مشہور ہے کہ ہم البرٹ آئن انسٹائن کے عہد میں سانس لے رہے ہیں (حصہ دوم)

شمسی برج حوت

طالع پیدائش جوزا کے ساتھ شمسی برج حوت محبت کے معاملے میں نہایت اہم اور تخلیقی صلاحیتوں کے اعتبار سے نہایت قابل ذکر ہے، بے شک حوت افراد محبت کی طلب میں ساری زندگی مچلتے اور تڑپتے رہتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ اگر ایک حوت شخصیت سے70 سال کی عمر میں بھی اس کی آخری خواہش پوچھی جائے تو اس کا جواب ہوگا ”ایک محبت چاہیے“
لیکن ایک عجیب مسئلہ یہ ہے کہ جب تک محبت انھیں حاصل نہ ہوجائے اس وقت تک ان کا مچلنا اور تڑپتا قابل دید ہوتا ہے اور جس روز انھیں محبت مل جائے یعنی یہ اپنے محبوب سے یا محبوبہ سے شادی کرلیں اس کے بعد ان کی محبت زوال کا شکار ہونا شروع ہوجاتی ہیں، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ محبت اور شادی دو الگ الگ معاملات ہیں، محبت ایک روحانی یا قلبی تعلق کی شدت کا نام ہے جب کہ شادی ایک ساتھ زندگی گزارنے کا معاہدہ ہے اور اس معاہدے کے کچھ اپنے ہی اصول اور قواعد ہیں جو زیاد ہ ذمے داری اور سنجیدگی چاہتے ہیں، احساسات اور جذبات کی دنیا میں رہنے والا برج حوت ان ذمے داریوں کو اہمیت نہیں دیتا وہ اسی دنیا میں رہتاہے بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے۔
شادی کے بعد بہر حال صورت حال تبدیل ہوتی ہے اور حوت افراد کو جب محبت کے وہ رنگ ڈھنگ نظر نہیںآتے جوشادی سے پہلے تھے تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ اب وہ تنہا ہوگئے ہیں لہٰذا انھیں کسی نئی محبت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، اس طرح یہ سلسلہ اکثر کیسوں میں تاحیات جاری رہتا ہے، آئن اسٹائن کے معاملے میں طرفہ تماشا برج حوت کے ساتھ برج جوزا کا امتزاج ہے اور ان کی ساری زندگی عشق و محبت کے معاملے میں ان دونوں برجوں کے امتزاج کا آئینہ ہے۔
برج حوت کے تحت آئن انسٹائن کی شخصیت بے حد حساس اور وجدانی ہے، اس کی تخلیقی صلاحیتوں سے انکار ممکن نہیں ،ان کا تخیل غیر معمولی ہوتا ہے جو کچھ یہ سوچتے ہیں وہ ان کے تصور میں حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے، یہ لوگ ایسے کاموں کی طرف راغب ہوتے ہیں جن میں جزئیات پر توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، معمولات کو پسند کرتے ہیں لیکن انھیں ورائٹی کی بھی ضرورت ہوتی ہے، لکھنے میں مہارت رکھتے ہیں، موڈی اور آزاد فطرت کے مالک ہوتے ہیں، تنہائی بھی ان کے لیے ضروری ہے ، زائچے کی مجموعی ساخت ان کی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کا رُخ مقرر کرتی ہے اور جو رخ بھی مقرر ہوجائے ، یہ اسی راستے پر ساری زندگی گامزن رہتے ہیں، ایسے دیگر مشہور افراد میں ماہر فلکیات نیکولس کوپر نیکس ، الگزنڈر گراہم بیل، شطرنج کا عالمی چیمپئن بوبی فشر ، روسی خلاباز یوری گگارین، فلم اسٹار عامر خان اور کرکٹر ویون رچرڈز وغیرہ شامل ہیں۔

قمری برج

ہم بارہا اپنے مختلف مضامین میں یہ وضاحت کرتے رہے ہیں کہ ہرانسان کسی ایک برج کے اثرات کا حامل نہیں ہوتا،خاص طور پر کم از کم ایک دو یا تین بروج کا باہمی امتزاج اس کی شخصیت ، فطرت اور کردار و عمل پر اثر انداز ہوتا ہے اور عمومی طور پر زائچہ پیدائش کے تمام بروج مختلف زاویوں سے اثر انداز ہوتے ہیں، مزید یہ کہ سیاروی امتزاجات بھی اس کی شخصیت ، کرداراور فطرت میں بوالعجبیوں کا باعث بنتے ہیں۔
شمسی برج اس کی شخصیت کو سامنے لاتے ہیں یعنی وہ دیکھنے والوں کی نظر میں کیسا ہے؟پیدائشی برج جو پیدائش کے وقت سے مقرر ہوتاہے وہ اس کے کردار اور عمل پر روشنی ڈالتا ہے جب کہ قمری برج اس کی فطری خوبیوں اور خامیوں کا آئینہ دار ہوتا ہے اور یاد رکھیں شمسی برج کے تحت ہماری شخصیت میں عمر کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں، اسی طرح ہمارے کردار و عمل میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ تبدیل ہوتا رہتا ہے لیکن قمری برج اور قمری منزل (نچھتر)ہماری فطرت کے عکاس ہیں اور فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوتی، چناں چہ قمری برج اور قمری منزل کے اثرات تقریباً دائمی ہوتے ہیں۔
البرٹ آئن انسٹائن کا پیدائشی قمر برج عقرب میں ہے اور قمری منزل ”جیشٹھا“ ہے، سیارہ قمر کو اس برج میں ہبوط ہوتا ہے، گویایہ سیارہ قمر کی انتہائی کمزور ترین پوزیشن ہے، ایسے لوگ بہت زیادہ حساس ، جذباتی ، ہر بات کا گہرا اثر قبول کرنے والے ، اپنی فطرت میں شدت پسند ،جیلس ، حاسد، محبت و دوستی میں جان قربان کرنے والے اور دشمنی میں جان لینے سے بھی گریز نہ کرنے والے ہوسکتے ہیں، قمر کا تعلق علم نجوم میں دماغ سے ہے، چناں چہ انھیں بعض دماغی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے، یہ لوگ اپنے اہداف کے لیے کسی آخری درجے تک جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
قمری منزل جیشٹھا بھی ایک غیر معمولی ، عجیب اورمتضاد خوبیوں اور خامیوں کی حامل ہے، ذہانت کا سیارہ عطارد اس منزل پر حکمران ہے، گویا برج عقرب کا حاکم مریخ اور عطارد کی توانائی اس نچھتر میں یکجا ہے، طاقت ،آزادی اور خطرے کے احساس کا امتزاج اس میں پایا جاتا ہے، جیشٹھا کو ”سردار ستارہ“ یا ”سب سے پرانا“ یا ”سب سے بڑا“ بھی کہا جاتا ہے، اس کی علامت آویزہ یا چھتری ہے، اسے دائرے کی شکل کے تعویذ سے بھی تشبیہ دی گئی ہے، اپنی فطرت میں یہ غیر انسانی یا ویدک اصطلاح کے مطابق”راکھشس“کہلاتا ہے، اس کا بنیادی محرک مادّی ترقی ہے، حیوانی علامت نر ہرن یا خرگوش ہے، درشت ، آگے دیکھنے والا جب کہ اس کی سمت مغرب ہے۔
نچھتر کی تشریح سے پہلے ایک اہم نجومی نکتے کی وضاحت ضروری ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ اس وضاحت سے بہت سے لوگوں کو اپنے بارے میں یہ جاننے کا شوق ہوگا کہ وہ درحقیقت کس قسم کے انسان ہیں؟کیوں کہ منازل قمری انھیں تین مختلف اقسام میں تقسیم کرتی ہے۔
منازل قمری پرقدیم زمانوں سے تحقیقی کام مغرب اور مشرق میں ہوتا رہاہے لیکن سب سے زیادہ مشرق نے دادِ تحقیق دی ہے اورویدک سسٹم میں اسے بنیادی اہمیت حاصل ہے، ہرانسان کسی نہ کسی قمری منزل میں پیدا ہوتا ہے جو اس کی فطری خوبیوں اور خامیوں کی نشان دہی کرتی ہے، ہر منزل کو اپنی خصوصیات کے اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔
اول دیوا(Divin) گویا نیک خصلت،ہمیشہ مثبت طور طریقوں کی طرف رجحان رکھنے والے ، یہ لوگ اگر حالات کے دباو اور مجبوریوں کے سبب کسی منفی صورت حال کا شکار ہوجائیں تو خوش اور مطمئن نہیں رہتے۔
دوم انسان، منش(Human) گویا ایک عام سی شخصیت جو پیدائش سے موت تک عام انسانی خصلت کے مطابق زندگی گزارتا ہے اور اس کی زندگی میں مثبت اور منفی رویوں کا امتزاج نظرآتا ہے، حالات اسے جس سمت بھی لے جائیں وہ اسی ماحو ل میں گزارا کرلیتا ہے۔
سوم غیر انسانی ، راکھشس (Non-Human) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں زندگی اور کائنات کے ہر پہلو سے غیر معمولی دلچسپی ہوتی ہے، اکثر دنیا میں غیر معمولی کام اور کارنامے انجام دینے والے افراد غیر انسانی قمری منزل میں پیدا ہوتے ہیں، شاید غالب نے جو خود بھی ایک ایسی ہی منزل میں پیدا ہوئے تھے یہ مصرع ایسے ہی لوگو ں کے لیے کہا تھا کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے (منازل قمری کے حوالے سے ہماری کتاب ”اک جہان حیرت“ اردو زبان میں پہلی کتاب ہے، اس سے پہلے اس موضوع پر پاکستان میں کسی نے بھی کام نہیں کیا)
اس وضاحت کے بعد جیشٹھا کی خوبیوں اور خامیوں کو ہم دیکھتے ہیں تو ایک متضاد شخصیت ہمارے سامنے آتی ہے، اگرچہ یہ لوگ غیر معمولی کارنامے انجام دینے کے اہل ہوتے ہیں وہ کارنامے مثبت بھی ہوسکتے ہیں اور منفی بھی ، امریکا کا مشہور خبطی ارب پتی ہاورڈ ہیوز اس کی مثال ہے، اس کا پیدائشی قمر برج عقرب کی اسی منزل میںتھا،ان لوگوں میں منفی اثرات کی وجہ سے عجیب و غریب رجحانات پیدا ہوتے ہیں جو ابتدائی زندگی سے ہی نمایاں ہونے لگتے ہیں، ان کا حلقہ ءاحباب محدود ہوسکتا ہے یا وہ تنہائی پسند اور دوسروں سے الگ تھلگ رہنے لگتے ہیں، ایک نہایت گھنّی یا منافقانہ فطرت کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، ایک عجیب تضاد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مذہب کی پیروی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی مادّی آسائشوں کے متوالے بھی ہوتے ہیں یامکمل طور پر مذہب بے زار بھی ہوسکتے ہیں، جیشٹھا کا بنیادی محرک جیسا کہ بتایا گیا ہے مادی ترقی ہے ، یہ خود خیالی اور خود توقیری کے مابین ایک باطنی جنگ میں مصروف رہتے ہیں، ان کو گھمنڈ ، تکبر اور انانیت کی روک تھام کرنا چاہیے جو یہ نہیں کرپاتے، چڑچڑے، بدمزاج، جھگڑالو فطرت،بھڑک اٹھنے والے، یہ نچھتر انھیں قوت کے اعلیٰ مقام تک رسائی کی اجازت دیتا ہے لیکن اس کے لیے بڑے کنٹرول اور ذاتی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔
بہ ظاہر یہ لوگ بہت قانع ، صالح اور چڑچڑے نظر آتے ہیں ، بااثر ہوتے ہیں، مشہور ہوتے ہیں، اگر دولت کا حصول مدنظر ہو تو ا ن سے زیادہ دولت مند کوئی نہ ہوگا، میدان جنگ میں یہ جنگی ہیرو ہوتے ہیں، زائچے کی ساخت میں خرابیاںموجود ہوں تو غربت ان کا مقدر بنتی ہے اور یہ چوری چکاری جیسے کاموں میں بھی مصروف ہوسکتے ہیں، ان کی طویل زندگی میں ضدی پن جاب یا پروفیشن کی تبدیلیاں،زندگی کے ابتدائی دور میں مشکلات، مصائب اور اذیتیں بھی ہوسکتی ہیں، گرم مزاجی اور ہٹ دھرمی بھی ان کا طرہ امتیاز ہے ۔
انھیں اپنے ضمیر پر بھروسا ہوتا ہے اور یہ اپنے اندازوں پر انحصار کرتے ہیں، دوسروں سے مشورہ لیتے ہوئے شرماتے ہیں، اپنے خود ساختہ اصولوں کی خاطر اکثر معاملات میں موقع محل پر غور کیے بغیر فوری فیصلہ کرنے کے عادی ہوتے ہیں، ان کی گرم مزاجی اور کسی بھی بات پر بھڑک اٹھنا ان کے دوستوں، بہی خواہوں، بیویوں کے لیے بھی پریشان کن ہوسکتاہے اور انھیں مصیبت میں ڈال سکتا ہے، اپنے رشتے داروں سے بھی تعلقات خراب کرسکتے ہیں۔
قمری منزل جیشٹھا میں پیدا ہونے والی دیگر مشہور شخصیات میں عیسائی فرقے کا بانی مارٹن لوتھرجس نے مروجہ مذہبی فکر سے بغاوت کی، ماہر فلکیات کوپر نیکس جسے جدید نظام شمسی کامعمارکہا جاسکتا ہے، اطالوی فلسفی نطشے، عظیم جرمن موسیقار موزارٹ ،بیتھون، عظیم مصور ونسنٹ وین گوگ،امریکی ارب پتی ہاورڈ ہیوزامریکا میں جہاز سازی کی صنعت کا امام، بدنام زمانہ لارنس آف عربیہ ، الپسینو، ٹیڈ بنڈی جرائم کی دنیا کے مشہور کردار، بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی، پاکستانی سیاست داں اور دانش ور رسول بخش پلیچو، اداکارہ سچٹرا سین، موسیقار خیام ،مشہور جاسوسی ناول نگار ایچ اقبال شامل ہیں۔
ایچ اقبال ان لوگوں میں سے ہیں جن کو پڑھ کر ہم نے لکھنا سیکھا ہے، ہم ان کا بہت احترام کرتے ہیں، چند سال قبل کراچی آرٹس کونسل میں ان کے ساتھ ایک شام منائی گئی ، ان کی فرمائش تھی کہ مقررین میں ہم بھی شامل ہوں اور ان کی شخصیت و کردار یا ان کے کام کے حوالے سے علم نجوم کی روشنی میں بات کی جائے ، چناں چہ ہم نے بھی ان کے زائچے کی روشنی میں اظہار خیال کیا جس پر انھوں نے کہا” آپ نے تو بہت مایوس کیا “
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی زائچے پر صاحب زائچہ کی موجودگی میں کھل کر گفتگو ممکن نہیں ہوتی، شخصیت، فطرت اور کردار و عمل کے مثبت و منفی پہلو کھل کر اظہار خیال کا موقع نہیں دیتے، ہم سے ایچ اقبال کی شکایت بجا تھی جو ایک نجی ملاقات میں ہم نے دور کردی تھی۔

سیاروی مقام و مراتب

زائچے کے پہلے اور چوتھے گھر کا حاکم سیارہ عطارد نہ صرف یہ کہ اپنے برج ہبوط میں ہے بلکہ غروب اور کیتو سے متاثرہ بھی ہے کیوں کہ یہ چوتھے گھر کا بھی مالک ہے لہٰذا ابتدائی تعلیم ، والدین ، جمع شدہ سرمایہ، رہائش گاہ، سواری، وغیرہ کی نشان دہی کرتا ہے، اس کی خراب اور کمزور پوزیشن کے سبب ابتدائی تعلیم میں مسائل پیدا ہوئے، والدین سے اختلافات رہے، دولت جمع کرنے کا رجحان بھی نظر نہیں آتا، رہائش میں مستقل تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں لیکن عطارد کے ساتھ نویں گھر کے حاکم زحل کا قران اور سیارہ قمر سے اس کی پانچویں گھر میں پوزیشن علمی شعور کے علاوہ ریاضی کی غیر معمولی صلاحیت کا باعث ہے۔
زائچے میں کثرت کواکب آبی بروج (Water sign) میں نظر آتی ہے،تقریباً 6 سیارے آبی بروج میں ہیں جب کہ چار زہرہ ، شمس ، عطارد اور زحل ایک ہی برج میں نہایت اہم امتزاج بنارہے ہیں، زہرہ اور مشتری زائچے کے نہایت طاقت ور سیارے ہیں، زہرہ زائچے میں ملاویا یوگ بنارہا ہے اور مشتری ، گج کیسری یوگ تشکیل دے رہا ہے، ملاویا یوگ ان پانچ اہم یوگوں میں سے ایک ہے جنھیں ” پنچم مہاپرش یوگ“ کہا جاتا ہے، گویا غیر معمولی اور مہان شخصیت کے حامل لوگوں میں ان پانچ یوگوں میں سے کوئی ایک یوگ ضروری قرار دیا گیا ہے، ملاویا یوگ کے حامل افراد بڑی پرکشش شخصیت کے حامل خصوصاً خواتین کے لیے اور زندگی میں جو کچھ وہ چاہتے ہوں، حاصل کرنے والے ہوتے ہیں، گج کیسری یوگ کے حامل لوگ اپنی زندگی میں کوئی ایسا کام ضرور کرتے ہیں جس کا تعلق انسانیت کی فلاح و بہبو د سے ہوتا ہے،مشتری فہم و فراست اور دانش سے متعلق ہے، زائچے کے نویں گھر میں بہتر پوزیشن رکھتا ہے، صاحب زائچہ کی زندگی میں اہم لوگوں سے تعلقات اور معاونت ، شریک حیات سے مدد و تعاون ، بیرون ملک ، سیرو سیاحت اور قیام کی بھی نشان دہی کرتا ہے۔
زائچے میں دوسرے گھر کے حاکم سیارہ قمر کی پوزیشن سب سے متنازع نظر آتی ہے جس کی وجہ سے ذرائع آمدن محدود، فیملی لائف میں ناخوش گواری ،یہاں تک کہ اولاد کے حوالے سے بھی مسائل ، اسی طرح سیارہ مریخ جو گیارھویں گھر کا حاکم ہے اور پیشہ ورانہ مفادات ، دوست ، احباب کا نمائندہ ہے، زائچے کے آٹھویں گھر میں مصیبت زدہ ہے، سیارہ زہرہ پانچویں اعلیٰ تعلیم ، شعور کا نمائندہ شرف یافتہ اور زائچے کا سب سے اہم سیارہ ہے لیکن کلاسیکل اصول و قواعد کے مطابق قمری لگن سے تیسرے گھر میں شرف یافتہ مریخ اور پانچویں گھر میں چار سیاروں کا اجتماع بھی ایک دلچسپ اور تخلیقی نوعیت کا یوگ ہے جو زندگی میں اعلیٰ درجے کی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کی نشان دہی کرتا ہے۔

مختلف ادوارِ زندگی

پیدائش کے وقت سیارہ عطارد کا دور اکبر (Main period) جاری تھاجو تقریباًجنوری1889 تک جاری رہا، چناں چہ ابتدا ہی سے ذہنی رجحان عطارد کی منسوبات کے مطابق علم ریاضی کی جانب رہا، بعد ازاں کیتو کا دور اکبر شروع ہوا تو ریاضی کے ساتھ طبیعات کی بھی اہمیت بڑھ گئی، کیتو ہی کے دور اکبر میں وہ جرمنی سے اٹلی پہنچ گئے اور اپنے والد سے صاف صاف کہہ دیا کہ میں ریاضی اور طبیعات کے علاوہ کچھ اور نہیں پڑھنا چاہتا، کیتو کے دور اکبر میں عطارد کا دور اصغر (Sub period) جنوری 1895 سے شروع ہوا اور جنوری 1896 تک رہا، اسی دور میں وہ جرمنی کے بجائے سوئٹزرلینڈ گئے جہاں انھیں ایسے لوگ مل گئے جو ریاضی اور طبیعات سے ان کی دلچسپی کو بڑھاوا دینے والے تھے ورنہ والد تو انھیں ایک انجینئر اور بزنس مین بنانا چاہتے تھے۔
1895 ءسے آئن انسٹائن کی زندگی میں کیتو کے دور اکبر اور عطارد کے دور اصغر میں ایک زبردست قسم کے تخلیقی دور کا آغاز ہوا، اسی عرصے میں اس نے وہ کام کیے جن کی بدولت سائنس کی دنیا میں لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے، اُس نے طبیعات اور ریاضی کو خود پر اس طرح طاری کرلیا کہ اس کے سو ا اسے کسی بات کا ہوش نہ رہا۔
1896 ءسے اس کی زندگی میں ملاویا یوگ کے حامل سیارہ زہرہ کا بیس سالہ دور اکبر شروع ہوا، جیسا کہ پہلے وضاحت کی جاچکی ہے کہ زہرہ زائچے کا سب سے زیادہ طاقت ور اور سعد اثر دینے والا سیارہ ہے، ملاویا یوگ کے علاوہ راج یوگ میں بھی شامل ہے، پانچویں گھر کا حاکم ہے، شعور اور دانش اعلیٰ تعلیم اس گھر سے متعلق ہے، زہرہ کے دور اکبر میں اور زہرہ ہی کے دور اصغر میں اس نے پی ایچ ڈی کے لیے اپنا مقالہ پیش کیا اور بالآخر کامیاب رہا۔
بے شک دور اصغر زہرہ کا جاری تھا لیکن واضح رہے کہ کسی سعد سیارے کے دور اکبرمیں جب دور اصغر کمزور سیاروں کا آتا ہے اور مزید یہ کہ ٹرانزٹ کرتے ہوئے سیارے زائچے میں ناموافق پوزیشن اختیار کرتے ہیں تو حالات میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں، اس اعتبار سے 1900 ءسے1906 ءتک راہو کا دور اصغر اس کے لیے مالی طور پر بہت پریشان کن اور تکلیف دہ رہا، اسے بحالت مجبوری ایک پیٹنٹ آفس میں جاب کرنا پڑی اور اسی جاب کے دوران ہی اپنے تخلیقی کاموں میں بھی مصروف رہا اور اس کے مشہور زمانہ ”پیپرز“اسی دوران میں سامنے آئے۔
وینس کے دور اکبر میں مشتری کا دور اصغر مارچ 1906 ءسے شروع ہوا، یہ ایک شاندار اور کامیابی لانے والا دور تھا، اس کا پی ایچ ڈی کامقالہ غیر معمولی تھا جس پر اسے ایوارڈ بھی ملا، 1908 ءمیں ایک سائنسداںکی حیثیت سے اس کی حیثیت تسلیم کرلی گئی تھی اور 1911 ءمیں وہ پراگ یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے تعینات ہوگیا تھا۔
شمس کے دور اکبر میں جنوری 1921 ءسے جب سیارہ زہرہ کا دور اصغر شروع ہوا اسی دوران میں اسے نوبل پرائز حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا جو اس نے اپنی سابقہ بیوی کو دے دیا کیوں کہ میلوا میرک سے طلاق کے کاغذات میں یہ شرط پہلے ہی رکھ دی گئی تھی،اسی سال اس نے امریکا کا دورہ بھی کیا۔
آئن انسٹائن کی زندگی میں ایک اور مشکل وقت اس وقت شروع ہوا جب جرمنی میں نازی ازم کا آغاز ہوا اور ایڈولف ہٹلر برسر اقتدار آیا، جنوری 1932 ءسے زائچے میں سیارہ مریخ کا دور اکبر اور دور اصغر شروع ہوا تو وہ جرمنی چھوڑنے پر مجبور ہوگیا اور بالآخر امریکا میں پناہ لی جہاں اسے بہت عزت و احترام کے ساتھ ہاتھو ں ہاتھ لیا گیا لیکن باقاعدہ امریکی شہریت اسے 1940 ءمیں ملی، 18 اپریل 1955 ءکو راہو کے دور اکبر اور قمر کے دور اصغر میں وہ اس جہان فانی سے کوچ کرگیا، انتقال کے بعد ایک ڈاکٹر نے اس کے سرکا آپریشن کرکے دماغ نکال کر محفوظ کرلیا۔
عزیزان من! آئن انسٹائن کے کارنامے یا زندگی کے حالات بیان کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے، پیدائشی زائچے کے ذریعے کسی بھی غیر معمولی شخصیت کی خوبیوں اور خامیوں کا سراغ لگانا ہمارے نزدیک زیادہ اہم ہے، یاد رہے کہ ایسے غیر معمولی افراد کوئی عام زندگی بسر نہیں کرتے،وہ دنیاوی یا مذہبی قوانین کو بھی زیادہ اہمیت نہیں دیتے، ممکن ہے عام لوگوں کی نظر میں انھیں ایب نارمل قرار دیا جائے مگر ان کی یہ ایب نارملٹی ہی تو ان کا جوہر ہے جو ان کوغیر معمولی کارہائے نمایاں انجام دینے پر آمادہ کرتی ہے، تاریخ کے تمام ایسے غیر معمولی افراد اپنی عام زندگی میں ایک نارمل انسان نہیں تھے۔

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے