دو افراد کے درمیان محبت و دوستی کے لیے ان اصولوں کی اہمیت نمایاں ہے

اعدادِ متحابہ

علم جفر میں ایک متنازع فیہ مسئلہ اعداد متحابہ کا ہے،اس حوالے سے جو زبرو بنیات حاصل کیے جاتے ہیں، اس میں علمائے جفر کا اختلاف ہے، یہاں مختصر طور پر اس اختلاف کو بیان کرتے ہوئے آخر میں وہ قول پیش کیا جائے گا جو برنی صاحب کا تحقیق شدہ عمل ہے اور جو ہمارے تجربے میں آتا رہتا ہے۔

قواعد حروفِ بنیات و اعداد متحابہ و قوائمہ

چوں کہ علم جفر میں حروفِ بنیات اور اعداد متحابہ و قوائمہ آتے ہیں، اس لیے ہر ایک کی تشریح اور تفصیل بیان کرنا ضروری ہے ، یہ تو آپ کو معلوم ہوچکا کہ علم جفر کی بنیاد ابجد کے 28 حروف پر ہے لیکن جب ان حروف کو ملفوظی کیا جائے تو آخر کا حرف اصطلاح جفر میں حرف قائمہ کہلاتا ہے ، چوں کہ ملفوظی کرنے میں ابجد کے آخری حرف مختلف ہوجاتے ہیں، اس وجہ سے تمام ابجد سے مختلف حروف قائمہ پیدا ہوتے ہیں، تفصیل اس مسئلے کی یہ ہے۔
بے، تے، ثے، خے، رے، زے، طوئے، ظوئے، فے، ہے، یے، ان بارہ حرفوں کے آخر میں حرف ”ے“ قائمہ ہے، اب تمام ”ے“ بارہ ہیں چوں کہ ابجد میں ے کے دس عدد مقرر ہیں، اس لیے جب بارہ کو دس سے ضرب دیا تو 120 حاصل ہوئے لہٰذا 120 کا عدد اعداد متحابہ اصطلاح جفر میں کہلاتا ہے۔

برکاتی انگوٹھی

120 کا عدد اگر نقش مثلث میں چاندی کی انگوٹھی پر عروج ماہ میںکندہ کرکے پہنے تو اس شخص کا ہاتھ کبھی روپے پیسے سے خالی نہ رہے گا اور ایسی جگہ سے آمد ہوگی کہ وہ شخص خود حیران ہوگا، یہ نقش علوے مرتبت اور ترقی مناصب کے واسطے بے حد مجرب ہے، یہ نقش اس چال سے بھریں جو سر نام کے حرف کی طبع کے موافق ہو۔
”برکاتی انگوٹھی“ اسی اصول کی بنیاد پر تیار کی جاتی ہے،اس کے کل اعداد 120 ہیں، برنی صاحبؒ نے اس کی تیاری کے لیے عروج ماہ کی شرط مقرر کی ہے لیکن ہم عروج ماہ کے ساتھ شرف قمر کو بھی ضروری سمجھتے ہیں، مزید یہ خیال بھی رکھا جائے کہ قمر کسی نحس نظر سے متاثر نہ ہورہا ہو، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شرف قمر کئی ماہ تک عروج ماہ میں نہیں آتا۔
لیکن محققین جفر نے اعداد متحابہ ایک دوسرے طریق پر بھی قائم کیا ہے یعنی وہ ان بارہ حرفوں کو بجائے ے کے الف سے لکھتے ہیں یعنی یا، تا، ثا، حا، خا، را، زا، طا، الف، قاف، کاف میں حرف ف قائمہ ہے۔ صاد، ضاد میں حرف د قائمہ ہے۔
سین، شین، عین، غین، نون میں حرف ن قائمہ ہے، جیم ، میم، لام میں حرف م قائمہ ہے، بس ابجد ختم ہوئی اس حساب سے حرف قائمہ سات بنے۔ (ف، و، ل، د، ن، م) ان ہی سات حروف کو بنیات کہتے ہیں، ان ساتوں حرفوں کے اعداد 211 ہیں اور 2 نقطے ہیں یعنی ف اور ن کا، اب نتیجہ یہ ہوا کہ حروف 7 ، اعداد 211 ، نقطہ 2 ، میزان= 220
گویا علمائے جفر کا ایک طبقہ اگر اعداد 120 کو اعداد متحابہ قرار دیتا ہے تو دوسرا 220 کو۔

جفری عمل محبت

بعض استادوں نے چوں کہ اعداد متحابہ 220 کو مانا ہے، یہ عدد بھی نہایت پر تاثیر ہے، بالخصوص محبت کے واسطے یہ عدد سریع الاثر ہے، 220 کا نقش مثلث تیار کرکے اور نیچے نام طالب مع والدہ اور نام مطلوب مع والدہ ایک کاغذ پر لکھے اور طالب اور مطلوب کے نام کا موکل علیحدہ علیحدہ بناکر جس کاغذ پر نقش لکھا ہے، اس کاغذ کی پشت پر لکھ دے، پھر اس نقش کو بھاری پتھر سے دبا دے، مطلوب بے قرار ہوگا، مو¿کل بنانے کا قاعدہ اور نقش بھرنے کا طریقہ آئندہ بیان کیا جائے گا لیکن اس سے زیادہ مجرب اور پرتاثیر عمل محبت کے لیے یہ ہے کہ نام مطلوب مع والدہ اور نام طالب مع والدہ مفرد طریق پر لکھو اور 7 حرف قائمہ بھی اس کے ساتھ لکھو چوں کہ نقطہ والے حرف 2 ہیں اور 2 حرف ب کے ہیں،اس لیے ب بھی اس میں شامل کرو، یہ سب حرف ایک لائن میں لکھ کر تکسیر جفری کرو، جب تکسیر کامل ہوجائے تو اوپر والی لائن علیحدہ کاٹ لو اور اس کی پشت پر ایک کا ہندسہ لکھ دو اور ایک لائن آخر کی کاٹ لو، اس پر 3کا ہندسہ لکھ دو، درمیان کا حصہ یوں ہی سالم رہنے دو اور اس پر 2 کا ہندسہ ڈال دو، پہلے دن اول ہندسہ والا، دوسرے دن دوسرے ہندسے والا، تیسرے دن تیسرے ہندسے والا نقش جلاو¿، مطلوب محبت میں بے قرار ہوجائے گا۔
ان تعویذوں پر مطلوب کا پہنا ہوا کپڑا لپیٹو اور چنبیلی کے تیل میں تر کرکے جلاو، بتّی کا رخ مطلوب کے مکان کی طرف ہو، جو لائنیں کاٹی جائیں، ان کی بتّی سی بنالو اور اس پر ذرا سا کپڑا لپیٹ لو، اس مثال سے سمجھو، زید بن ہندہ طالب ہے اور بکر بن خالدہ مطلوب ہے، اب ان کے حروف یہ ہوئے، ذ، ی، د، ہ، ن، د، ہ، ب، ک، ر، خ، ا،ل، د، ہ، اب ان میں سے سات حروف قائمہ اور ایک ب جو لفظوں سے حاصل کی ہے، بڑھاو¿، ان سب کو ایک ہی لائن میں لکھو، کل 32 حروف ہوجائیں گے، اب ان کی تکسیر جفری کرو۔

طریقہ تکسیر جفری

جس سطر کو تکسیر صدر موخر یا تکسیر جفری کرنا ہو، ان کو علیحدہ علیحدہ حروف میں لکھ کر ایک حرف بائیں ایک دائیں سے لے کر بار بار یہ عمل دہرائیں، حتیٰ کہ یہ عمل ختم ہوجائے اور تمام حروف ختم ہوجائیں اور دوسری لائن تیار ہوجائے، اب اس دوسری لائن پر بھی یہی عمل کرکے تیسری لائن تیار کریں، ہر لائن پر یہی عمل اتنی بار کریں کہ سطر اول، سطر آخر میں ظاہر ہوجائے، بس اب تکسیر ختم ہے، آخری سطر کو زمام کہتے ہیں۔
مثال: اب اوپر والی لائن میں سے صرف زید ہندہ کی تکسیر جفری کرو (اختصار کے لیے صرف نام مع والدہ لیا جارہا ہے) اوپر والی لائن پہلے دن، بیچ والی لائنیں دوسرے دن اور آخر کی لائن تیسرے دن جلاو۔
سطر اول: ز ی د ہ ن د ہ ، اس کو کاٹ کر پہلے دن جلاو¿
ہ ز د ی ن د ہ
ہ ہ د ز ن د ی
ی ہ د ہ ن د ز، ان تمام لائنوں کو کاٹ کر دوسرے دن جلاو¿
سطر آخر: ز ی د ہ ن د ہ، اس لائن کو تیسرے دن جلاو¿
طریقہ: نام طالب مع والدہ اور نام مطلوب مع والدہ کے درمیان اسم ودود لکھو، یہ محبت کے عمل کی سطر بن گئی، اب اس کی تکسیر جفری کرو اور سعد وقت میں بتیاں جلاو¿، مو¿ثر ثابت ہوگا، سعد وقت سے مراد ایسا وقت ہوگا جب محبت کا عمل کیا جاسکے، ایسے وقت کو پانے کے لیے سوائے علم نجوم کے کوئی علم مددگار نہیں ہوسکتا لہٰذا اعمال جفر میں علم نجوم کی بنیادی حیثیت سے انکار ممکن نہیں۔

قانونِ زبر و بنیات

بنیات کا دوسرا فائدہ جو عام رائج ہے ، وہ یہ ہے۔
انسان کے دل کو تسخیر میں لانا بہت مشکل ہے، ہر کتاب میں اس کے متعلق سریع التاثیر عمل لکھے ہوتے ہیں تاکہ جس کو دل قبول کرے اور جس پر آسانی سے عمل ہوسکے، اس کو اختیار کرلیا جائے۔
اگر کوئی شخص چاہے کہ کسی کے دل کو مسخر کرے تو مطلوب مع والدہ کے نام کے حروف میں اگر کوئی نقاط ہوں تو ان کو بھی لے لے اور عددوں کی میزان کرے، اس میزان کے مطابق اسم باری تعالیٰ نکالے اور اسم مو¿کل بھی نکالے، پھر عدد مطلوب کے مطابق روزانہ اسی ساعت میں پڑھے جو مطلوب کے حروف اول کے مطابق ہو تو 11 یا 21 یا 41 دنوں میں مقصد ہاتھ آئے گا اور مطلوب حاضر ہوکر اطاعت کا دم بھرے گا، کبھی بھی ناکامی کا سامنا نہ ہوگا۔
اس قاعدے کی مثال بھی دی جارہی ہے تاکہ شبہ نہ رہے مثلاً اگر کوئی شخص عبدالحق کے دل کو اپنی طرف رجوع کرنا چاہتا ہے اور اس کو مسخر کرنے کی نیت ہے تو اس کے نام کے حروف کو فرداً فرداً لکھا جائے، ع، ب، د، ا، ل، ح، ق ان کا ملفوظی کیا، عین، با، دال، الف، لام، حا، قاف ہوا، اب زبر کو دور کیا، صرف بنیات رکھے تو ین، ا، ال، لف، ام، ا، اف رہے ، اعداد ان کے 325 ہیں، اسم الٰہی ”یا احد قریب“ ہوا اور مو¿کل شکہائیل ہوا، اب 325 بار روزانہ اس طرح پڑھیں،اجب یا شکہائیل بحق یا احد قریبُ، اب عبدالحق کے مخصوص اسم و ملائک چوں کہ معلوم ہوگئے ہیں، اس لیے جو شخص بھی انہیں ورد کرے گا، عبدالحق لازمی اسی طرف متوجہ ہوگا، اس کے دل میں ایسی لگن لگے گی کہ وہ جب تک ملاقات نہ کرے گا، چین نہ پائے گا، نام مع والدہ سے تخصیص ہوتی ہے، اس لیے ہمیشہ نام مع والدہ لیا کریں، یہ قاعدہ جفر کے سریع التاثیر قواعد میں سے ایک ہے۔
زبرو بنیات کا قاعدہ ہر شخص اور ہر امر کے پوشیدہ متعلقات کو ظاہر کرتا ہے جو کسی شخص کی ذات، دنیا میں اس کا مقام اور روحانیت میں اس کا تعلق ہوتا ہے، اس سے ہی اس قاعدے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
مثال نمبر 1 ۔ محمد کے حروف م، ح، م، د ہیں، ان کا ملفوظی میم، حا، میم، دال ہے، کل پندرہ حروف، اول حرف کو زبر، باقی کو بنیات کہتے ہیں، اسمِ پاک محمد کے زبر و بنیات درج ذیل ہیں۔
م ی م: زبر یعنی م ۔ باقی ی م بنیات
ح ا: زبر یعنی ح ۔ باقی ا بنیات
م ی م : زبر یعنی م ۔ باقی ی م بنیات
دال: زبر یعنی د ۔ باقی ا ل بنیات
سطر بنیات یم ایم ا ل ہوئی، عدد 132ہوئے جو لفظ اسلام 132 کے ہیں، پس اسم محمد کی ذات اور دینوی مقام اسلام ہے، گو اس مخصوص لفظ کی تلاش کرنے کے لیے خاص علم اور بصیرت کی ضرورت ہے جو کسی انسان کے دینوی مقام کو ظاہر کرتا ہے تاہم موکل و اسما، مشہور قواعد سے ہر شخص معلوم کرسکتا ہے۔
مثال نمبر: علیؓ کے حروف ع ل ی کی ملفوظی صورت عین، لام یا ہے، زبر کو علیحدہ کیا تو بنیات ی ن ا م ا ہوا، عدد 102 ہیں جو مطابق عدد ایمان کے ہیں، پس علیؓ کی ذات اور دینوی مقام ایمان کا اظہار کرتا ہے،ا ن کی حرف بنیات بے ترتیب لفظ ایمان ہی ہیں۔
ان مثالوں کے دینے کا مقصد باطنی الفاظ کا اظہار تھا، آپ ان سے اس اہمیت کا بھی اندازہ لگالیں جو کسی شخص کے انہی حروف سے اسم باری تعالیٰ یا اسم مو¿کل نکال کر کام لینے کی ہوگی۔
زبرو بنیہ کے متعلق مستند اقوال کتب جفر میں موجود ہیں، یہ جان لیں کہ ہر حرف ملفوظی مکتوبی ظاہر و باطن سے خالی نہیں ہوتا، ظاہر سے مراد عدد ابجدی ہے اور باطن سے مراد عدد بنیات ہے لہٰذا ہر شخص کے ظاہر و باطن اسمائے الٰہی اور موکلات اسی طریقے سے با آسانی معلوم کیے جاسکتے ہیں، مثلاً الف کا عدد ایک ہے، یہ نسبت ظاہریہ ہے، لف کے عدد 110 ہیں، اس کی نسبت بنیات بطن سے ہے، اسی قیاس پر ہر حرف کا بطن معلوم کیا جاسکتا ہے جو حرف اسم کے ساتھ خاص تعلق رکھتا ہے، ہر ایک بنیات کے جو عدد نکلیں، ان کا ہم عددجن بھی اسمائے باری تعالیٰ سے متعلق ہے، وہ اس کے بطنی اسماءہیں، یہی اسم اعظم ہوتا ہے، تسخیر قلب کے لیے بھی بطنی اسماءاس لیے موثر ہیں کہ قلب بطن سینے میں پوشیدہ ہوتا ہے، اس لحاظ سے الف کا بطن اسم الٰہی علی میں ہے، اگر مبارک ہستیوں سے تعلق باطنی معلوم کرنا ہو تو الف کا بطن اسم اقدس حضرت علیؓ کے اسم مبارک سے متعلق ہے اور حضرت علی کے بطن میں ایمان ہے لہٰذا وہ شخص جو حرف الف کا حامل ہوگا، اسے نسبت بطینہ حضرت علیؓ سے حاصل ہوجائے گی، وہ ان کی خواب میں زیارت کرسکتا ہے، ریاضت سے آپ کی مجالس و نماز میں جب چاہے شرکت کرسکتا ہے، یہ شرکت بطنی ہوگی جسمی نہیں۔
پس جو شخص اپنے اسم باطن کو معلوم کرکے ورد کرے گا، اسے علم باطن نصیب ہوگا اور وہ اس کے حق میں اسم اعظم ہوگا۔

مخارج اعداد

استادوں نے اقسام حروف میں ایک اور صنعت پیدا کی ہے مگر تاثیر عملیات میں اس کو کہاں تک دخل ہے، یہ تحقیق نہ ہوسکا، اس صنعت کو مخارج اعداد کہتے ہیں، اس کے بہت سے طریقے ہیں، یہاں وہی طریقہ بیان کیا جارہا ہے جو کسی قدر صحیح ہے، باقی طریقوں کے لیے کسی مستند کتاب میں دیکھیں۔
جاننا چاہیے کہ حروف ابجد کو ملفوظی کرنے میں دو قسم پیدا ہوتی ہیں، ایک وہ حروف ہیں جو ملفوظ ہوجانے پر مضاعف ہوجاتے ہیں، مثلاً با، تا، ثا، یا بے، تے، ثے وغیرہ اور بعض حروف تین گنا ہوجاتے ہیں جیسے الف، جیم، سین وغیرہ اب اگر ہم اس کے اعداد جمع کریں تو ایک حرف کی حالت تین قسم کی ہوجاتی ہے مثلاً س کا ملفوظی سین، س کے عدد 60 ہیں، سین کے عدد 120 ہیں، اس 120 کو مدخل کبیر کہتے ہیں، دوسری میزان اس کی یہ ہے کہ صفر کا صفر، دو اور ایک تین، میزان 30 ، اس 30 کو وسیط کہتے ہیں، تیسری صورت اس کی یہ ہے کہ صفر چوں کہ کوئی عدد نہیں اس لیے اسے خارج کردیا باقی رہے تین، اس کو صغیر کہتے ہیں لیکن جو حرف کہ ملفوظی ہوتے ہیں، صرف المضاعف ہوجاتے ہیں جیسے با، تا، ثا وغیرہ، اب اگر ان کو الف سے ہی لکھا جائے تو صرف مدخل کبیر رہ جاتا ہے، وسیط اور صغیر اڑجاتے ہیں، البتہ اگر ان حروف کو ی سے لکھا جائے تو بے، تے، ثے وغیرہ سے مدخل کبیر اور صغیر تو نکل آتا ہے مگر وسیط رہ جاتا ہے، اس بحث سے معلوم ہوا کہ جو حرف ملفوظی ہوجانے سے سہ حرفی ہے، اس کے مخرج بھی تین ہی ہوں گے اور جو حرف ملفوظی ہونے میں المضاعف ہوجاتا ہے، اس کے مخرج بھی دو ہی رہتے ہیں چوں کہ الف ہمیشہ ساکن رہتا ہے اس لیے الف سے لکھنے میں یہ حرف پھر ایک ہی رہتے ہیں (ملفوظی کی حالت میں بھی) اس لیے ان کا مخرج بھی ایک ہی رہتا ہے۔
اب علمائے جفر نے بجائے اصلی حرف کے کبیر، وسیط، صغیر سے کام لیا ہے۔
مثلاً س کا ملفوظی سین
سین کا مدخل کبیر 120، حروف ک، ق،
وسیط 30، حرف ل
صغیر3، حرف ج
گویا مطلب یہ ہوا کہ سین کا کام ک ق ل ج سے لینا، سین کا کام ک ق سے لے سکتے ہیں یا س کا کام ل سے لے سکتے ہیں یا س کا کام ج سے لے سکتے ہیں یا ان تمام چار حرفوں سے لے سکتے ہیں، امید ہے، اس قدر تشریح سے آپ سمجھ جائیں گے اور اسی طرح تمام حروف ابجد کے اعداد بناسکیں گے ، طالب و مطلوب کے ناموں میں طبع کا اختلاف ہو تو مخارج سے کام لینا چاہیے۔

مرکزِ حروف

اس حوالے سے بھی علمائے جفر کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن یہ اختلافات زیادہ شدید نوعیت کے نہیں ہیں چوں کہ لوگوں کے اپنے اپنے ذاتی تجربات اس معاملے میں نمایاں ہیں لہٰذا اکثریت ایسے اختلافات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی، اکثر علم جفر کی اصطلاحات میں لکھا ہوتا ہے کہ مرکز فوقی، مرکز قلبی یا مرکز تحتی سے کام لیں،اس کا مطلب یہ ہے کہ حروف یا الفاظ کے اول حرف ، درمیانی حرف یا آخری حرف سے کام لیا جائے،چناں چہ جس عمل میں جس کا جو تجربہ ہے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے،اس کی مثال یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا نام فہد ہے تو بعض علمائے جفر نام کے پہلے حرف ف کو اہم سمجھتے ہیں اور اس حرف سے نقش یا طلسم تیار کرنے کو افضل جانتے ہیں،بعض کے نزدیک درمیان کا حرف ہ زیادہ اہم ہے اور وہ اس کے استعمال پر زور دیتے ہیں جب کہ بعض آخری حرف د کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
اس حوالے سے حضرت کاش البرنیؒ کی تحقیق اور تجربہ یہ ہے کہ حروف قلبی زیادہ موثر ہوتے ہیں، ہم اس رائے سے اختلاف نہیں کرسکتے لیکن اپنا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ بیان کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں، ہمارا خیال یہ ہے کہ نام کے حروف سے زیادہ اہمیت کسی شخص کے زائچہ ءپیدائش کی ہے، اس پر غور کرنے کے بعد کسی درست راستے کا انتخاب کرنا چاہیے، خیال رہے کہ اکثر ہمارے جفری عامل اُس وقت ناکام ہوتے ہیں جب زائچہ ءپیدائش میں موجود حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں اور ہم پہلے بھی یہ بات لکھ چکے ہیں کہ اکثر ماہرین جفر، علم نجوم پر زیادہ دسترس نہیں رکھتے لہٰذا زائچہ ءپیدائش کو سمجھنے اور اُس پر غور کرنے کی تکلیف بھی گوارہ نہیں کرتے،اکثر تو زائچہ پڑھنے کی اہلیت سے ہی محروم ہیں۔
برنی صاحبؒ نے بھی اپنی کتاب میں اس حقیقت کا اظہار کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں ”میرا دن رات کا تجربہ ہے کہ اکثر اصحاب مجھ سے امداد عملیات روحانی لیتے ہیں، وہ اپنا پیسا بھی خرچ کرتے ہیں، میں بھی ان کے واسطے حقیقی اور سچی محنت کرتا ہوں لیکن وہ پھر بھی ناکام رہتے ہیں جس سے ان کو بھی تکلیف اور بدگمانی ہوتی ہے اور خود مجھے بھی شرمندگی ہوتی ہے، میں اس کا تو قائل نہیں کہ عملیات میں تاثیر نہیں، ہاں، بعض مرتبہ ترتیب اور ترکیب میں فرق ہوجاتا ہے لیکن فی صدی پچیس ناکامی کی وجہ ناموں کی بے ترتیبی ہوتی ہے، اس لیے کہ نام اصلی اور صحیح معلوم نہیں ہوتا، بعض اوقات جو مشہور نام ہوتا ہے، وہی لکھ دےتے ہیں“۔
آپ نے دیکھا کہ محض نام پر انحصار کرنے سے کیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں،حضرت کاش البرنیؒ جیسا عظیم جفار بھی شرمندگی کا شکار ہوتا ہے ، بات وہی ہے کہ نام ہمارے اپنے تجویز کردہ ہیں جن میں بعض اوقات تبدیلیاں بھی ہوتی رہتی ہیں، مثلاً بچپن میں نام کچھ اور تھا ، بعد میں کچھ اور ہوگیا، شادی سے پہلے کچھ اور تھا، شادی کے بعد اس میں مزید کوئی اضافہ ہوگیا، وغیرہ وغیرہ۔
تاریخ پیدائش اور وقت پیدائش سب سے زیادہ اہم اور مستند ہیں کیوں کہ یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ ہےں،کسی انسان کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنی تاریخ پیدائش تبدیل کرسکے یا اپنی مرضی کی تاریخ اور وقت پر پیدا ہو، بعض لوگوں کو اپنی تاریخ پیدائش معلوم نہیں ہوتی تو ہماری تحقیق اور تجربہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں اس کی تاریخ پیدائش کے بعد دوسری اہم ترین تاریخ نکاح و شادی کی ہے، ہمارے خیال میں یہ تاریخ بھی اللہ ہی مقرر کرتا ہے، ہم کوشش کے باوجود بھی بعض اوقات اپنی پسندیدہ کسی تاریخ یا وقت پر نکاح نہیں کرسکتے، کچھ نہ کچھ مجبوریاں ہم نے دیکھا ہے کہ درمیان میں آجاتی ہیں اور بالآخر جب اللہ کی مقرر کردہ تاریخ آتی ہے تو تمام رکاوٹیں دور ہوجاتی ہیں اور شادی ہوجاتی ہے۔
ایسے بہت سے واقعات ہمارے تجربے اور مشاہدے میں موجود ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان بے پناہ اختیارات کا مالک ہونے کے باوجود بہت سے معاملات میں بے بس و لاچار ہے،اپنی ذاتی زندگی میں بھی ہم ایسے بہت سے تجربات سے گزر چکے ہیں،یعنی یہ جانتے ہوئے بھی کہ فلاں وقت مناسب نہیں ہے اور فلاں کام اس دوران میں نہیں ہونا چاہیے مگر صاحب علم ہوتے ہوئے بھی ہم اسے روک نہ سکے اور جو ہونا تھا، وہ ہوا، باب العلم حضرت علی کا قول ہمارے سامنے ہے ، آپ نے فرمایا ”میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے خدا کو پہچانا“چناں چہ اللہ بس، باقی ہوس۔