بڑھی ہوئی حساسیت سے جنم لینے والے امراض اور ان کا علاج

آج ہم ایک ایسے مسئلے پر گفتگو کا آغاز کر رہے ہیں جو انسانی معاشرے کا نہایت قدیم اور بہت عام مسئلہ ہے مگر اس کی تباہ کاریاں بے حد بھیانک ہیں، یہ مسئلہ خصوصاً نوجوان نسل کا ہے، ہر دور میں اس مسئلے کے حوالے سے ماہرین طب و نفسیات تحقیق کرتے رہے اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدہ بیماریوں کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرتے رہے، اس حوالے سے شائع شدہ مواد کی کوئی کمی نہیں ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ دور کا تقریباً ہر فرد اس تباہ کن مرض کے نتائج بد سے آگاہ ہے، حد یہ کہ اس مرض میں مبتلا افراد بھی یہ بات بہ خوبی جانتے ہیں کہ ہم جس راستے پر چل رہے ہیں وہ تباہی کا راستہ ہے لیکن جب وہ اس راستے پر چل پڑتے ہیں تو اپنی شدید خواہش کے باوجود بھی اپنے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کی خود میں ہمت نہیں پاتے، یہ تباہ کن راستہ خود لذتی یا جلق کہلاتا ہے، کم عمر لڑکے اور لڑکیاں عموماً اس لعنت میں مبتلا ہوکر ایسی ایسی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جو بیان سے باہر ہیں ، آئیے ہم آپ کو اس کی ایک جھلک دکھاتے ہیں۔
کسی نامعلوم مقام سے ہمارے کسی نامعلوم کرم فرما نے یہ خط روانہ کیا ہے، ایسے بے شمار خط ہمیں اکثر ملتے ہیں، براہ راست بھی ایسے مریضوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے بلکہ اگر ہم یہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ علاج معالجے کے شعبے سے وابستہ تمام معالجین ایسے مریضوں کی کثرت کا مشاہدہ یقیناً کرتے ہوں گے، بہر حال پہلے آپ نامعلوم قاری کا خط ملاحظہ کیجیے، باقی باتیں بعد میں۔
”میں اکثر آپ کے کالم پڑھتا رہتا ہوں، کئی مرتبہ سوچا کہ آپ کو خط لکھوں مگر پھر بھول جاتا، میرا مسئلہ بہت اہم ہے، پلیز آپ میری رہنمائی کریں، میری زندگی تباہ ہورہی ہے، میں شدید احساس کمتری کا شکار ہوں، کسی کے سامنے بات نہیں کرسکتا، میرے دل اور دماغ میں بہت سی باتیں ہوتی ہیں مگر میں انہیں زبان پر نہیں لاسکتا، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کسی سے بات نہیں کرسکتا، گھر میں سب ایک دوسرے سے ہنستے بولتے ہیں مگر میں نہیں ہنستا بولتا، خاموش اور چپ چپ رہتا ہوں، رستے میں بھی چلتے پھرتے میں یہ سوچتا رہتا ہوں کہ لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں اور میں ٹھیک طرح سے نہیں چل رہا ہوں، شاید میں بہت کمزور ہوں، اکثر عادتیں میرے اندر لڑکیوں والی ہیں، اسی بات سے میں لوگوں کے سامنے نہیں جاتا، اکثر لوگ مجھے دیکھ کر ہنستے ہیں تو میں یہی سمجھتا ہوں کہ انہیں میری کوئی خامی نظر آرہی ہے، مجھے اپنے اللہ پر یقین ہے کہ میں کبھی نہ کبھی ضرور ٹھیک ہوں گا، اب میری عمر 21 سال ہے اور اس عمر کے لحاظ سے میرے اندر کوئی جوش و جذبہ نہیں، ورنہ اس عمر کے لوگ ہنستے گاتے دل میں بہت سے ارمان لیے گھومتے پھرتے ہیں مگر میں اپنی ہی ذات میں گم رہتا ہوں، جب بھی کسی کے سامنے جانے لگتا ہوں تو دل میں عجیب سا خوف اور ڈر سا ہوتا ہے، اکثر میں سوچتے سوچتے ایسی جگہوں پر پہنچ جاتا ہوں کہ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے (یعنی خیالی اور تصوراتی دنیا میں گم) میں اگر کوئی فلم دیکھ لوں تو اس کے بارے میں ہی سوچتا رہتا ہوں، اداکاروں کے ساتھ بیٹھا ہوں، ان سے باتیں کر رہا ہوں، میں ایک مکمل مرد،پرجوش اور بہادر جوان کی طرح جینا چاہتا ہوں، آپ مجھے بتائیں کہ میں کیا کروں؟ بہت امید سے یہ خط لکھ رہا ہوں، آئندہ اخبار میں مجھے اس کا حل بتادیجیے گا، آپ کی بڑی مہربانی ہوگی، خط میں نام اس لیے نہیں لکھ رہا ہوں کہ کسی کو پتا نہیں چلے کہ یہ میرا خط ہے“؟
عزیزان من! ہم ابتدا میں اس مسئلے کا تذکرہ کرچکے ہیں، ہم نے جس عادت بد کی نشان دہی کی ہے، یہ خط اس کے نتائج کا آئنہ دار ہے۔
اب ایک اور خط ملاحظہ کیجیے، یہ ایک لڑکی نے ہمیں لکھا ہے، حیدرآباد سے ن رقم طراز ہیں ” میں آپ کا کالم تقریباً 3,4 ماہ سے باقاعدگی سے پڑھ رہی ہوں، آپ دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے جو کام کر رہے ہیں اس سے دل بہت خوش ہوتا ہے، میں آپ کے لیے دعا گو ہوں۔
میں آپ کو اپنے مسائل ترتیب وار بتاتی ہوں کیوں کہ میرا کوئی ایک مسئلہ نہیں ہے، سب سے پہلے میں اپنی بہت بڑی خامی کا ذکر کروں گی کہ میں بہت بے اعتماد شخصیت کی مالک ہوں، مجھ میں ذرا خود اعتمادی نہیں ہے ، میں اس حد تک بے اعتمادی کا شکار ہوں کہ مجھے یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ میری پسند یا جو میں کہہ رہی ہوں یا کر رہی ہوں، وہ ٹھیک ہے یا نہیں اور اسی لیے بعض اوقات لوگ میرا مذاق اڑاتے ہیں، دوسری بات یہ کہ میں حافظ اور عالم بننا چاہتی ہوں، پچھلے کئی سالوں سے نماز بھی پڑھ رہی ہوں لیکن مجھے عبادت سے دلی لگاو¿ پیدا نہیں ہوتا، جب میں نماز پڑھ رہی ہوتی ہوں تو میرا دھیان کہیں اور چلا جاتا ہے، دنیا بھر کے مسائل میرے ذہن میں آنے لگتے ہیں، گندے اور برے خیالات بعض دفعہ ذہن میں گھس آتے ہیں جنہیں لاحول پڑھ پڑھ کر بھگانے کی کوشش کرتی ہوں مگر سب بے سود ثابت ہوتا ہے، تیسری بات یہ کہ مجھے غصہ بے حد آتا ہے،چھوٹی چھوٹی باتوں پر میں بے انتہا غصے میں آجاتی ہوں، نہایت غلط الفاظ منہ سے نکل جاتے ہیں، بعد میں ندامت بھی ہوتی ہے، میں جتنا غصے پر قابو پانا چاہوں اتنا ہی بڑھتا چلا جاتا ہے، دل چاہتا ہے کہ دیوار سے سر ٹکرادوں یا زور زور سے چلاوں یا پھر رونے لگتی ہوں، جب میں گیارہ سال کی تھی تو میرے کزن نے مجھ سے محبت کا اظہار کیا، پہلے تو میں بہت ناراض ہوئی اور غصہ کیا مجھے اس سے نفرت سی ہوگئی لیکن پھر کچھ عرصے کے بعد میں اس کے بارے میں سوچنے لگی ، نہایت گندے خیالات اس کے متعلق آنے لگے، میں نے ان خیالات کا کوئی نوٹس نہیں لیا بلکہ میں مزید اس کے بارے میں سوچنے لگی، خصوصاً رات کو سوتے وقت اور دو تین سال بعد جب سب کچھ ختم ہوگیا تو ہوش آیا۔
میں عملی زندگی میں ایسی ہر گز نہیں ہوں بلکہ میں نے تو آج تک کسی غیر لڑکے سے بات تک نہیں کی، اگر میں کسی لڑکے کو دیکھتی ہوں یا کچھ دیر وہ مجھے دیکھ لیتا ہے تو میں اس کے بارے میں سوچنے لگتی ہوں، اب میں نے خود پر بہت کنٹرول کرلیا ہے، خراب خیالات نہیں آنے دیتی لیکن اب کیا فائدہ میں اندر سے بہت کھوکھلی ہوگئی ہوں، پلیز آپ مجھے سانس کی مشقیں یا پھر آپ جو بہتر سمجھیں تجویز کریں، یہ مشقیں میں دوپہر میں یا فجر کے وقت کرسکتی ہوں، رات میں نہیں، پلیز میرے خط کا جواب دیجیے گا ، میں آپ کی ہمیشہ مشکور رہوں گی“
عزیزان من! بے شمار خطوط میں سے یہ دو خط بطور نمونہ آپ کے سامنے پیش کیے گئے ہیں، یہ ہمارے معاشرے کا اور خصوصاً نوجوان نسل کا ایسا کرب ناک اور افسوس ناک پہلو ہے جس سے نظریں چرا کر آگے بڑھ جانا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے کیوں کہ اس فعل بد کی تباہ کاریوں سے بے خبر نامعلوم قوم کے کتنے نونہال اپنی زندگی برباد کر رہے ہیں اور جو کرچکے ہیں وہ اپنی اصلاح اور درستگی کے لیے شرم و جھجک کے سبب کسی معالج کے پاس بھی نہیں جاتے لہٰذا ضروری ہے کہ اس مسئلے کے سدباب کے لیے مفید اور کارآمد مشورے عام کیے جائیں اور اس حوالے سے جو غلط باتیں عموماً جاہل افراد یا نیم حکیم قسم کے معالج معاشرے میں پھیلا رہے ہیں ان کے مقابلے میں درست معلوم عام لوگوں تک پہنچائی جائے۔
عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے مریض کسی معالج کے پاس جانے سے کتراتے ہیں، وجہ صاف ظاہر ہے، ان کا احساس گناہ انہیں جس خوف و شرم سے دوچار کرچکا ہوتا ہے وہ ان کے اندر جرات اظہار ہی ختم کردیتا ہے اور وہ اپنے آپ کو ازخود معاشرے کا مجرم اور اپنے ضمیر کا قیدی تصور کرکے رفتہ رفتہ اپنی ہی ذلت کے خول میں خود کو بند کرلیتے ہیں، جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے، انہیں اپنی تباہی و بربادی کا احساس ہونے لگتا ہے اور یہ احساس رفتہ رفتہ مستقبل کے بے شمار خوف ان پر مسلط کردیتا ہے، بس اسی مقام پر پہنچ کر نہایت خوف ناک قسم کی نفسیاتی بیماریاں انہیں گھیرے میں لے لیتی ہیں۔
عزیزان من! یہ موضوع کسی ایک نشست میں مکمل ہونے والا نہیں لہٰذا فی الحال گفتگو کو یہیں نامکمل چھوڑتے ہیں، انشاءاللہ آئندہ اس حوالے سے مزید بات ہوگی اور اس کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی جائے گی، ساتھ ہی اس کے علاج کے طریقے سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔

میڈیکل و نفسیات کے ماہرین ہمیں بتاتے ہیں کہ اس عادت میں مبتلا افراد جسمانی، دلی، دماغی طور پر خود کو تباہ کرلیتے ہیں وہ اپنے چہرے کا نور اور چمک دمک کھو بیٹھتے ہیں، ان کا رنگ زرد ہوجاتا ہے، آنکھیں اندر دب جاتی ہیں، ان کے گرد نیلگوں حلقے پڑجاتے ہیں اور وہ ہمیشہ غمگین، افسردہ، سرنیچے جھکا کر دوسروں سے آنکھیں چراتے نظر آتے ہیں، جسمانی مشقت ان کے لیے سخت بے زاری کا باعث ہوتی ہے، صحت مندانہ ورزش کھیل کود سے وہ دور بھاگتے ہیں، ہر وقت کسی نہ کسی گہرے خیال میں ڈوبے رہتے ہیں، ان کی طبیعت میں سر کشی، مزاج میں چڑچڑاپن پیدا ہوجاتا ہے، وہ دوسروں کا ہنسی مذاق برداشت نہیں کرسکتے، ایسے موقع پر یا تو وہ شرمسار ہوکر پانی پانی ہوجاتے ہیں یا پھر شدید غصے اور برہمی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں، ان کی جسمانی نشوونما رک جاتی ہے، قد کم رہ جاتا ہے، جسم کے اکثر اعضا سکڑ کر چھوٹے رہ جاتے ہیں، کسی نہ کسی دوسری خرابی کا شکار ہوتے ہیں، جسم نہایت کمزور اور ذہنی قوتیں ختم ہونے لگتی ہیں، نتیجتاً مختلف امراض بہ آسانی انہیں اپنا شکار بنالیتے ہیں، یاد داشت کمزور ہوجاتی ہے، خیالات انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں، قوت فیصلہ ختم ہوجاتی ہے، زیادہ طویل عرصے گزرنے کے بعد مالیخولیا، شیزوفرینیا، ہسٹیریا، جنون، مرگی، جناتی و آسیبی اثرات، سحری و جادوئی کیفیات، تشنج، رعشہ جیسی بیماریاں ان میں نمودار ہونے لگتی ہیں، اس اسٹیج پر پہنچ کر ایسے مریضوں کا علاج بہت مشکل ہوجاتا ہے، خصوصاً ایسی صورت میں جب مریض کے گھر والے اپنی کم علمی اور ناواقفیت کے سبب علاج یا معالج کے انتخاب میں غلطی کر بیٹھیں تو کیسں سنبھلنے کے بجائے مزید بگڑنے کا خطرہ ہوتا ہے اور مریض لا علاج ہوکر رہ جاتا ہے۔

عالمی مسئلہ

یہ ایک عالمی مسئلہ ہے، اس مسئلے کا تعلق انسان کے جنسیاتی اعمال و افکار سے ہے اور جنسیات کے حوالے سے انسانی رویے اور نظریات کی تعلیم و تربیت بچپن ہی سے شروع ہوجاتی ہے، یہ تعلیم اور تربیت اگر نامناسب ماحول اور جہالت آمیز سوچ و فکر کے ساتھ ہو تو سمجھ لیجیے کہ پہلی بنیاد ہی غلط پڑ گئی ہے جو اس حوالے سے تمام عمر ذہن کو گمراہ کرتی رہے گی اور ذہن ہی درحقیقت وہ مرکز ہے جو انسان کے جنسیاتی مسائل اور معاملات پر پوری طرح حکمران ہے لہٰذا ذہن کو اس حوالے سے درست اور صحت مند معلومات اگر ابتدا ہی سے حاصل ہونا شروع ہوجائیں تو وہ اپنی بشری کمزوریوں اور مجبوریوں کے باوجود کبھی ایسے امراض میں مبتلا نہیں ہوسکتا جیسے کہ عموماً ہمارے معاشرے میں نظر آتے ہیں اور جنہیں ایک بھیانک اور خطرناک روپ میں مشتہر کرکے بے شمار پیشہ ور معالجین لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرتے ہیں۔
اس موضوع کو اپنے کالم میں شامل کرنے اور تفصیل کے ساتھ زیر بحث لانے کی ضرورت ہمیں اس لیے بھی پیش آرہی ہے کہ اکثر روحانی اور جسمانی بیماریاں تحقیق کے بعد کسی نہ کسی جنسیاتی کجروی، محرومی یا ناآسودگی سے وابستہ نظر آتی ہیں چناں چہ ضروری ہے کہ اس موضوع پر ناک بھوں چڑھانے کے بجائے حقیقت پسندانہ انداز میں بات کی جائے اور غلط نظریات و توہمات کے پھندے سے ذہن کو نکالا جائے۔
مرحوم جناب رئیس امروہوی نے نفسیات اور مابعد النفسیات کے حوالے سے اپنی تحقیقات میں اس موضوع کو بنیادی اہمتی دی تھی، ان کی تحریروں میں سے ایک اقتباس یقیناً بہت سے ذہنوں میں پڑی ہوئی گرہوں کو کھولنے کا باعث ہوگا، ملاحظہ کیجیے، وہ لکھتے ہیں۔
”سیکڑوں بلکہ ہزاروں لڑکوں اور لڑکیوں کی کج رائی اور کج روی کی داستانیں میں نے سنی اور پڑھی ہیں اور خود عنفوان شباب میں ہر قسم کی کجی کا تجربہ کیا ہے، انسانی زندگی کی تشکیل اور مستقبل سازی میں بچپن کے تجربات اور آغاز جوانی کے تاثرات غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں، ہم سمجھنے سمجھانے کی آسانی کے لیے انسان کی طبعی عمر کو (خواہ اس کی حد ستر سال مقرر کی جائے یا سو سال) سات سال کے مختلف حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں، مثلاً سات سال، چودہ سال، اکیس سال، اٹھائیس سال، پینتیس سال، بیالیس سال، انچاس سال، چھپن سال، تریسٹھ سال اور ستر سال، ہر سات سالہ دور ایک منزل حیات کی حیثیت رکھتا ہے، بچپن کے سات سال تیز جسمانی نشوونما کا زمانہ ہوتے ہیں، اس زمانے میں بچے کا خام اور ناپختہ ذہن پختہ ہوتا ہے اور وہ گردو پیش کے اثرات اس گہرائی اور گیرائی سے قبول کرتا ہے کہ ہر تاثر کے ابتدائی نقش عمر بھر کے لیے انمٹ ہوجاتے ہیں تو حقیقت یہ ہے کہ ہمارا نامہ اعمال بچپن ہی میں نفس پر کندہ ہوجاتا ہے اور ہم زندگی کے آخری لمحے تک اس کردار کو دہراتے رہتے ہیں جس کی داغ بیل بچپن میں پڑ گئی تھی مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم اپنے رویے کو تبدیل نہیں کرسکتے جس طرح ہم آموزش (سیکھنے) سے ایک عادت کو اختیار کرتے ہیں (مثلاً خود لذتی یا ہم جنس پرستی وغیرہ) اس طرح آموزش اور تربیت سے اسے ترک بھی کرسکتے ہیں۔
”کردار سازی میں سب سے زیادہ اہمیت تربیت اور آموزش کی ہے، اگر آموزش سے اونٹوں کو ناچنا، باز کو شکار کھیلنا، بندر کو سائیکل چلانا اور طوطے کو بولنا سکھایا جاسکتا ہے تو خود اندازہ کیجیے کہ آموزش و تربیت سے انسانی کردار میں کتنی بنیادی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں، خیر فی الحال موضوع بحث یہ ہے کہ انسان کا جنسی کردار اس کے بچپن میں متعین ہوجاتا ہے( گو ہم اسے ہر عہد میں بدل سکتے ہیں) میں نے ہزاروں نفسیاتی مریضوں کا ذہنی مطالعہ کیا ہے اور ہمیشہ ان کی جوانی، ادھیڑ عمری اور بڑھاپے پر بچپن کے تاثرات کی گہری چھاپ پائی ہے، سات سے چودہ سال تک کا زمانہ بھی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے لحاظ سے بے حد اہم ہوتا ہے، بسا اوقات جنس اور ذہنی کجروی اور کجرائی کی بنیاد اس زمانے میں پڑتی ہے جس کا بھرپور اظہار تیسرے سات سالہ دور( چودہ سے اکیس سال تک کی عمر) میں ہوتا ہے، بچپن گزرتے ہی انسانی جسم کے بعض ایسے غدود تیزی سے کام کرنے لگتے ہیں جن کا تعلق عورت کے عورت پن اور مرد کی مردانگی سے ہے، یہ زمانہ بچوں اور بچیوں کے لیے سخت تشویشناک اور کرب انگیز ہوتا ہے، لڑکوں اور لڑکیوں میں بلوغت سے قبل و بعد جو عضوی تبدیلیاں نمودار ہوتی ہیں انہیں تو ہم دیکھ لتے ہیں لیکن ان کے ذہن و نفس میں جو ہلچل برپا ہوتی ہے، دل جس محشر سامانی و بے قراری سے زیر بار ہوتا ہے، انجان تمنائیں جس طرح روح کو گد گداتی ہیں، خوابوں میں رنگینی پیدا ہوجاتی ہے اور تاثرات میں جو گہرائی آتی ہے، اس کا اندازہ ایک بالغ ہونے والا لڑکا اور لڑکی ہی کرسکتے ہیں

دنیا جوان تھی مرے عہد شباب میں

تو اس عہد شباب میں دانستہ یا نادانستہ طور پر نوجوان ایسی حرکتوں میں مبتلا اور ایسی عادتوں کے خوگر ہوجاتے ہیں جنہیں قوت کی بے تحاشا فضول خرچی کہا جاسکتاہے، ان کا نفس ایک انجانی لذت کا متلاشی رہتا ہے، اس کی لذت کے حصول کا قریب ترین اور آسان ترین ذریعہ خود اپنا جسم ہے، جنسی کجروی کی کوئی ایک شکل نہیں، ہزاروں شکلیں ہیں بلکہ میرا اندازہ تو یہ ہے کہ ہر نوجوان اپنے سکون کے لیے کسی نئی راہ کی جستجو میں رہتا ہے۔
”خود لذتی، ہم جنس پرستی، مفعولیت، بدخوابی(احتلام) خود آزادی، مردم آزادی، لڑکیوں کی یہ خواہش کہ وہ مردوں کی طرح اظہار قوت کریں یا مردوں کی طرح معاشرے میں کردار ادا کریں اور لڑکوں کی یہ تمنا کہ انہیں لڑکیوں کی طرح التفات اور توجہ ملے، اسی ایک ہیجانی قوت کے مختلف مظاہر ہیں۔
”جنسی خامی اور ذہنی خام کاری کا ذہنی ناپختگی( یعنی آموزش کی غلطی) سے گہرا تعلق ہے، بچپن میں کوئی شخص کسی ناپسندیدہ عادت میں مبتلا ہوجائے( اور اس عادت کی اصلاح نہ کی جاسکے) تو اندیشہ ہے کہ انسان عمر بھر اسی غلط کاری کا مرتکب ہوتا رہے، کوئی لڑکا اور لڑکی ابتدائے جوانی کے جذباتی طوفان اور جنسی ہیجان سے بچ نہیں سکتا، جب جنسی غدود کی سرگرمی کے سبب خون میں بجلیاں سی دوڑنے لگتی ہیں تو آدمی بخار کی سی کیفیت محسوس کرتا ہے، یقیناً 90 فیصد لڑکے اور لڑکیاں اس نفسیاتی بحران سے گزر کر مختلف پگ ڈنڈیوں پر بھٹکنے کے بعد عقل و مصلحت اندیش کی راہ نمائی میں شاہراہ حیات پر حقیقت پسندی کے ساتھ گامزن ہوجاتے ہیں، البتہ دس فیصد اپنی جگہ اٹک کر رہ جاتے ہیں اور وہ کوئی نئی بات سیکھنے سے انکار کردیتے ہیں۔
”خود لذتی کا تجربہ نہ تو حیرت انگیز ہے اور نہ غیر معمولی، یہ تو دور شباب کی ایک عام اور ہمہ گیر خصوصیت ہے، مشکل سے پانچ تا دس فیصد افراد اس تجربے سے بچ سکے ہوں گے لیکن اس حوالے سے بڑی مہیب افواہیں پھیلائی گئی ہیں، گناہ و عذاب کا خوف، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذہنی و جسمانی عوارض کی غلط تشریح ، توجیح وغیرہ جس کے نتیجے میں اس عادت کا شکار ہونے والے افراد ایسے شدید احساس جرم اور کسی نہایت بھیانک مرض میں مبتلا ہونے کے وہم میں پھنس کر در حقیقت نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں، بس یہی وہ موڑ ہے جہاں سے حقیقی طور پر نت نئی اور پیچیدہ ترین بیماریوں کا آغاز ہوتا ہے جو جسمانی کم اور نفسیاتی و روحانی نوعیت کی زیادہ ہوتی ہیں“۔
حقیقت یہ ہے کہ اس عادت کی کثرت انسان کو ذہنی اور جسمانی طور پر بے حد حساس بنادیتی ہے، اس کے علاوہ اسے اور کسی قسم کی بیماری یا کمزوری لاحق نہیں ہوتی لیکن زیادہ حساس ہونے کے سبب وہ ہر بات کا نہایت گہرا اثر قبول کرنے لگتا ہے، دوسروں کی کہی ہوئی باتیں ارد گرد کا ماحول سب کچھ اس پر ایک نئے غیر حقیقی رنگ میں اثر انداز ہونے لگتا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ اس کا احساس گناہ کے زیر اثر ہونا بھی ہوتی ہے۔
رئیس صاحب ہی کی تحریر سے ایک اور اقتباس دیکھیے، وہ لکھتے ہیں ”خود لذتی کے ذریعے ہماری حیوانی جبلت کی بھرپور تسکین نہیں ہوسکتی اور نہ اس سے نوع انسانی کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے لیکن اس کے نقصانات کا جو ڈھنڈورا پیٹا گیا ہے اس کی صداقت بھی مشکوک ہے، گاہے گاہے اس پر عمل پیرا ہونے والوں کو اس سے کوئی بنیادی نقصان جسمانی اور ذہنی طور پر نہیں پہنچتا“
رئیس صاحب اس موقع پر شاید اس حقیقت کو نظر انداز کرگئے کہ یہ ”گاہے گاہے“ کا معاملہ بہت تیزی سے مسلسل ہوجاتا ہے اور جنس کے ہیجان انگیز طوفان کی زد میں آیا ہوا ناپختہ ذہن کیف و سرور کے سمندر میں غوطہ خوری سے خود کو باز نہیں رکھ سکتا، انسانی فطرت کی اس کمزوری کے پیش نظر مذہب اسلام میں جلد از جلد شادی کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے جلد شادی کا انتظام نہ ہوسکے تو غیر شادی شدہ افراد کو اپنے نفس پر قابو رکھنے کے لیے ”داو¿دی روزے“ رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے کہ روزہ تسخیر و تزکیہ ءنفس کے لیے بہترین اور موثر عمل ہے۔
آگے رئیس صاحب فرماتے ہیں ”البتہ اس عادت کا تواتر اور تواتر کی کثرت تکلیف دہ اور تشویشناک بن جاتی ہے، میں نے نوے فیصد نوجوانوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا پایا ہے کہ جلق (خود لذتی) کے سبب وہ مردانگی اور جواں مردی کی قوت سے محروم ہوگئے ہیں، یہ خوف کہ جلق آدمی کو نامرد بنادیتا ہے نہ صرف بے بنیاد بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے، اگر انسان کے جنسی غدود میں کوئی عضویاتی نقص نہیں تو کوئی جنسی کجروی آدمی کو مردانہ قوت سے محروم نہیں کرسکتی، البتہ یہ تصور کہ میں فلاں کجروی کے سبب جنسی کمزوری میں مبتلا ہوگیا ہوں، ذہن کو ضرور ناکارہ کردیتا ہے، میں بار بار اس نکتے پر زور دے چکا ہوں کہ جنسی عمل اصولی طور پر ذہنی عمل ہے، جنسی آمادگی کی پہلی شرط ذہنی آمادگی ہے، اگر ہماری اس حیوانی جبلت کے راستے میں عقل حائل نہ ہوجائے (یعنی یہ خیال دل و دماغ میں نہ آئے کہ میں فلاں اور فلاں سبب سے ناکارہ ہوگیا ہوں) تو جنسی کمزوری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا“۔
رئیس صاحب کے اس تجزیے سے ہمیں مکمل اتفاق ہے، اب تک کی تمام گفتگو سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ سارا معاملہ اور تمام کھیل ذہن سے بنیادی اور خصوصی تعلق رکھتا ہے، دیگر اعضائے جسمانی تو اس میں ذہن کے ماتحت اپنی اپنی ڈیوٹی ادا کرتے ہیں لہٰذا اولین اہمیت ذہنی اصلاح کی ہے ۔

(جاری ہے)