خواہشات کی غلامی نت نئے مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے

کالا جادو، جنات اور ہمزاد وغیرہ کے موضوع پر ہم برسوں سے لکھ رہے ہیں،گزشتہ سال اور اس سال بھی ان موضوعات کے مختلف پہلوؤں پر لکھا ہے کیوں کہ ہمارے ملک میں یہ موضوعات بہت عام ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان موضوعات کو ایک ایسا سینہ گزٹ بنادیا گیا ہے اور اس قدر اُلجھا دیا گیا ہے کہ عام آدمی کی سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ اصل مسئلہ ہے کیا؟
سادہ لوح اور کم علم عوام کو بے وقوف بناکر دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا دھندا عام ہے جسے دنیا میں کوئی کام نہیں آتا ، کسی علم میں مکمل دسترس نہیں ہے،وہ ہمارے معاشرے میں ماہرِ روحانیات ، ماہرِ نجوم ، ماہرِ جفر یا علم الاعداد بن کر لوگوں کو گمراہ کرنے اور اپنا اُلّو سیدھا کرنے کا دھندا شروع کردیتا ہے،اس کام کے لیے صرف مخصوص گیٹ اپ اختیار کرنا کافی ہے، اکثر ایسے لوگ جہالت اور ناکامیوں کے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں،بظاہر اپنا حُلیہ کسی بزرگ یا مولانا کا بناکر ایسی ایسی جاہلانہ باتیں پھیلاتے ہیں کہ کوئی تھوڑا سا بھی پڑھا لکھا انسان اُن کی کمزوریوں کو بھانپ سکتا ہے لیکن اُن کے حلیے سے مرعوب ہوکر با ادب با ملاحظہ ،خاموش رہتا ہے،اسی وجہ سے مذکورہ بالا موضوعات نے ایسی پُراسراریت اختیار کرلی ہے کہ لوگ اُس کے مقابلے میں مذہب اور شریعت کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں،شعبدہ بازیوں سے متاثر ہوتے ہیں،ا یسے لوگوں کی علمی حیثیت کو نظر انداز کردیتے ہیں اور اُن کی عقیدت کا دم بھرنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ اُن کے پھیلائے ہوئے غلط نظریات و عقائد پر ایمان لے آتے ہیں،اس حوالے سے ہماری خواتین سرفہرست ہیں، ہمیں ذاتی طور پر اس کا تجربہ ہے،چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی انہیں سحر جادو اور آسیب و جنات کا وہم ستاتا رہتا ہے،کسی معاملے میں نفسیاتی یا میڈیکل سے متعلق کوئی پیچیدگی سامنے آئی اور فوراً اُن کا ذہن سحرو و جنات کی طرف گیا، حالات میں کوئی اُتار چڑھاؤ پیدا ہوا تو ذہن فوری طور پر اپنے کسی دشمن کی طرف چلا گیا کہ یقیناً اُسی نے ہمارے خلاف کوئی کاروائی کی ہے، یہ رجحان عام ہے۔
عام طور سے ایسے لوگ اپنی خامیوں اور کوتاہیوں سے بے خبر رہتے ہیں اور اسی لیے دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراکر مطمئن ہوجاتے ہیں۔وہ یہ نہیں سوچتے کہ ہماری اپنی ذاتی کوششوں میں کہاں کمزوری ہے یا ہماری صلاحیتوں میں کیا کمی ہے؟
ہم نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ اس حوالے سے پھیلائے گئے غلط نظریات اور عقائد کی اصلاح کی جائے اور لوگوں کو دُرست معلومات فراہم کی جائیں تاکہ وہ اپنی کم علمی کی وجہ سے کسی گمراہی کا شکار نہ ہوں،ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایک صاحب ہمارے پاس آئے اور اپنی ایک طویل کہانی سنائی جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ اُن کی بچی سخت بیمار ہوئی اور اسپتال میں داخل کرنا پڑا،اسی دوران میں ان کے کسی دوست نے انہیں ایک ایسے شخص سے ملایا جو جادو یا سفلی عملیات کا کام کرتا تھا، وہ اس کے پاس گئے تو اس نے بچی کے علاج کے سلسلے میں اُن کی مدد کی،بچی صحت یاب ہوکر گھر واپس آئی تو وہ اس کے معتقد ہوگئے حالاں کہ بچی کا مکمل علاج اسپتال ہی میں ہوا تھا اور وہ وہاں سے صحت مند ہوکر گھر واپس آئی لیکن انہوں نے اپنے طور پر یہ سمجھ لیا کہ یہ بابا جی کی کرامت ہے۔
بعد ازاں اس نے انہیں اپنے گرو سے ملوایا جو ہندو تھا،گرو نے انہیں بھی کوئی عمل بخش دیا جس کے ذریعے وہ لوگوں کے کام کرنے لگے،بعد میں گرو کا انتقال ہوگیا اور وہ شخص جس نے انہیں گرو سے ملوایا تھا ان کا دشمن ہوگیا اور اُن پر جادوئی حملے کرنے لگا،یہ سلسلہ اس قدر دراز ہوا کہ گزشتہ 10,12 سال سے جاری ہے اور موصوف اس معرکہ آرائی میں مصروف ہیں، گھر میں چوہا بھی مر جائے تو اُسے دشمنوں کا حملہ خیال کرتے ہیں، بچہ امتحان میں فیل ہوجائے تو وہ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ اُن کے دشمن کی کاروائی ہے،کوئی کام دھندا نہیں کرتے،گھر میں فاقوں کی نوبت ہے، بچوں کا علاج معالجہ کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں،اس صورتِ حال میں اُن کا خیال یہی ہے کہ اُن کے دشمن انہیں کوئی کام بھی نہیں کرنے دیتے،حد یہ کہ نماز بھی نہیں پڑھنے دیتے۔
ہم نے ان صاحب سے پوچھا کہ آپ کی بچی اسپتال میں تھی اور اس کا معقول علاج ہورہا تھا تو آپ نے اللہ پر بھروسا کیوں نہیں کیا کہ زندگی اور موت تو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، اس کے بجائے ایک گندہ کام کرنے والے شخص کے پاس چلے گئے اور اس پر بھروسا بھی کرلیا گویا اپنا ایمان غارت کرلیا پھر اس کے گرو کے شاگرد بن گئے، دوسرے معنوں میں آپ نے مذہب اسلام کو بھی چھوڑ دیا اور خود بھی گندگی کی دلدل میں چھلانگ لگادی،اس کے جو نتائج نکلنا تھے وہ اب آپ کے سامنے ہے، اب انہیں بھگتیں۔
کہنے لگے ’’میں تو کئی سال پہلے سب پر لعنت بھیج چکا ہوں، سارے غلط کام بند کردیے ہیں اور اللہ سے توبہ بھی کرتا ہوں لیکن پھر بھی میری جان نہیں چھوٹتی‘‘
اچھی طرح جب ہم نے اُن کے حالات کا جائزہ لیا اور ان کی ذہنی صحت کا معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ موصوف ایک نفسیاتی مریض بن چکے ہیں، درحقیقت ایسی کوئی بات نہیں ہے جیسی کہ وہ بیان کر رہے تھے،کوئی ان کا دشمن نہیں تھا بلکہ جن لوگوں کو وہ اپنا دشمن قرار دے رہے تھے وہ بھی اُن سے پریشان ہوں گے اور گھر والے بھی اُن کی حرکتوں سے عاجز ہوں گے جس کا اندازہ ہمیں اُن کے گھر والوں سے ملاقات کے بعد ہوا۔
ماورائی علوم سے دلچسپی
دراصل بعض لوگ جو اپنی فطری اور مزاجی کجروی کی وجہ سے زندگی میں ناکام رہتے ہیں وہ ایسے راستوں اور طور طریقوں کی طرف زیادہ جلدی متوجہ ہوتے ہیں جن میں ماورائی سہاروں کا حصول ممکن نظر آتا ہے لیکن ان راستوں پر بھی علم ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے،جب کہ ایسے اکثر لوگ عموماً جاہلِ مطلق ہوتے ہیں لہٰذا اپنی جہالت کے سبب نہ ادھر کے رہتے ہیں نہ اُدھر کے۔وہ اپنے ہی جیسے کسی جعلی پیر فقیر ، نام نہاد عامل کے مرید بن کر زندگی برباد کرتے ہیں اور اکثر گمراہ ہوکر نفسیاتی مریض بھی بن جاتے ہیں کیوں کہ خود جہالت کے سبب کسی اچھے اور برے یا کھرے کھوٹے کی پہچان نہیں رکھتے لہٰذا فراڈی افراد کے جال میں پھنس کر محض اپنا وقت برباد کرتے ہیں۔

حصولِ علم کے لیے شرائط

عزیزان من! علم خواہ کوئی بھی ہو ، معقول تعلیم و تربیت چاہتا ہے،آپ کسی بھی دنیاوی علم کو حاصل کرنے کے لیے عمرِ عزیز کے پندرہ، بیس سال خرچ کرتے ہیں، تب کہیں ڈاکٹر ، وکیل، بینکر ، انجینئر، ٹیچر، جرنلسٹ وغیرہ وغیرہ بنتے ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ علمِ نجوم ، جفر، علم الاعداد یا دیگر روحانی و ماورائی علوم کا حصول چند کتابیں پڑھ کر یا چند مہینے یا چند سال کسی پیرومرشد کی صحبت میں گزار کر ممکن ہوجائے،ویسے بھی یہ کائناتی علوم اپنی وسعت اور گہرائی میں عام علوم کے مقابلے میں زیادہ مطالعہ اور تجربہ چاہتے ہیں،بعض لوگوں کی ساری عمر تلاش و جستجو میں گزر جاتی ہے،تب بھی وہ زیرو پوائنٹ پر کھڑے نظر آتے ہیں،صرف علم و نجوم کے حوالے سے ہی ہمارا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ اس کے لیے وسیع مطالعے تجربے کے ساتھ ایک قابل استاد کی رہنمائی ضروری ہے،اس کے بغیر اکثر مطالعہ بھی کوئی مدد نہیں کرتا،یہی صورتِ حال دیگر علومِ روحانی کی ہے، مغرب میں اور انڈیا میں ان علوم کے لیے باقاعدہ کالج اور یونیورسٹیاں موجود ہیں لیکن ہمارے ملک کا اس حوالے سے بھی بہت ہی برا حال ہے،ان علوم کو جاننے کے دعوے دار تو بہت ہیں لیکن اُن کے دعوے محض دعوے ہی ہیں، ہم نے ماضی اور حال میں اس حوالے سے ہر دشت کی خاک چھانی ہے لیکن بہت کم ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جو واقعی اہلِ علم تھے ورنہ زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کا مقصد محض دھندا کرنا ہے اور ایسے لوگ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا اپنی گفتگو اور وضع قطع سے صاف پہچانے جاتے ہیں،یہ الگ بات ہے کہ آنکھوں پر عقیدت کی پٹّی باندھ لی جائے تو پھر کچھ بھی نظر نہیں آتا اور حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ کی اپنی علمی بنیادیں کمزور ہوں تو پھر دُرست اور غلط کی پہچان نا ممکن ہوجاتی ہے۔

مسائل کے حل میں ناکامی

عزیزان من! اس تمام گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے اکثر مسائل حالات کے یا خود ہمارے پیدا کردہ ہوتے ہیں اور ہم اُن کا حل کسی غلط جگہ تلاش کر رہے ہوتے ہیں یا انہیں کسی غلط طریقے پر حل کرنے کی کوشش میں مصروف ہوتے ہیں اور نتیجے کے طور پر مسائل تو جوں کے توں ہی رہتے ہیں، ہم خود مزید نئے مسائل میں گرفتار ہوجاتے ہیں،اس خرابی کی ایک بڑی وجہ وہ نام نہاد روحانی اسکالر ، ایسٹرولوجسٹ، ماہرینِ جفر یا علم الاعداد ، جیم تھراپسٹ وغیرہ بھی ہیں جن کا اپنا علم نہایت محدود اور ناقص ہے،کیوں کہ لوگ جب اُن سے رجوع کرتے ہیں تو وہ اُن کی دُرست رہنمائی کرنے کے بجائے اپنی کم علمی پر پردہ ڈالنے کے لیے انہیں گمراہ کُن نظریات کی طرف لے جاتے ہیں،یہ سلسلہ غلط نظریات و عقائد کو فروغ دیتا ہے،اکثر لوگ جب ہم سے رابطہ کرتے ہیں تو وہ دوسرے لوگوں کے حوالے دیتے ہیں کہ فلاں نہایت مشہور صاحب تو یہ کہتے ہیں اور فلاں مشہور صاحب نے یہ دعویٰ کیا ہے وغیرہ وغیرہ مگر جب ہم انہیں اصل حقائق سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اُن کی کمزوریوں کی نشان دہی کرتے ہیں تو اکثر لوگ ہماری بات کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کیوں کہ انہیں تو اس قسم کی باتیں سننے کی عادت ہوچکی ہے کہ ہر مسئلے کا حل کسی روحانی طریقے سے پلک جھپکتے ممکن ہے حالاں کہ ہر انسان کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ ہماری مادّی دنیا بھی کچھ اصولوں کی پابند ہے اور روحانی دنیا بھی اپنے کچھ اصول اور قواعد رکھتی ہے،ہم فطرت کے مقرر کردہ قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے،اگر ایسا کرنے کی کوشش کریں گے تو اُس کے نتائج کسی صورت بھی فائدہ بخش نہیں ہوں گے۔

فطری قوانین کی خلاف ورزی

فطرت کے مقرر کردہ اصول و قواعد کیا ہیں؟ یہ موضوع نہایت غور طلب اور تفصیلی مطالعے کا متقاضی ہے،مذہب نے اس پر بہت زور دیا ہے لہٰذا اُن کاموں اور خواہشات کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے جو فطری قوانین کے خلاف ہوں، ہم اکثر اسے نظر انداز کرتے ہیں اور اپنی دنیاوی خواہشات کو فطری قوانین پر غالب کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں،اس کی چھوٹی سی مثال یہی ہے کہ جب تک ایک طالب علم ایک جماعت کا ہدف عبور نہیں کرلیتا، اُسے دوسری جماعت میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی اور یہ سلسلہ اسی طرح آگے کی جانب بڑھتا رہے گا اگر درمیان میں وہ کوئی لمبی چھلانگ لگا کر آگے جانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ فطری اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی اور اس کا نتیجہ ہر گز بہتر نہیں ہوگا،تعلیم مکمل ہونے سے پہلے ملازمت یا کاروبار بے شک بعض حالات میں ضروری ہوتا ہے لیکن تعلیم کا ادھورا رہنا عمر بھر ایک مسئلہ بنا رہتا ہے اور مسائل پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے،اسی طرح صحت کے معاملات میں غفلت برتنا بھی فطری اصولوں کے خلاف ہے،اسی طرح شادی بیاہ ، محبت اور مالی خوش حالی ، کاروباری ترقی ، لوگوں کے ساتھ تعلقات ، سب معاملات فطری اصول و قواعد کے تحت ہی پھلتے پھولتے ہیں، اس کے برخلاف جانے کی کوشش نت نئی خرابیوں کا باعث ہوتی ہے، قصہ مختصر یہ کہ فطری اصولوں کی پابندی خاصا اہم لیکن مشکل کام ہے، ہماری زندگی میں بہت سے مسائل ان اصولوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔

احساسِ کمتری

آیئے ایک دلچسپ لیکن سبق آموز اور چشم کُشا تحریر کا مطالعہ کریں جو ایک لڑکی نے لکھی ہے،وہ لکھتی ہیں ’’میں اُن لوگوں میں سے ہوں جو حالات و مشکلات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے،میں ذہنی مریضہ بن چکی ہوں،اپنے آپ کو اس دھرتی پر ، اپنے گھر والوں پر اور خود کو خود پر بوجھ سمجھتی ہوں،میں چاہتی ہوں مجھ میں جو برائیاں اور خامیاں ہیں اور جو کچھ بھی میرے دل میں ہے میں اُسے تحریر کردوں ، میں اپنی وہ پریشانیاں آپ کو لکھنا چاہتی ہوں جنہوں نے میری زندگی بالکل بے سکون کردی ہے اور مجھے کسی گھڑی بھی سکون میسر نہیں ہے،میں اپنی شخصیت سے بہت پریشان ہوں، میری اپنی سوچ میرے متعلق ٹھیک نہیں ہے،کوئی کام کرنے کی صلاحیت نہیں، میں بالکل بے کار چیز ہوں،اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہوں مگر سب کہتے ہیں کہ میں سب سے چھوٹی لگتی ہوں، معلوم نہیں کیوں ہر کوئی مجھے دیکھ کر یہی کہتا ہے کہ تم سب سے چھوٹی ہو،اس وجہ سے میں شدید احساسِ کمتری میں مبتلا ہوں، میری بہنیں مجھ سے بڑی لگتی ہیں، اسی لیے میں ان کے ساتھ نہیں بیٹھتی اگر گھر میں مہمان آجائیں تو میں پریشان ہوجاتی ہوں کہ اگر انہوں نے مجھے دیکھ لیا تو وہ کہیں گے کہ یہ سب سے چھوٹی لگتی ہے یا یہ کمزور ہے، بیمار ہے، لوگوں کی باتیں سن کر اُن کے الفاظ میں دیر تک ذہن میں گھومتے رہتے ہیں کہ کیا میں واقعی کمزور ہوں یا پھر مجھ میں ہی شاید کسی چیز کی کمی ہے۔
’’میں شروع سے ہی بڑی تنہائی پسند لڑکی تھی جو کسی نے دیا ، کھالیا، جو پہنایا پہن لیا، اپنی کوئی پسند یا ناپسند نہیں تھی،پہلے میرے والدین میرا بہت خیال رکھتے تھے، مجھے بہت پیار کرتے، میں اُن کی لاڈلی بیٹی تھی مگر جوں جوں بہن بھائیوں کی تعداد زیادہ ہوتی گئی توں توں میرے لیے ان کے پیار میں کمی آتی گئی،اب تو یہ حال ہے کہ مجھے کوئی پسند ہی نہیں کرتا، یہاں تک کہ میرے بہن بھائی اور میری والدہ بھی ہر وقت مجھے ڈانٹتے رہتے ہیں،میں سوچتی ہوں شاید مجھ میں بڑوں والی کوئی بات نہیں ہے،اصل پریشانی کا سبب یہی ہے کہ میں بہت کمزور ہوں اور لاکھ کوشش کے باوجود بھی اپنے آپ کو اسمارٹ نہیں بناسکی،میری خواہش ہے اور ہر انسان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس سے محبت کی جائے،اس کی قدر کی جائے ، اس کی تعریف کی جائے مگر میں نے تو بچپن سے آج تک اپنی تعریف میں ایک لفظ تک نہیں سنا،کوئی کام بھی کیا تو ڈانٹ پھٹکار ہی سننے کو ملی،اگر میں خوبصورت ہوتی تو میری بھی تعریف ہوتی،میری بھی قدر و عزت ہوتی مگر افسوس کہ میں اپنے ذہن میں اچھے الفاظ نہیں سوچ سکتی اور نہ اپنے اندر ایسی صلاحیتیں پیدا کرسکتی ہوں جو میری زندگی کو دوسروں کے لیے با عزت بنادیں۔
’’میں دوسروں کی باتوں کا بہت گہرا اثر لیتی ہوں اور دیر تک پریشان رہتی ہوں،سوچتی ہوں کہ کہنے والے نے دُرست ہی کہا ہوگا پھر میں اُس کی بات کی روشنی میں اپنی شخصیت کا جائزہ لیتی ہوں اور یہ یقین کرلیتی ہوں کہ کہنے والے نے میرے متعلق ٹھیک ہی کہا ہوگا،لوگوں کی باتوں نے میرے ذہن پر بہت برا اثر ڈالا ہے اور مجھے دل برداشتہ کردیا ہے،اب میرے منگیتر آنے والے ہیں، مجھے یقین ہے کہ وہ بھی مجھے پسند نہیں کریں گے، وہ تو بہت خوبصورت، لمبے اور گورے رنگ کے مالک ، پڑھے لکھے ہیں جب کہ میں اُن کے سامنے کچھ بھی نہیں ہوں لہٰذا یہ فکر بھی لگی رہتی ہے کہ وہ آئیں گے تو کیا ہوگا ؟آخر یہ پریشانی کیوں میرے ذہن پر سوار رہتی ہے؟کیا میری رائے اپنے بارے میں اچھی نہیں ہوسکتی؟میں خوبصورت نہیں بن سکتی؟میں ذہنی طور پر خوبصورت بننا چاہتی ہوں،میں سمجھتی ہوں کہ اچھی سوچ انسان کو اچھی چیزوں اور اچھائی کی طرف مائل کرتی ہے،یہ جو میں نے اپنے اوپر خاموشی طاری کر رکھی ہے ، کیا یہ ختم نہیں ہوسکتی،ایسا کون سا طریقہ اختیار کروں کہ اپنے اوپر بھرپور اعتماد اور بھروسا ہو، اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھاؤں ، ذہن سے مایوسی کے بادل چھٹ جائیں،غم ، غصہ اور اسی طرح کے منفی احساسات میرے قریب بھی نہ آئیں۔
میرے اندر ایک بری عادت یہ بھی ہے کہ دوسروں کی نقل کرتی ہوں،لاکھ کوشش کے باوجود بھی ہمیشہ میرے اندر یہی خواہش رہتی ہے کہ میں فلاں جیسی بن جاؤں ، اگر ایسا کیا تو فلاں جیسی لگوں گی،کسی فلم اسٹار کو دیکھوں تو یہی خواہش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح میں بھی اُس جیسی نظر آؤں مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ جیسا سوچوں ،ویسا ہی کرلوں،اتنی طاقت تو کسی انسان میں نہیں ہوتی کہ جیسا سوچے اُسی روپ میں خود کو ڈھال لے،کیا میرے دل سے لوگوں کا خوف اور ان کی شخصیت کا بوجھ ان کے طعنوں کی جلن نکل نہیں سکتی،جنہوں نے مجھے آج تک پریشان رکھا، کیا میں انہیں پریشان نہیں کرسکتی ؟
’’مجھ میں ہر کام کرنے کی صلاحیت موجود ہے مگر کبھی کبھار لوگوں کے منفی رویے سے غمگین ہوجاتی ہوں، براہِ کرم میری کچھ رہنمائی کریں،مجھے اپنے علم کے ذریعے کوئی ایسا طریقہ بتائیں کہ میں خوش گوار زندگی گزار سکوں،میں ایک طویل عرصے سے آپ کے کالم پڑھ رہی ہوں، آپ بہت سے موضوعات پر لکھتے ہیں اور دوسروں کو مشورے بھی دیتے ہیں‘‘
جواب: خدا کا شکر ہے کہ آپ کی فیملی میں وہ رجحانات نہیں ہیں جو ایسی صورتِ حال میں نہایت تباہ کُن ثابت ہوتے ہیں یعنی آپ یا آپ کی فیملی سحروجادو یا آسیب و جنات کے وہم میں مبتلا نظر نہیں آتی ورنہ آپ کا مسئلہ کوئی ایسی صورت اختیار کرسکتا تھا جو لا علاج ہوسکتی تھی،آپ نے اچھا کیا کہ سب کچھ تحریر کردیا، اس سے آپ کے دل کا بوجھ ہلکا ہوگیا ہوگا، جب بھی آپ کا ذہن اُلجھنوں کا شکار ہو، اپنے احساسات اور خیالات کو بلا تکلّف کسی جھجک کے بغیر پوری سچائی اور ایمانداری کے ساتھ تحریر کرلیا کریں،اس طرح آپ کی ذہنی صحت بہتر ہوگی،دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا اور آپ سکون محسوس کریں گی لیکن ایک بات آپ اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں کہ نہ آپ ذہنی مریضہ ہیں نہ کسی پیچیدہ بیماری کا شکار ہیں،آپ کے اندر صلاحیتوں کی بھی کمی نہیں ہے،آپ کو شاید اندازہ نہیں یا آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ قدرت نے آپ کو لکھنے کی صلاحیت بھی دی ہے، آپ نے اپنی کیفیات کو بہت عمدہ اور مؤثر انداز میں تحریر کیا ہے اگر آپ کوشش کریں تو اچھی قلم کار بن سکتی ہیں،دنیا میں کوئی بھی انسان بے کار پیدا نہیں ہوا اور قدرت نے ہر ایک کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے جو لوگ مشکلات اور پریشانیوں پر اشک بہانے کے بجائے ان پر قابو پانے کی جدوجہد کرتے ہیں، وہ کبھی ناکام نہیں ہوتے،حوادث سے اُلجھ کر ہی ان پر قابو پایا جاتا ہے،ہمت ہار کر یا خوفزدہ ہوکر نہیں۔
آپ تمام بہن بھائیوں سے بڑی ہیں، یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اگر آپ جسمانی طور پر کمزور ہیں اور کم عمر لگتی ہیں تو یہ کوئی خامی نہیں ہے،آپ کا برتھ سائن سنبلہ ہے اور برج سنبلہ کا نشان ’’کنواری دوشیزہ‘‘ ہے، شاید اسی لیے سنبلہ افراد ہمیشہ نوجوان اور کم عمر نظر آتے ہیں، انہیں ’’عمر چور‘‘ بھی کہا جاتا ہے،آپ خود بتائیں کسی بھی خاندان میں آپ نے تمام افراد کو جسمانی طور پر یکساں حلیے اور جسامت کا کم ہی دیکھا ہوگا،کم عمر نظر آنا تو ایک خوبی ہے،خرابی نہیں،آج کل تو لوگ اس خوبی کے لیے نہ جانے کیا کیا کوششیں کرتے ہیں،آپ نے لکھا ہے کہ آپ والدین کی لاڈلی بیٹی تھیں لیکن جوں جوں بھائیوں کی تعداد زیادہ ہوتی گئی ان کے پیار میں کمی آتی گئی، کیا یہ قدرتی بات نہیں ہے؟ بچے زیادہ ہوتے ہیں تو ماں باپ کا پیار بٹ جاتا ہے،وہ آپ کی طرح دوسرے بچوں کو بھی اس پیار میں حصہ دیتے ہیں، والدین کا سارا پیار اپنی ذات کے لیے مخصوص کرنے کی خواہش تو خودغرضی ہے، بڑی بہن کی حیثیت سے آپ کو بھی چھوٹے بہن بھائیوں سے پیار کرنا چاہیے،اُن کا خیال رکھنا چاہیے،اُن کے کاموں میں اُن کی مدد کرنا چاہیے،اُن کے ساتھ گھل مل کر رہنا چاہیے،آپ کی تنہا پسندی کی عادت نے اُن کو آپ سے دور کردیا ہے،اپنے طرزِ عمل میں تھوڑی سی تبدیلی پیدا کیجیے،محبت صرف اُن کو ملتی ہے جو دوسروں سے محبت کرتے ہیں،آپ چاہتی ہیں کہ دوسرے آپ سے محبت کریں، آپ کی قدر کریں ، تعریف کریں، یہ خواہش تو سب کی ہوتی ہے لیکن ہر دل عزیزی کے لیے چند بنیادی اصول ہیں، آپ اُن پر عمل کیجیے پھر دیکھیے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
دوسروں کی تعریف اور ستائش کرنے میں کسی کنجوسی سے کام نہ لیجیے،بھائی بہنوں اور سہیلیوں کی خوبیوں کو سراہنا سیکھیے اور خلوص کے ساتھ اُن کی کوتاہیوں کو مسکراکر نظر انداز کردیجیے، جب بھی دوسروں کے درمیان بیٹھیں یا کہیں جائیں تو کسی کی خوبی کی تعریف کرنے میں دیر نہ کریں’’آپ کا لباس بڑا خوبصورت ہے، آپ نے کھانا بہت لذیذ بنایا ہے،آپ بہت سلیقہ مند ہیں یا ذہین ہیں‘‘ وغیرہ۔یہ چند الفاظ ادا کرکے آپ لوگوں کو اپنا گرویدہ بناسکتی ہیں،ہر ایک کی بات دلچسپی اور توجہ سے سنیے، خود زیادہ بولنے کے بجائے دوسروں کو بولنے کا موقع دیجیے، اُن سے سوال کیجیے، اُن کا دکھ معلوم کیجیے، اگر کوئی تلخ بات کہہ دے تو غصے کا اظہار نہ کیجیے،بلکہ غور کیجیے کہ آپ کی کس بات سے اسے تکلیف تو نہیں پہنچی، ممکن ہے اس معاملے میں آپ کا ہی قصور ہو،چھوٹے بہن بھائیوں کی دشواریوں میں اُن کی مدد کیجیے،والدین کی ضروریات کا خیال رکھیے، آپ بڑی ہیں، اس لیے یہ آپ پر فرض بھی ہے،انسان نہ جسمانی صحت سے بڑا ہوتا ہے نہ عمر سے،یہ اُس کی خوبیاں اور صلاحیتیں ہیں، اُس کا حسنِ اخلاق ہے اور سلوک ہے جو اسے بڑا بناتا ہے،آپ موٹا ہونے کی فکر چھوڑ کر اپنی شخصیت کو دلکش بنایئے، اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھایئے،لباس کی سادگی میں بڑا حسن ہے،قیمت میں نہیں۔مسکراتے چہرے اور خوش اخلاق افراد ہی لوگوں میں مقبولیت حاصل کرتے ہیں،اپنے بارے میں سوچنے کے بجائے دوسروں کے بارے میں سوچیے، دوسروں کی پسند کا خیال کیجیے، منگیتر آرہے ہیں تو خوفزدہ ہونے کی کیا بات ہے،انہوں نے یقیناً پہلے بھی آپ کو دیکھا ہے،ان کا خیر مقدم پُرخلوص مسکراہٹ سے کریں،ان سے ان کی مصروفیات اور دلچسپی کے بارے میں گفتگو کریں، اُن کی پسند کا خیال رکھیں، یاد رکھیں کہ دنیا میں ہر انسان کسی نہ کسی احساسِ کمتری میں ضرور مبتلا ہے،اس لیے اپنے احساسِ کمتری کی فکر نہ کریں،آئندہ جب بھی ذہن پر کوئی بوجھ محسوس ہو تو فوراً قلم و کاغذ سنبھال لیں اور اسے تحریر کرڈالیں،خود نویسی (Free writing) بہت سی الجھنوں کا علاج ہے،آپ کو سانس کی مشق بھی کرنی چاہیے تاکہ ’’ذہنی انتشار‘‘ کا خاتمہ ہوسکے،آپ کا احساسِ کمتری ’’بڑھی ہوئی حساسیت‘‘ کی وجہ سے ہے،اس کے لیے سانس کی مشق یا مراقبہ کرنا نہایت مفید ثابت ہوگا۔