خیروبرکت،بےروزگاری،مالی پریشانی، تنگ دستی، جسمانی بیماریاں

 

بعض خطوط پڑھ کر لوگوں کی بے خبری اور جہالت کی حد تک بڑھی ہوئی سادگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کی زندگی مستقل مسائل اور ان گنت عذابوں میں گزر رہی ہوتی ہے لیکن انھیں کبھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اُن کی اصل وجوہات کیا ہیں بلکہ اس کے برعکس اُن کا خےال یہ ہوتا ہے کہ وہ تو اﷲ کے بڑے نیک بندے ہیں۔ کسی برائی کی طرف بھول کر بھی نہیں جاتے اور کوئی ایسا کام نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ کسی عذاب ےا مصیبت میں مبتلا ہوں۔ ایسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے عذاب اور مصیبتیں کچھ دوسرے افراد کی وجہ سے ہیں جو اُن کی نظر میں اور اُن کے اصولوں کے مطابق غلط اور خراب ہیں۔ اُن سے حسد کرتے ہیں ےا کسی وجہ سے اُن کے دشمن بنے ہوئے ہیں اور اُن کے خلاف ہر قسم کی مخالفانہ کاروائےاں کرتے رہتے ہیں جن میں سحر جادہ ےا دیگر گندے عملیات وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور وجہ بھی وہ اپنے ذہن میں بٹھا لیتے ہیں کہ کوئی ماورائی نادیدہ قوت مثلاً آسیب و جنات وغیرہ ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں اور اُن کی زندگی کو عذاب بنا رکھا ہے۔
عزیزانِ من! اس تمام تمہیدی گفتگو کے بعد آئےے ایک خط ملاحظہ کیجئے تاکہ آپ سمجھ سکیں کہ ہمیں یہ گفتگو کرنے کی ضرورت کےوں پیش آئی۔ زیر نظر خط ہمارے معاشرے کے کسی ایک خاندان کی نمائندگی نہیں کرتا، اگر آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائےں تو ایسے بے شمار خاندان آپ کو اپنے آس پاس ہی نظر آجائےں گے۔
زیر نظر خط ہم بغیر نام و مقام کے شائع کر رہے ہیں۔
مکتوب نگار لکھتی ہیں:۔ ”میرے شوہر، میں اور میری بہو تینوں پانچوں وقت کی نمازیں پڑھتے ہیں اور میرے شوہر فجر کی نماز سے لے کر عصر کی نماز تک وقفے وقفے سے تلاوت کرتے رہتے ہیں اور ہم دونوں ساس بہو عصر سے لے کر مغرب تک تلاوت کرتی ہیں۔ میرا بیٹا شادی سے پہلے 5 وقت کی نماز پڑھتا تھا۔ شادی کے وقت کے بعد سے نماز پڑھنی چھوڑ دی ہے البتہ صبح کے وقت تلاوت کرتا ہے۔ میں اپنے شوہر کی دوسری بیوی ہوں لہٰذا وہ میرا سوتیلا بیٹا ہے۔ اُس کی بھی پہلی شادی 3 سال کے بعد ختم ہو گئی تھی۔ لڑکی نے اسے نا مرد کہہ کر کورٹ سے طلاق لے لی تھی۔ پھر بعد میں ہم نے اس کی دوسری شادی کرادی۔ اب اُس کی دوسری شادی کو بھی تقریباً 3 سال ہو چکے ہیں لیکن وہ اولاد سے محروم ہے۔ آپ سے یہ پوچھنا تھا کہ کیا یہ درست ہے کہ میرے بیٹے میں کوئی نقص ہے؟ پہلے وہ مجھے سوتیلی ماں نہیں سمجھتا تھا۔ شادی ہونے کے بعد اب میں سوتیلی ماں اور سوتیلی ساس بن گئی ہوں۔ مجھے گھر کی صفائی بہت پسند ہے اور میری بہو کو گندگی پسند ہے۔ وہ گندا کام کرتی ہے تو میں اُس کو ٹوکتی ہوں تو میرے شوہر اور میرا بیٹا بہو کی غلطی کو نہیں مانتے الٹا دونوں باپ بیٹے مجھے مارتے ہیں۔ بات بات پر طعنہ دیتے رہتے ہیں اور بھائی بہنوں کو گندی گندی گالیاں دیتے ہیں۔ میرے شوہر کے ہاتھ بہت چلتے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر طلاق، طلاق کہہ کر پکارتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تو میری نظر سے دور ہوجا۔ گھر چھوڑ کر میں اب کہاں جاﺅں؟ ان کی مار پیٹ کا اب یہ حال ہے کہ جو چیز ہاتھ میں آئی ہو دور سے نشانہ لے کر مارتے ہیں۔ شدید غصے کے حال میں اُن کی آنکھوں کی رنگت بدل جاتی ہے۔ میں کمرے میں بند ہوکر دروازہ بند کر لوں تو دروازہ توڑ دیتے ہیں۔
میری بہو پر ناپاک اثرات ہیں۔ پہلے اُس کو شادی نہیں کرنے دیتے تھے۔ شادی ہوگئی تو بچے نہیں ہونے دیتے۔ ہماری کام والی کو حاضری آتی ہے۔ اُس نے بتاےا کہ دو ناپاک جن ہیں۔ ہم نے اُس سے علاج کرواےا تو ایک جن مر گےا، ایک باقی ہے۔ ہمارے گھر میں علم بہت ہے جس کی وجہ سے ہمیں تکلیف تو نہیں ہوتی۔ کیا ہماری کام والی کو سچی حاضری آتی ہے؟ اور یہ بھی بتائےں کہ میری بہو اپنی ماں کے گھر سے تو کچھ نہیں کرتی، کچھ لے کر تو نہیں آتی؟“
جواب: عزیزم! ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کو کیا جواب دیں کیوں کہ آپ کو کسی اچھے ےا برے کا کچھ پتا ہی نہیں ہے۔ ایک طرف تو آپ کے گھر میں نماز روزہ، تلاوت قرآن الغرض تمام عبادات کا سخت اہتمام ہے اور آپ کے خےال میں آپ کے شوہر اور بیٹا بڑے عبادت گزار ہیں دوسری طرف آپ نے اُن کے جو کرتوت لکھے ہیں وہ بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ جو شخص دن بھر نماز کے علاوہ تلاوتِ قرآن کرتا رہتا ہو اور ساتھ ساتھ بیوی کے ساتھ مار پیٹ اور گندی گالیاں، جنونی انداز میں غصے کا اظہار وغیرہ، وہ اپنی تمام عبادات کے باوجود کوئی اچھا انسان نہیں ہے، اس کا شمار تو ظالموں میں ہی ہوگا اور ظالم کے لیے کوئی معافی نہیں ہے۔
آپ کے بیٹے نے پہلے ایک لڑکی کی زندگی برباد کی اور آخر وہ طلاق لے کر اس کے ظلم سے نجات پا گئی۔ آپ لوگ یہی سمجھتے رہے کہ وہ اپنے شوہر پر الزام لگا رہی ہے۔ آخر کار اس کی دوسری شادی کردی اور اب ایک اور لڑکی کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ کوئی آپ کے بیٹے سے یہ کہنے والا نہیں کہ تو اپنا علاج کرا۔ اُس کی بیوی اگر ایسی کوئی بات کرے گی تو شوہر کے اور آپ کے ظلم کا نشانہ بنے گی۔ آخری حربے کے طور پر اسے آسیب زدہ بھی قرار دے دےا گےا ہے۔ حالانکہ جس حالت میں وہ زندگی گزار رہی ہے اُس حالت میں اُسے نفسیاتی بیماریوں کے دورے تو پڑنے ہی ہیں اور آسیب زدہ تو ہونا ہی ہے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس کے جنات کی گواہی آپ کی ماسی صاحبہ دے رہی ہیں جو خود نفسیاتی مریضہ ہے۔ ایسی حاضری سواری والی ہوتیں تو آپ کے گھر میں جھاڑو پونچھا نہ کر رہی ہوتیں۔ اور مزے کی بات یہ کہ انھوں نے ایک جن مار بھی دیا، آخر دوسرا اُن سے کیوں نہیں مرا؟ اُس بے چاری کو تو خود علاج کی ضرورت ہے۔ خدا معلوم وہ کونسے عذابوں میں مبتلا ہے یا محض ڈھکوسلا کرتی ہے اور آپ بھی اس کی باتوں پر یقین کرنے کے بعد اب ہم سے پوچھ رہی ہیں کہ اُس کی حاضری سچی ہے یا جھوٹی ہے؟ دوسری طرف آپ کو یہ فکر بھی لاحق ہے کہ آپ کی بہو کوئی جادو ٹونا تو نہیں کر رہی۔ اپنے میکے سے کچھ لے کر تو نہیں آتی۔ لیکن ظاہر ہے اپنے بےٹے ےا شوہر سے یہ بات کہنے کی ہمت آپ میں نہیں ہے کہ وہ اپنا علاج کرائے کیوں کہ ایسی صورت میں وہ دونوں باپ بیٹے آپ کے ساتھ جو کچھ کریں گے وہ آپ جانتی ہیں۔ آپ کا زور بھی اُس مظلوم بہو پر ہی چل رہا ہے جو نامعلوم کس مجبوری کے تحت آپ کے بیٹے سے بندھ گئی ہے اور آئندہ بھی اس رشتے کو قائم رکھنا چاہتی ہے۔
گھریلو کام کاج پر ساس بہو کا جھگڑا ایک عام سی بات ہے، آپ کو اُس میں زیادہ مداخلت نہیں کرنا چاہیئے۔ اپنا کام خود کر لیا کریں بہو سے الجھنے کی کیا ضرورت ہے؟
آپ اپنے شوہر کی عبادات بھی دیکھ رہی ہےں اور اپنی بہو کی بھی اور خود بھی مستقل عبادت میں مصروف رہتی ہیں۔ کیا آپ کے خےال میں دینِ اسلام اور شریعت کے تقاضے بس اتنے ہی ہیں؟ حقوق العباد کوئی چیز نہیں ہے؟ اخلاقےات کی کوئی حیثیت نہیں ہے؟ شوہر بیوی، بہو بیٹا ان کے فرائض کیا ہیں اور دین اس سلسلے میں ہمیں کیا بتاتا ہے یہ سب جاننے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی آپ نے ےا آپ کے شوہر نے؟
ہم سے ملنے والے یا خط و کتابت کے ذرےعے رابطہ کرنے والے اپنی عبادات کا بڑا زور و شور سے ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں جناب ہم اور ہمارا پورا گھرانہ، نماز روزے، تلاوت کلام پاک وغیرہ کی سخت پابندی کرتا ہے لیکن پھر بھی ہماری پریشانیاں اور مصیبتیں ختم نہیں ہوتیں، اﷲ ہماری دعا قبول ہی نہیں کرتا ہمارے گھر میں خیر و برکت نہیں ہوتی، بے روزگاری، تنگ دستی، بیماریاں اکثر ہمیں گھیرے رہتے ہیں۔ آخر ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہم سے کون سے کوتا ہی ہو رہی ہے جو اﷲ ہم سے ناراض ہے۔ وہ ہمارے دن کیوں نہیں پھیر دیتا، وہ تو قادر مطلق ہے۔
بے شک وہ ایسا ہی ہے۔ وہ ہر شے پر قادر ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ لوگ عبادت اس لالچ میں کرتے ہیں کہ وہ آپ کو زیادہ سے زیادہ روزگار دے، خوش حالی دے ےا اس خیال سے کرتے ہیں کہ عبادت تو ہم پر فرض ہے اور ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے عبادت کے زرےعے اﷲ کے سامنے اُس کے بندے ہونے کا اعتراف کرتے ہیں اُس کی اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار کرتے ہیں۔ دنیاوی کاموں کو انجام دینے کے لیے اور خوشحالی یا ترقی کے راستے پر آگے بڑھنے کے لیے اُس نے ہمیں بہترین صلاحیتوں، جسمانی قوتوں اور دیر بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ اگر ہم اُس کی دی ہوئی نعمتوں کا درست طریقے سے استعمال کریں گے یقیناً دنےا میں بے شمار فائدے حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اپنے ان صلاحےتوں کو غلط طریقے سے استعمال کرےں گے تو ظاہر ہے کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکےں گے۔ مزید یہ کہ دیگر اخلاقی برائےاں اور فرائض سے غفلت، دوسروں پر ظلم و ستم ہماری صلاحےتوں کو برباد کر دیتے ہیں اور ہماری عبادتوں کو مزا بھی غارت ہو جاتا ہے۔ ہمیں اﷲ کی خوشنودگی حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے عذاب کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ یہ درست ہے کہ آپ کی نمازوں اور روزوں کا حساب کتاب اس کی نظر میں صاف ہے مگر وہ دیگر اخلاقی برائےاں اور ظلم و ستم جاری ہیں اُن کا خمےازہ بھی دنےا میں اور آخرت میں بھگتنا ہی ہوگا۔
آپ نے اپنی اور اپنے شوہر کی جو بیماریاں لکھی ہیں اور ان بیماریوں کو بھی آپ شاید اپنی بہو کا کچھ کیا کراےا ہی سمجھتی ہوں گی لیکن آپ کا خیال یہ ہے کہ آپ کے گھر میں علم بہت ہے، غالباً علم سے مراد یہی ہوگی کہ صبح شام، دن رات تلاوتِ قرآن ہو رہی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے گھر میں جہالت بہت زیادہ ہے۔ رٹّو طوطوں کی طرح قرآن پاک پڑھنا اور صبح شام ایک دوسرے کو مارنا پیٹنا، مغلظات بکنا کیا یہی علم ہے؟ آپ جس بیماری میں مبتلا ہیں اُسے آسان زبان میں گھٹےا کہتے ہیں اور یہ ابھی ابتدائی اسٹیج میں ہے۔ آپ کے شوہر کی بیماری بھی مخصوص نوعیت کی ہے اور یہی حال آپ کے بیٹے کا بھی ہے۔ وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں ہے۔ خدا معلوم ہماری یہ ساری باتیں جو خاصی کڑوی کسیلی ہیں، آپ کی سمجھ میں آئےں گی بھی یا نہیں اور اگر سمجھ میں آبھی گئےں تو بھی آپ کیا کر سکتی ہیں نا شوہر کو سمجھا سکتی ہیں اور نا بےٹے کو، گھوم پھر کر آپ کی ٹانگ بہو کے ”کالے کرتوتوں“ پر ٹوٹے گی۔ بہر حال ہمارا کام حقیقتِ حال سے باخبر کرنا تھا۔ سو ہم نے کر دیا۔ شاید اور بھی بہت سے ایسے گھرانے ہوں گے جو آپ ہی کی طرح بے خبری اور جہالت میں مبتلا ہوں۔ ممکن ہے اس تحریر کو پڑھ کر کسی کی آنکھےں کھل جائےں۔