عزیزان من! یہ طویل ای میل امریکہ سے آئی، اے ،ایچ کی ہے،یقیناً آپ کے لیے بھی دلچسپی کا باعث ہوگی،وہ لکھتے ہیں ”سمجھ میں نہیں آرہا، کہاں سے شروع کروں،میں جب چھوٹا بچہ تھا، اُس زمانے میں رات کے وقت سوتے ہوئے آوازیں سنائی دیتی تھیں جن کی وجہ سے خوف محسوس ہوتا تھا اور یہ آوازیں پرندوں کی ہوتی تھیں،یاد رہے کہ میں پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاو¿ں میں رہتا تھا،جہاں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے سورج غروب ہوتے ہی اندھیرا چھا جاتا تھا، میرے والدین نے کبھی مجھے قابل توجہ نہیں سمجھا،وہ یہ سمجھتے تھے کہ میں بدصورت ہوں اور میرے تایا کے بچے زیادہ خوبصورت اور اسمارٹ ہیں،انہوں نے ہمیشہ مجھ سے نفرت کی،بچپن میں والدین نے وٹّے سٹّے کے تحت میری منگنی تایا کی بیٹی سے کی،بعد میں وہ ختم ہوگئی،اس دوران میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد گورنمنٹ کی ملازمت کی پھر کوریا چلا گیا بعد ازاں جاپان میں رہا اور اب امریکہ میں ہوں، جب میں جارجیا آیا تو ایک صاحب کے ساتھ رہنا شروع کیا، انہوں نے پوچھا بچے کتنے ہیں ؟میں نے بتایا کہ میں نے شادی نہیں کی پھر ایک دن انہوں نے ایک سوال کیا کہ آپ کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ جو آپ سمجھ نہ سکے ہوں، میں نے یاد کیا تو یاد آیا کہ میں جب ساتویں یا آٹھویں میں تھا اور ایک دن سو رہا تھا تو میں نے محسوس کیا کہ میرے بائیں ہاتھ پر کوئی ٹھنڈی چیز پڑی ہے،تھوڑی دیر کے بعد دیکھا کہ میرا بایاں ہاتھ رضائی کے باہر ہے اور اُس پر تازہ مہندی لگی ہے،صبح امی کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ جس گھر میں کسی جن کی شادی ہو اور وہاں اس کے نام کا بندہ ہو تو وہ اُس کو مہندی لگادیتے ہیں،فکر کی کوئی بات نہیں۔کچھ دن بعد اُن صاحب نے بتایا کہ اُس دن جب آپ کو مہندی لگائی گئی تو وہ کسی اور کی نہیں، آپ کی شادی کی تھی،اب ایسا کرو کہ عشاءکی نماز کے بعد یہ الفاظ کہنا۔اب وہ لفظ مجھے یاد نہیں لیکن وہ کچھ اس طرح تھے کہ ”تم جس سے میری شادی ہوئی تھی اور میں نے تمہیں دیکھا نہیں اگر ایک ہفتے کے دوران تم نے جسمانی ملاقات نہ کی تو ایک ہفتے بعد میری طرف سے طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے۔اس کے بعد جو خواب نظر آئے بتانا۔میں نے اس بات کو سنجیدہ نہیں لیا اور وہ الفاظ اپنے سونے کے کمرے اور پھر کچن میں دہرائے پھر ایک بار رات کو میری آنکھ کھل گئی تو دیکھا کہ میرا کمرا روشنی سے بھرا ہوا ہے اور حرکت میں ہے،دوسرے دن خواب میں دیکھا کہ میں ایک کمرے میں ہوں اور میرے سامنے ایک لڑکی کھڑی ہے،بہت خوبصورت ہے، نہ اُس نے بات کی نہ میں نے۔اُن صاحب نے کہا ” یاد کرو،تم اُس کمرے میں کبھی گئے ہو؟“پھر ایک دن میں نے اس کمرے کو پہچان لیا، وہ میرے ماموں کا گھر تھا۔جب میں جاپان میں تھا تو انہوں نے اُسے گرا کر نیا بنالیا تھا،میں نے ماموں کے بیٹے سے اُس کمرے کے بارے میں پوچھا تو اُس نے بتایا کہ ایک حادثے میں ہمارے ایک رشتہ دار فوت ہوگئے تھے لیکن اس حادثے کے بارے میں پتہ نہیں کہ کس طرح ہوا،دوسری بات یہ کہ ہم اس چھت پر آوازیں سنتے تھے جیسے بچے بنٹے کھیل رہے ہیں اور بنٹوں کے گرنے کی آوازیں بھی سنتے تھے۔ایک اور واقعہ یہ ہے کہ اس کمرے کی چھت پر گاڑی کے ٹائر رکھے تھے، ایک دن بغیر کسی وجہ کے اُڑ کر نیچے آگرے، اتنے دنوں میں مجھے دوسرے شہر میں کام مل گیا تو میں نے وہ رہائش چھوڑ دی،کافی عرصے کے لیے رابطہ نہ رہا،پھر جب رابطہ ہوا تو معلوم ہوا ، میرے جاتے ہی وہ صاحب شدید بیمار ہوگئے اور وہ دونوں کمرے جن میں طلاق کا لفظ کہا تھا اُن کی چھت اچانک گر گئی پھر مجھے جارجیا سے نیویارک آنا پڑا،یہ پورے ایک دن کا سفر ہے،جب میں نے بکس کھولا تو دیکھا میری قمیض پر ایک داغ ہے، بڑا عجیب! کسی کیمیکل سے نہیں اُترا، دیکھنے سے لگتا تھا جیسے کہ ایک خنجر ہو۔ اس کے بعد کام کے سلسلے میں نیویارک سے پینسلوینیا جانا پڑا،وہاں مجھے چھت پر لوگوں کے چلنے پھرنے کی آوازیں آتی تھیں،ایک دن رات گیارہ بجے کے بعد جب میں اپنے کام سے واپس آیا تو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی میرے کمرے میں داخل ہوا اور مجھے دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا اور مجھے محسوس ہوا کہ وہ کوئی عورت ہے، ایک دن ایسا ہوا کہ جس بستر میں سوتا تھا اُس کے عین اوپر شیشے کی کوئی چیز زوردار آواز سے پھٹی ہے،میری گردن پر لوہے کا ٹکڑا مارا ہے،اس کی ٹھنڈک اپنی گردن پر محسوس کی،ایک بار جو میرے ساتھ ساری زندگی ہوئی وہ یہ ہے کہ جہاں میری شادی کی بات چیت ہو یا کسی لڑکی سے دوستی ہوتی ہے تو اُس لڑکی کی شادی کسی اور کے ساتھ ہوجاتی ہے یا مجھے وہ جگہ چھوڑنی پڑتی ہے، پاکستان، کوریا، جاپان اور اب امریکہ سب جگہ ایسا ہی ہوا اور اب تازہ ترین ایک امریکن خاتون جو میرے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہے اُسے آج ہلکا سا فالج کا حملہ ہوا ہے لیکن معذور ہونے سے بچ گئی ہے اور میرے جسم پر ایسی جگہ چاقو کے زخم آئے ہیں جہاں چاقو یا چُھری لگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہاں یاد آیا جب میں جاپان میں تھا تو میری ماں کو کسی نے کہا کہ فلاں جگہ ایک عامل ہے اور وہ عمل کرے گا تو آپ کا بیٹا واپس آجائے گا، اُس کے پاس اس کے استعمال شدہ کپڑے لے جائیں، جب وہ وہاں گئے تو عامل نے کہا ” کپڑے چھوڑ جائیں، اگلے ہفتے آنا“جب دوبارہ گئے تو معلوم ہوا وہ آج ہی فوت ہوگئے ہیں،والد صاحب جنازہ پڑھ کر واپس آگئے،اب میں کیا کروں؟ “
عزیزان من! اگرچہ یہ قصہ ہمارے لیے زیادہ حیرت انگیز اور نیا نہیں ہے، ایسے واقعات دیگر لوگوں کو بھی پیش آتے رہے ہیں اور بعض واقعات میں جنات کی کارفرمائی بھی ہوتی ہے مگر ہر واقعہ جنات سے متعلق ہو ، یہ بھی ضروری نہیں ہے، اگر ہمارے قارئین میں سے کوئی صاحب اس سلسلے میں اپنی رائے پیش کرنا چاہیں تو ہمیں خوشی ہوگی یا اپنا کوئی ایسا تجربہ یا مشاہدہ بیان کریں تو یہ بھی ہمارے قارئین کے لیے دلچسپی اور معلومات میں اضافے کا باعث ہوگا۔
انسان اورجنات کے باہمی تعلقات
صاحب واقعہ کے بقول انھوں نے ان مسائل پر کبھی زیادہ توجہ نہیں دی ، بچپن میں ضرور خوف محسوس ہوتا تھا ، امریکہ آنے کے بعد کسی صاحب نے یہ سن کر کہ اب تک شادی نہیں ہوئی، ان سے سوال کیا کہ کیا زندگی میں ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہے جو آپ سمجھ نہ سکے ہوں تو انہیں ایک واقعہ یاد آگیا کہ جب وہ ساتویں یا آٹھویں میں تھے اور ایک دن سو رہے تھے تو انہیں محسوس ہوا کہ بائیں ہاتھ پر کوئی ٹھنڈی چیز رکھی ہوئی ہے ، اس پر تازہ مہندی لگی ہوئی تھی ، صبح انہوں نے والدہ کو بتایا تو انہوں نے بے پروائی سے جواب دیا کہ جس گھر میں کسی جن کی شادی ہو اور وہاں اس کے نام کا بندہ ہو تو اس کو بھی مہندی لگا دیتے ہیں ، یقینا ان کی والدہ نے یہ بات اپنے بزرگوں سے سنی ہوگی لیکن اس کی اہمیت پر کبھی غور نہیں کیا ، اس واقعے کے یاد آنے سے ایک نئی سوچ اور فکرکا آغاز ہوگیا ، سوال کرنے والے صاحب نے انہیں ایک مشورہ دیا اور اس مشورے پر عمل کے نتیجے میں ایک نیا تماشا شروع ہوگیا جس سے بظاہر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بچپن میں ان کی شادی کسی مادہ جن یا جنّی سے ہوگئی تھی اور وہ ایک نادیدہ ماورائی تعلق میں بندھ گئے تھے ، باقی تمام واقعات اسی ایک واقعے کی مختلف کڑیاں نظر آتے ہیں ۔
جنات کے وجود سے عام مسلمانوں کو انکار نہیں ہے ، زیر غور مسئلہ یہ ہے کہ جنات اور انسانوں کے درمیان ربط و تعلق کہاں تک ممکن ہے اور ا س کی کیا کیا صورتیں ممکن ہیں ؟ ویسے تو ہمارے معاشرے میں سحر و جادو کے بعد آسیب و جنات اور حاضری و سواری جیسے معاملات بھی اس قدر عام ہیں کہ ملک کے ہر گلی کوچے میں تھوڑی سی کوشش سے ڈھیروں کیس مل جائیں گے مگر یہ بیماری مردوں سے زیادہ خواتین میں عام ہے ، تقریباً 99 فیصد نفسیاتی مسائل بالآخر سحر و جادو اور آسیب و جنات کی آخری منزل تک پہنچ کر دم لیتے ہیں ، ہم ایک طویل عرصے سے ایسے کیسوں کا مطالعہ اور مشاہدہ کر رہے ہیں ، صرف ایک فیصد کیسوں میں سحری اثرات یا آسیب و جنات کی کارفرمائی نظر آتی ہے ، باقی افراد گردش وقت کا شکار یا اپنے ہی کسی مذاق طرب آگیں کا شکار یعنی کسی نفسیاتی پے چیدگی میں مبتلا ۔
ہمارے بعض خواتین و حضرات کا تو یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ اپنے طورپر اپنے مرض کی جو تشخیص کر بیٹھتے ہیں اس کی تردید بھی برداشت نہیں کرسکتے ، ہمیں بارہا اس کا تجربہ ہوا ہے کہ جب ہم نے ان کی طویل اور الم ناک داستان سن کر صاف صاف یہ کہا کہ جناب یہ کوئی سحری اثرات یا آسیبی معاملہ نہیں ہے بلکہ جسمانی یا نفسیاتی بیماری ہے تو مریض کے ماتھے پر بل پڑگئے ، جیسے ہم نے کوئی توہین آمیز بات کہہ دی ہو یا ان کی قابل رشک و افتخار شناخت کو مجروح کردیا ہو ۔
بعض مریض ایسی صورت حال کو ” اچھے اثرات “ کہتے ہوئے پائے گئے ، گویا ان پر کسی بزرگ کی یا کسی نیک اور مسلمان جن کی نظر کرم ہے جب کہ یہ ایک انتہائی بھونڈی اور غیر شرعی سوچ ہے ، بزرگان دین یا اولیائے کرام پر تو یہ ایک تہمت ہے کہ معاذ اللہ ان کی پاک روحیں اس مادّی دنیا میں نامحرموں سے رابطے کرتی رہتی ہیں ، پرائے مردوں یا عورتوں پر کوئی نظر عنایت کیا معنی رکھتی ہے ؟ اور جہاں تک جنات کے نیک ہونے کا تعلق ہے اور وہ کوئی مسلمان جن ہے تو وہ اس بدکاری میں کیوں ملوث ہوگا ؟
عزیزان من ! ہمارے معاشرے میں مذکورہ بالا موضوعات کے حوالے سے کیا ہو رہا ہے اورکیا ہوتا رہا ہے ، یہ تو ایک لمبی بحث ہے ، فی الحال ہم صرف مذکورہ کیس پر ہی اپنی توجہ مرکوز کریں گے ، اس کیس میں ہمارے عام مولانا صاحبان یا روحانیت کے دعوے دار تو اسے سیدھا سیدھا کسی جناتی تعلق کا معاملہ قرار دیں گے اور ہم بھی ایسے کسی ماورائی تعلق کو نظر انداز نہیں کرسکتے لیکن پہلے حقائق اور اصول و قواعد کی روشنی میں بنیادی باتوں کا تجزیہ ضروری ہے ، کیوں کہ جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ جنات سے انسانی ربط و تعلق کے کیس خال خال ہی نظر میں آتے ہیں ، اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ جنات خود اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ وہ جس سے تعلق جوڑ لیں وہ ان کا راز فاش کرے ، اگرچہ اس ربط و تعلق کی بھی کئی مختلف صورتیں ہوتی ہیں لیکن خاص طورپر جب معاملہ عاشق و معشوق کا ہو تو پھر راز داری کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ، بہر حال آئےے سب سے پہلے تو یہ جائزہ لیا جائے کہ ایسا کوئی تعلق ممکن بھی ہے یا نہیں ، کیوں کہ انسان اور جنات کی تخلیق بالکل مختلف اصولوں پر ہوئی ہے ، انسان کو مٹی سے بنایا گیا ہے اور جنات آتشی مخلوق ہیں ، سب سے پہلے ہم مذہبی نقطہ نظر اور روایات پر ایک نظر ڈالیں گے ۔
جنات کا وجود
ایک مخصوص طبقہ فکر کو چھوڑ کر جنات کے وجود سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے ، قران کریم میں اور احادیث نبوی میں اس مخلوق کا تذکرہ جگہ جگہ موجود ہے ، سورہ رحمن کے پہلے رکوع میں اللہ نے ہمیں بتایا ہے کہ اس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا اور جنات کو خالص آگ سے پیدا کیا ، قرآن سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نافرمان اور راندئہ درگاہ ابلیس کا تعلق بھی قوم جنات سے تھا اور یہ قوم انسان سے پہلے دنیا میں موجود تھی ، حضرت آدم ؑ کی تخلیق کے بعد کیوں کہ ابلیس کو قیامت تک کے لےے ملعون اور راندئہ درگاہ کردیا گیا لہٰذا وہ حضرت آدم ؑ اور اولاد آدم کا دشمن اول ہوگیا ، اس کے ہم نسل جنات بھی اس کے پیرو کار بن گئے ، بے شک قوم جنات میں ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے ابلیس کا ساتھ نہ دیا ہو اور اللہ کے احکامات پر عمل پیرا رہے ہوں ، اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں اور ایک نیک و صالح زندگی گزاری ہو ، جیساکہ ہمیں قرآن اور احادیث سے معلوم ہوا کہ جنات حضرت سلیمان علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اور ان کی اطاعت و فرماں برداری کرتے تھے اور بعض ازاں ختم المرسلین اللہ کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ پر بھی جنات کے بعض قبائل ایمان لائے اور مسلمان ہوئے لیکن بہت سے قبائل اسلام نہیں لائے اور بدستور ابلیس کے پیرو کار رہے ، ان کا کام اولاد آدم کو بہکانا اور تکلیفیں پہنچانا رہا ، یقینا یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے ۔
جنات کی شرارتوں اور انسانوں کو تکلیف پہنچانے کے واقعات ہمیں حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کے دوران بھی نظر آتے ہیں ، اکثر صحابہ ؓ نے جنات کی شر پسندی سے حضور اکرم ﷺ کو مطلع کیا ، ہم یہاں وہ تمام واقعات نقل کرکے مضمون کی طوالت میں اضافہ نہیں کرنا چاہتے ، صرف ایک اہم واقعے کی طرف ضرور اشارہ کریں گے ، ایک مشہور صحابی نے حضور اکرم ﷺ سے شکایت کی کہ میں رات کو ٹھیک طرح سو نہیں سکتا ، مجھے عجیب و غریب آوازیں پریشان کرتی ہیں تو آپ نے فرمایا کہ یقینا وہاں کچھ شیاطین جنات ہیں اور پھر کاغذ قلم منگواکر جنات کے نام ایک فرمان تحریر کرایا اور صحابی کو دیا کہ آپ اپنے سرہانے رکھ کر سوئیں ، دوسرے دن صحابی نے آکر بتایا کہ رات جنات کے رونے اور چیخنے کی آوازیں آئیں اور پھر بند ہوگئیں ، آپ نے تصدیق فرمائی کہ وہ شیاطین اب ختم ہوگئے ہیں ، آپ کا یہ تاریخی فرمان کتب حدیث میں موجود ہے ۔
قصہ مختصر یہ کہ جنات کا وجود اور ایک مخلوق کی حیثیت سے ان کا زندگی گزارنا ، اُن کا رہن سہن ، کھانا پینا، مذکر و مو¿نث ہونا، باہم شادی بیاہ کرنا،اولاد پیدا کرنا، ایک حقیقت ہے، قدیم مذاہب اور اسلام اس حقیقت سے انکار نہیں کرتے،اُسی طرح جنات اور انسانوں کے درمیان رابطے اور کسی خاص تعلق کا ثبوت بھی واقعات و شواہد کی روشنی میں مل جاتا ہے،کُتب احادیث میں بھی ایسے واقعات موجود ہیں جن سے انسان اور جن کے درمیان رابطے اور تعلق ثابت ہوتا ہے،ایک واقعہ مختلف انداز میں یہ بھی ہے کہ مدینے میں ایک عورت کے پاس کوئی جن آیا کرتا تھا اور دونوں کے درمیان جنسی تعلقات تھے پھر اچانک اُس جن نے آنا بند کردیا لیکن چند روز کے وقفے کے بعد ایک روز وہ آیا اور عورت سے دور رہا ، اُس عورت نے پاس نہ آنے کا سبب پوچھا تو جن نے جواب دیا ”مکہ میں ایک نبی پیدا ہوئے ہیں اور انہوں نے زنا حرام کردیا ہے“ یہ کہہ کر وہ واپس چلا گیا۔یہ واقعہ مختلف انداز میں مختلف راویوں نے بیان کیا ہے اور ایسے دیگر واقعات بھی مل جاتے ہیں۔
جنات میں شادی
جنّات کے مذکرو مو¿نث ہونے اور اُن کے درمیان باہمی تعلق کے حوالے سے علمائے کرام سورئہ رحمٰن کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں جس میں اہلِ جنت کی بیویوں کی صفت بیان کی گئی ہے کہ ”جنہیں ان جنتیوں سے پہلے کبھی کسی انسان یا جن نے نہ چُھوا ہوگا“
انسان اور جنات میں شادی
یہ بھی ایک بحث طلب موضوع رہا ہے،بعض علماءانسان اور جنات کے درمیان شادی یا جنسی تعلق کے قائل ہیں اور بعض اس کا انکار کرتے ہیں،اس حوالے سے قدیم مفسرین نے بھی اپنی آراءپیش کی ہیں اور جدید دور کے علماءبھی اپنی اپنی رائے رکھتے ہیں اور بعض مفسرین نے ملکہ سبا کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ اُس کی ماں ایک جنّی تھی ، اس کے علاوہ بھی اکابر علمائے کرام نے اس حوالے سے اظہارِ خیال کیا ہے،علامہ ابنِ تیمیہ اپنی کتاب مجموع الفتاویٰ میں لکھتے ہیں ”کبھی کبھی انسان اور جنات آپس میں نکاح کرتے ہیں اور ان کی اولاد بھی ہوتی ہے، یہ چیز بہت مشہور اور عام ہے“اس حوالے سے بعض احادیث بھی موجود ہیں،مثلاً یہ کہ حضورِ اکرم ﷺ نے فرمایا ”آدمی جب اپنی بیوی سے ہم بستری کرتا ہے اور بسم اللہ نہیں پڑھتا تو شیطان اُس کی بیوی سے مجامعت کرتا ہے“
حضرت عبداللہ ابنِ عباسؓ کہتے ہیں ”اگر آدمی اپنی بیوی سے حالاتِ حیض میں صحبت کرتا ہے تو شیطان اس کی بیوی سے جماع کرنے میں سبقت کرجاتا ہے ،بیوی حاملہ ہوتی ہے اور بچہ ہیجڑا پیدا کرتی ہے،سب ہیجڑے جنات کی اولاد ہیں“
ایک اور حدیث جو علامہ ابنِ جریر سے روایت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نبی ﷺ نے جنوں سے شادی کرنے سے منع کیا ہے،اسی طرح فقہاءکا یہ کہنا کہ جنات اور انسانوں میں شادی بیاہ جائز نہیں،تابعین کا اس فعل کو مکروہ سمجھنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کام ممکن ہے،اگر ممکن نہ ہوتا تو شریعت اس کے جواز و عدم کا فتویٰ نہ دیتی۔
جنات اور انسان کا عنصری اختلاف
جنات کا عنصر آگ ہے اور انسان کا خاک،اس حوالے سے بھی اعتراض کا پہلو موجود ہے جس کا جواب یہ ہے کہ ہر چند جنات کی تخلیق آگ سے ہوئی لیکن اب وہ اپنے آتشی عنصر پر بالکل اسی طرح نہیں ہےں جیسے انسان اپنے خاکی عنصر پر قائم نہیں ہے کیوں کہ دونوں کی تخلیق کے بعد اصل عنصر اپنی اصلی حالت میں نہیں رہا یعنی انسان محض مٹی کا ایک مجسمہ نہیں ہے،بلکہ اپنے کھانے پینے اور دیگر اعمال کے سبب وہ تمام عناصر سے مستفید ہوتا ہے لہٰذا جنات بھی محض آگ کا کوئی شعلہ نہیں ہےں بلکہ ایک باقاعدہ زندگی گزارنے والی کائناتی مخلوق ہےں،البتہ یہ ضرور ہے کہ جنات کا باپ خالص آگ سے پیدا ہوا تھا جیسا کہ انسانوں کے باوا آدمؑ خالص مٹی سے بنے تھے،پھر ان میں روح پھونکی گئی۔
جناتی معاشقے
انسانوں اور جنات کے درمیان شادی بیاہ یا بغیر شادی کے رومانی یا جنسی تعلقات سے متعلق واقعات اور قصے قدیم زمانے سے روایت ہوتے چلے آرہے ہیں اور آج بھی ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جیسا کہ زیرِ بحث ”آپ بیتی“ سے ظاہر ہے، ہم ذاتی طور پر بھی ایسے واقعات سے واقف ہیں،برسوں پہلے ایک خاتون ہمارے پاس آئیں اور رازداری کا وعدہ لے کر اپنا قصہ بیان کیا، ان کے کسی جن سے تعلقات تھے یعنی وہ انہیں پسند کرتا تھا لیکن اچانک ایک روز ناراض ہوگیا کیوں کہ انہوں نے اس کے بارے میں اپنے شوہر کو بتادیا تھا، بس یہی بات شدید اختلاف کا باعث بن گئی اور نتیجے کے طور پر اس کی عنایات کے بجائے مخالفت شروع ہوگئی،شوہر کا کاروبار تباہ ہوگیا اور اُن کا خاندان پریشانیوں میں مبتلا ہوگیا،دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اُس جن سے نجات نہیں چاہتی تھیں بلکہ اسے منانا چاہتی تھیں تاکہ دوبارہ اُس کی عنایات شروع ہوجائےں ، ان کے بقول جب پہلی بار اس سے رابطہ ہوا تو وہ اور ان کا شوہر بہت ہی پریشانی اور تنگ دستی کی زندگی گزار رہے تھے مگر پھر رفتہ رفتہ ان کے حالات بدلنے لگے اور شوہر کا کاروبار ترقی کرنے لگا مگر خرابی یہ ہوئی کہ اس ترقی سے ان کے شوہر نے ناجائز فائدہ اُٹھایا ، وہ شراب پینے لگا اور دوسری عورتوں سے بھی اُس کے رابطے اور تعلقات بڑھنے لگے،دونوں میاں بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے، ایسے ہی ایک جھگڑے کے دوران میں انہوں نے شدید غصے کے عالم میں شوہر کے سامنے اپنا رازفاش کردیا اور اسے دھمکی دی کہ وہ آج جس مقام پر ہے ان کی وجہ سے ہے اور وہ چاہیں تو اُسے کوئی سخت سزا بھی دلواسکتی ہیں کیوں کہ ایک جن سے اُن کی دوستی ہے۔یہ بات سن کر شوہر مزید آگ بگولا ہوگیا اور اس نے نشے کی حالت میں اُس جن کو بھی بے تحاشا گالیاں دیں اور انہیں بھی مارا پیٹا ، بس اس کے بعد سے جن بھی اُن سے ناراض ہوگیا اور اس نے آنا چھوڑ دیا،وہ چاہتی تھیں کہ انہیں کوئی ایسا عمل بتایا جائے کہ وہ جن دوبارہ ان سے رابطہ کرلے اور اس کی ناراضگی دور ہوجائے۔
اس موقع پر ایک اور واقعہ کا بھی ذکر ہم ضروری سمجھتے ہیں،ہمارے ایک بزرگ دوست جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، عملیات کے شوقین رہے ہیں،جنات و آسیب کے مریضوں کا علاج کرتے رہے ہیں،اُن کے اُستادِ اول مولانا جان محمد صاحب کراچی جیکب لائن کی ایک مسجد میں امام تھے اور وہ بھی اس فیلڈ کے پرانے کھلاڑی تھے،یہ واقعہ انہی سے متعلق ہے۔
مولانا جان محمد کے پاس ایک آسیب زدہ حسین لڑکی کو لایا گیا ، والدین نے بتایا کہ رات اچھی بھلی نارمل حالت میں سوئی تھی،صبح آنکھ کھلی تو دیکھا کہ دُلہن بنی ہوئی ہے،قیمتی لباس ، قیمتی زیورات پہنے ہوئے ہے اور ہاتھوں پیروں پر مہندی رچی ہوئی ہے،والدین سخت حیران ہوئے اور اُس سے پوچھا کہ تجھے کیا ہوا ہے ؟ لڑکی نے ایک غیر مانوس آواز میں جواب دیا ”میرا نام منگل سنگھ ہے اور میں نے اس سے شادی کرلی ہے، اب میں کسی قیمت پر اس کو نہیں چھوڑوں گا“
مولانا جان محمد نے اُس لڑکی کا علاج کیا جو ایک لمبے عرصے تک جاری رہا اور بالآخر وہ لڑکی صحت یاب ہوگئی،اُس جن کو انہوں نے قید کردیا،علاج معالجے کے دوران میں جو دیگر واقعات پیش آئے اُن کی تفصیل بھی کافی دلچسپ ہے جو ہمیں ہمارے بزرگ دوست نے سنائی کیوں کہ اُن دنوں وہ اپنے اُستاد مولانا جان محمد کی خدمت میں حاضر رہتے تھے، مولانا کے عقیدت مندوں میں ایک جن بھی تھا جو ایسے ہی کسی کیس کے ذریعے اُن کے پاس آیا تھا اور بعد ازاں مسلمان ہوکر اُن کی مسجد میں ہی رہنے لگا تھا،انہوں نے اُس کا نام ”محمد علی آتشی“ رکھ دیا تھا،مولانا کے انتقال کے بعد وہ ہمارے بزرگ دوست سے رابطے میں رہنے لگا اور جب ہمارا اُن سے تعلق قائم ہوا تو وہ اُن کے ساتھ ہی رہتا تھا چناں چہ ہمیں بھی اُس سے ملنے اور گفتگو کرنے کا موقع ملا، ایک موقع پر کھانا کھانے کے دوران میں ہم نے اُسے کھانا کھاتے ہوئے بھی محسوس کیا مگر صرف اس طرح کہ چاولوں کی پلیٹ سے چاول غائب ہورہے تھے۔
عزیزان من! جس آپ بیتی کی وجہ سے یہ موضوع چھڑ گیا ہے وہ یقیناً ایسی نہیں ہے کہ مندرجہ بالا تفصیلات کے بغیر اس پر بات کی جائے، ہم نے ضروری سمجھا کہ اصل مسئلہ پر کوئی تجزیہ کرنے سے پہلے اُس مخلوق پر بات کرلی جائے جو اُس مسئلے سے متعلق ہے،اس طرح ہمارے قارئین کی معلومات میں یقیناً قابلِ قدر اضافہ بھی ہوگا۔