عمل حاضرات اور روحوں یا نادیدہ وجود سے رابطے کا شوق

حاضرات ارواح کا شوق پوری دنیا میں پایا جاتا ہے

حاضرات کے طریقے برصغیر پاک و ہند میں ہی نہیں پوری دنیا میں معروف و مقبول ہیں۔ اصطلاحی طور پر لفظ ”حاضرات“ روحوں یا دیگر نادیدہ کسی لطیف وجود کی حاضری اور موجودی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
مغرب میں میڈیم شپ کی صلاحیت رکھنے والے ایسے افراد کی کمی نہیں جو روحوں کو بلانے کا عمل کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جو اپنے بچھڑے ہوئے مردہ لوگوں کی روحوں سے ملنا اور بات چیت کرنا چاہتے ہیں، ان کے ذریعے رابطے کرتے ہیں۔ اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ ایسے سائیکک افراد جو اعلیٰ درجے کے معمول ہیں، ان کے عمل حاضرات میں کتنی حقیقت ہوتی ہے اور کتنا فراڈ ہوتا ہے۔ اس پر ان شاءاللہ آگے تفصیلی بات ہوگی لیکن ہمارے معاشرے میں جس قسم کا عمل حاضرات مروج ہے وہ بھی درحقیقت روحوں یا کسی نادیدہ وجود کی حاضری سے ہی متعلق ہے مگر ہمارے عامل یا دیگر ایسے اعمال کرنے والے اس حقیقت کا برملا اعتراف نہیں کرتے بلکہ وہ اسے کسی اور ہی رنگ میں پیش کرتے ہیں۔
ہمارے عاملین و کاملین اور ماہرین عمل حاضرات کا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عمل حاضرات کے ذریعے اپنی یا اپنے کسی خاص عمل کی روحانی قوت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حالاں کہ یہ بات قطعی غلط ہے۔ اس سارے کھیل میں مرکزی کردار تو وہ معمول یعنی (میڈیم شپ کی صلاحیت رکھنے والا ) ادا کر رہا ہوتا ہے جسے حاضرات دیکھنے کے لیے بٹھایا جاتا ہے البتہ عامل کہلانے والا مخصوص ماحول میں اپنی زبانی ترغیبات سے معمول کی میڈیم شپ کی صلاحیت کو بے دار ACTIVATE کر رہا ہوتا ہے۔ باقی اس موقع پر کچھ پڑھنے پڑھانے کا مظاہرہ چاہے وہ آیات الٰہی ہوں یا کوئی جنتر منتر تنتر، وہ بھی ایک طرح سے ”معمول“ پر مخصوص ہپناٹک اثر ڈالنے کے لیے ہوتا ہے۔
عمل حاضرات کا ایک بہت پرانا اور مشہور طریقہ ہمارے اکثر قارئین نے دیکھا اور سنا ہوگا کہ کسی نابالغ اور معصوم بچے کے انگوٹھے کے ناخن پر چمک دار سیاہ روشنائی لگادی جاتی ہے اور پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ روشنائی پر نظر جماکر اس میں دیکھو۔ مکمل خاموشی کی ہدایت کی جاتی ہے۔ بچے سے کہا جاتا ہے کہ اپنی ساری توجہ اور دھیان اس پر لگائے۔اس دوران عامل حاضرات کچھ پڑھنا شروع کرتے ہیں۔ جتنی دیر وہ پڑھتے ہیں بچے کے معصوم ذہن پر مستقل ارتکاز توجہ سے تنویمی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ گویا وہ اپنی شعوری حالت سے لاشعوری حالت میں چلا جاتا ہے۔ اسے ہم سادہ زبان میں کھلی آنکھوں سے حالت خواب میں جانا بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے بعد بچے کو ترغیب دی جاتی ہے اور جو کچھ اس حالت خواب میں دکھانا مقصود ہوتا ہے، اسے الفاظ میں بیان کردیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ اس سے پوچھا جاتا ہے کہ بتاو تمھیں کیا نظر آرہا ہے۔ بچہ اگر یہ جواب دے کہ کچھ نظر نہیں آرہا ہے تو مزید ترغیب دی جاتی ہے کہ غور سے دیکھو، تمہیں ایک میدان نظر آئے گا۔ تھوڑی دیر بعد بچہ جب کہتا ہے کہ ہاں، ایک میدان نظر آرہا ہے تو پھر بچے سے کہا جاتا ہے کہ بھنگی کو آواز دو کہ وہ آئے اور آکر صفائی کرے۔ پھر بچہ بتاتا ہے کہ بھنگی آگیا ہے اور صفائی کر رہا ہے۔ اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ سقے کو بلاو تاکہ پانی کا چھڑکاو کرے۔الغرض اس طرح سجیشنز دی جاتی ہیں جن کے نتیجے میں ”معمول“ وہی سارے مناظر بیان کرتا رہتا ہے جو اسے دیکھنے کی تلقین کی جارہی تھی۔ آخر میں کہا جاتا ہے کہ اب جنوں کے بادشاہ سے درخواست کرو کہ وہ آئے۔ چناں چہ بچہ بتاتا ہے کہ ہاں ایک تخت پر کوئی بادشاہ بیٹھا ہوا ہے اور خدّام ارد گرد با ادب کھڑے ہیں۔ پھر بچے کے ذریعے بادشاہ سے سوال و جواب کیے جاتے ہیں۔ یہ ایک بہت پرانا طریقہ ہے۔ اس میں اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچے اپنی جان چھڑانے کے لیے عامل کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں یا پھر کبھی کبھی کوئی بچہ ایسا بھی آجاتا ہے جو پیدائشی طور پر مضبوط اعصاب کا مالک اور میڈیم شپ کی صلاحیتوں سے عاری ہوتا ہے ۔ وہ صاف جواب دے دیتا ہے کہ مجھے کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ ایسی صورت میں عامل کوئی بھی بہانہ کرکے عمل حاضرات کے تماشے کو کسی اور وقت کے لیے ملتوی کردیتا ہے کیوں کہ اس بے چارے کو تو خود بھی نہیں معلوم ہوتا کہ اس کے منتخب کردہ بچے پر حاضرات نہ کھلنے کا بنیادی سبب کیا ہے۔ اس کا اپنا علم صرف حاضرات کی کتابوں میں لکھے ہوئے اعمال تک محدود ہوتا ہے یا پھر اپنے ہی جیسے کسی مرشد سے سیکھے ہوئے عمل تک محدود ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ بعض لوگ مخصوص کیمیکل یا جڑی بوٹیوں یا معدنیات وغیرہ سے کوئی ٹکیہ یا ڈبیا بنالیتے ہیں جس پر نظر جماکر مراقبہ کرنے کی ”معمول“ کو ہدایت کرتے ہیں۔ کچھ لوگ شیشے کے گلاس یا کسی پیالی کے پیندے میں مخصوص قسم کا مسالا وغیرہ بھر کے اس کی سطح کو چمک دار بناکر ”معمول“ کے سامنے رکھتے ہیں۔ مغرب میں کرسٹل بال وغیرہ کا استعمال ہوتا ہے مگر وہاں سائیکک افراد چوں کہ خود ہی ”معمول“ کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں لہٰذا وہ کرسٹل بال کی چمک دار سطح پر نظریں جماکر مراقبہ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں عمل حاضرات کے طریقوں میں ایسے نقوش و تعویذات بھی استعمال ہوتے ہیں جن کا درمیان کا خانہ خالی رکھ کر اس میں چمک دار سیاہ روشنائی لگا دی جاتی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ ایسے سیکڑوں طریقے کتابوں میں بھرے پڑے ہیں لیکن ان سب میں قدر مشترک یہ ہے کہ حاضرات کے عمل کے لیے ایک معمول کی ضرورت ہوتی ہے یعنی کوئی ایسا شخص یا بچہ جو میڈیم شپ کی صلاحیت رکھتا ہو۔ میڈیم کا مطلب ہے رابطے کا ذریعہ۔ اب اگر عمل حاضرات کرنے والا خود یہ صلاحیت رکھتا ہو تو پھر کسی دوسرے فرد کی ضرورت نہیں ہوگی۔
ہم نے اپنے بچپن میں مداریوں کے ایسے تماشے دیکھے ہیں جس میں وہ لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے مجمع میں سے کسی ایک شخص کو بلاکر ہپناٹائز کیا کرتے تھے اور بعد میں اس کے ذریعے لوگوں کے سوالوں کے جوابات دیا کرتے تھے۔ یہ سو فیصد فراڈ ہوتا تھا ، جس شخص کو وہ اپنا معمول بناتے تھے، وہ ان کا ہی تربیت یافتہ کوئی آدمی ہوتا تھا۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے پڑھنے والوں میں سے بہت سوں نے مجمع لگانے والے ایسے مداریوں کے تماشے دیکھے ہوں گے۔
حاضرات کا ایک اور عمل ہماری خواتین میں بہت مقبول ہے۔ کسی سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے یا چور کا نام معلوم کرنے کے لیے مٹی کے لوٹے کے ذریعے استخارہ یا حاضرات کی جاتی ہے۔ اس طریقے میں دو لڑکیوں کو ایک انگلی کے زور پر مٹی کا لوٹا اٹھانے کی ہدایت کی جاتی ہے اور جن لوگوں پر شبہ ہو ان کے نام پر چیوں پر لکھ دیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد سورہ یاسین پڑھی جاتی ہے اور ایک ایک پرچی لوٹے میں ڈالی جاتی ہے۔ا ب جس کے نام پر لوٹا حرکت کرے، یعنی گھومنے لگے تو وہی مجرم ٹھہرتا ہے۔ا س سارے عمل میں بھی یہ ضروری ہے کہ ان دونوں لڑکیوں میں سے کم از کم کوئی ایک اپنے اندر سائیکک پاور رکھتی ہو لہٰذا ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوٹا کسی کے نام پر بھی نہیں گھوما اور پڑھنے والیاں سورہ یاسین پڑھ پڑھ کر تھک گئیں لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میڈیم شپ کی بہترین صلاحیتیں خواتین میں زیادہ ہوتی ہیں،بہ نسبت مردوں کے ، لہٰذا مغرب میں تو اس شعبے میں خواتین ہی سب سے آگے ہیں اور اس کی بہترین مثال مشہور زمانہ پیش گو آنجہانی جین ڈکسن تھی جس نے امریکی صدر جان ایف کینڈی کے قتل کی درست ترین پیش گوئی کی تھی۔
مغرب میں عمل حاضرات اور اس کے ذریعے روحوں سے رابطہ کرنے کا شوق اور اس موضوع کے حوالے سے تحقیقات اس وقت شروع ہوئیں جب کلیسائی نظام کی گرفت معاشرے پر ڈھیلی ہوئی، ورنہ اس قسم کا شوق رکھنے والے غیر معمولی صلاحیتوں اور قوتوں کے حامل افراد راندئہ درگاہ تھے اور انہیں اپنے ایسے مافوق الفطرت مظاہروں کے نتیجے میں جادوگر قرار دے کر بھیانک سزائیں دی جاتی تھیں لیکن اٹھارہویں صدی میں ایک بار پھر پیرا سائیکولوجی سے متعلق اسرار و رموز میں لوگوں کی دلچسپی ابھرنے لگی۔ چناں چہ برسر اقتدار یا صاحب حیثیت لوگ خاموشی سے نجی طور پر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سائیکک قسم کے پیش گو افراد سے رابطہ رکھنے لگے۔ ان کی سرپرستی میں بہت سے غیب دانی کے شوقین اور مستقبل کی پیش گوئی کرنے والے نمایاں ہوئے، ورنہ اس سے پہلے انہیں چرچ کی ناراضی کا بے حد خیال رکھنا پڑتا تھا۔
عظیم پیش گو ”ناسٹرا ڈیمس“ صرف اس وجہ سے پنپ سکا کہ وہ شاہ فرانس کا چہیتا تھا لیکن پھر بھی وہ چرچ سے خوف زدہ تھا لہٰذا اس نے اپنی ساری پیش گوئیاں شاعرانہ اشاروں کنایوں میں منظوم انداز سے بیان کیں ورنہ ممکن ہے وہ کلیسا کے عتاب کا شکار ہوتا۔ بہر حال وہ ایک ایسا دور تھا جب پیرا سائیکولوجی کے حوالے سے کسی سائنسی نوعیت کی تحقیق اور اس کی اشاعت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
عظیم ماہر فلکیات گلیلیو گیلیلی جیسے شخص کو اس واضح حقیقت کے انکشاف پر پچھتانا پڑا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے کیوں کہ اس انکشاف کے نتیجے میں اسے کلیسا کے عتاب کا شکار ہونا پڑا۔ ان کے نظریات کے مطابق تو یہ بات کہہ کر گلیلیو نے کفر کا ارتکاب کیا تھا۔
لیکن اٹھارھویں صدی میں انقلاب فرانس سے پہلے آگہی کا ایک دور شروع ہوا اور لوگ پر اسرار علوم سے متعلق بھی چھان بین اور تحقیق کرنے لگے۔ چناں چہ حیرت انگیز حقائق سے روشناس ہوئے۔ا یسے لوگوں میں ایک (ایف۔ اے مسمر) نامی شخص بھی تھا جو ”حیوانی مقناطیسیت“ کے ذریعے تنویمی عمل کیا کرتا تھا۔ اسی شخص کے نام پر ”مسمریزم“ کا لفظ وجود میں آیا۔
19 ویں صدی کے وسط میں روحیت کے موضوع سے دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔ شاید آپ حیران ہوں کہ اس موضوع کے شیدائیوں میں انگریزی زبان کے مشہور شاعر اور عجیب و غریب عاشق لارڈ ہائرن اور شیلے جیسے افراد بھی شامل تھے جو روحیت کے حوالے سے تجربات کرتے تھے اور ان کا مقصد بڑے بڑے عظیم المرتبت افراد کی ارواح سے ملاقات کرنا تھا۔
1870 ءکی دہائی تک سائنٹفک برادری نے یہ فیصلہ کیا کہ ماورائیت کے حوالے سے تفتیش و تحقیق کی جائے چناں چہ برطانوی سوسائٹی برائے سائیکک ریسرچ وجود میں آئی۔ بعد ازاں بوسٹن امریکا میں اس کی ایک شاخ کھولی گئی جو آخر میں امریکن سوسائٹی برائے سائیکک ریسرچ کہلاتی ہے۔ اس وقت سوسائٹی کا مقصد پیراسائیکولوجی کے متعلق معلومات حاصل کرنا، میڈیم کو آزمانا اور انھیں اپنے آپ کو تربیت دینے اور سیکھنے میں مدد دینا تھا۔ نتیجتاً پیراسائیکولوجی کے نت نئے پہلو سامنے آئے۔ اس زمانے کے محققین اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ آدمی جسمانی موت سے بچ سکتا ہے۔ یہ سوسائٹیز آج بھی فعال ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اب ان کی تحقیق کا رخ تبدیل ہوگیا ہے۔ اب جدید سائنس کی روشنی میں پیراسائیکولوجیکل مظاہر کو دیکھا، جانچا اور پرکھا جارہا ہے۔ اس تحقیقی عمل میں اب ایسے سائنس داں بھی شامل ہوچکے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح روحیت کے تصور کو غلط ثابت کردیں گے۔ ایسے لوگ چوں کہ بنیادی طور پر مادہ پرست ہیں لہٰذا روح، مذہب یا خدا کے حوالے سے کچھ شک و شبے میں مبتلا ہیں۔
امریکا اور برطانیہ میں موجود سوسائٹیوں کے بلیٹن، اعداد و شمار، کیمیکل ٹیسٹ، لیبارٹری کے تجربات، تھیوری کی بنیاد پر بحث و مباحثے سے بھرے ہوتے ہیں جو کوئی نئی تحقیق روحیت کے حوالے سے پیش کرنے کے بجائے توجیہہ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عزیزان من! ایک طرف یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف ہمارا یہ حال ہے کہ ہم ابھی تک انسانی نفسیات کو ہی نہیں سمجھ سکے، مابعد النفسیات کا تو ذکر ہی کیا، لہٰذا ہمارے معاشرے میں جہاں بھی پیرا نارمل مظاہر نظر آتے ہیں کسی جن بھوت، دیو، پری، چڑیل، پچھل پیری یا سحرو جادو کی کہانیاں پروان چڑھنے لگتی ہیں اور ہمارے ان شعبوں سے تعلق رکھنے والے حضرات آنکھیں بند کرکے ان پر یقین بھی کرلیتے ہیں اور مکھی پر مکھی مارنے بیٹھ جاتے ہیں یعنی ایسے اعمال و وظائف اور نقوش کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو جن بھوت اتارنے یا سحرو جادو کا توڑ کرنے کے لیے پرانے بزرگوں نے کتابوں میں لکھ دیے ہیں۔ بہت سے مریض ان طریقوں سے ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں تحقیق و تفتیش کی زحمت کوئی نہیں کرتا۔ا گر ایسا کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ درحقیقت ان طریقوں سے کبھی کوئی مریض اچھا نہیں ہوا بلکہ اس کے صحت یاب ہونے کی وجہ کچھ اور ہی تھی جو نہ کبھی مریض کو معلوم ہوسکی اور نہ معالج کو ۔ الا ماشاءاللہ۔

روحیات اور علم نجوم

جیسا کہ پہلے نشان دہی کی گئی ہے کہ روحیات یا حاضرات اور نادیدہ کسی وجود سے رابطے کے عمل میں میڈیم شپ کی صلاحیت ضروری ہے، اس حوالے سے کم عمر بچوں یا خواتین کو استعمال کیا جاتا ہے یا بعض خواتین خود بھی سائیکک ہوتی ہیں۔ آئیے اس مسئلے کو علم نجوم کی روشنی میں بھی دیکھا جائے ۔
ہماری تحقیق اور مشاہدے کے مطابق میڈیم شپ کی صلاحیت ہر انسان میں نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے مخصوص بروج اہم کردار ادا کرتے ہیں جن میں سرفہرست برج حوت ہے جو دائرئہ بروج کا آخری برج ہے اور آبی ہے، ذوجسدین ہے ، دوسرے نمبر پر آبی برج عقرب اور تیسرے نمبر پر آبی برج سرطان ہے، گویا میڈیم شپ کی عمدہ صلاحیت حوت ، عقرب اور سرطان میں پائی جاتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کوئی ایک برج ہماری شخصیت ، کردار اور فطرت کی تشکیل میں کلّی کردار ادا نہیں کرتا بلکہ کم از کم 3 برج اس حوالے سے کردار ادا کرتے ہیں۔ اول شمسی برج یعنی پیدائش کے وقت سیارہ شمس جس برج میں ہو ، دوم پیدائشی برج یعنی پیدائش کے وقت کے مطابق جو برج برآمد ہو اور تیسرے نمبر پر قمری برج یعنی سیارہ قمر پیدائش کے وقت کس برج میں حرکت کر رہا تھا ۔
پیدائشی طور پر ایک یا ایک سے زیادہ بروج اگر آبی (water sign) ہوں تو ایسے مرد یا عورت نہایت اعلیٰ درجے کی میڈیم شپ کی صلاحیت کے حامل یا دوسرے معنوں میں یوں کہیں کہ روحانی صلاحیت (Spritual power) کے حامل ہوسکتے ہیں جب کہ اس کے برعکس اگر پیدائشی طور پر کوئی مرد یا عورت خاکی بروج (Earth sign) رکھتا ہو تو وہ کبھی بھی اعلیٰ درجے کی میڈیم شپ کا حامل نہیں ہوسکتا یا روحانی صلاحیت کا حامل نہیں ہوسکتا۔
اس کے علاوہ بھی بہت سے عوامل کسی عورت یا مرد کے زائچے میں روحانی اور وجدانی صلاحیتوں کی نشان دہی کرتے ہیں خصوصاً چاند کی منزلیں بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کرتی ہیں اور کسی کے انفرادی زائچے کی ساخت سے بھی اس کی میڈیم شپ کی صلاحیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جیسا کہ ہم نے مشہور پیش گو ناسٹراڈیمس کے زائچے کی تشریح میں اس کی اعلیٰ درجے کی میڈیم شپ پر روشنی ڈالی ہے۔ درحقیقت یہ ایک الگ ہی موضوع ہے جس پر زیادہ تفصیل کے ساتھ پھر کسی وقت بات کی جاسکتی ہے۔