ۔ الغرض ملک کے حقیقی مسائل کی ایک طویل فہرست علیحدہ سے موجود ہے۔ ان کے بارے میں سوچنے اور انہیں حل کرنے کے لئے کسی کے پاس وقت نہیں ہے کیوں کہ حکمرانوں کی جان اپنے ہی عذابوں سے اذیت میں مبتلا ہے اور دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ مریض مسیحائی کے دعوے دار ہیں ۔
ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت کسی نہ کسی حوالے سے عدالتوں کو مطلوب ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ ان کے مقدمات جھوٹے ہیں یا سچے مگر یہ مسئلہ بہر حال موجود ہے اور جب تک یہ مسئلہ موجود ہے ، عدلیہ سے محاذ آرائی جاری رہے گی ۔ اس کا ایک حل تو این آر او تھا جو متنازعہ ہونے کے سبب منسوخ ہوچکا ہے ، دوسرا حل سیاست دانوں کے نزدیک یہی ہوسکتا ہے کہ عدلیہ اپنی سابقہ پوزیشن پر واپس چلی جائے ، جیساکہ 7 مارچ 2007 ء سے پہلے تھی ۔ بعض سیاسی مبصرین کا خیال یہ بھی ہے کہ وزیر قانون جناب بابر اعوان شاید آج کل ایسی ہی کسی کوشش میں مصروف ہیں کیوں کہ موجودہ عدلیہ اب ناقابلِ برداشت ہوچکی ہے ۔ میڈیا میں بھی حکومت کے طرف دار حلقے عدلیہ کو ہدفِ تنقید بنارہے ہیں،بہر حال ان کا جو کام ہے وہ اہلِ سیاست جانیں، عوام بے چارے کیا کریں؟بس اب علامہ اقبال یاد آرہے ہیں۔
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لاالہَ اِللہ
ہمارے ملک میں اکثر سیاست دانوں کی غلطیوں ، نااہلیوں اور کرپشن کا رونا رویا جاتا ہے اور ہر خرابی کا ذمہ دار بالآخر سیاست دانوں ہی کو ٹھہرایا جاتا ہے ، یہ بات کسی حد تک تو درست ہوسکتی ہے لیکن 100 فیصد نہیں ، ملک کے دیگر ادارے بھی کسی صورت بری الزمہ نہیں ہیں ، جو خامیاں سیاست دانوں میں گنوائی جاتی ہیں وہ دیگر اداروں میں بھی موجود ہیں ، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصلاح احوال کا عمل کہاں سے شروع ہو اور کہاں ختم ہو ؟ یہ دانش ورانہ بحث و مباحثہ ہم روزانہ مختلف چینلز کے سیاسی پروگراموں میں سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں ، سیاست داں اور سیاسی تجزیہ کار ہر روز نت نئے پینترے بدلتے نظر آتے ہیں لیکن مسئلے کا کوئی واضح حل کبھی سامنے نہیں آتا ۔
ہماری دنیا ، سیاست دانوں اور سیاسی تجزیہ کاروں یا دانش وروں سے الگ ہے ، ظاہر ہے سیاست ہمارا شعبہ نہیں ہے ، ہم صورتِ حال کو گردشِ سیارگان کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور ضروری نہیں ہے کہ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں اور لکھتے ہیں اس سے کوئی اتفاق کرے ، علم نجوم ایک فلکیاتی سائنس ہے جو صدیوں کے تجربے اور مشاہدے سے ظہور میں آتی ہے ، اس کااپنا ایک علیحدہ ہی دائرۂ کار ہے ، اپنے گزشتہ مضامین میں ہم دنیا بھر میں تبدیلی کی ایک بڑی لہر کا ذکر کرتے رہے ہیں اور آج بھی ہم یہی سمجھتے ہیں کہ گردش سیارگان اب ایسے موڑ پر آگئی ہے جب دنیا نئے انقلابات دیکھ سکے گی ، پاکستان بھی اپنی تاریخ کے ایک ایسے ہی موڑ تک آگیا ہے ، لہٰذا فی الحال چاہے جتنی بھی خرابیاں اور مسائل جنم لے لیں مگر بالآخر ایک نیا اور مثبت راستہ نمودار ہوگا ، شاید ایک نئی قیادت کا ظہور بھی اب بہت قریب آگیا ہے ۔
سیارہ یورینس اس سال 28 مئی2010 کو برج حمل میں داخل ہوا ہے ، برج حمل دائرہ بروج کا پہلا برج ہے ، اس کی خصوصیات میں پہل کاری ، ایکشن ، قیادت ، مہم جوئی ، بے خوفی اور تبدیلی نمایاں ہیں ، یورینس ایجاد ، جدت ، روایت شکنی کا ستارہ ہے اور پرانی روایات و رسوم کا خاتمہ لاتا ہے ، لہٰذا یورینس کا نیا سفر نئی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے اور یہ تبدیلیاں منفی نہیں مثبت ہوں گی ، پرانی ازکارِ رفتہ چیزیں اور نظریات ختم ہوں گے ، ایک نیا معاشرہ اور نیا ماحول جنم لے گا ، زندگی کے ہر شعبے میں یہ نئی تبدیلیاں آئندہ سات سالوں میں دیکھنے میں آئیں گی ۔
علم نجوم اور تاریخ باہم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ، سیارگان کی گردش کی روشنی میں تاریخ کا مطالعہ شان دار رہنمائی کا سبب بنتا ہے ، مغرب میں علم نجوم کی یہ شاخ نہایت محبوب اور مقبول ہے ۔
سیارہ یورینس کا برج حمل میں داخلہ اور طویل قیام ایک غیر معمولی سیاروی تبدیلی ہے ، اس موضوع پر ہم سال کے شروع ہی میں محترم شاہ زنجانی کی فرمائش پر ایک طویل مضمون لکھ چکے ہیں جو زنجانی جنتری 2010ء میں شائع ہوچکا ہے ، (شوقین حضرات و خواتین یہ مضمون تازہ زنجانی جنتری میں ملاحظہ کرسکتے ہیں )
آج کی نشست میں سیارہ یورینس کے منقلب بروج میں اثرات پر تھوڑی سی گفتگو ہوگی ، انقلابات عالم کا یہ سیارہ منقلب بروج میں رہتے ہوئے پاکستان کے حالات میں کب کب اور کیسی کیسی تبدیلیوں کا سبب بنا ہے اور اب پھر ایک منقلب برج حمل میں طویل قیام کے لئے تیار ہے ۔واضح رہے کہ منقلب کا مطلب تغیر پذیر ہے لہٰذا منقلب بروج میں سیارگان تبدیلیوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔
قیام پاکستان کے وقت سیارہ یورینس ذوجسدین برج جوزا میں تھا ، 30 اگست 1948ء کو منقلب برج سرطان میں داخل ہوا اور عارضی طور پر 12 نومبر 1948ء تک برج سرطان میں رہا ، پاکستان کے حالات و واقعات میں یہ ایک غیر معمولی ٹرننگ پوائنٹ تھا کیونکہ ستمبر میں بان�ئپاکستان قائد اعظم علیہ رحمتہ ہم سے جدا ہوگئے ، اس کے بعد مستقل طور پر 9 جون 1949ء سے یورینس 7 سال کے لئے برج سرطان میں آگیا اور 9 جون 1956ء تک برج سرطان ہی میں رہا ، ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تمام عرصہ پاکستان میں عدم استحکام کا ہے ، پرانی سیاسی قیادت یا تو اللہ کو پیاری ہوئی یا اسے منظر سے ہٹنا پڑا ، بیوروکریٹس آگے آئے اور انہوں نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھال لی ، قائد اعظمؒ کے بعد حالانکہ گورنر جنرل کا عہدہ تحریک آزادی کے ہی ایک رہنما خواجہ ناظم الدین کو ملا تھا مگر مختصر سے عرصے کے بعد ان کی جگہ ایک بیوروکریٹ غلام محمد نے لے لی ، قصہ مختصر یہ کہ یورینس کے منقلب برج سرطان میں قیام کے دوران نئی قیادت سامنے آئی اور پرانی قیادت کو میدان چھوڑنا پڑا ۔
قیام پاکستان کے بعد دوسری مرتبہ سیارہ یورینس منقلب برج میزان میں 28 ستمبر 1968ء کو داخل ہوا ، یہ جنرل ایوب خان کا آخری دور تھا ، یورینس عارضی طور پر برج میزان میں 20 مئی 1969ء تک رہا اور اس دوران میں یحییٰ خان کا مارشل لأ آچکا تھا ، پرانے بیوروکریٹس کی ایک بڑی کھیپ فارغ کردی گئی ۔ یورینس دوبارہ اسی سال جون کے آخر میں 7 سال کے لئے برج میزان میں آگیا اور پھر 7 ستمبر 1975ء تک برج میزان میں رہا۔
اس تمام عرصے میں بھی نئی قیادت اور نیا ماحول سامنے آیا ، 70ء کے الیکشن کے نتیجے میں پرانے سیاست داں ناکام ہوئے اور نئی قیادت جناب ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کی صورت میں سامنے آئی ۔ یہی نہیں ، پاکستان میں ایک نئے سیاسی دور کا آغاز ہوا ، ایک نئی سیاسی نرسری وجود میں آئی جس کی باقیات ابھی تک موجود ہے ۔
قیام پاکستان کے بعد تیسری مرتبہ سیارہ یورینس منقلب برج جدی میں 14 فروری 1988ء کو داخل ہوا اور 11 جنوری 1996ء تک اسی برج میں حرکت کرتا رہا ۔
اس بار بھی ایک پرانے دور کا خاتمہ اور ایک نئے دور کا آغاز 1988ء میں ہی دیکھنے میں آیا ، جنرل ضیا الحق اس دنیا سے رخصت ہوئے اور انتخابات کے نتیجے میں ایک نئی قیادت سامنے آئی ، محترمہ شہید کی قیادت میں پیپلز پارٹی نمایاں ہوئی اور جناب نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ نئی صف بندی کے ساتھ متحد ہوکر سامنے آئی اور 1996ء تک سیاست کے میدان میں بہت سے نئے چہرے نمایاں ہوئے اور پرانے چہرے آہستہ آہستہ غائب ہوتے گئے ۔
اب یورینس پہلے منقلب برج حمل میں اپنے قدم جما رہا ہے لہٰذا نئی تبدیلی کا عمل شروع ہوچکا ہے ، ایک نئی قیادت کا ظہور میں آنا ناگزیر ہے اور پرانی قیادت کو میدان چھوڑنا پڑے گا ، سونے پر سہاگہ یہ کہ صرف یورینس ہی نہیں دیگر اہم سیارگان بھی منقلب بروج میں ہیں ، جولائی کا آخری ہفتہ اور اگست کا مہینہ یقیناً غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں ، اب دیکھنا یہ ہے کہ اصلاح احوال کا عمل کس راستے سے ہوکر گزرتا ہے ۔بہر حال یہ طے ہے کہ اصلاح احوال کا فطری عمل اپنا راستہ خود بناتا ہے۔ بقول شاعر
یہ شاخ گل ہے آئینِ نمو سے آپ واقف ہے
سمجھتی ہے کہ موسم کے ستم ہوتے ہی رہتے ہیں