بے شمار مسائل کا حل ‘اپنی شخصیت و کردار سے آگاہی

انسانی نفسیات کا مطالعہ علم نجوم کی روشنی میں

ہمارا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ بعض لوگوں کے پیچیدہ اور پراسرار مسائل خود ان کی ذات کے منفی پہلوﺅں کی شدت کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ان مسائل کو یا تو دوسروں کے کھاتے میں ڈال رہے ہوتے ہیں یا پھر خود ان کی سمجھ میں بھی نہیں آ رہا ہوتا ہے کہ اصل وجوہات کیا ہیں؟ نتیجے کے طور پر ایسے مسائل کبھی حل نہیں ہوتے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ مزید پے چیدہ اور اکثر نہایت بھیانک ہو جاتے ہیں۔
حضور اکرم ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ کچھ یوں ہے۔
”جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا ہے۔“
اس حدیث مبارکہ میں علم و حکمت کے ایسے نادر موتی موجود ہیں جن کی مثال نہیں دی جا سکتی۔ اس مضمون پر اگر ہم غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ ہمارے ہر مسئلے کا حل حضور اکرم ﷺ کے اس قول عظیم میں موجود ہے۔ ہم کوئی مذہبی عالم، مفتی یا مفسر وغیرہ نہیں ہیں لہٰذا اس حدیث مبارکہ کی علمی تشریح و تفسیر کا کوئی دعویٰ نہیں رکھتے البتہ جتنا ہم نے غور و فکر کیا ہے اس کے مطابق ہم سمجھتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ہمیں ایک ایسی شاندار راہ دکھائی ہے کہ جس پر چل کر ہم اپنے تمام مسائل حل کر سکتے ہیں اور وہ راہ یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی ذات، شخصیت، فطرت اور کردار کا مطالعہ کرنا چاہئے اور یہ مطالعہ دینی اور دنیاوی تمام علوم کی روشنی میں ہونا چاہئے تب ہی یہ ممکن ہو سکے گا کہ ہم اپنے آپ کو پہچان سکتے ہیں۔
ازل سے آج تک اربوں کھربوں انسانوں نے اس عالم فانی میں جنم لیا اور زندگی گزاری۔ وہ اپنی ذات، شخصیت، فطرت اور کردار میں نت نئی طرز، نت نئے پہلو، نت نئے زاویے رکھتے تھے۔ یہ بحث تو بہت طولانی ہو گی کہ انسان پیدائشی طور پر کن صفات کا حامل پیدا ہوتا ہے اور پھر شعور کی منزل میں داخل ہونے کے بعد حالات و واقعات اور معاشرتی اثرات اس کی شخصیت و کردار پر کیسے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
یہ وہ موضوع ہے جس پر ہمارے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے علما و دانشور اکثر مباحثے اور مناظرے کرتے نظر آتے ہیں مگر موضوع ابھی تک تشنہ ہے بلکہ اس حوالے سے دنیا میں دو اسکول آف تھاٹ بن چکے ہیں۔ ایک مذہبی نقطہ¿ نظر رکھنے والوں کا ہے اور دوسرا سائنسی نقطہ نظر رکھنے والوں کا، لہٰذا ہم اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتے۔
ہم پہلے بھی اپنا یہ موقف کئی بار پیش کر چکے ہیں کہ انسان کو سمجھنے کے لئے اس وقت دنیا میں جتنے علوم موجود ہیں ہماری نظر میں علم نجوم ان میں سرفہرست ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے کم از کم ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے بلکہ ہمارے ہاں تو علم نجوم کو کوئی علم ہی نہیں سمجھا جاتا اور اس کے حوالے سے نہایت گمراہ کن باتیں پھیلائی گئی ہیں۔ اسے قسمت کا حال یا غیب کا علم وغیرہ کہہ کر مطعون کیا جاتا ہے اور اس پر مذہبی فتوے لگائے جاتے ہیں لیکن بہرحال دنیا بھر میں مختلف علوم و فنون کے ساتھ وہ رویے نہیں ہیںجو ہمارے ہاں ہیں۔ وہاں ہر علم کو علم کا درجہ دیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں تو انسانی نفسیات جیسے علم کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا جو بہرحال ایک سائنسی علم ہونے کا اعزاز حاصل کر چکا ہے۔ ہمارے ملک کی اکثریت علم نفسیات کی افادیت سے ناواقف ہے اور انسانی نفسیات کی بوالعجبیوں کو بھی سحری، جادوئی اور آسیبی مظاہر سمجھتی ہے۔
علم نفسیات بھی انسانی شخصیت، فطرت اور کردار کو سمجھنے کا علم ہے لہٰذا اگر ہم علم نفسیات سے استفادہ کرتے ہیں تو گویا رسول اکرم ﷺ کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں ماہرین نفسیات یا تو نہایت محدود تعداد میں رہے یا انہوں نے عوامی سطح پر علم نفسیات کے فروغ کے لئے خاطر خواہ کام نہیں کیا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ماضی کی حکومتوں نے نفسیات کے شعبے کی معقولیت کے ساتھ سرپرستی نہ کی ہو۔ بہرحال جو بھی وجوہات رہی ہوں اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ علم نفسیات ہمارے ملک میں عام نہ ہو سکا۔
برسوں پہلے نفسیات کے موضوع پر اکا دکا رسائل نکلتے رہے ہیں مگر اب وہ بھی غائب ہو گئے۔ اخبارات و رسائل میں نفسیات کے موضوع پر کالم ضرور شائع ہوتے ہیں مگر وہ لوگوں کے مسائل اور ان کے حل تک محدود رہتے ہیں۔ ان میں علم نفسیات کا حقیقی تعارف نہیں پیش کیا جاتا۔
بے شک علم نفسیات انسانی شخصیت اور کردار کو سمجھنے میں نہایت معاون اور مددگار سائنس ہے لیکن اب جدید تحقیق و تفتیش کے بعد یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ علم نفسیات کے ابتدائی ماہرین نے انسانی شخصیت اور کردار کو سمجھنے میں علم نجوم سے بھی مدد لی ہے۔ بابائے نفسیات سگمنڈ فرائیڈ کے شاگردوں میں شہرہ آفاق ماہر نفسیات کارل یونگ علم نجوم میں بھی دلچسپی لیتا تھا اور اس نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ وہ اپنے نفسیاتی مریضوں کی پے چیدگیوں کو سمجھنے میں علم نجوم سے مدد لیتا رہا۔
اگر ہم علم نجوم کی مدد سے یہ جان لیں کہ ہماری خوبیاں کیا ہیں اور خامیاں کیا ہیں تو ہم اپنے بہت سے مسائل باآسانی حل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں کے بارے میں جان کر، جن سے ہمیں اکثر و بیشتر واسطہ پڑتا ہے، ہم ان سے معقول طریقے سے تعلقات برقرار رکھ سکتے ہیں یا پھر شدید اختلافات کی صورت میں ان سے تعلق ختم کر سکتے ہیں۔
اکثر لوگ یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ انسانی نفسیات کا مطالعہ بڑا ہی دلچسپ کام ہے اور ہمارا خیال یہ ہے کہ اگر انسانی نفسیات کا مطالعہ علم نجوم کی روشنی میں کیا جائے تو یہ دلچسپی ہزار گنا بڑھ جاتی ہے اور ہم ایک نئے جہان حیرت میں داخل ہو جاتے ہیں۔

اپنی ذات کے آسیب

زیر نظر خط میں لکھنے والی نے اپنے خاندانی حالات اور مسائل لکھے ہیں اور زور اسی بات پر ہے کہ ان کا خاندان ایک طویل عرصے سے کسی پراسرار سحری یا جادوئی اثر کے تحت مشکلات و مسائل سے دوچار ہے اور شاید اسی وجہ سے لڑکیوںکے رشتے بھی نہیں ہو سکے۔ یہاں ہم خط میں سے کچھ اقتباسات نقل کر رہے ہیں۔
وہ لکھتی ہیں۔ ”آج سے 18 سال پہلے میری سب سے بڑی بہن اور بھائی کی شادی ہوئی۔ اس وقت ہم سب بہت خوش تھے لیکن افسوس ہماری خوشیوں کو نجانے کس کی نظر لگ گئی۔ شادی کے دوران ہوا کچھ اس طرح تھا کہ جب ہم اپنی بھابھی کو لے کر گھر آئے تھے تو ہمارے گھر کی دیوار کے پاس ایک انڈہ رکھا ہوا تھا جس کو میرے بھائی کے دوست نے اٹھا لیا اور وہ انڈہ میری دوسری بہن کے ہاتھ میں دےدیا۔ بہن نے وہ انڈہ میری والدہ کو دکھایا کہ امی یہ دیکھیں ہمارے دروازے پر انڈہ رکھا ہوا ہے جب کہ ہمارے گھر میں یا ہمارے پڑوس میں کسی کے ہاں مرغیاں وغیرہ بھی نہیں تھیں پھر یہ انڈہ کہاں سے آیا۔ میری والدہ نے جیسے ہی وہ انڈہ ہاتھ میں لیا۔ ان کے ہاتھ میں سنسناہٹ ہوئی او انہوں نے وہ انڈہ دور پھینک دیا جو کہ تقریباً 4 سے 5 گھر دور جا کر ٹوٹ گیا۔ اس واقعے کے تھوڑی دیر بعد میری بہن واش روم گئی تو وہاں جا کر اس کی حالت ابتر ہو گئی اور اس نے چیخنا شروع کیا۔ امی مجھے بچاﺅ، ابو مجھے بچاﺅ، مجھے پتہ نہیں کیا ہو رہا ہے۔ بہرحال ہمارے شادی کے گھر میں رونا پیٹنا شروع ہو گیا۔ ہمارے پڑوسی مسجد کے پیش امام کو لے آئے اور انہوں نے کچھ پڑھ کر دم کیا چونکہ میرے والد اور والدہ بھی مرید تھے وہ بھی پڑھ کر بہن پر دم کرنے لگے پھر بہت مشکل اور پریشانی کے عالم میں میرے والد نے میری بہن کا علاج کروایا اور الحمد ﷲ آج وہ بالکل ٹھیک ہے مگر افسوس کہ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ہم بہنوں کے رشتے نہیں آتے بلکہ اس دن کے بعد سے آج تک ہم لوگ مختلف مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ بالآخر پہلے میرے والد مستقبل بیمار رہنے کے بعد انتقال کر گئے اور ان کے بعد والدہ کا بھی انتقال ہو گیا۔“
جواب:۔ عزیزم! تم نے جس ماحول میں آنکھ کھولی ہے وہاں ایسی ہی توہمات پر اندھا یقین کیا جاتا ہے اور یہ اندھا اعتقاد ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے یعنی تمہیں یہ تو یقین ہے کہ ایک جادوئی انڈہ تمہارے پورے خاندان کی پریشانی اور مشکلات کا 18 سال سے ذمہ دار ہے لیکن یہ یقین نہیں ہے کہ وہ اﷲ جو تمہارا اور تمہارے خاندان کا نہ صرف یہ کہ خالق بلکہ پرورش اور حفاظت کرنے والا ہے اس کی موجودگی میں تمہارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ان 18 سالوں میں اگر تہماری بہن اس انڈے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے اگر بیمار ہوئی تو پھر اﷲ ہی نے اسے شفا دی اور بقول تمہارے آج وہ بالکل صحت مند ہے۔ اس واقعے کے بعد آٹھ دس سال تک تمہارے والد زندہ رہے۔ والدہ سولہ سترہ سال زندہ رہیں۔ اس دوران انہیں کچھ دکھ بیماریاں ہوئیں تو دکھ بیماریوں سے کس کو نجات ہے۔ کیا خود حضور اکرم ﷺ بیمار نہیں ہوتے تھے؟ آپ ﷺ نے دکھ اور پریشانیاں نہیں اٹھائیں تو پھر عام انسانوں کی کیا حقیقت ہے۔ ان 18 سالوں میں کسی نہ کسی طرح تم سب بہن بھائیوں کی پرورش ہوئی۔ آج ماشاءاﷲ سب جوان ہیں۔ بھائی برسر روزگار ہیں۔ والد، والدہ اپنے اپنے وقت مقررہ پر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے تو یہ بھی کوئی انوکھی یا غیر معمولی بات نہیں ہے۔ رہا سوال یہ کہ بہنوں کے رشتے نہیں آ رہے تو یہ بھی کوئی ایسی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ دنیا بھر میں بے شمار لڑکیاں اور لڑکے بھی شادی میں تاخیر کا شکار ہوتے ہیں اور بالآخر ایک نہ ایک روز ان کی شادی ہو جاتی ہے۔
تم نے یا تمہارے کسی گھر والے نے اس بات پر کبھی غور نہیں کیا کہ رات کے وقت جب تم اپنی بھابھی کو رخصت کرا کر لائے تو دیوار کے پاس رکھا ہوا انڈہ تمہارے بھائی کے دوست ہی کو کیوں نظر آیا اور اس نے وہ انڈہ اٹھا کر تمہارے بہن کے ہاتھ میں ہی کیوں دیا۔ اصولاً تو اسے تمہارے بھائی اور اپنے دوست کو اس طرف متوجہ کرنا چاہئے تھا۔ تمہاری بہن کی طبیعت کی خرابی میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ضروری ہے۔ بہرحال اس بحث سے اب کوئی فائدہ نہیں۔ ہم صرف اتنا ضرور عرض کریں گے کہ تمہاری بہن کا شمسی برج حوت ہے اور قمری برج اسد جو ایک عام اورنارمل لڑکی نہیں ہے لہٰذا اسے کوئی نفسیاتی مسئلہ پیدا ہونا تعجب خیز بات نہیں ہے۔ ممکن ہے ایسا ہی کچھ ہوا ہو اور اس واقعے کے بعد جیسا کہ تم نے لکھا ہے گھر میں پریشانی شروع ہو گئی۔ بیٹی کے علاج کے سلسلے میں تمہارے والد کو لمبے عرصے تک دربدر کی خاک چھاننا پڑی یقینا اس پریشانی میں پیسہ بھی خوب برباد ہوا ہو گا۔ رنگ برنگے روحانی معالجوں نے دونوںہاتھوں سے لوٹا ہو گا اور اسی دوران میں روزگار کے مسائل بھی پریشان کن ہو گئے ہوں گے۔ ان صدمات سے آپ کے والد بیمار رہنے لگے۔ الغرض مشکلات کا ایک سلسلہ چل پڑا۔ ایسی صورت حال میں لڑکیوں کے رشتے کا ہوش کسے رہتا ہے اور ایسے گھر میں رشتے کیوں آنے لگے جہاں گھر کا ماحول ہی خاصا پراسرار ہوچکا ہو ؟
آپ کے گھرانے میں شاید ابتدا ہی سے پیری مریدی کا سلسلہ جاری رہا جیسا کہ آپ نے اپنے والد کے بارے میں بھی لکھا ہے۔ اکثر ایسے گھرانوں میں ہمارا مشاہدہ ہے کہ ایسی ہی چھوٹی چھوٹی اور غیر متعلق باتوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور ان سے غیر متعلقہ قسم کے نتائج بھی اخذ کرلیے جاتے ہیں۔ عام الفاظ میں اسے جاہلانہ توہم پرستی کہا جائے گا۔ایسے لوگ عموماً کم علمی کا شکار ہوکر اپنی ذات و صفات کے مسائل سے بے خبر ہوتے ہیں اور خود کو عجیب و غریب قسم کے مسائل میں الجھا لیتے ہیں لیکن انھیں کبھی اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا احساس ہی نہیں ہوتا اس کی وجہ وہ خول ہوتا ہے جس میں انھوں نے خود کو بند کرلیا ہوتا ہے اور اپنے طور پر یہ سمجھ لیا ہوتا ہے کہ وہ کسی پیر کے مرید ہوکر یا اپنے مخصوص مذہبی نظریات کے زیر اثر درست زندگی گزار رہے ہیں ، ان میں کوئی خامی یا کمزوری ہے ہی نہیں، بس یہی سب سے بڑی بھول یا غلطی ہوتی ہے جو انھیں عمر بھر کنویں کا مینڈک بناکر رک دیتی ہے۔شاید ہمارے باتیں آپ کی سمجھ میں نہ آئیں۔ اگر کوئی بات سمجھ میں آجائے تو اپنے حالات پر غور ضرور کیجیے۔