جولائی میں لگنے والے سورج اور چاند گہن کے اوقات و اثرات

خاکی بروج سنبلہ اور جدی کی محبت کے رنگ ڈھنگ کا جائزہ

جون کا مہینہ اپنے اختتام کی جانب رواں دواں ہے، پاکستان کے ساتھ پوری دنیا جون سے ایک بحرانی کیفیت کا شکار ہے، ایک خوف کی فضا موجود ہے جس میں ہر وقت کسی بڑے واقعے یا سانحے کاخوف ذہنوں پر مسلط ہے، تقریباً ہر شخص مستقبل کے کسی انجانے خوف میں مبتلا ہے، یہ صورت حال تقریباً اکتوبر تک رہے گی، آنے والا مہینہ جولائی نہایت اہمیت کا حامل ہے، اس ماہ میں دو گہن بھی موجود ہیں اور خاصے اہم اور منفی اثرات کے حامل ہیں۔

سورج گہن

جولائی کا آغاز ہی سورج گہن سے ہورہا ہے، یہ گہن یونانی سسٹم کے مطابق برج سرطان میں اور ویدک سسٹم کے مطابق برج جوزا میں دو اور تین جولائی کی درمیانی رات میں لگے گا، پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق گہن کا آغاز دو جولائی کو 09:55:13 pm پر ہوگا، جب کہ انتہائی نقطہ ءعروج 3 جولائی شب12:22:27 am پر ہے،گہن کا اختتام 02:50:34 am پر ہوگا،یہ جزوی گہن ہے، پاکستان میں نظر نہیں آئے گا، البتہ جنوبی امریکا کے بعض حصوں میں دیکھا جاسکے گا۔
سورج اور چاند گہن اکثر غیر متوقع حالات و واقعات لاتے ہیں، بعض اوقات ایسے کاموں کا آغاز ہوجاتا ہے جو پہلے سے رکے ہوئے ہوں،3 جولائی کا سورج گہن دنیا میں کسی نئی جنگ یا آفاتِ ارضی و سماوی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے،خصوصی طور پر امریکا ، چین، روس، برطانیہ، ایران، مصر، افغانستان، جاپان اور بعض دیگر ممالک اس گہن کے منفی اثرات سے متاثر ہوں گے، سعودیہ عربیہ اور اسرائیل بھی نحس اثرات کا شکار ہوسکتے ہیں۔
پاکستان میں سورج گہن زائچے کے دوسرے گھر میں لگے گا،دوسرے گھر کا تعلق معیشت اور مالی امور سے ہے،اس کے علاوہ اسٹیٹس کا تعلق بھی اسی گھر سے ہے، چناں چہ معاشی بحران اگر مزید بڑھ جائے تو حیرت کی بات نہ ہوگی۔

چاندگہن

چاند گہن ہمیشہ انڈوپاکستان کے لیے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور اس دوران میں اہم فیصلے اور اقدام دیکھنے میں آتے ہیں، 17 جولائی کو مکمل چاندگہن ہوگا جس کا دورانیہ 6 گھنٹہ 26 منٹ ہوگا، گہن یونانی اور ویدک سسٹم کے مطابق برج قوس میں لگے گا جو زائچہ ءپاکستان اور انڈیا کا آٹھواں گھر ہے، گہن کا آغاز منگل اور بدھ کی درمیانی رات میں 16 جولائی 11:51 pm سے ہوگا، انتہائی نقطہ ءعروج 17 جولائی 02:30:44 am پر ہے جب کہ اختتام 05:17:38 am پر ہوگا،یہ گہن پاکستان سمیت انڈیا ، انڈونیشیا، ایران، عراق، عرب امارات،بیلجیم، پرتگال، تھائی لینڈ، برطانیہ، ہنگری، مصر، ترکی، فرانس، اٹلی، ساو¿تھ افریقہ اور آسٹریلیا، روس کے علاقوں میں دیکھا جاسکے گا۔
گہن کے وقت برج ثور طلوع ہوگا جو پاکستان ، انڈیا، مصر ، میکسیکو اور ملائیشیا کا طالع پیدائش ہے، چناں چہ یہی ممالک گہن کے اثرات کا زیادہ اثر قبول کریں گے لیکن دیگر ممالک بھی اپنے زائچے کے مطابق اس کا منفی اثر محسوس کرسکتے ہیں۔
سورج اور چاند گہن سے متعلق ضروری اعمال ان شاءاللہ آئندہ ہفتے دئیے جائیں گے، اس بار 12 بروج کے حوالے سے جاری طویل مضمون اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے، آخری دو بروج سنبلہ اور جدی کی محبت کے رنگ ڈھنگ ملاحظہ کیجیے۔

برج سنبلہ کا انداز محبت

خاکی بروج کی تکون میں سنبلہ دوسرے نمبر پر ہے جب کہ دائرہ بروج میں چھٹے نمبر پر۔ اپنی ماہیت کے اعتبار سے ذوجسدین یعنی دو رخوں والا، فطرت میں مو¿نث اور منفی ہے۔ ادراک و فہم اس کی نفسیات اور تجزیہ اس کا طرہ¿ امتیاز ہے۔ اپنی علامت “دوشیزہ” کی مناسبت سے شرمیلا پن اس کی پہچان ہے۔ عالمی زائچے میں اس کا تعلق صحت اور کام سے ہے۔ اعضائے جسمانی میں ناف اور آنتیں اس کے زیر اثر ہیں۔
سنبلہ افراد اپنی مثبت خصوصیات میں سلیقہ مند، طور طریقوں کے پابند، جچے تلے انداز کے مالک، دوستی اور اصلاح پسندی پر مائل، منطقی، تجزیہ کار، صاحب امتیاز، ذی شعور اور باطنی قوتوں کے حامل ہوتے ہیں۔
اپنے دوسرے رخ میں یعنی منفی پہلوو¿ں کے اعتبار سے سنبلہ افراد خائف، بے اعتبار، حاسد، نہایت باریک بین، نکتہ چیں، اپنے عقائد اور نظریات کے خلاف ہر شے میں کیڑے نکالنے والے، صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کے اصولوں کے معاملے میں حد سے زیادہ محتاط، تنگ نظر اور سخت رویے کے حامل ہو سکتے ہیں۔
مثبت اور منفی خصوصیات میں کمی بیشی کا انحصار انفرادی زائچہ پیدائش پر ہوگا۔
اگر بات عشق و محبت کی ہو رہی ہو تو پھر یہ کہنا پڑے گا کہ شاید خالق کائنات نے برج سنبلہ کو اس لطیف ترین جذبے کے لیے نہیں بنایا ہے لہذا کسی سنبلہ شخصیت کو دنیا کے عظیم محبت کرنے والے افراد کی فہرست میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل یہ لوگ محبت اور شادی کے معاملے میں بے حد روایتی انداز کے حامل ہیں۔ چونکہ اس برج کا تعلق کام اور صحت سے ہے۔ لہذا جو چیز سب سے زیادہ ان کے ذہن پر سوار رہتی ہے وہ کام اور صحت کے معاملات ہیں۔ اسی طرح ان کی نکتہ چینی جو درحقیقت اصلاح پسندی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ وہ بھی محبت جیسے اندھے اور گونگے بہرے جذبے کے لیے کچھ مناسب نہیں ہوتی لہذا یہ لوگ عشق میں ہوش و ہواس سے بے گانہ ہو کر دیوانگی کی حدود کو نہیں چھو سکتے کیونکہ ان کی عقل کی کارفرمائیاں معاملات دل میں بھی غالب رہتی ہیں اور ان کے نزدیک رومان یا شادی بھی زندگی کی بس ایک ضرورت ہے جسے سود و زیاں سے بالاتر ہو کر نہیں دیکھا جا سکتا چناں چہیہ لوگ اپنے محبوب یا شریک حیات کی ذات میں خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لینے کے بعد ہی کسی پیش قدمی کا فیصلہ کریں گے اور پیش قدمی کے بعد بھی اگر انہیں کوئی خامی نظر آگئی تو ان کے بڑھتے ہوئے قدم رک سکتے ہیں۔
روایتی عاشقوں کی طرح پہلی نظر کا اندھا عشق سنبلہ افراد کے مزاج اور فطرت کے خلاف ہے۔ دراصل یہ لوگ محبت، شادی کے لیے کرتے ہیں اور شادی گھریلو سکھ اور چین، تحفظ و آرام اور آسائش کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ لہذا محبت میں پیش قدمی سے پہلے خاصی دور تک دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ جب تک انہیں مکمل اطمینان حاصل نہ ہو جائے کہ اس تعلق میں کوئی نقصان نہیں ہے، کسی مضبوط بندھن میں بندھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ اکثر سنبلہ افراد کی زندگی میں محبت کا جذبہ پوری شدت کے ساتھ شادی کے بعد اس وقت نمودار ہوتا ہے جب وہ اپنے شریک حیات سے پوری طرح مطمئن ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد محبت میں ان کی ثابت قدمی اور وفاداری انتہائی شاندار اور قابل قدر ہوتی ہے۔ یہ اپنے محبوب کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے، یہ الگ بات ہے کہ ان کا پوری طرح مطمئن ہوجانا بھی یقینی نہیں ہوتا، ان کی فطری کاملیت پسندی کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کمی ، کمزوری یا خامی ڈھونڈ ہی لیتی ہے۔
اپنے محبوب یا شریک حیات سے شدید محبت اور گہری وابستگی کے باوجود یہ رومانی تعلقات میں خاصے سرد مہر اور خشک مزاج نظر آتے ہیں۔ اپنے جذبہ محبت کا کھل کر اظہار کرنا ان کے لیے بڑا مشکل کام ہے۔ کچھ تو ان کا فطری شرمیلا پن آڑے آتا ہے اور کچھ کام کی مصروفیات میں خود کو حد سے زیادہ ملوث کرنا بھی ان کی رومانی اور سوشل زندگی کو متاثرکرتا ہے۔ بے شک ان کے تعلقات دوستی اور محبت میں ٹھوس اور پائیدار ہوتے ہیں مگر غیر معمولی نہیں ہوتے۔ یہ لوگ توقع رکھتے ہیں کہ ان کے شریک حیات میں بھی وہی ساری خوبیاں ہوں جو ان میں موجود ہیں۔ یہ ایک غلط سوچ ہے جس کی وجہ سے اکثر سنبلہ افراد خود اپنے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ ایک صاف ستھرا گھر اور کاموں میں عمدہ سلیقہ، مالی طور پر استحکام سنبلہ افراد کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
شادی کے بعد اکثر انتہائی نجی نوعیت کے مسائل ازدواجی زندگی میں اختلافات کو جنم دے سکتے ہیں کیونکہ محض جنسی تعلق ہی سنبلہ افراد کی وابستگی کو مستحکم کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ان کے لیے ذہنی ہم آہنگی بھی ضروری ہے۔ بہ صورت دیگر بعض نفسیاتی مسائل ان لوگوں کو پریشان کر سکتے ہیں۔
محبت اور شادی کے حوالے سے سنبلہ افراد کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وہ جس کاملیت کے متلاشی ہیں، درحقیقت اس کا کوئی وجود نہیں ہے اور یہ انسانی کمزوریاں ہی تو ہیں جن پر دوسروں کو اکثر سب سے زیادہ پیار آتا ہے۔ آخر ہم معصوم بچوں کی نادانیوں پر کیوں خوش ہو کر ان سے پیار کرتے ہیں؟ بے شک سنبلہ افراد نہایت اعلٰی ظرف، شائستہ اور پاکیزہ محبت کے اہل ہیں۔ جسے اپنا بناتے ہیں یا جسے چاہتے ہیں اس کی خاطر ہر تکلیف اور مصیبت برداشت کرنے کی خوبی رکھتے ہیں۔ تاہم چونکہ برج سنبلہ کا نشان دوشیزگی یعنی کنوارپن ہے اور کنوارا ظاہر ہے کہ تنہا ہوتا ہے۔ لہذا اکثر سنبلہ افراد کو محبت ایک کوہ گراں یعنی بھاری بوجھ محسوس ہوتی ہے اور یہ اس دشت بے اماں کی سیّاحی سے کتراتے ہیں۔ وہ کبھی کبھی یہ بھی سوچتے ہیں کہ اس سے بہتر تو تنہا وقت گزارنا ہی ہے۔ بات دراصل وہی ہے کہ اگر یہ لوگ کسی ایسی ہستی کو پا لیں جس سے ان کی ذہنی ہم آہنگی ہو تو پھر اس کی خامیوں کو بھی نظر انداز کر دیں گے اور اس کے ساتھ عمر بھر کی رفاقت جاری رہے گی۔
جیسا کے بار بار تذکرہ ہو چکا ہے کہ برج سنبلہ کا نشان دوشیزہ ہے اور کنوارا پن اس کا طرہ¿ امتیاز ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں کنواروں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق برج سنبلہ سے ہے۔ قوسی افراد دوسرے نمبر پر آتے ہیں۔ یہ لوگ اصلاح معاشرہ یا کسی اور عظیم مقصد کی خاطر بھی محبت اور شادی سے دور ہو سکتے ہیں۔ جیسے شہرہ آفاق اور نوبل انعام یافتہ مدر ٹریسا یا بابائے اردو مولوی عبد الحق۔ دونوں کا تعلق برج سنبلہ سے تھا۔

برج جدی کا انداز محبت

دائرہ بروج کا دسواں اور خاکی تکون کا تیسرا برج جدی ہے جس کا حاکم سیارہ زحل ہے۔
نظم و ضبط، اصول و قواعد اور تربیت کے لیے سفاکانہ طرز عمل سیارہ زحل سے منسوب ہے۔ برج جدی ماہیت کے اعتبار سے منقلب یعنی تغیر پذیر، اپنی فطرت میں مو¿نث اور منفی ہے۔ انسانی جسم میں جوڑ اور گھٹنے اس سے منسوب ہیں۔ مادیت، جاہ طلبی اور عاقبت اندیشی اس کا خاصہ ہیں۔ برج جدی کے زیر اثر پیدا ہونے والے افراد اعلٰی درجے کے منتظم اور قائدانہ صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ یہ عمدہ دماغی قوتوں کے مالک، نکتہ رس اور شاندار سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ محنت اور استقامت کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول کی جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں۔ برج جدی کا نشان پہاڑی بکرا ہے جو اپنی دھیمی رفتار سے ایک سیدھی راہ پر اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور بالآخر پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے۔
جدی افراد اپنے مثبت پہلوو¿ں میں بنیادی طور پر عملیت پسند، کارگزار، مستقل مزاج، معاون اور مضبوط کردار رکھتے ہیں۔ یہ لوگ محنتی، کم گو اور کسی حد تک تنہائی پسند ہوتے ہیں۔ ان کا منطقی ذہن صرف دلیل سے ہی مطمئن ہو سکتا ہے۔ جدی افراد کے منفی پہلو شک و بد ظنی، سرد مہری، خود غرضی، مزاحمت پسندی یعنی روک ٹوک، ضد، ہٹ دھرمی، کٹ ہجتی، ناراضگی، یاسیت پسندی اور غیر جذباتی انداز فکر ہیں۔
محبت کے حوالے سے کسی شاعر نے کہا تھا “یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا”۔ شاید برج جدی بھی ایک ایسا ہی ساز ہے جس کے لیے یہ نغمہ نہیں بنایا گیا۔ یہ لوگ دوسروں پر اپنی محبتیں نچھاور کرتے نہیں پھرتے۔ ان میں اصول پسندی اور فرض شناسی تو موجود ہوتی ہے لیکن رومان کے معاملے میں یہ خاصے خشک مزاج ہوتے ہیں۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ برج جدی کے زیر اثر پیدا ہونے والے افراد روایتی اعلٰی معیار کے عاشق نہیں ہوتے۔ اس برج کا خاکی عنصر ان لوگوں کو اس قدر عملی سوچ اور رویوں کا عادی بنا دیتا ہے کہ یہ لوگ اپنی حقیقت پسندی کے خبط میں رومانیت کے افسانوی لطف کو غارت کر بیٹھتے ہیں ۔
(اگر برج جدی کے ساتھ کوئی آبی برج بھی فعال ہو تو یہ صورت حال تبدیل بھی ہو سکتی ہے)۔
جدی افراد کی عملیت پسندی اور مادیت انہیں محبت جیسے لطیف جذبے کو سمجھنے اور اس کا احساس کرنے سے روکتی ہے۔ ان کی نظر میں یہ ایک کارِ بے کار ہو سکتا ہے جس میں زندگی کا قیمتی وقت ضائع کرنا ایک حماقت ہو گی۔ جدی افراد کو شادی یا ازدواجی زندگی کا بھی زیادہ شوق نہیں ہوتا۔ انہیں تو اپنے کرئیر میں کسی بلند مقام تک پہنچنے کا شوق خبط کی حد تک رہتا ہے چناں چہ یہ لوگ محبت کے معاملے میں صنف مخالف کی دلچسپی اور وارفتگی کا جواب مثبت انداز میں تو ضرور دیتے ہیں مگر خود ان کی دلچسپی اور جوش و جذبہ احتیاط کے حصار میں قید نظر آتا ہے جسے محسوس کر کے ان سے محبت کرنے والے پر جوش اور جذباتی افراد کا دل ٹوٹ سکتا ہے مگر انہیں اس کی بھی پروا نہیں ہو گی، یہاں بھی ان کی حقیقت پسندی اسے پاگل قرار دے کر آگے بڑھ جائے گی۔
عام طور پر ان کی نجی ضروریات اور خواہشات انہیں شادی کے بندھن میں بندھنے پر مجبور کرتی ہےں اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یہ شادی کے بعد اپنی ذمہ داریاں اور ازدواجی حقوق بڑی خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہیں یعنی شریک حیات کی ہر ضرورت کا پوری طرح خیال رکھتے ہیں مثلاً گھر، مالی استحکام، عزت اور وقار، معقول رویہ وغیرہ لیکن اس معقول رویے میں نظم و ضبط اور مزاحمتی انداز کی جھلکیاں موجود ہوتی ہیں۔ ان کا حاکمانہ مزاج اپنے شریک حیات کو ہر آزادی نہیں دے سکتا۔ وہ اسے اپنے ایک ماتحت کے روپ میں دیکھنا پسند کریں گے۔ البتہ دنیاوی آرام و آسائش اور سہولیات فراہم کرنے میں یہ کوئی کوتاہی اپنی جانب سے نہیں کرتے مگر صرف ایک چیز اس کے لیے ان کے پاس نہیں ہوتی اور وہ ہے تھوڑی سی رومانیت اور روایتی انداز محبت۔ یہ لوگ اپنے عملی انداز محبت کو ہی کافی سمجھتے ہیں مثلاً ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ میں نے دنیا کی ہر نعمت اور سہولت اپنے محبوب یا شریک حیات کو مہیا کر دی ہے ، اب اس کے بعد صرف زبانی اور روایتی اظہار محبت کی کیا ضرورت ہے؟ شاید ان کا یہ خیال دوسروں کے لیے نامناسب اور ناقابل قبول ہو۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ یہ دوسروں کو احساس محبت اور جذباتی تسکین بھی فراہم کریں۔ یوں زندگی زیادہ رنگین اور پرسکون ہو جائے گی۔
جدی افراد کی زندگی میں جو لوگ آئیں، انہیں تھوڑی سی توجہ دینے، محبت اور تعریف کے دو بول بول دینے سے کوئی نقصان نہیں ہو گا یا آپ کمتر نہیں ہو جائیں گے بلکہ جواب میں آپ کو بھی سچی محبت کی روحانی خوشی ملے گی۔ صرف آپ کی اصول پسندی اور فرض شناسی ہی زندگی میں سارے رنگ نہیں بھر سکتی۔ زندگی کا اصل اور دلچسپ ترین رنگ تو محبت ہے۔
جدی افراد پیدائشی طور پر نظم و ضبط کے قائل ہوتے ہیں اور اپنی رومانوی یا ازدواجی زندگی میں بھی نظم و ضبط اور اصول و قواعد کی پابندی پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح چونکہ ان کی عملیت پسندی زندگی کی مادی ضروریات اور مادی حقائق پر زیادہ توجہ دیتی ہے لہذا محبت اور دوستی کے معاملات میں بھی یہ لوگ دل کے بجائے دماغ سے کام لیتے ہیں اور اپنے مادی نفع و نقصان کو نظر انداز نہیں کرتے۔ جس طرح ایک جدی مرد اپنے پیشہ ورانہ مفادات سے کبھی غافل نہیں رہتا بلکل اسی طرح جدی خواتین بھی شوہر کی ترقی اور آمدن میں اضافہ کے لیے اس سے بھرپور تعاون کرتی ہیں اور وہ کسی نکمے اور آرام طلب شوہر کو پسند نہیں کرتیں جو انہیں مادی آرام و سکون مہیا نہ کر سکے۔
جدی افراد کی شادیاں عموماً پائیدار ہوتی ہیں۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ شاذ و نادر ہی جلدی میں شادی کرتے ہیں اور اس بات کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے کہ شریک حیات کا انتخاب کرنے میں ضرورت سے زیادہ احتیاط کے باعث ان سے کوئی غلطی ہو جائے کیونکہ وہ یہ کام جذبات کی رو میں بہہ کر یا بے پروائی سے کبھی نہیں کرتے۔
جدی افراد کم از کم محبت کے روایتی معیار اور تصور پر پورا اترتے نظر نہیں آتے۔ محبت کا روایتی تصور رکھنے والے ان کے انداز و اظہار محبت سے خوش نہیں ہو سکتے۔
عشق و محبت تقریباً ہر زبان کی شاعری کا بنیادی موضوع رہا ہے۔ اگر ہم رومانی شاعری کرنے والے قد آور شعراءکی فہرست پر ایک نظر ڈالیں تو اس میں بھی سر فہرست حوت اور عقرب نظر آئیں گے مثلاً ہمارے یہاں اردو شاعری میں میر تقی میر، علامہ اقبال،فیض احمد فیض، پروین شاکر، عطا شاد وغیرہ کے ہاں روایتی عشق کے اعلٰی ترین نمونے نظر آتے ہیں۔ یہ تمام شعراءبرج عقرب سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسری طرف اردو شاعری میں برج جدی سے تعلق رکھنے والے دو بڑے نام مرزا اسد اللّٰہ خان غالب اور جوش ملیح آبادی ہیں۔ غالب نے اگرچہ رومانوی موضوعات کو بھرپور طریقے سے اپنایا ہے اور ان کا دور رومانی شاعری کا دور تھا مگر غالب کے رومانی موضوعات پر عقل غالب نظر آتی ہے شاید اسی چیز نے انہیں اپنے دور میں دیگر رومانی شعراءسے منفرد بنا دیا تھا۔ وہ محبت میں میر کی طرح اندھے عشق کے قائل نہیں۔ زندگی کے مادی پہلوو¿ں کو سامنے رکھتے ہوئے محبت کی بات کرتے ہیں۔ جوش ملیح آبادی کی رومانی شاعری کسی بگڑے نواب کی آوارہ گردی اور عیش طلبی کا شاہکار نظر آتی ہے۔ البتہ ان کی حاکمیت پسندی انہیں انقلابی رجحانات کی طرف لے گئی اور اس طرح رومانی شاعری کا پودا قد آور درخت نہ بن سکا۔