ہمارا آج کا موضوع بھی ”خوف“ ہے، اس موضوع پر اظہار خیال کے نتیجے میں بے شمار ایسے لوگوں نے ہم سے ذاتی طور پر رابطہ کیا جو کسی نہ کسی خوف کا شکار ہیں اور اس کے نتیجے میں انہیں نت نئی پریشانیاں اور الجھنیں اور بیماریاں لاحق ہیں، ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ایک طویل عرصے سے کسی خوف کے زیر اثر آنے کے بعد مختلف طریقہ ءعلاج کو آزما چکے ہیں، ڈاکٹر، حکیم، ہومیو پیتھ، ماہرین نفسیات، عاملین و کاملین، پیر فقیر وغیرہ سے انہوں نے اپنا علاج کروانے کی کوشش کی مگر نتیجہ صفر اور بقول ایک شاعر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
ایسے مریضوں کی اکثریت کا انجام ایک ہی نظر آیا کہ ڈاکٹروں نے بالآخر انہیں زندگی بھر کے لیے مسکن، نشہ آور ادویات پر ڈال دیا جس کے بغیر ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہے، اب مخصوص دواوں کے بغیر یہ لوگ ایک دن بھی سکون سے نہیں گزار سکتے، نہ ہی کوئی کام کرسکتے ہیں لیکن اسی پر بس نہیں، صورت حال اس وقت بد سے بدتر ہوجاتی ہے کہ جب ان دواوں کا مسلسل استعمال دیگر ذہنی اور جسمانی امراض کو جنم دیتا ہے اور بالآخر وہ اسٹیج بھی آجاتا ہے جب یہ دوائیں بھی ساتھ چھوڑ دیتی ہیں، ایسے لوگوں کا علاج مزید مشکل ہوجاتا ہے کیوں کہ ان کے اصل مرض کے علاج کے ساتھ ساتھ نہ صرف وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والی دیگر جسمانی بیماریوں کی روک تھام کے لیے اقدام کرنے پڑتے ہیں بلکہ ان دواوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے بھی ایک صبر آزما اور دشوار گزار مرحلے سے مریض کو گزرنا پڑتا ہے جن کا اس کا جسم اسی طرح عادی ہوچکا ہوتا ہے جس طرح شراب، ہیروئن، افیون اور تمباکو نوشی جیسے نشوں کا ، اب یہ سارے کام مرحلہ وار یا ساتھ ساتھ خاصی محنت، ریاضت اور صبر آزما انتظار کے متقاضی ہوتے ہیں جس کے لیے اکثر مریض خود کو تیار نہیں کرپاتے، وہ ہفتہ دو ہفتہ یا مہینے دو مہینے کے اندر کسی نمایاں کامیابی کے خواہش مند ہوتے ہیں جو خاصا دشوار کام ہے۔
دشوار اس لیے کہ علاج میں تیزی پیدا نہیں کی جاسکتی بلکہ دشوار اس لیے بھی ہوتا ہے کہ مریض اپنی بہت سی مجبوریوں کے سبب کسی تیز رفتار طریقہ علاج کا متحمل نہیں ہوسکتا، ان دشواریوں میں سرفہرست معاشی مسائل، گھریلو حالات اور عزیزوں، رشتے داروں یا دوست احباب کا عدم تعاون ہوتا ہے، خراب معاشی حالات کی وجہ سے وہ ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق زندگی بسر نہیں کرسکتے اور بالکل اسی طرح اپنے گھر کے ماحول کو مرضی کے مطابق نہیں بناسکتے، عزیزوں، رشتے داروں، دوست احباب کو ان احتیاطوں کے بارے میں نہیں سمجھاسکتے جو اس کے لیے ضروری ہیں۔
بہت عرصہ پہلے ہم نے ایک لڑکی کے علاج سے صرف اس لیے ہاتھ اٹھالیا تھا کہ ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ اس لڑکی کی صحت یابی کے درمیان اس کے گھر والے اپنی جہالت کے سبب حارج تھے، ہماری کوششوں سے جب بھی اس کی طبیعت بہتر ہوتی، گھر کا کوئی فرد ایسی حرکت کرتا جس کی وجہ سے اسے دوبارہ دورے پڑنا شروع ہوجاتے۔
یہ لڑکی تقریباً ایک سال تک وقتاً فوقتاً ہمارے زیر علاج رہی، دیگر وجوہات کے علاوہ جو بنیادی سبب اس کی حالت کے بگڑنے کا ہمارے سامنے آیا وہ یہی تھا، یعنی گھر کے افراد میں سے کوئی نہ کوئی فرد خصوصاً اس کی ماں کوئی ایسی حرکت اچانک کر بیٹھتی تھی جو اس لڑکی کے کمزور اعصاب پر انتہائی ناخوشگوار اثر ڈالتی اور نتیجتاً دوبارہ اس کی حالت خراب ہوجاتی، آخر تنگ آکر ہم نے اس کے علاج سے صاف انکار کردیا تھا۔
یہ بھی ایک دلچسپ کیس ہے جسے سب سے زیادہ پیروں اور مولویوں نے اور ان کے ساتھ ایلوپیتھک ڈاکٹروں نے بگاڑ دیا ، تقریباً سولہ سترہ سال سے اس لڑکی پر ہسٹیریا کے دورے پڑتے رہے اور گھر والوں کی جہالت نے ان دوروں کو آسیب و جنات کی کارفرمائی قرار دے کر لڑکی کو جھاڑ پھونک اور نقش تعویذ کے لیے عاملوں، کاملوں اور پیروں فقیروں کے حوالے کردیا، جب معاملہ ان کے قابو میں نہ آیا تو ڈاکٹروں سے رجوع کیا، انہوں نے حسب روایت فوری طور پر آرام و سکون پہنچانے والی ادویات استعمال کروائیں اور گھر روانہ کردیا ، کسی ڈاکٹر کا زیادہ دن علاج جاری رہا تو اس نے آخر کار اپنی جان چھڑانے کے لیے کچھ مستقل نوعیت کی مسکن ادویات تجویز فرمائیں اور مزید علاج سے معذرت کرلی، نتیجتاً وہی کچھ ہوا جس کا تذکرہ ہم پہلے کرچکے ہیں۔
ہم نے جب اس کیس کی مکمل ہسٹری تیاری کی تو معلوم ہوا کہ پانچ چھ سال کی عمر میں وہ لڑکی کسی دیوار سے گرنے کے سبب سر پر گہری چوٹ کھاچکی تھی، اس وقت معمولی مرہم پٹی کے علاوہ اور کسی بات پر توجہ ہی نہیں دی گئی، عموماً ایسا ہوتا نہیں ہے کیوں کہ میڈیکل کے علم سے ناواقفیت کے سبب لوگوں کو یہ بات معلوم ہی نہیں کہ سر پر آنے والی چوٹیں اکثر دماغ کے خلیات اور ریڑھ کی ہڈی کے ستون تک اپنے اثرات منتقل کرتی ہیں اور یہ اثرات اکثر کسی بھی ٹیسٹ کی رینج سے باہر بھی ہوسکتے ہیں، بہر حال سن بلوغت کو پہنچنے کے بعد مزید خرابی یہ پیدا ہوئی کہ وہ لڑکی دیگر نسوانی بیماریوں کا شکار بھی ہوگئی جن کی طرف کبھی کوئی توجہ نہ دی گئی، نتیجتاً اس پر تشنجی نوعیت کے دورے پڑنے لگے، اس پر طرفہ تماشا یہ ہوا کہ آغاز جوانی ہی سے وہ اپنے ایک کزن کو پسند بھی کرنے لگی، یہ پسندیدگی بھی دو طرفہ تھی، وہ دونوں شادی کرنا چاہتے تھے مگر دونوں کے والدین اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے اس شادی کے خلاف تھے۔
عزیزان من! ہمارے خیال سے اس ساری صورت حال سے آپ نے بخوبی اندازہ لگالیا ہوگا کہ مریض اور اس کے امراض کی نوعیت کیا ہوسکتی ہے اور پھر ان امراض کی طوالت جو سالوں پر محیط ہے وہ کس اسٹیج تک پہنچا سکتی ہے۔
ہمارے لیے اس کیس میں سب سے پہلی دشواری تو یہ تھی کہ مریض کے والدین پوری طرح یہ یقین رکھتے تھے کہ لڑکی کسی سحر و آسیب کے زیر اثر ہے اور اس کا علاج صرف روحانی طور پر ہی ممکن ہے جو وہ کروا بھی رہے تھے ہم نے ابتدا میں کچھ دوائیں دیں تو روحانی علاج کرنے والوں نے اس پر اعتراض کیا کہ ہمارے علاج کے دوران کوئی دوا استعمال نہ کروائی جائے لہٰذا پہلی مرتبہ یہ سلسلہ کچھ عرصے کے لیے موقوف ہوگیا۔
دوسری بار یہ سلسلہ ان روحانی بزرگ کے کہنے پر شروع ہوا جو لڑکی کا روحانی علاج کر رہے تھے کیوں کہ بعد میں انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ دوائیں دینے والے ہم تھے تو انہوں نے ہم ہی سے مکمل علاج کروانے کی ہدایت دے دی۔دراصل وہ ہمارے کالموں کے حوالے سے ہم سے اچھی طرح واقف تھے، اس کے بعد تقریباً ایک سال ہم اپنی سی کوششیں کرتے رہے مگر جیسا کہ اوپر بیان کرچکے ہیں لڑکی ہنوز وہیں پر ہے جہاں اول دن تھی بلکہ اس کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہے، یہاں اگر ہم نے علاج اور اس کے دوران پیش آنے والے واقعات کی تفصیل بیان کردی تو یہ کالم کئی قسطوں پر محیط ہوجائے گا لیکن مختصراً ساری صورت حال کے جو اہم نکات ہم بیان کرچکے ہیں ، ان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ ہوگا کہ اس کیس میں ہماری ناکامی کے کیا اسباب ہوسکتے ہیں؟ آخری بات اس کیس کے حوالے سے ہم یہی کہنا چاہتے ہیں کہ اب وہ لڑکی مستقبل کے خوف کا شکار ہے اور ہر وقت اس خوف میں بھی مبتلا رہتی ہے کہ کب اس پر اچانک دورہ پڑجائے ، اس خوف کے سبب وہ اپنے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے بھی ڈرتی ہے اور کمرے میں بھی تنہا نہیں رہ سکتی۔
کب تلک چھپتا رہے گا یوں ہی اپنے آپ سے
آئینے کے رو برو آ اپنے ڈر سے بات کر
اس شعر میں شاعر نے خوف کے مریضوں کے لیے علاج تجویز کیا ہے، اگر آپ غور کریں تو حقیقت یہی ہے کہ خوف کے مریضوں کا علاج درحقیقت یہی ہے کہ وہ بے یقینی کی اس منزل سے گزر جائیں جس میں زندگی اور موت کے درمیان رسہ کشی جاری ہے، کسی خوف کو اس بات کی اجازت ہر گز نہ دیں کہ وہ آپ کو پل پل مارتا اور زندہ کرتا رہے، اس سے بہتر ہے کہ ایک ہی بار موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے ٹکرا جائیں، وہ کام ضرور کریں جس سے آپ کو ڈر لگتا ہے، یقین مانیں اگر ایک بار آپ نے ایسا کرلیا تو آپ کا خوف ختم ہوجائے گا، خوف سے ٹکرانے کے لیے یقیناً آپ کو خاصے سخت مرحلے سے گزرنا پڑے گا لیکن اگر یقین کی طاقت ساتھ ہو تو یہ ناممکن نہیں ہے، ممکن ہے کچھ حضرات یہاں پر یہ اعتراض اٹھائیں کہ جناب اگر ہم آپ کے اس مشورے پر عمل کرنے کے قابل ہوتے تو رونا ہی کس بات کا تھا، یہ صحیح ہے کہ بعض مریض اس حالت کو پہنچ چکے ہوتے ہیں کہ جہاں خود سے کوئی کوشش کرنا، ان کے بس میں ہی نہیں رہتا، ایسے مریضوں کو یقیناً دواو¿ں کی مدد اور دوسرے روحانی طریقوں سے یا نفسیاتی سجیشن سے مدد دی جاسکتی ہے مگر ایسے ہزاروں بلکہ لاکھوں مریض موجود ہیں جو ابھی آخری اسٹیج تک نہیں پہنچے ہیں لیکن لاتعداد چھوٹے بڑے خوف ان کے ذہنوں میں پل رہے ہیں، وہ اگر چاہیں تو اپنے ذہنوں میں پلنے والے خوف کے ان سانپوں کا سر کچل سکتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے اچانک کسی خاص جذبے کے تحت یا کسی خاص کیفیت کے زیر اثر انسان کبھی کبھی غیر معمولی کارنامہ انجام دے بیٹھتا ہے۔
خوف اور بے خوفی
یہ کیسے ممکن ہے کہ خوف کے موضوع پر گفتگو ہو اور ایسٹرولوجی کو نظرانداز کردیا جائے جب کہ ہم پہلے بھی شاید کبھی یہ ذکر کرچکے ہیں کہ معروف ماہر نفسیات کارل یونگ نے اعتراف کیا تھا کہ اُس نے انسانی نفسیات کی تحقیق میں علم نجوم سے مدد لی، چناں چہ مختصر طور پر یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ دائرئہ بروج کے کون سے برج زیادہ خوف زدگی کا شکار ہوتے ہیں اور کون سے برج بے خوف ہوتے ہیں یعنی نڈر۔
دائرئہ بروج کا پہلا برج حمل نہایت بے خوف اور نڈر ہے، دوسرا برج ثور مفلسی سے ڈرتا ہے،تیسرا جوزا کسی سے نہیں ڈرتا اور ہر خوف کو چٹکیوں میں اڑانے کا فن جانتا ہے۔
چوتھا برج سرطان آبی برج ہونے کی وجہ سے بے حد حساس ہے، اسے ہمیشہ مستقبل کے مختلف خوف لاحق رہتے ہیں مثلاً کم عمری میں ماں سے دوری کا خوف، جوانی میں مستقبل کے بہت سے انجانے خوف جن کی بنیاد اکثر مفروضات پر ہوتی ہے،بے گھری کا خوف، الغرض برج سرطان بہت سے خوفوں کا گڑھ ہے، یہ لوگ کسی تبدیلی سے بھی ڈرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ تبدیلی کے نتیجے میں موجودہ خراب صورت حال مزید خراب نہ ہوجائے لہٰذا جس تکلیف یا مصیبت میں ہےں وہی غنیمت ہے۔
پانچواں برج اسد بے عزتی یا عزت نفس کے مجروح ہونے سے ڈرتا ہے، اس کے علاوہ اسے کوئی خوف نہیں ہوتا جب کہ چھٹا برج سنبلہ صحت کی خرابیوں سے ڈرتا ہے،معذور ہونے سے ڈرتا ہے،اکثر سنبلہ افراد کسی اچھی جاب سے محروم ہونے کے خوف میں بھی مبتلا ہوتے ہیں لہٰذا آفس میں خواہ کیسی ہی تکلیف دہ صورت حال ہو وہ اسے برداشت کرتے رہتے ہیں،ساتواں برج میزان بڑا خوش امید ہے، یہ بھی کسی خوف کو قریب نہیں آنے دیتا،البتہ کسی معاملے میں توازن بگڑنے سے خوف زدہ رہتا ہے اور اسی وجہ سے مخالفانہ یا بولڈ رویہ نہیں اپناتا، کمپرومائز کرتا رہتا ہے اور اپنی خوش امیدی قائم رکھتا ہے کہ کبھی تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔
آٹھواں برج عقرب بھی آبی ہے،یہ نڈر اور بے باک ہے لیکن اس کے خوف نہایت خفیہ، پیچیدہ اور پراسرار ہیں، عام طور پر ان کے خوف لاشعوری ہوتے ہیں جن کا یہ کبھی اظہار نہیں کرتے،اپنے خوف کو ہی نہیں، ہر بات کو یا ہر مسئلے کو یہ کسی نامعلوم خوف کے تحت چھپاتے ہیں، اسی لیے رازداری کو بڑی اہمیت دیتے ہیں،البتہ جب کسی پر مکمل بھروسا کرلیں تو کسی حد تک اظہار پر آمادہ ہوجاتے ہیں مگر پوری طرح نہیں، مثل مشہور ہے کہ عقربی افراد کبھی پورے پتے شو نہیں کرتے،اپنے لاشعوری ڈر اور خوف پر اندر ہی اندر قابو پانے کی کوششوں میں یہ بعض نفسیاتی مسائل کا شکار بھی ہوجاتے ہیں اور ان کے سارے مسائل کی بنیادی وجہ ان کا کھل کر اظہار نہ کرنا اور بہت کچھ خفیہ رکھنا ہے۔
نواں برج قوس نڈر ، بے باک اور بے خوف ہے،یہ ایک فطری مہم جو ہے، گویا خطرات کا کھلاڑی،یہ لوگ اکثر قسمت سے ڈرتے ہیں،کسی ناکامی کی صورت میں قسمت کی خرابی کا رونا روتے نظر آئیں گے۔
دسواں برج جدی بڑا قنوطی ہے، اس کی حد سے بڑھی ہوئی احتیاط پسندی اور محتاط روی اس کے لاشعوری خوف کا سراغ دیتی ہے،یہ لوگ کبھی رسک لینے پر تیار نہیں ہوتے،ترقی کا سفر کسی بکری کی طرح ٹہلتے ہوئے طے کرتے ہیں،ان کا سب سے بڑا خوف ”ناکامی“ ہے، کسی صورت بھی ناکامی کا منہ نہیں دیکھنا چاہتے۔
گیارھواں برج دلو بھی ہوائی ہے لہٰذا یہ لوگ بھی ہر قسم کے خوف کو ہوا میں اڑا دیتے ہیں لیکن کسی بھی قسم کی پابندیوں کا خوف ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے،اس خوف سے نجات کے لیے یہ ہمیشہ راہ فرار اختیار کرتے ہیں، جیسے ہی انہیں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں پابند کیا جارہا ہے گویا ان کے ہاتھ پاوں باندھے جارہے ہیں، یہ بھاگنے کی ترکیبیں سوچنے لگیں گے۔
بارھواں برج حوت آبی ہے اور شاید سب سے زیادہ وہم و گمان کے مسائل بھی اس سے ہی وابستہ ہیں،اس کے خوف لامحدود ہوسکتے ہیں،کب اور کون سا خوف ان کے لیے پریشانی کا باعث ہوسکتا ہے،یہ قبل از وقت بتانا مشکل ہے،ماہرین نجوم کی تحقیق کے مطابق ان کے لاشعور میں پہلا پیدائشی خوف موت کا ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ ابتدائی زندگی سے ہی مرنے کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے ہیں،گویا موت کا خوف لاشعور میں ہر وقت موجود رہتا ہے، مثلاً اکثر مختصر زندگی کا احساس غالب رہتا ہے، بہر حال جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مختلف خوف روپ بدلتے رہتے ہیں۔
واضح رہے کہ صرف ہمارے شمسی برج (Sun sign) ہی ہماری شخصیت اور فطرت کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ قمری برج (moon sign) اور برتھ سائن بھی اہمیت رکھتے ہیں اور اس کی بنیاد پر اگر کوئی حمل شخصیت کسی خوف میں مبتلا ہو تو یقیناً اس کا قمری یا برتھ سائن بھی دیکھنا ضروری ہوگا۔