برصغیر ( انڈوپاکستان) ایک طویل جدوجہد کے بعد 15 اگست 1947ءکو آزاد ہوا اور اس طرح دو قومی نظریے کی بنیاد پر دو نئے ملک وجود میں آئے، بھارت اور پاکستان،ابتدا ہی سے دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات شروع ہوگئے تھے جن میں سرفہرست کشمیر کا مسئلہ تھا جو آج تک بھی تنازعات کا باعث ہے۔
مختلف تنازعات کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان چھوٹی بڑی کئی جنگیں ہوچکی ہیں، بھارت پاکستان کے مقابلے میں رقبے اور آبادی کے لحاظ سے بہت بڑا ملک ہے، پاکستان آزادی کے بعد دو حصوں میں تقسیم تھا، مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان لیکن بدقسمتی سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور مغربی پاکستان صرف پاکستان رہ گیا، یہاں ہمارا موضوع پاکستان نہیں ہے، بھارت ہے۔
15 اگست 1947 شب صفر بج کر صفر منٹ بمقام دہلی وجود میں آنے والا بھارت اپنے زائچہ ءپیدائش کے مطابق کیسا ہے اور آئندہ کیسا رہے گا؟ اس موضوع پر گفتگو ہوگی۔
زائچہ بھارت
بھارت ہمیشہ سے مختلف مذاہب ،عقائد اور قومیتوں کا مجموعہ ہے، شاید ہی دنیا میں کوئی ملک اس حوالے سے بھارت کا ہم پلہ ہوگا جہاں ہندو ،سکھ، عیسائی، مسلمان، بڈھست، جین، یہودی، پارسی،الغرض بے شمار مذاہب اور عقیدے سے تعلق رکھنے والے آباد ہیں، مزید طرفہ تماشا رنگ و نسل اور قومیتوں کا تضاد بھی نظر آتا ہے،بھارت کی تحریک آزادی میں حصہ لینے والے قائدین جن میں پنڈت جواہر لال نہرو اور ان کے رفقاءسرفہرست ہیں، اس حقیقت کو سمجھتے تھے کہ اس قدر مختلف النوع آبادی کو متحد اور ترقی کے راستے پر گامزن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کو کسی مخصوص مذہب یا عقیدے کے بجائے سیکولر اسٹیٹ بنایا جائے، چناں چہ ابتدا ہی سے ملک کے آئین کو بھی سیکولر بنیادوں پر ترتیب دیا گیا، جواہر لال نہرو کی سیاسی جماعت کانگریس پارٹی جو تحریک آزادی میں ایک نمایاں کردار ادا کرکے ملک بھرمیں مقبولیت کے جھنڈے گاڑ چکی تھی، اس میں بھی سیکولر ازم کو نمایاں کیا گیا، ملک کے پہلے وزیر تعلیم ایک مسلمان مولانا ابوالکلام آزاد تھے، بعد میں صدارت کے عہدے پر بھی ایک مسلمان کو موقع دیا گیا جن کا نام پروفیسر ذاکر حسین تھا، الغرض کانگریس سیکولرازم کی بنیاد پر ملک کو ترقی اور کامیابی کے راستے پر چلانے میں کامیاب رہی لیکن اس کے ساتھ ہی ابتدا ہی سے ہندو انتہا پسند گروہ بھی مصروف کار تھا، اس نے اس صورت حال کو دل سے قبول نہیں کیا تھا اور وہ ملک کی تقسیم کے بھی خلاف تھا، یہ ہندو انتہا پسند جن سنگھ پارٹی تھی جس کے ایک رکن نے بالآخر بھارت کے سب سے زیادہ محترم لیڈر مہاتما گاندھی کو قتل کردیا اور اس طرح سیکولر ازم کے جاری نظام کے خلاف آواز بلند کی، رفتہ رفتہ جن سنگھ (RSS) کی بنیادیں مضبوط ہوتی چلی گئیں اور ایک مرحلے پر جب کانگریس پارٹی اپنی لیڈر اندرا گاندھی کی غلط پالیسیوں کے سبب کمزوری کا شکار ہوئی تو 1977 میں جن سنگھ کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) برسر اقتدار آگئی لیکن کانگریس کو بہت جلد اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا اور تھوڑے ہی عرصے میں بی جے پی کی حکومت ناکام ہوکر ختم ہوگئی اور دوبارہ کانگریس پارٹی اقتدارمیں آگئی، اندرا گاندھی اور ان کے بیٹے راجیو گاندھی کی ہلاکت کے بعد کانگریس آہستہ آہستہ کمزور ہوتی چلی گئی اور بی جے پی اپنے انتہا پسندانہ نظریات کے سبب اپنا اثرورسوخ بڑھاتی چلی گئی، بی جے پی کے مشہور انتہا پسند سیاست دانوں میں ایل کے ایڈوانی ،اٹل بہاری واجپائی وغیرہ نمایاں رہے ، موجودہ وزیراعظم اور ان کے رفقائے کار بھی جنتا پارٹی کے اہم رکن ہیں، یہ لوگ ماضی میں جن سنگھ کے ممبر رہے ہیں،یہی وہ لوگ ہیں جو بابری مسجد کو شہید کرنے میں پیش پیش تھے۔
بھارت کی اس مختصر ترین سیاسی تاریخ کے بعد ہم اس ساری صورت حال کو بھارت کے زائچے کی روشنی میں دیکھیں گے۔
زائچے کے پہلے گھر میں برج ثور سات درجہ 46 دقیقہ طلوع ہے، راہو زائچے میں پانچ درجہ 44 دقیقہ اور کیتو ساتویںگھر برج عقرب میں شرف یافتہ ہے، گویا یہ دونوں منحوس پرچھائیں سیارے پوری طرح زائچے کو متاثر کر رہے ہیں، زائچے کا پہلا ،تیسرا ، پانچواں، ساتواں ، نواں اور گیارھواں گھر راہو کیتو کی وجہ سے متاثرہ ہے، سیارہ مریخ زائچے کے دوسرے گھر میں سات درجہ 27دقیقہ برج جوزا میں موجود ہے، گویا ایک اور نحس نظر زائچے کے دوسرے ،چھٹے،آٹھویں اور نویں گھر کو متاثر کر رہی ہے، کسی عام آدمی کے زائچے میں مریخ کی ایسی نظر اسے ”مینگلیک“ بناتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ سیارہ مریخ یعنی منگل کی یہ پوزیشن شادی اور ازدواجی زندگی کے لیے نہایت منحوس اثر رکھتی ہے،کسی ملک کے زائچے میں مریخ کی یہ پوزیشن معاشی خرابیوں کے ساتھ حادثات و سانحات اور آئینی و قانونی تنازعات، ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ کی نشان دہی کرتی ہے، ترقیاتی امور میں منفی رجحانات لاتی ہے۔
زائچے کے تیسرے گھر برج سرطان میں قمر ، عطارد، زحل،زہرہ اور شمس موجود ہیں، قمر، اپنے گھر میں ہے اور ملک کی قیادت کو ظاہر کرتا ہے لیکن ساتویں گھر سے کیتو کی نظر ظاہر کرتی ہے کہ بھارتی قائدین کسی نہ کسی سطح پر انتہا پسندانہ نظریات کے حامل رہے ہوںگے،ماضی میں اگر نہرو سیکولر ذہن رکھتے تھے تو سردار پٹیل اور بعض دوسرے رہنما انتہا پسندانہ نظریات کے حامل تھے،عطارد کی اچھی پوزیشن ملک میں تعلیمی نظام کو فروغ دینے کا باعث ہے، چناں چہ ملک بھر میں بے شمار کالج اور یونیورسٹیز وجود میں آئیں،سیارہ زہرہ اور زحل زائچے میںغروب ہیں جس کی وجہ سے حکمرانوں کو اگر ڈکٹیٹر بننے کا موقع کم ملا تو سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو بھی حدود میں رہنا پڑا، سیارہ شمس جو چوتھے گھر کا حاکم ہے، عوام اور اپوزیشن کی نمائندگی کرتا ہے، کمزور ہونے کے باوجود اچھی پوزیشن رکھتا ہے، چناں چہ اپوزیشن بھی مضبوط رہی اور عوام کو بھی اپنے حقوق کے لیے بھرپورانداز میں آواز اٹھانے کا موقع ملا، دوسرے معنوں میں بھارتی عوام جمہوری مزاج کو سمجھتے ہیں جب کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔
سیارہ مشتری جو زائچے کا سب سے منحوس سیارہ ہے چھٹے گھر برج میزان میں ہے، گویا ابتدا ہی سے تنازعات بڑے حادثات اور سانحات کا باعث بنتے رہے ہیں اور آئندہ بھی بنتے رہےں گے۔
اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو جب بھی سیارہ قمر کا دور آیا ہے، بھارت میں ہندو انتہا پسندی کو بڑھاوا ملا ہے،خاص طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ سیارہ عطاد کے دور اکبر میں قمر کا دور اصغر 10 اکتوبر 1972 ءسے 11 مارچ 1974 ءتک جاری رہا، یہی وہ دور تھا جس میں کانگریس کمزور ہوئی، اندرا گاندھی کو ملک میں ایمرجنسی لگانا پڑی اور بالآخر آنے والے الیکشن میں جنتا پارٹی نے پہلی مرتبہ کامیابی حاصل کی اور ملک کی باگ دوڑ سنبھالی، اگست 1984 ءمیں کیتو کے دور اکبر میں قمر کا دور اصغر انتہا پسندانہ اقدام کی نمایاں مثال پیش کرتا ہے جب سکھوں کے خلاف امرتسر میںآپریشن کیا گیا اور نتیجے کے طور پر اندرا گاندھی قتل ہوئیں، قصہ مختصر یہ کہ قمر کا دور بھارت میں انتہا پسندانہ اور شدت پسندانہ رجحانات کے فروغ کا باعث نظر آتا ہے، 11 ستمبر 2015 سے بھارت کے زائچے میں سیارہ قمر کا دس سالہ دور اکبر شروع ہوا، ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم نے اکتوبر 2015 میں اس صورت حال پر روشنی ڈالی تھی، یہ آرٹیکل ماہنامہ آئینہ قسمت میں اور دیگر اخبارات و رسائل میں شائع ہوا تھا، اس آرٹیکل کا ایک اقتباس دیکھیے۔
”انڈیا کے زائچے میں سیارہ شمس کا دور اکبر جاری تھا جو 11 ستمبر 2015 ءکو ختم ہوگیا،شمس زائچے کے چوتھے گھر کا حاکم اور تیسرے گھر میں قابض ہے،زائچے کا سعد سیارہ ہے، 11 ستمبر سے قمر کا دور اکبر 10 سال تک جاری رہے گا،قمر بھی زائچے کا سعد سیارہ ہے لیکن جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ یہ ساتویں گھر میں قابض غضب ناک کیتو کی نظر میں ہے،زائچے کا تیسرا گھر پہل کاری ، قیادت، نئی سوچ اور نئے راستوں پر آگے بڑھنے کے لیے اہمیت رکھتا ہے،اس کا حاکم قمر چوں کہ منفی اثرات کا شکار ہے لہٰذا سمجھ لینا چاہیے کہ بھارت کے عزائم آئندہ دس سال تک جارحانہ ہی رہیں گے،اس میں سب پیریڈ کی مناسبت سے کمی بیشی ہوسکتی ہے لیکن یہ خیال کرنا حماقت ہوگی کہ باہمی بھائی چارے کی فضا پروان چڑھ سکے گی اور دونوں سابقہ حریف باہم شیروشکر ہوجائیں گے“۔
2014 ءمیں بی جے پی نے کامیابی حاصل کی تھی اور نریندر مودی وزیراعظم بن گئے تھے، قمر کا دور اکبر اور اس میں قمر ہی کا دور اصغر جو 11 جولائی 2016 ءتک جاری رہا اور نریندر مودی کے جن سنگھی عزائم کا آئینہ دار رہا، نریندر مودی کی حکومت اتنی اکثریت میں نہیں تھی کہ اہم اقدامات کے ذریعے اپنے اصل عزائم کو پایہ ءتکمیل تک پہنچاتی لیکن 2019 کے انتخابات میں بھارتی جنتا پارٹی زیادہ مضبوط ہوکر سامنے آئی اور پھر وہ سب کچھ ہواجو بتانے کی ضرورت نہیں ہے،کشمیر میں جاری لاک ڈاو¿ن اس کامنہ بولتا ثبوت ہے لیکن نریندر مودی کی دانش وری کا پول کھل گیا، ثابت ہوگیا کہ وہ انتہائی چھوٹا ذہن رکھنے والے انسان ہیں، دوسری بار وزیراعظم بننے کے بعد سے آج تک انھوں نے جو اقدام کیے وہ اب ان کے حلق کی ہڈی بن رہے ہیں۔
اگر نریندر مودی کے دور اقتدار کا ایسٹرولوجیکل جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ قمر کے دور اکبر میں گیارہ جولائی 2016 سے سیارہ مریخ کا دور اصغر شروع ہوا، اس دور میں انھوں نے اپنے خفیہ عزائم کو پایہ ءتکمیل تک پہنچانے کے لیے دنیا بھر کے دورے کیے اور امریکا کے علاوہ عرب ممالک سے بھی تعلقات بڑھانے پر زور دیا، 9 فروری 2017 سے راہو کا فریبی دور شروع ہوا جو گیارہ اگست 2018 تک جاری رہا، اسی دور میں انھوں نے عوام کو گمراہ کرنے اور ”ہندوتوا“ کا پرچار کرنے کی کوشش کی، گویا کھل کر اپنے اصل عزائم کا اظہار شروع کردیا، 11 اگست 2018 سے 11 دسمبر 2019 تک سیارہ مشتری کا دور اصغر نہایت منحوس اثر کا حامل رہا جس میں نریندر مودی نے آرٹیکل 370 ختم کرکے نئی آئینی ترمیم کے ذریعے کشمیر اور دیگر بھارتی ریاستوں کی گردن پر چھری پھیر دی۔
2017 ءسے 2019ءتک دسویں گھر کا حاکم سیارہ زحل آٹھویں گھر میں نہایت خراب پوزیشن میں رہا، یہ صورت حال بھی مودی کے عزائم میں رکاوٹ کا سبب رہی، مزید یہ کہ اس عرصے میں بھارتی حکومت کو مسلسل دشواریوں اور نت نئے چیلنجز کا سامنا رہا، سال 2020 ءبھی بھارت کے لیے زیادہ خوش کن نہیں ہے، نریندر مودی اور ان کی حکومت جن خوش فہمیوں میں مبتلا ہے اور رام مندر کا افتتاح کرکے شادیانے بجا رہی ہے، پاکستان سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان لینے کا پروگرام بنارہی ہے، ایک چھوٹے سے چین کے لداخ پر حملے سے بری طرح بوکھلا گئی ہے، یہی نہیں بلکہ بھارت کی دوسری ریاستوں میں بھی احتجاجی صورت حال نظر آتی ہے، نیپال نے نیا نقشہ جاری کرکے بھارت کے لیے نیا چیلنج پیدا کردیا ہے۔
نریندر مودی کی انتہا پسندانہ پالیسیاں اب رنگ لارہی ہیں، بھارتی معیشت بھی بری طرح تنزل کا شکار ہے، پاکستان کے ساتھ مسلسل سرحدی جھڑپیں جاری ہیں، آسام، ناگالینڈ اور دیگر ریاستیں بھی علیحدگی پسندانہ رجحانات ظاہر کر رہی ہیں۔
انڈیا کے زائچے میں اگرچہ سیارہ زحل اچھی پوزیشن میں آچکا ہے لیکن 2020 میں اسے وہ توانائی حاصل نہیں ہوسکی جو فائدہ بخش ثابت ہوسکتی ہے، راہو اور کیتو اب زائچے کے پہلے اور ساتویں گھر میں آچکے ہیں اور آئندہ سال 2021 میں سیارہ زحل کو راہو مسلسل متاثر کرے گا جس کی وجہ سے بھارتی قیادت مزید غلطیاں کرے گی، اس کے فیصلے اور اقدام مزید مسائل کا سبب بنیں گے، دوسری طرف اسی سال 20 نومبر کے بعد سے سیارہ مشتری برج جدی میں داخل ہوگا اور سیارہ زحل سے قران کرے گا، اس کے فوری بعد شمس کی قربت کے سبب غروب بھی ہوگا،مشتری نومبر دسمبر میں پیدائشی سیارہ قمر سے نظر قائم کرے گا ، یہ وقت بھارت کے لیے خاصا مشکل ہوگا، نئے حادثات اور سانحات کو جنم دے گا، اس عرصے میں بھارت کے کسی اہم لیڈر کی موت کا امکان بھی پایا جاتا ہے۔
نیا سال 2021
نئے سال کا آغاز بھارت کے لیے خوش آئند نظر نہیں آتا، کورونا وائرس کی وبا بھارت میں تاحال آو¿ٹ آف کنٹرول ہے اور آئندہ بھی یہ صورت حال مزید جاری رہنے کا امکان موجود ہے، مشتری اور مریخ کی پوزیشن جنوری میں بہت سے نئے مسائل کو جنم دے گی اور بالآخر 11 فروری 2021 ءکو زائچے کے نویں گھر میں 6 سیارگان کا قران بھارت میں غیر معمولی نئی تبدیلیوں کی بنیاد رکھ دے گا، موجودہ انتہا پسندانہ مذہبی جنون کے مقابلے میں سیکولر نظریات کی اہمیت کا شعور اجاگر ہوگا، نریندر مودی اور ان کی حکومت آہستہ آہستہ اپنا اثر کھونے لگی ہے، 2021 کا سال بھارتی عوام اور دانش وروں کو یہ سوچنے پر مجبور کردے گا کہ نریندر مودی نے بھارت کو جس راستے پر ڈالا ہے، وہ راستہ درست نہیں ہے،حقیقت پسندانہ سوچ بے دار ہوگی، اس حوالے سے بھارت میں نئی تحریکیں جنم لے سکتی ہیں اور نتیجے کے طور پر ملک میں ایک تصادم کی فضا جنم لے سکتی ہے جس کے نتیجے میں ممکن ہے کہ ملک میں کوئی ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت پیش آئے جیسا کہ ماضی میں اندرا گاندھی کو پیش آئی تھی، یہ صورت حال مودی حکومت کو کمزور کرے گی اور ملک میں بڑھتا ہوا انتشار نئے انتخابات کی راہ ہموار کرے گا۔
2020 اپنی ابتدا ہی سے بھارت کے لیے ایک مشکل ترین سال نظر آتا ہے اور ساتھ ہی بھارتی حکومت کے لیے بھی کچھ ایسے چیلنج لارہا ہے جن کا مقابلہ کرنا بھارتی قیادت کے لیے انتہائی مشکل ثابت ہوگا، خیال رہے کہ دسویں گھر کا حاکم سیارہ زحل اپریل کے مہینے میں بری طرح راہو سے متاثر ہوگا،اسی طرح سیارہ مشتری کی پوزیشن بھی زحل کے علاوہ زائچے کے تقریباً تمام ہی سیارگان کو جو زائچے کے دوسرے گھر میں پیدائشی طور پر موجود ہیں، متاثر کرے گی،اس کے بعد بھی راہو تقریباً ستمبر تک زحل کو متاثر کرتا رہے گا لیکن بدترین وقت کا آغاز 15 اکتوبر سے ہوگا جس کے نتیجے میں نریندر مودی کی حکومت جانے کا امکان موجود ہے۔
واضح رہے کہ راہو کیتو بھی تقریباً اکتوبر ہی سے ایسی پوزیشن میں ہوں گے جب زائچے کے پہلے ، تیسرے، پانچویں، ساتویں، نویں اور گیارھویں گھر کو بری طرح متاثر کریں گے،یہ صورت حال ملک میں شدید نوعیت کی سنسر شپ ، کوئی ایمرجنسی اور ملک میں داخلی انتشار ، عوامی احتجاج اور پڑوسی ممالک سے شدید نوعیت کی محاذ آرائی کا باعث ہوسکتی ہے۔