دیکھو مجھے جو دیدئہ عبرت نگاہ ہو

ہمارے ‘آپ کے ارد گرد ہونے والے تماشائے عبرت اثر پر ایک نظر

بعض خطوط یا ای میلز سے اندازہ ہوتا ہے کہ علم نجوم کے بارے میں ہمارے ملک کی اکثریت بہت سی غلط فہمیوں اور کم علمی کا شکار ہے اور ہونا بھی چاہیے کیوں کہ اس حوالے سے معقول حد تک رہنمائی اور علمی مواد میسر نہیں ہے‘ ملک سے شائع ہونے والے اکثر رسائل اور جنتریاں اپنے قارئین کی درست اور معقول رہنمائی نہیںکرتیں‘ نتیجتاً شوقین حضرات وخواتین مستقل کسی نہ کسی کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں اور ہم سے عجیب عجیب سوال کرتے ہیں‘ ہم اکثر و بیشتر اپنے مضامین کے ذریعے مروِّجہ علم نجوم سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں یا گمراہیوں کی وضاحت کرتے رہتے ہیں‘ اس بار ایک ایسی ہی طویل ای میل موصول ہوئی ہے ہم اسے اس لیے شائع کر رہے ہیں کہ دیگر قارئین بھی ایسی کسی الجھن میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
ایم .ایچ نواز لکھتے ہیں”سلام کے بعد میںآپ کی خدمت میں عرض کردوں کہ میں ایک دکھ درد کا مارا ہوا انسان ہوں یا آپ یوں کہہ لے لیں کہ زمانے بھر کی تکالیف میرے ہی حصے میں آئی ہےں‘ ان کے حل کی تلاش میں آپ کو لکھ رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ان کا حل آپ کے پاس ضرور ہوگا‘ میں پابندی سے جنتریاں اور روحانی رسائل پڑھتا ہوں اور یہ شوق مجھے کئی سال سے ہے‘ آپ سے واقفیت2010ءمیں ہوئی‘ آپ کے مضامین بھی میرے مطالعے میں رہتے ہیں‘ سب سے پہلے میں اس بات کا ذکر کروں گا جو میرے تجربے میں آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ سالانہ جنتریوں میں جس طرح لکھا ہوتا ہے‘میرے ساتھ اس کا بالکل اُلٹ ہوتا ہے مثلاً جب سیارہ زحل اپنے شرف کے برج سے گزر رہا تھا تو برج جدی والوں کے لیے لکھا گیا تھا کہ ان کی قسمت کو سنوار دے گا‘ یہ سال ان کی زندگی کے اہم سال ہوں گے‘ میری تاریخ پیدائش 17جنوری ہے‘ اس طرح میرا سن سائن جدی(CAPRICORN) ہے لیکن آپ یقین کریں کہ جتنی تکلیف مجھے ان دو سالوں میں ملی تھی، اتنی تکلیف زندگی میں کبھی نہیں ملی مثلا ان دو سالوں میں مجھ پرکئی لاکھ کا قرض چڑھ گیا‘ میں ہر بندے کے سامنے ذلیل ہوا بلکہ ذلیل و خوار ہوا اور ان سالوں کا اثر آج بھی محسوس کرتا ہوں‘ ان سالوں میں میرا رزق مکمل طور پر بند ہوگیا تھا بلکہ ایک وقت تو ایسا آیا تھا کہ میں نے دس روپے کی شکل بھی کئی دن بعد دیکھی تھی اور یہ سلسلہ کئی ماہ تک چلتا رہا تھا پھر عید پر میری والدہ نے مجھے500روپے کا نوٹ دیا تو میری آنکھ سے بے اختیار آنسو نکل آئے پھر میںاپنے رب کے حضور سجدے میں گِر گیا کہ یا اللہ تیرا شکر ہے تو نے مجھے بھی 500 کا نوٹ دکھایا، الغرض اسی طرح کی مزید اور بہت ساری پریشانیوں اور دکھ تکلیف سے گزرا ‘ وہ زحل کے شرف کا دور تھا جو برج جدی کے مطابق میرا حاکم ستارہ بھی ہے‘ بہرحال اب اللہ کا شکر ہے اب وہ حالات تو نہیں لیکن قرض ہے اور رزق کی کمی ہے‘ اس دوران میں پابندی سے ردِ نحوست سیارگان والی دعا پڑھتا رہا ہوں اور صدقات بھی دیتا رہا ہوں‘ میرا اعتراض یہ نہیں ہے کہ جنتریوں میں یہ لکھا تھا ”جدی والوں کی قسمت سنور جائے گی“ تو میرے ساتھ معاملہ مختلف کیوں ہوا‘ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہر انسان کے ستاروںکی کہانی الگ ہوتی ہے‘ میں تو صرف یہ بتاتا چاہتا ہوں کہ جب میرا ستارہ زحل اچھی پوزیشن میں تھا تو مجھے نقصان ہوا اور جب وہ برج عقرب میں آیا جہاں اس کی پوزیشن خراب ہوتی ہے تو مجھے فائدہ ہوا‘ اب تک میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے‘ بہر حال میں نے آپ سے اپنی پریشانی کا ذکر کردیا ہے اب آپ ضرور میری رہنمائی کریں اور مجھے بتائیں کہ میںکیا کروں؟حقیقت یہ ہے کہ میری آمدن سے زیادہ میرے اخراجات ہیں‘ رزق میںبرکت نہیں ہے‘ ایک اور بڑی پریشانی یہ بھی ہے کہ اس سال کے بعد میری ” ساڑھ ستی“ بھی شروع ہو رہی ہے‘ اس خیال سے بھی ذہن بہت پریشان ہے ‘ جواب کا انتظار کروں گا‘ آپ کے لیے دعا گو“
جواب : عزیزم !آپ نے لکھا ہے کہ آپ 2010ءسے ہمارے مضامین کا مطالعہ کر رہے ہیں تو یقیناً آپ کی نظر سے ہمارا وہ مضمون بھی گزرا ہوگا جو ہم نے ”سن سائن ایسٹرولوجی“ کے حوالے سے لکھا تھا اور عرض کیا تھا کہ ایسٹرولوجی کا یہ طریق کار زیادہ مستند اور کارآمد نہیں ہے، یہ تو اخبارات و رسائل نے اپنی ضرورت اور قارئین کو متوجہ کرنے کے لیے شروع کیا تھا جو برسوں سے جاری ہے‘ ایسٹرولوجی کے ذریعے معقول رہنمائی اپنے انفرادی زائچے (BIRTH CHART) کی روشنی میں ہی حاصل ہو سکتی ہے مگر شاید آپ نے ہمارے اس مضمون پر توجہ نہیں دی۔
پاکستان ہی کیا ‘ دنیا بھر میں ہر سال سیکڑوں جنتریاں اور سن سائن ایسٹرولوجی کی کتابیں شائع ہوتی ہیں جن میں ہر شخص کے شمسی برج کے مطابق سیارگان کی سالانہ گردش کے مطابق اسے گائیڈ کیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ طریق کار مستند نہیں ہے جیسا آپ کو تجربہ ہو چکا ہے‘ ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جو کسی ایک سیارے کی طاقت ور پوزیشن یا کمزوری کو مدّنظر رکھتے ہوئے لوگوں کو گائیڈ بلکہ ”مس گائیڈ“ کرتے ہیں مثلاً گزشتہ سال سے سیارہ مشتری اپنے شرف کے برج میں ہے اور یہ برج قوس کا حاکم سیارہ ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ برج قوس والوں کے دن پھر جائیںگے اور وہ سب کے سب دولت میںکھیلنے لگےں گے ۔
ساڑھ ستی کے حوالے سے بھی ہم کئی بار لکھ چکے ہیں کہ ہمارے ملک میںبطور خاص اس مخصوص اصطلاح کا مسلسل غلط استعمال ہو رہا ہے‘ پاکستان میں عام طور پر یونانی علم نجوم پر زور دیا جاتا ہے‘ اکثر جنتریاں اوررسالے یونانی سسٹم کے تحت شائع ہوتے ہیں جبکہ یونانی سسٹم میں ساڑھ ستی نام کی کوئی شے پانی ہی نہیں جاتی۔
آئیے اپنے درست زائچے کی طرف مگر اس کا انحصار بھی آپ کی درست تاریخ پیدائش اور وقت پیدائش پر ہے جو آپ نے لکھا ہے‘ اگر اس میں کوئی غلطی ہوگی تو زائچہ بھی غلط ہوجائے گا‘ وقت پیدائش کے مطابق آپ کا پیدائشی برج سرطان ہے جس کا حاکم سیارہ قمر ہے جو زائچے کے چھٹے گھر میں بقول آپ کے ذلیل و خوار ہے‘ یہی آپ کا صحیح برج اور ستارہ ہے جو ہر مہینے شرف میں بھی آتا ہے اور ہبوط میں بھی ، اس کے مقابلے میں برج جدی یا زحل کی کوئی اہمیت نہیں۔
آپ کا مون سائن یعنی قمری برج قوس ہے اورآپ گزشتہ سالوں میں جب سیارہ زحل برج عقرب ،قوس اور جدی سے گزرا تو زحل کی ساڑھ ستی کا فارمولا آپ پر لاگو ہوا،اس سال 17 جنوری کے بعد یہ ساڑھ ستی ختم ہوگئی ہے۔
آپ کو سجھ لینا چاہیے کہ زحل اور مشتری آپ کے زائچے کے منحوس اثر دینے والے سیارے ہیں جب بھی یہ کسی خراب یا مخالف پوزیشن میں ہوں گے ، نقصان پہنچائیں گے۔
آپ نے اپنے جن خراب سالوں کا ذکر کیا ہے اس وقت یقیناً یہ دونوں نقصان دہ پوزیشن پرتھے اور اس سے بھی بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ 8
آپ نے اپنی مصیبتوںکا جو نقشہ پیش کیا ہے وہ کافی مایوس کن ہے‘ دراصل برج سرطان والے تھوڑی سی مصیبت کو بھی بہت زیادہ سمجھتے ہیں اور اکثر کسی نہ کسی خوف کا شکار رہتے ہیں، بہرحال ایک شادی شدہ بندے کے لیے بے رو گاری سے بڑا عذاب کوئی نہیں ہے لیکن سرطان والوں کی ایک خرابی یہ ہے کہ کسی تبدیلی کوآسانی سے قبول نہیں کرتے ‘ ترقی کے راستوں پرکوئی قدم بڑھاتے ہوئے کسی نہ کسی خوف میں مبتلا رہتے ہیں اورکوئی رسک لینا پسند نہیں کرتے‘ آپ کو چاہیے کہ اپنی ترقی کے امکانات پر غور کریں اور مناسب راستے اختیار کریں‘لکیر کے فقیر نہ بنیں‘ اپنی صلاحیتوں میںاضافہ کے لیے کوشش کریں‘ یاد رکھیں چپراسی بھرتی ہوکر پچپن سال بعد چپراسی ہی کے طور پر ریٹائر ہونا کسی شخص کی ذاتی نالائقی اور نااہلی تصور کیا جائے گا‘ ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے؟ 26 سال اور اس قدر مایوسی کی باتیں!
آپ کو سرخ یاقوت یا سرخ گومیدک کانگینہ کسی ایسے وقت پر پہننا چاہیے جس شمس با قوت ہو‘ اتوار کے روز گُڑ اور چنے بھنے ہوئے چیونٹیوں کو ڈالا کریں‘ دعائے رد نحوست سیار گان کا ورد جاری رکھیں‘ اگر لوح شمس پاس رکھیں تو بہت خوب ہوگا‘ مالی خوشحالی میںمعاون ہوگی‘ شمس آپ کے زائچے میں نحس اثرات کا شکار ہے‘ اور آپ کے خانہ مال کا حاکم ہے‘ امید ہے کہ اس قدر تفصیلی وضاحت اورمشورہ کافی ہوگا۔

کیسے کیسے لوگ ؟

جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا ہے کہ بعض خطوط اور ای میلز ایسی ہوتی ہیں جنہیں ہم اپنے قارئین سے شیئر کرنا ضروری سمجھتے ہیں‘ یہ بھی ایک ایسی ہی ای میل ہے‘ اسے پڑھیے اورغورکیجئے کہ ہمارے معاشرے میں کیسے کیسے کردار موجود ہیں جو معاشرے کو جہنم بنانے میںمصروف ہیں۔
ڈی‘ کے لکھتی ہیں ”بہت امیدوں سے آپ کو میل کر رہی ہوں‘ مہربانی کر کے جواب ضرور دیجئے‘میرا نکاح دسمبر 2013ءکومیرے کزن سے ہوا‘ فون پر پرپوزل بھیجا گیا تھا جسے میرے والدین نے قبول کرلیا کیوں کہ والد نے کہا کہ میں اپنی مرحوم بہن کے بیٹے کو منع نہیں کر سکتا ‘ شادی کے فوراً بعد ہی جیٹھانی نے تنگ کرنا شروع کردیا‘ وہ کچن‘ فریج پر تالا لگا کر چلی جایا کرتی تھیں پھر سسر نے ڈانٹنا شروع کردیا‘ گھنٹہ گھنٹہ بھر وہ لیکچر دیتے‘ مہمانوں کا بھی لحاظ نہیں کرتے‘ ان کے گھر کا نظام ہی یہ ہے کہ سسر کہیں دن تو آپ بھی دن کہیں‘ ان کے آگے کوئی کچھ نہیں بول سکتا‘ میرے شوہر چپ چاپ سنتے رہتے ہیں اور مجھے بھی کہتے ہیں کہ میںکچھ نہیں بولوںگا‘ تم بھی خاموشی سے سنا کرو‘ میں جس گھر میں رہتی ہوں ‘ اس کے کچن پر جیٹھانی کا قبضہ ہے‘ وہ کہتی ہیں کہ برابر میں سسر کے گھر جا کے کھاناپکایا کرو‘جب برداشت ختم ہوگئی تو شادی کے بیس دن بعد امی ابو کچھ دن اپنے ساتھ رکھنے کے لیے مجھے لینے آگئے تو سسر نے اس پر بھی ہنگامہ کیا کہ کس سے پوچھ کر آئے ہیں وہ؟ مجھ سے پندرہ دن پہلے اجازت لیتے پھر میں سوچتا‘ پھر تم شوہر سے اجازت مانگتیں پھر وہ اجازت دیتا تو تم جاتیں‘ میں دروازے سے بھی واپس کر سکتا ہوں انہیں‘ تمہارا موبائل توڑ دوں گا کیوں کہ تم نے اپنے گھر والوںکو بتایا کہ تمہارے ساتھ یہاں کچھ برا ہوا ہے‘ تم ان کے ساتھ گئیں تو اچھا نہیں ہوگا‘ بہت ڈانٹا مجھے‘ سب کے سامنے اور بہت ذلیل کیا‘ مگرشوہر خاموشی سے سب سنتے رہے‘ بہر حال والدین مجھے واپس لے آئے‘ صرف پندرہ دن کے لیے مگر اس کے بعد شوہر نے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں رکھا ‘ 25دن بعد فون کر کے پوچھا کہ کب واپس آﺅ گی؟ میں نے پوچھا”آپ نے کچن کا مسئلہ حل کرلیا؟“ تو کہنے لگے ”تم آﺅ گی تو حل ہوگا مگر گارنٹی نہیں دوں گا، ڈیڈی جوکہیں وہ لازمی سننا ہوگا“ اس دن کے بعد مجھ سے کوئی رابطہ نہیں رکھا‘ میں میسج بھی کرتی ہوں تو جواب نہیں دیتے‘ ذرا سی بھی لچک نہیں ہے ان میں‘ سسر اور جیٹھانی مجھ پر الزام لگا رہے ہیںکہ یہ لڑکی شادی کے لیے راضی نہیں تھی اس کی اپنے شوہر سے نہیں بنتی‘ کہتے ہیں آنا ہے تو ایسے ہی آجاﺅ جیسے گئی تھیں‘ مجھے صرف بیس دن میں ذہنی مریض بنا دیاتھا‘ شادی کر کے افسوس ہونے لگے تھا‘ میری سیلف ریسپکٹ ختم ہو گئی تھی‘ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو گئی تھی‘ اتنا سب ہونے کے بعد کہ بات سپریشن تک آ گئی ہے مگر شوہرکا کوئی رسپانس نہیں ہے‘ میں انہیں ایک موقع دینا چاہتی ہوں مگر واپس نہیں جا سکتی‘ کیوںکہ اب ظلم بڑھ جائے گا ان کا‘میرا موبائل بھی توڑ دیں گے اورگھر والوں سے ملنے بھی نہیں دیں گے‘ مہر بانی کر کے زائچہ بنا کر میرا فیوچر بتادیں‘میں بہت پریشان ہوں۔ اللہ آپ کو اس کا اجر دے گا“
جواب : پیاری بیٹی! یقیناً یہ ساری صورت حال نہایت تکلیف دہ ہے اور آپ کی شکایات بھی جائز ہیں جنہیں آپ کے شوہر کو حل کرنا چاہیے‘ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اپنے بنیادی فرائض سے غفلت برت رہا ہے‘ آپ دونوں کے زائچوں میں مزاجوں کا فرق نمایاں ہے جس کی وجہ سے دونوں کے درمیان کبھی حقیقی محبت پیدا نہیں ہوگی‘ مختلف مسائل پر اکثر اختلاف رہے گا‘ اگراس مرحلے پر معاملہ ختم کردیا جائے تو بہتر ہوگا‘آپ کے زائچے میں پہلی شادی کی ناکامی ظاہر ہوتی ہے ‘ آپ کے والد جو بہن کی اولاد پر صدقے واری جا رہے تھے ‘ اب کیا کہتے ہیں؟
ہم اس صورت حال پر مزید کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے‘ ہمارے معاشرے میں ایسے کرداروں کی کوئی کمی نہیں ہے جو دوسروں کی زندگی برباد کرتے ہیں اور گھروں کو اجاڑنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں‘ آپ کے سسر اور جیٹھانی بھی یقیناً ایسے ہی کریکٹر ہیں‘ آ پ کے شوہر یقیناً اپنے باپ کے ہی بیٹے ہیں جنہیں یہ بھی احساس نہیں کہ اپنے محبت کرنے والے ماں باپ کو چھوڑ کر جو لڑکی اسے اپنا زندگی بھر کا ساتھی مان کر اس کے گھر آئی ہے اس کے جذبات کا احساس کرے، بے شک وہ اپنے والد کے سامنے خاموش رہیں ‘ ان کا ادب و احترام کریں لیکن کم از کم علیحدگی میں تو آپ کی کچھ اشک شوئی کر سکتے ہیں اور آپ کی جائز ضرورت کچن کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں یا اپنی بھابھی سے بات کر سکتے ہیں‘ بہر حال ہمارے خیال میں یہی بہتر ہوگا کہ آپ اس معاملے کو ختم کردیں۔یہ معاملہ ختم ہونے کے بعد آپ کو چاہیے کہ اپنا کرئر اسٹارٹ کریں جو آپ چھوڑ چکی ہیں‘آپ کی دوسری شادی انشا اللہ آئندہ سال ہو سکتی ہے‘ یاد رکھیں شادی میں کامیابی کا انحصاردو باتوںپر ہے‘ اول لائف پارٹنر کے ساتھ میچنگ اور دوئم نکاح کی تاریخ اور وقت کامبارک ہونا ‘ اگر نکاح کا وقت سعد اور مبارک ہو تو دونوں کے زائچوں میںموجود خرابیاں بھی ختم ہوجاتی ہیں مگر افسوس ان باتوں پر ہمارے ہاں اکثر لوگ توجہ نہیں دیتے‘ لہٰذا ناکام شادیوں کی شرح میں اضافہ ہو رہاہے اور شادی کی کامیابی صرف یہ نہیں ہے کہ دونوں میںکبھی علیحدگی نہ ہوبلکہ کامیابی کی دلیل یہ ہے کہ دونوں ہمیشہ خوش و خرم رہیں اور صحت مند زندگی گزاریں، اولاد کی خوشیاں دیکھیں۔