اکتوبر سے ایک نئے طاقت ور دور کا آغاز
اکثر لوگ شکایت کرتے ہیں کہ آپ ہر مہینے پاکستان کے حوالے سے تو لکھتے ہیں لیکن ہمارے سیاسی رہنماو¿ں کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرتے جب کہ پہلے ایسا نہیں تھا، خاص طور پر لوگوں کی فرمائش تحریک انصاف کے چیئرمین کے بارے میں اور ان کے مستقبل کے حوالے سے ہوتی ہے۔
عزیزان من! پاکستان کے سیاست دانوں نے ہمیں بڑا مایوس کیا ہے، آج اگر پاکستان تاریخ کے بدترین موڑ پر کھڑا ہے تو اس میں ہمارے سیاست داں بھی قصور وار ہیں ، وہ عمران خان ہوں ، آصف علی زرداری ہوں ، نوازشریف ہوں یا شہباز شریف ، اپنے اپنے دور اقتدار میں ان لوگوں نے وہ کردار ادا نہیں کیاجو انھیں ادا کرنا چاہیے تھا۔ان کے چاہنے والے کہتے ہیں کہ مقتدر حلقوں نے انھیں اپنا حقیقی کردار ادا کرنے نہیں دیا۔نواز شریف تین بار وزیراعظم رہے اور آج بھی مسلم لیگ ن اقتدار میں ہے ۔ شہباز شریف صاحب اپریل 2022 سے وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہیں ۔90ءکی دہائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف صاحب باری باری وزیراعظم رہے اور 2008 سے پیپلز پارٹی اور ن لیگ برسر اقتدار رہی جب کہ 2018 سے عمران خان کو پہلی مرتبہ وزیراعظم بننے کا موقع ملا۔ یہ تمام ادوار ہمارے ملک میں جمہوری دور کہلاتے ہیں لیکن اس تمام عرصے میں ملک ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن نہ ہوسکابلکہ رفتہ رفتہ تنزل اور بدحالی بڑھتی چلی گئی ، اس کے برعکس جنرل مشرف یا جنرل ضیاءالحق یا اس سے پہلے جنرل ایوب خان کے آمرانہ دور عوام کے لیے زیادہ بہتر نظر آتے ہیں۔ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ اس کی وجوہات کیا تھیں ، اس موضوع پر اخبارات و رسائل اور الیکٹرونک میڈیا پر مستقل سیاسی تجزیہ کار تجزیے کرتے نظر آتے ہیں۔ بہر حال اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ سیاست دانوں کے ساتھ ہمارے مقتدر حلقے بھی قصور وار ہیں۔
جہاں تک سیاست دانوں کے کردار و عمل کا معاملہ ہے تو بے شک سب ہی اپنی جداگانہ خوبیوں اور خامیوں کے مالک ہیں لیکن افسوس کہ اس حوالے سے کھل کر کسی سیاست داں یا جنرل کے زائچے پر گفتگو کرنا ممکن نہیں ہے۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں جنھیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔بہر حال آج کی نشست میں چیئرمین تحریک انصاف کے زائچے پر کچھ اظہار خیال اپنے قارئین کی فرمائش پر ضرور کریں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عمران خان کا زائچہ ایک نہایت طاقت ور اور مضبوط زائچہ ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے ایک شاندار زندگی گزاری ہے۔ وہ کرکٹ کے میدان ہوں یا سیاست کے ، انھوں نے ہر جگہ کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں لیکن ہر انسان کی زندگی میں اچھے اور برے دن آتے جاتے رہتے ہیں۔اگر زائچہ مضبوط ہو تو برے دن گزارنا زیادہ مشکل ثابت نہیں ہوتا۔
جنوری 2022سے ان کی زندگی میں ایک خراب دور کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں وہ اقتدار سے محروم ہوئے اور تاحال مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہیں ۔ یہ دور اس سال ستمبر کے آخر میں ختم ہوگا اور اس کے بعد اچھا دور شروع ہوگا۔جس کے نتیجے میں انھیں جیل سے باہر آنے کا موقع بھی ملے گا لیکن اس سال مئی سے آئندہ سال مئی تک سیارہ مشتری کی پوزیشن ان کے زائچے میں موافق و مددگار نہیں ہے جس کے نتیجے میں ان کی محاذ آرائیاں جاری رہیں گی۔مقدمات سے جان نہیں چھوٹے گی۔البتہ جون 2025 سے سیارہ مشتری زائچے میں موافق و مددگار پوزیشن میں ہوگا جس کے نتیجے میں انھیں اپنی پوزیشن کو مزید بہتر بنانے کا موقع ملے گا۔خاص طور پر بیرون ملک قوتوں سے اضافی موافقت اور امداد حاصل ہوسکے گی اور دوبارہ اقتدار میں آنے کا موقع بھی مل سکتا ہے۔
ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ جب انسان کے زائچے میں برے وقت کا آغاز ہوتا ہے یا سیاروی گردش مخالف ہوتی ہے تو بڑے بڑے دانش وروں کی بھی عقل خبط ہوجاتی ہے، وہ ایسی غلطیاں کرتے ہیںجو انھیں نہیں کرنی چاہیے تھی۔یہ غلطیاں بعد میں پچھتاوے کا باعث بنتی ہیں۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ گزشتہ سال 2023میں عمران خان بھی ایسی ہی غلطیوں کا شکار ہوئے اور آئندہ بھی اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ وہ مزید غلطیاں کریں اور نقصان اٹھائیں۔ اس سال اکتوبرسے 22 جنوری 2025تک اور پھر اپریل 2025 سے 7 جون تک ایسا ناموافق وقت ہوگا جس میں بڑی غلطیاں ہوسکتی ہیں ، ایسے موقعوں پر اگر قابل بھروسا اور مخلص ساتھی درست مشورے دیں اور انسان ان پر عمل بھی کرے تو غلطیوں سے بچا جاسکتا ہے۔یہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر انسان اپنے زائچے کی بنیادی خصوصیات کے زیر اثر ہی اپنا کردار ادا کرتا ہے اور خان صاحب اس معاملے میں خاصے مختلف انسان ہیں جو کسی کے مشورے پر آسانی سے کان نہیں دھرتے۔ ان کے ذہن میں جو بات سما جائے وہ اسی پر عمل کرتے ہیں۔تمام سیاسی تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ انھیں تحریک عدم اعتماد کے بعد قومی اسمبلی کو نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ اسی طرح 2023 میں پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیوں کو نہیں توڑنا چاہیے تھا، ان کے قریبی رفقا ءانھیں ایسے اقدام سے روکتے بھی رہے لیکن انھوں نے کسی کی نہ سنی اور بعد میں اس کے سنگین نتائج انھیں بھگتنا پڑے۔
عمران خان اپنے مزاج اور فطرت میں نڈر اور فائٹر ہیں۔ زندگی گزارنے کا اپنا مخصوص فلسفہ ءحیات رکھتے ہیں اور اس پر کوئی سمجھوتا آسانی سے نہیں کرتے۔کسی بھی چیلنج کو قبول کرنا انھیں پسند ہے۔خواہ اس کانتیجہ بعد میں کچھ بھی ہو۔ان کا پیدائشی قمر برج حمل میں ہے جس کی وجہ سے ان کا نعرہ “آئی ایم” ہے ۔ایسے لوگ ہمیشہ اپنی ذات کو سب سے آگے رکھتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اپنی تمام دیگر خوبیوں کے باوجود ایک بہت اچھے سیاست داںنہیں ہیں تو یہ غلط نہیں ہوگا۔سیاست دنیا بھر میں ایک الگ ہی فن ہے لیکن وہ ایک اچھے اور مقبول ترین لیڈر ضرور ہیں اور گزشتہ دو سالوں نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ ان کی مقبولیت کا گراف روز بہ روز بڑھتا ہی جارہا ہے اور وہ تمام سیاست دانوں اور مقتدر حلقوں کے لیے ایک مستقل مسئلہ بن چکے ہیں جس سے نجات کی جو کوششیں بھی ہورہی ہیں وہ تاحال ناکامی کا شکار ہیں۔
ان کے زائچے میں ایسے نادر اور شاندار یوگ موجود ہیں جو ان کی غلطیوں کے باوجود ان کے سپورٹر ہیں۔راج یوگ ، پری ورتن یوگ، مہا راج یوگ، گج کیسری یوگ وغیرہ لیکن ایک خراب اور نقصان پہنچانے والا دور جاری ہے جس کی وجہ سے وہ مسلسل نت نئے مسائل اور خطرات سے دوچار ہورہے ہیں۔جولائی اگست 2024 کے مہینے بھی ان کے لیے بہتر نہیں ہیں۔البتہ 15 جولائی سے 15اگست کا عرصہ کچھ زیادہ ہی سخت ثابت ہوگا جس میں ان کی صحت کے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں اور ممکن ہے اس دوران میں مزید مقدمات کا سامنا کرنا پڑے اور پھر کسی نئے مقدمے میں کوئی نئی سزا بھی سنا دی جائے۔اگست کے دوسرے ہاف سے ان کے زائچے میں سیاروی گردش ان کی موافقت میں ہوگی اور اس بات کا امکان بھی ہے کہ ان کے جیل سے باہر آنے کے راستے ہموار ہونے لگیں۔
عزیزان من! جیسا کہ ابتدا میں نشان دہی کی تھی کہ ستمبر کے آخر سے زائچے میں جاری خراب دور ختم ہوگا اور ایک نیا دور شروع ہوگا جو عمران خان کی عزت و وقار اور دیگر معاملات میں نہایت سپورٹنگ ثابت ہوگا۔یہ دور آئندہ سال جولائی تک جاری رہے گا، زندگی اور موت تو اللہ کے اختیار میں ہے لیکن اس دور میں ہمارے مقتدر حلقوں کے لیے عمران خان ایک ایسا چیلنج ضرور بن جائیں گے جس سے نمٹنے کے لیے انھیں بہت زیادہ سنجیدگی اختیار کرنا پڑے گی اور ممکن ہے اپنی جاری پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت بھی پیش آجائے ( واللہ اعلم بالصواب)
سوالات و جوابات
ایم ڈبلیو ایس لکھتی ہیں” جب میرا بیٹا ماں کے پیٹ میں تھا تو چاند گہن لگا تھا، کافی احتیاط کی ، سیدھی لیٹی رہی ،درود شریف کا ورد کیا لیکن مجھے لگتا ہے وہ گہن کے اثرات میں ہے کیوں کہ وہ تین ماہ کے تھے تو صحت میں اچھے تھے لیکن اس کے بعد بہت بیمار رہنے لگے ، ڈاکٹری علاج اور روحانی علاج سے صحیح تو ہوجاتے ہیں لیکن پھر صحت گر جاتی ہے۔اب یہ حال ہے کہ تین سال کے ہیں لیکن نشو و نما رکی ہوئی ہے ۔ تین سال کے نہیں لگتے ، ایک سال کے لگتے ہیں ، چلنا بھی بہت دیر سے شروع کیا ، تین مہینے پہلے چلتا کم ہے ، گرتا زیادہ ہے ۔ روحانی علاج والے کہتے ہیں کہ دماغ چھوٹا ہے جس کی وجہ سے بات بھی نہیں کرتا ، ایک دو لفظ ادا کرتا ہے ۔ مجھے بہت دکھ ہوتا ہے کہ میرا بچہ اور بچوں کی طرح نہیں ہے، صحت اچھی ہوتی ہے تو رشتے داروں کی ٹوک سے بیمار پڑ جاتا ہے۔میں چاہتی ہوں میرے بچے کی صحت بنی رہی ، ہمیشہ
جواب: عزیز بہن ! یہ گہن کے اثرات نہیں ہیں ۔ گہن کے اثرات پیدائش کے فوری بعد سامنے آجاتے ہیں لیکن آپ کے بقول پیدائش کے بعد تین مہینے تک بچہ صحت مند رہا۔ یقینا بعد میں کسی بھی چھوٹی موٹی بیماری میں کسی ڈاکٹر نے کوئی غلط دوا استعمال کرادی ہوگی، بہت چھوٹے بچوں کو ہیوی اینٹی بائیوٹک سے شدید نقصان پہنچ جاتا ہے، ان کی گروتھ رک جاتی ہے۔شاید آپ کے بچے کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہوگا، دماغ چھوٹا ہونے کے بعد بھی سمجھ میں نہیں آتی ، اس کے لیے باقاعدہ ٹیسٹ ہونا چاہیے لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ اس کا علاج صرف ہومیو پیتھک طریق علاج سے ممکن ہے لیکن پہلے بچے کے تمام ضروری ٹیسٹ کرائے جائیں اور روحانی علاج سے تو بالکل دور رہا جائے۔ہمارے روحانی بابا لوگ میڈیکل کا کتنا علم رکھتے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، آپ نے اب تک یہی غلطیاں کی ہیں کہ عام سے ایلو پیتھک ڈاکٹروں سے علاج کرایا ہے یا پھر روحانیت کے نام پر دھوکا کھایا ہے ۔ بہر حال ابھی کچھ نہیں بگڑا ، فوراً کسی اچھے اسپتال سے اس کے تمام ضروری ٹیسٹ کرائیں اور پھر کسی قابل اور تجربے کار ہومیوپیتھک ڈاکٹر سے رجوع کریں۔