معاشرے میں نت نئے مسائل کا اضافہ کوئی نئی بات نہیں، نہ ہی یہ کوئی انوکھا معاملہ ہے مگر فی زمانہ یہ معاملہ پے چیدہ ترین ضرور ہوتا جارہا ہے اور یہی پے چیدگی مسائل کا ناطہ سحر و جادو اور آسیب و جنات سے جوڑ دیتی ہیں۔
ظاہر ہے کہ جب کوئی مسئلہ حل ہی نہ ہوسکے اور لاکھ کوششوں کے بعد بھی انسان اپنی تباہ حالی سے نجات نہ پاسکے تو اس کا ذہن قدرتی طور پر کسی نادیدہ ماورائی ہاتھ کی کارفرمائی کے بارے میں سوچنے لگتا ہے اور بالآخر یہ سوچ اسے کسی عامل، کامل، ماہر روحانیات، بزرگ، بابا جی وغیرہ کے پاس لے جاتی ہے جہاں اس کے شک کو یقین میں بدل دیا جاتا ہے۔ بعد ازاں علاج معالجے کے حوالے سے روحانی کمالات کا وہ سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا‘ مریض اس دوران میں مادّی اور روحانی علاج کے درمیان فٹ بال ہی بنا رہتا ہے اور بالآخر خود کو لا علاج قرار دے کر حالات کے جبر اور اپنی بد قسمتی کا یقین کرکے صبر کرلیتا ہے۔
ہم اکثر ایسے افراد کو کوئی نہ کوئی مادی یا روحانی مشورہ دیتے رہتے ہیں‘ ایسے مریضوں یا پریشان حال لوگوں کی اکثریت طویل بیماریاں یا دیگر پریشانیاں جھیلتے جھیلتے شدید اعصابی و ذہنی کمزوری کا شکار ہوجاتی ہے پھر علاج میں مسلسل ناکامی کی وجہ سے ایسے لوگ دوا اور دعا دونوں پر اعتماد و یقین کرنا چھوڑ بیٹھتے ہیں‘ ان میں قوت ارادی کا فقدان ہوتا ہے‘ ہر نئے معالج سے پہلے اس بات کی ضمانت طلب کرنے لگتے ہیں کہ وہ ٹھیک بھی ہوجائیں گے یا نہیں‘ ان کے حالات میں کبھی کوئی تبدیلی آسکتی ہے یا نہیں؟
ایسے تمام پریشان حال لوگوں کے علاج کے سلسلے میں پہلی ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ان کی اعصابی کمزوری کو دور کیا جائے، انہیں ذہنی انتشار سے نجات دلانے کے لیے کوئی تدبیرکی جائے تاکہ ان کی قوت ارادی مضبوط ہوسکے اور ان کے اندر زندہ رہنے کی لگن کے ساتھ حالات کی سختی کا مقابلہ کرنے کی قوت پیدا ہوسکے۔
ایسے مریضوں کی اکثریت کے لیے ہم یہاں کچھ علامات درج کر رہے ہیں‘ انہیں غور سے پڑھیے اور پوری دیانت داری کے ساتھ اپنا تجزیہ کیجیے کہ کیا آپ تو ایسی کسی علامت کے زیر اثر نہیں ہیں؟ ہمیں یقین ہے کہ مندرجہ ذیل علامات میں سے کچھ علامات آپ اپنے اندر ضرور پائیں گے۔ اگر ایسا ہے تو یقینا آپ کو اپنی ذہنی و اعصابی اصلاح پر سب سے پہلے توجہ دینا ہوگی، ورنہ دنیا کا کوئی بھی مادّی یا روحانی علاج آپ کے مسائل حل نہیں کرسکتا۔
آئیے ترتیب واران علامات کا مطالعہ کریں۔
1 ۔ کیا آپ کسی بھی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا ہیں؟
2 ۔ کیا آپ ایک منتشر الخیال شخصیت ہیں؟
3 ۔ کیا آپ کی قوتِ ارادی، قوتِ فیصلہ، قوتِ اظہار، قوتِ مزاحمت کمزور ہے؟
4 ۔ کیا آپ اپنے موجودہ پیشے یا حالات سے ناخوش ہیں؟
5 ۔ آپ حسد یا غیبت کا شکار تو نہیں ہیں؟
6 ۔کیا آپ چغل خوری کی عادت سے نالاں ہیں؟
7 ۔ کیا آپ منشیات کے عادی ہیں اور اس عادت کو ترک کرنا چاہتے ہیں؟
8 ۔ کیا کوئی ایسی وجہ آپ کے علم میں ہے جس کی بنا پر لوگ آپ کو ناپسند کرتے ہیں؟
9 ۔ کیا آپ واہموں اور اَن دیکھے خدشات میں مبتلا ہیں؟
10 ۔ کیا آپ خود کو قابل رحم انسان سمجھتے ہیں؟
11 ۔ کیا آپ اپنی لڑکپن کی عاداتِ بد سے ابھی تک چھٹکارا حاصل نہیں کرپائے ہیں۔
12 ۔ کیا آپ کا وزن اپنی عمر اور قد سے کافی زیادہ ہے؟
13 ۔ کیا آپ بات چیت کرتے ہوئے ہکلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں؟
14 ۔ کیا آپ اپنا ذاتی گھر نہ ہونے کی وجہ سے ہر وقت پریشان رہتے ہیں؟
15 ۔ کیا آپ اکثر مقروض رہتے ہیں؟
16 ۔ اگر آپ مرد ہیں تو کیا 70 سال سے کم عمر میں بھی خود کو بوڑھا سمجھتے ہیں؟اوراگر خاتون ہیں تو کیا 50 سال سے کم عمر میں خود کو بوڑھا تصور کرنے لگی ہیں؟
17 ۔ آپ مرد ہیں یا عورت، کیا خود کو بدصورت سمجھتے ہیں یا اپنے کسی جسمانی نقص کی وجہ سے لوگوں سے گھبراتے ہیں؟
18 ۔ کیا آپ بہت جلد بدحواس ہوجاتے ہیں اور اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھتے؟
19 ۔ کیا کم عمری میں آپ کا حافظہ کمزور ہے؟
20 ۔ کیا آپ نظر کا چشمہ اتارنا چاہتے ہیں؟
21۔ آپ ڈپریشن سے نجات چاہتے ہیں؟ (کیا آپ کی صبح کی نماز خصوصاً اور دوسری نمازیں عموماً سستی کی وجہ سے قضا ہوجاتی ہیں؟
22 ۔ کیا آپ اپنے دفتر اسکول یا کالج یا کارخانے میں صحیح وقت پر حاضری نہیں دیتے؟
23 ۔ کیا آپ کے افسر یا ماتحت آپ سے نالاں رہتے ہیں؟
24 ۔ کیا آپ جھوٹ، چوری اور کنجوسی کی عادت میں مبتلا ہیں اور اسے چھوڑنا چاہتے ہیں؟
25 ۔ کیا آپ سوچے بغیر بولتے ہیں اور پھر شرمندگی اٹھاتے ہیں؟
عزیزان من! اگر ایسا ہے تو سمجھ لیجیے کہ آپ کی بیماریوں اور الجھنوں اور پریشانیوں کا علاج بہت مشکل ہے۔ آپ کے مسائل میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ کامیابیاں آپ سے دور اور ناکامیاں ساتھ ساتھ لگی رہیں گی۔
مندرجہ بالا علامتوں سے نجات کے لیے ہم ایک چھوٹی سی اور نہایت آسان ترکیب یہاں لکھ رہے ہیں، اگر آپ نے اس پر عمل شروع کردیا تو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی میں حیرت انگیز تبدیلیاں دیکھیں گے۔
ایک پُرسکون کمرہ منتخب کیجیے جس میںہوا کا گزر ہوتا ہو۔ اگر رات کا وقت ہے تو تمام بتیاں بجھا کر ایک موم بتی جلا لیجیے‘ اگر آپ کو خوشبو پسند ہے تو پھر من پسند خوشبو کا چھڑکاو¿ بھی کرلیں اور اگر موسیقی سے دلچسپی ہے تو اپنی پسندیدہ موسیقی کا بھی دھیمی آواز میں اہتمام کرلیجیے‘ شمال کی طرف رخ کرکے ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھ جایئے‘ چند گہری گہری سانسیں ناک سے لیجیے اور منہ سے خارج کیجیے تاکہ جسم کا تناو¿ ختم ہوجائے اور وہ ڈھیلا پڑ جائے‘ اب اپنی آنکھیں بند کرکے اپنے تصور کے پردے پر خود کو اسی کمرے اور اسی کرسی پر بیٹھا ہوا دیکھیے، اپنے حقیقی مسائل اور ان کی وجوہات کو تلاش کیجیے یعنی عام حالات میں جسے آپ نے مسئلہ الجھن یا بیماری بنا رکھا ہے وہ واقعی حقیقت میں ویسا ہی مسئلہ یا الجھن ہے جیسا آپ نے سمجھ رکھا ہے؟ مسئلے سے متعلق ممکن حد تک خود سے سوال کیجیے اور پھر اس کا جواب ڈھونڈ لیجیے۔
چند سوال درج ذیل بھی قابل غور ہیں، ان پر بھی غورو فکر کیجیے۔
”میں کس قسم کا انسان ہوں؟ میرا انداز فکر مثبت ہے یا منفی؟“
”میرے انداز فکر نے میری صحت اور زندگی کو کس حد تک متاثر کر رکھا ہے؟“
” کیا میں حد سے زیادہ حساس واقع ہوا ہوں؟ “
”میں نے جن مسئلوں کو اپنی جان کا روگ بنالیا ہے، کیا وہ نظر انداز کیے جاسکتے ہیں؟ کس حد تک اور کیوں کر؟“
” کیا میں در حقیقت زندگی میں آگے بڑھنا چاہتا ہوں یا چاہتی ہوں اور ترقی کرنا چاہتا ہوں یا چاہتی ہوں؟“
”جو کچھ میرے پاس نہیں ہے، اس کے بغیر باقی لوگ کیسے زندگی بسر کرتے ہیں اور جو کچھ میں چاہتا ہوں کیا اس کے بغیر با عزت زندگی گزاری جاسکتی ہے؟“
” اپنے مستقبل کے لیے میرے پاس کیا منصوبے اور عزائم ہیں؟“
” کیا میں اپنی غلطیوں کی پردہ پوشی کے لیے دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتا ہوں؟ کیا اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ذمے دار دوسروں کو سمجھتا ہوں؟“
” میرا رویہ میرے اہل خانہ ، پڑوسیوں، محلہ داروں، دفتری یا کاروباری ساتھیوں، عزیزوں، رشتہ داروں، استادوں، کلاس فیلوز، بازار میں خریدوفروخت کرتے وقت دکان داری کرتے وقت گاہکوں کے ساتھ ، کھیل کے میدان میں اور گاڑی چلاتے وقت کیا ہوتا ہے اور درحقیقت کیا ہونا چاہیے؟ مجھے کس کے ساتھ کس قسم کا برتاو کرنا چاہیے؟“
” کیا میری جسمانی بیماری کے پیچھے کوئی ذہنی الجھن پوشیدہ ہے؟“
ہمیں یقین ہے کہ اگر آپ نے ان سوالات پر غور شروع کردیا اور ان کے سچے اور حقیقی جواب پالیے تو آپ اپنے حقیقی مسئلے کی تہہ تک پہنچ جائیں گے اور جب الجھن یا مسئلے یا بیماری کا درست سراغ مل جائے تو پھر اس سے نمٹنے کے طریقے بھی ذہن خود بخود نکال لیتا ہے بلکہ یہ بھی امکان ہے کہ اس غورو فکر کے بعد وہ مسئلہ جسے آپ نے جان کا عذاب بنا رکھا ہے خود بخود ختم ہی ہوجائے تاہم جب آپ اپنی حقیقی تکلیف اور اس کی حقیقی وجوہات جان لیں تو پھر ان کو رفع کرنے کے لیے سیلف ہپنائزم کے ذریعے اپنے لاشعور سے مدد لیں‘ آپ کا شعور اپنے مضبوط اور وسیع و عریض بازو پھیلا کر آپ کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہے، آپ ذرا اس کو پکار کر تو دیکھیں۔
خود احتسابی کے اس عمل سے گزرنے کے بعد آپ جو کچھ چاہتے ہیں اس کے لیے یقین اور اعتماد سے سجے خود ترغیبی جملوں کا اپنے لیے انتخاب کرلیں تاکہ وہ جملے شعوری راہ سے لاشعور تک پہنچائے جائیں۔ ایسے جملوں کے انتخاب میں کافی سمجھ داری اور توجہ کی ضرورت ہوگی اور کوشش کریں کہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مفہوم کی ادائیگی ہوسکے مثلاً اگر آپ ایک خاتون خانہ ہیں اور اس کی وجہ شوہر کا غلط رویہ اور طرز عمل ہے تو آپ نے یہ جان لیا ہوگا کہ شوہر کا طرز عمل آپ ہی کے ساتھ غلط کیوں ہے؟ ہوسکتا ہے، اس”کیوں“ میں آپ کی ہی کچھ کوتاہیاں شامل ہوں چناں چہ سب سے پہلے تو یہ ارادہ کرلیں کہ آئندہ وہ کوتاہیاں آپ سے سر زد نہ ہوں گی اور جب کوتاہیاں ہی آپ سے سر زد نہ ہوں گی تو شوہر کا طرز عمل بھی تبدیل ہونے لگے گا‘ اس تبدیلی سے آپ کے اعصاب کا دباو بھی ختم ہوجائے گا‘ اگر اس کے برعکس صورت حال ہے یعنی آپ کی کوتاہیاں شامل نہیں ہیں تو پھر شوہر کے ناجائز برتاو کو تبدیل کرنے کے ممکنہ طریقے اور ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے اپنی ذات کو حالات سے مقابلے کے لیے تیار کرنا پڑے گا اور اس تیاری میں لاشعور کی مدد سحبیشنز کے ذریعے حاصل کرنا ہوگی۔
خیالات و احساسات کے دباﺅ سے نجات کا ذریعہ
انسان فطرت سے نہیں لڑ سکتا‘ فطرت کے تقاضوں سے منہ نہیں موڑ سکتا‘ فطرت کے تقاضوں سے فرار کی کوشش نہایت پیچیدہ اور بعض اوقات بھیانک قسم کے مسائل کو جنم دیتی ہے۔
عورت ہو یا مرد فطری جذبات اور احساسات اس کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں مثلاً کسی پسندیدہ بات یا منظر سے متاثر ہو کر خوش ہونا اور فرحت حاصل کرنا یا کسی نا پسندیدہ بات یا صورت حال سے متاثر ہو کر ملول یا غمزدہ ہونا‘ غصے میں آنا وغیرہ۔
ایک معصوم بچہ جیسے جیسے بلوغت کی دہلیز کی طرف قدم بڑھاتا ہے اس کے جذبات و احساسات میں اسی مناسبت سے تبدل و تغّیر رونما ہوتا ہے‘ یہ نئے جذبات و احساسات اس کے فطری جسمانی و روحانی تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں لیکن معاشرتی و اخلاقی اور مذہبی قوانین ان جذبات و احساسات کے برہنہ اظہار پر معترض ہوتے ہیں‘ انہیں مخصوص حدود و قیود کا پابند کرتے ہیں تاکہ جذبات و احساسات کا برہنہ اظہار انسان کو وحشت و درندگی کی طرف نہ لے جائے اور ایک مہذب معاشرے کا مہذب فرد بن کر رہے۔
اخلاقی و مذہبی پابندیاں بھی اگر نارمل حدود سے گزر کر انتہاپسندی کی صورت اختیار کرلیں تو اکثر حساس طبیعت افراد کی نفسیات کے بگاڑ کا سبب بن جاتی ہیں اور وہ عجیب و غریب نوعیت کی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو کر اپنی زندگی کو عذاب بنا لیتے ہیں‘ اکثر تو دوسروں کی تضحیک کا نشانہ بھی بنتے ہیں مثلاً آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض افراد کو صفائی اور پاکیزگی کا خبط ہوجاتا ہے‘ ہاتھ بھی دھونا شروع کریں تو خاصی دیر تک انہیں مل مل کر رگڑ رگڑ کر دھوتے رہتے ہیں‘ دوسرے لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں ان کا ہاتھ گندہ نہ ہوجائے‘ الغرض ہر طرف سے گندگی کا یہ احساس ان پر اتنا زیادہ غالب ہوتا ہے کہ ان کے لیے معاشرے میں گھل مل کر رہنا مشکل ہوجاتا ہے اور وہ عموماً دوسروں کے لیے تماشا بن جاتے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے زیادہ پچیدہ کیس خواتین میں نظر آتے ہیں ‘ گندگی اور ناپاکی‘ گناہ و ثواب‘ جائز و ناجائز کے گہرے احساسات‘ حالات اور ماحول کے جبر کی وجہ سے اکثر ان کے لاشعور میں اس طرح جذب ہوجاتے ہیں کہ پھر انہیں عمر بھر اپنے فطری تقاضوں کے خلاف جنگ میں مصروف رہنا پڑتا ہے‘ اس جنگ کے نتیجے میں بڑے بڑے تباہ کن امراض جنم لیتے ہیں‘ گھریلو اور ازدواجی زندگی تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی ہے‘ اولاد کی پرورش بھی نامناسب طریقے پر ہوتی ہے‘ شوہر دوسری شادی کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں یا دوسری خواتین سے عشق لڑانا شروع کردیتے ہیں اور اس تمام صورت حال کا ذمے دار سحر و جادو یا کسی جن بھوت کو قرار دے دیا جاتا ہے۔