الواح و طلاسمِ سیارگان اور قوانینِ نجوم

شرفِ زحل کے تناظر میں ایک اہم اور قابلِ غور تحریر جو مشعل راہ ہے

تاحال یہ مسئلہ اکثر ذہنوں میں الجھن کا باعث ہے کہ شرفِ زحل کے اوقات میں زحل کا تحت الشعاع ہوجانا الواح و طلاسمِ زحل کی تیاری میں کس حد تک مانع ہوگا اور کیا اس وقت تیار کیے گئے الواح و نقوش، بھرپور قوت کے حامل ہوں گے یا نہیں؟ اس وقت کیے گئے اعمال کی تاثیر کس درجہ معتبر ہوگی؟ بعض لوگ اپنے پیش کردہ اعمال و نقوش کے بارے میں بھی بہت خوش امید ہیں کہ وہ ناقص اور کمزور وقت میں بھی تیر بہدف اور مؤثر ہوں گے تو ان کی خدمت میں تو صرف اتنا ہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ پھر وہ شرفِ زحل کا بھی انتظار نہ فرمائیں، ایسے زبردست نقش یا لوح کو جب دل چاہے تیارکرلیں اور فائدہ اٹھائیں۔
ماضی اور حال کے بڑے بڑے عاملین و کاملین بلاوجہ ہی سیارگان کے سعد و باقوت اوقات کے انتظار میں بیٹھے رہتے تھے، ہمارے خیال میں اس نوعیت کے دعوے کرنے والے الواح و طلاسمِ سیارگان کی تیاری کے بنیادی اصول و قواعد سے ناواقفیت کی وجہ سے ایسی مجہول باتیں کرتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرکے اپنا اْلوّ سیدھا کرتے ہیں۔
ایک نام نہاد روحانی رسالے میں نہایت دلچسپ رائے گزشتہ دنوں نظر سے گزری جس میں کہا گیا تھا کہ ’’اْستادانِ نجوم فرماتے ہیں کہ سیارہ شمس جس گھر میں حرکت کر رہا ہو اْس برج میں جتنے بھی سیارگان ہمراہ ہوں گے اْن کی قوت ختم ہوجاتی ہے،صرف دو سیارگان کی قوت شمس کے ہمراہ قائم رہتی ہے اور وہ زہرہ اور زحل ہیں دیگر کسی کی قوت برقرار نہیں رہتی‘‘۔
اس بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ وہ ’’اْستادانِ نجوم‘‘ کون ہیں جن کا یہ فرمان ہے؟حالاں کہ یونانی علمِ نجوم ہو یا ویدک، یہ اصول متفقہ علیہ ہے کہ شمس کے قریب 15 درجے کے اندر جو بھی سیارہ موجود ہوگا وہ غروب ہونے کی وجہ سے اپنا اثر اور قوت کھودے گا اور تقریباً ساڑھے آٹھ درجہ قربت پر تحت الشعاع ہوجائے گا،اْس کی مثال ایک جسمِ سوختہ و مردہ کی سی ہوگی۔
تازہ شمار ے میں یہ وضاحت بھی کر دی گئی ہے کہ مندرجہ بالا رائے حکیم غلام قادر کی کتاب’’مراۃ النجوم‘‘سے لی گئی ہے تو واضح ہو کہ مراۃ النجوم ہندی جوتش کی کتاب ہے اور ہندی سسٹم کے تحت شرف زحل ابھی بہت دور ہے، موجودہ شرف زحل یونانی سسٹم کے تحت ہورہا ہے اور تمام عملیاتِ جفر یونانی سسٹم کے تحت ہی انجام دیے جاتے ہیں کیونکہ مسلمان منجمین و جفّار یونانی علم نجوم سے ہی کام لیتے تھے لہٰذا اول تو اس موقع پر ہندی جوتش کی کسی کتاب سے کوئی دلیل دینا ہی غلط ہے ، دوم یہ کہ اپنی اس رائے میں حکیم غلام قادر تنہا ہیں، باقی ویدک سسٹم کے اصولوں کے مطابق بھی تمام سیارگان شمس کی قربت کے سبب تحت الشعاع ہوکر کمزور ہوجاتے ہیں۔
اس معاملے میں ہم ویدک علمِ نجوم سے کوئی سند پیش نہیں کرنا چاہتے، صرف چند آراء مسلم منجمین اور عیسائی منجمین کی پیش کریں گے کیونکہ یونانی علم نجوم کے قوانین قدیم زمانے سے اہل مشرق و مغرب کے نزدیک یکساں ہیں، الواح و طلسمات کی تیاری میں اہل مغرب،اہل مشرق کی ہی پیروی کرتے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ مسلمان علماء کے عملیات ونقوش اور اہل مغرب کے طریق کار میں اسلامی فرق نمایاں ہے لیکن سعد و نحس اوقات کے استخراج میں اصول وقواعدِ نجوم ایک ہی ہیں۔
زنجانی جنتری 2011ء میں محترم انتظار حسین شاہ زنجانی کا موقف سامنے آچکا ہے یعنی’’ شرف یافتہ ستارے کو بادشاہ فلک آفتاب سے بھی دور ہونا چاہیے،شرفی ستارہ غروب اور تحت الشعاع آفتاب نہ ہو‘‘
ماضی قریب میں حضرت کاش البرنیؒ اپنی کتاب قواعدِ عملیات میں لکھتے ہیں ’’جب تک کوئی ستارہ غروب رہے، اْسے تحت الشعاع کہتے ہیں ، اس وقت ترقی اور حصول کے عمل تیار نہ کرنے چاہئیں بلکہ نحس اعمال کرنے چاہئیں‘‘۔
ماضی کے عظیم عرب ریاضی داں، فلاسفر اور ماہرِ علم نجوم ابو معشر الفلکی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں،آج مغرب میں ان کی کتب ’’کتاب القرانات‘‘اور ’’کتاب الالف‘‘ کا انگریزی میں ترجمہ ہوچکا ہے، الفلکی کے بارے میں وکی پیڈیا سے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں، وہ سیارگان کے شرف و ہبوط اور قوت و ضعف کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’جب ستارے سورج کی روشنی سے دور ہوتے ہیں تو وہ اپنے کام اور عمل میں نمایاں نظر آتے ہیں،اْن میں اپنے معمول سے بڑھ کر قوت پائی جاتی ہے ، جب مریخ شمس سے دور ہوجاتا ہے تو اْس کی مثال ایک تیز دھار ، بے خطا خنجر جیسی ہوتی ہے جس کاوار خالی نہیں جاتااور جب زحل شمس کی شعاؤں سے دور ہوجاتا ہے تو اس کی مثال اْس شیر جیسی ہوجاتی ہے جو اپنے بھٹ سے نکلتا ہے اور نہایت غضب ناک ہوتا ہے اور جب مشتری شمس کی شعاؤں سے آزاد ہوتا ہے تو وہ ایک انصاف پسند انسان کے مانند ہوتا ہے اور جب زہرہ شمس کی شعاؤں سے آزاد ہوتی ہے تو اس کی مثال ایک صحت یاب عورت جیسی ہوتی ہے جس کی تمام تکلیفیں دور ہوگئی ہوں‘‘۔
الفلکی کے مندرجہ بالا بیان سے کسی بھی سیارے کے تحت الشعاع ہونے اور دوبارہ طلوع ہونے کا احوال واضح ہے ، آگے چل کر وہ مزید لکھتا ہے ’’جب زحل تحت الشعاع ہو تو اْس کی کیفیت اْس ابتر بوڑھے جیسی ہوتی ہے جو کسی قابل نہیں ہوتا‘‘۔
سولہویں صدی کے ایک عیسائی ماہر نجوم کارنیلئس اگرپّا جو مغرب میں ایسٹرولوجیکل میجک کے ماسٹر تسلیم کیے جاتے ہیں جن کی کتاب ’’تھری بُکس آف اکلٹ فلاسفی‘‘ نہایت مشہورو معروف ہے،اعمالِ سیارگان کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’آپ جب بھی کسی کوکب سے متعلق نقش یا عمل تیار کریں تو اس کوکب کو سعد حالت میں اور باقوت ہونا چاہیے‘‘۔
اگر ابتدائی زمانے کے ماہرِ فلکیات پٹولمی(بطلیموس) سے دورِ حاضر تک کے معروف منجمین کی آراء جمع کی جائیں تو صورت حال یہی ہوگی جو اوپر کی چند مثالوں میں پیش کی گئی ہے۔ آخر میں ایک امریکن ایسٹرولوجر کرسٹوفر ورناک کا حوالہ جو روایتی علمِ نجوم اور سیارگان کے طلسمات و الواح پر تحقیقی کام میں نمایاں شہرت رکھتا ہے اور اپنی ایک ویب سائٹ بھی لانچ کی ہے،وہ مغرب میں عرب منجمین اور ماہر روحانیات کے کام اور تحقیق سے بہت متاثر ہے، خود کئی عربی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کر چکا ہے،وہ لکھتا ہے کہ کسی بھی سیارے کی لوح یا طلسم بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سیارہ اُس وقت باقوت ہو، بہتر ہوگا کہ وہ اپنے ذاتی برج میں ہو یا خانہء شرف میں ہو۔ طلوع ہورہا ہو اور یا تو طالع میں ہو یا طالع کے درجات سے قران کرتا ہویا پھر دسویں گھر میں ہو اور دسویں گھرکے درجات سے حالتِ قران میں ہو،اْس وقت وہ ستارہ اور قمر نحس حالت میں نہ ہوں اور نہ ہی قمر اور وہ ستارہ تحت الشعاع ہوں، مطلوبہ کوکب رجعت میں نہ ہو اور اپنی اوسط رفتار پر ہو۔
اگر تمام اصول و قوانین بیان کیے گئے تو مضمون طوالت اختیار کرتا چلاجائے گا۔ مندرجہ بالا معتبر اسناد کے بعد بھی اگرکوئی اس بات پر بضد ہو کہ اکتوبر میں شرف زحل کی سعادت سے فیض یاب ہو سکتا ہے تو اسے ضرور کوشش کرنا چاہیے، ہمارا فرض علمی حقیقت کو دیانت داری کے ساتھ پیش کرنا ہے اور صرف اتنی گزارش ضرور ہے کہ یا تو سیارگان کے شرف، اوج، تثلیث، تسدیس یا دیگر نحس نظرات وغیرہ کے دُم چھلّے سے نجات حاصل کریں اور اپنے زور دار و زبردست اعمال و نقوش کو سیارگان سے منسوب نہ کریں ورنہ قوانینِ نجوم کی پابندی کریں ۔ اگر 30 سال بعد حاصل ہونے والا شرف کا وقت مناسب نہیں ہے، ناقص ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے اُستادانِ فن نے ایسی صورت حال میں نئے راستے نکالنے کا طریقہ بتایا ہے اور انشاء اللہ ہم ضرور اپنے قارئین کی مناسب رہنمائی کریں گے۔اس حوالے سے ہماری تحقیق کے مطابق یکم نومبر سے 24نومبر تک مناسب وقت ہوگا اور زحل اپنے شرفی برج میں باقوت اثرات ظاہر کر رہا ہوگا ۔ علم نجوم سے گہری واقفیت رکھنے والے اس عرصے میں زحل کے باقوت اوقات استخراج کرکے لوح زحل تیار کر سکتے ہیں، اپنے قارئین کی سہولت کے لئے ہم اکتوبر کے آخری ہفتے میں سعد و باقوت ساعتوں کی نشاندہی کر دیں گے اور مجرب الواح طلاسم بھی شائع کر دیے جائیں گے تاکہ ضرورت مند فیض یاب ہو سکیں، اس کے علاوہ 17 ستمبر بہ روز ہفتہ زحل کی پہلی ساعت اور دوسری ساعت بھی خاص طورپر باقوت وقت کی نشان دہی کرتی ہے ، اس دوران میں بھی لوح شرفِ زحل تیار کی جاسکتی ہے ، اس کے بعد زحل 27 ستمبر سے 29 اکتوبر تک غروب رہے گا ، لہٰذا جو لوگ 12 اکتوبر سے 20 اکتوبر کے دوران میں شرفِ زحل کے اعمال انجام دیں گے وہ کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے ۔

قرانِ شمس و زحل

ایک اور کھلی حقیقت یہ بھی ہے کہ بارہ اکتوبر سے بیس اکتوبر تک شمس اور زحل کا قران ہوگا، شمس اور زحل کا قران ہمیشہ نحس اور خراب اثرات کا حامل سمجھا جاتا ہے،اس موقع پر عاملین تباہی و بربادی کے اعمال تیار کرتے ہیں اور یہی صورت شمس و مریخ کے قران کی بھی ہے البتہ شمس و مریخ کے قران کو پھر بھی علماء4 نجوم اتنا نحس نہیں سمجھتے جتنا شمس و زحل کے اجتماع کو سمجھتے ہیں کیونکہ شمس و مریخ اپنی فطرت میں ہم آہنگی رکھتے ہیں، دونوں کا مزاج آتشی اور خشک ہے جبکہ شمس کا مزاج آتشی اور زحل کا سرد ہے، گویا یہ آگ اور پانی کا میل ہے جس کا نتیجہ کبھی مثبت نہیں ہو سکتا۔
شمس و زحل کاقران اگر زائچہ پیدائش میں ہو تو بھی انتہائی منحوس تصور کیا جاتا ہے، خاص طور پر صاحب زائچہ کے باپ کے لئے خطرات کی نشاندہی کرتا ہے اور خود صاحب زائچہ زندگی بھر تکا لیف و پریشانیوں میں مبتلا رہتا ہے چنانچہ تحت الشعاع ہونا یا احتراق کسی سیارے کی بہت بڑی کمزوری ہے۔

کسمیمی کی اصطلاح

البتہ یہاں ایک اہم نکتہ علماء نجوم اور بیان کرتے ہیں جسے عربی میں’’ کسمیمی‘‘اور انگریزی میں’’cazimi‘‘کہا جاتا ہے، اس اصطلاح کے مطابق جب کوئی سیارہ شمس کے نزدیک چلا جاتا ہے تو سورج اس کو جلا دیتا ہے لیکن جب وہ بالکل ہی قریب آجاتا ہے یعنی 17دقیقِِِِِہ کی دوری تک تو اس پوزیشن کو کسمیمی کہتے ہیں اور علماء نجوم کی رائے یہ ہے کہ اس وقت ستارہ مضبوط ہوجاتا ہے، اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے دونوں یک جان، دو قالب ہوں،دونوں گلے مل رہے ہوں۔
کسمیمی کی نظر کے حوالے سے بھی یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ دونوں سیار گان کی نوعیت اور پوزیشن کیا ہے مثلاً موجودہ صورت حال میں زحل اگر اپنے شرف کے برج میں ہے تو شمس اپنے برج ہبوط میں، یہی صورت دونوں کے برج حمل میں قران کی ہوگی اور چونکہ دونوں ایک دوسرے کے سخت ترین دشمن ہیں لہٰذا دونوں کا قران نہایت منحوس تصور کیا جائے گا لیکن جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ مریخ ، مشتری، عطارداور زہرہ کے سلسلے میں علماء نجوم سیار گان کی فطرت کے پیش نظر رعایت دیتے ہیں۔

قوت و ضعفِ سیارگان

مناسب ہوگا کہ اس اہم موقع پر سیار گان کی قوت وضعف معلوم کرنے کے اصول بھی بیان کر دیے جائیں جو یونانی علماء نجوم نے مقرر کیے ہیں اور الواح وطلسمات کی تیاری میں معاون ثابت ہوتے ہیں، اس طرح کسی بھی کوکب کی طاقت یا کمزوری معلوم ہوتی ہے اور اس کی اثر پذیری کا اندازہ ہوتا ہے، یہی وہ ذریعہ ہے جس کی مدد سے ہم اس موقع پر زحل کے سعد و باقوت اوقات معلوم کر سکتے ہیں جب کہ زحل اپنے برجِ شرف ،منزلِ شرف اور مشتری کے دریجان میں ہوگا جو زحل کے شرف کا دریجان بھی ہے۔
اس طریقہ کار کے تحت کسی بھی سیارے کے قوت و ضعف کو دو طرح سے جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔ اوّل اس کی روحانی یا ذاتی قوت (Essential Dignitie )دوم اس کی عارضی یا اتفاقی قوت (Accidental Dignitie)۔
حقیقی یا ذاتی قوت سیارے کو اپنے برج یا شرفی برج یا دریجان وغیرہ میں ملتی ہے اور عارضی قوت زائچے میں اس کی اپنی پوزیشن پر منحصر ہے، اس سلسلے میں قدیم اور اوّلین ماہر فلکیات پٹولیمی(بطلیموس) کے مقرر کردہ اصولوں پر دنیا بھر میں آج بھی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ وہ اصول مندرجہ ذیل ہیں، اس طریقہ کار میں کسی کوکب کو اپنی حیثیت کے مطابق یونٹ دیے جاتے ہیں جو مثبت یا منفی ہوتے ہیں۔دونوں کی جمع تفریق سے جو یونٹ حاصل ہوتے ہیں وہ کوکب کی اصل قوت یاکمزوری کو ظاہر کرتے ہیں۔

ذاتی یا روحانی طاقت

(1)کوئی سیارہ اپنے برج میں ہو یا کسی دوسرے سیارے سے بہتر باہمی تعلق رکھتا ہو، مثبت پانچ یونٹس حاصل کرے گا۔
(2)کوئی سیارہ شرف یافتہ ہو یا شرف یافتہ سیارے سے باہمی تعلق رکھتا ہو وہ مثبت چار یونٹس حاصل کرے گا۔
(3)سیارہ دن میں باقوت ہے یا رات میں، اس کے مطابق درست پوزیشن پر مثبت 3یونٹس دیے جائیں گے۔
(4)اگر کوکب اپنی حد میں ہے تو مثبت 2 یونٹس حاصل کرے گا۔
(5)اگر کوکب اپنے دریجان میں ہے تو مثبت 1یونٹ حاصل کرے گا۔
(6)اگر کوکب زوال میں ہے تو منفی 5 یونٹس ہوں گے۔
(7) اگر کوکب ہبوط میں ہے تو منفی 4 یونٹس حاصل کرے گا۔
(8)اگرکوکب دن میں با قوت ہوتا ہے اور وقت رات کا ہے تو منفی 5 یونٹس حاصل کرے گا۔
اتفاقی یا عارضی مثبت یونٹس
(1)کوکب پہلے یا دسویں گھرمیں ہو تو مثبت 5یونٹس شمار ہوں گے۔
(2) کوکب چوتھے،ساتویں یا گیارھویں گھر میں ہو تو مثبت 4 یونٹس دیے جائیں گے۔
(3)اگر دوسرے یا پانچویں گھر میں ہو تو مثبت 3یونٹس۔
(4)اگر نویں گھر میں ہو تو مثبت دو یونٹس۔
(5)اگر تیسرے گھر میں ہو تو مثبت 1یونٹ۔
(6)کوکب اپنی سیدھی رفتار پر ہو یعنی رجعت میں نہ ہو تو مثبت 4یونٹس۔
(7)کوکب اپنی اصل رفتار میں ہو تو مثبت 2یونٹس۔
(8)زحل، مشتری، مریخ افق شرقی پر ہوں تو مثبت 2یونٹس۔
(9)عطارد، زہرہ سمتِ غربی پر ہوں تو مثبت 2یونٹس۔
(10)قمر زائدالنور ہو تو مثبت 2یونٹس۔
(11)کوکب تحت الشعاع نہ ہو تو مثبت 5یونٹس۔
(12)شمس سے قران کی صورت میں 17دقیقِہ یا اس سے کم فاصلہ ہو یعنی کسمیمی نظر ہو تو مثبت 5یونٹس۔
(13)کوکب،زہرہ یا مشتری کے ساتھ قران میں ہو تو مثبت 5یونٹس۔
(14)کوکب راس کے ہمراہ جزوی قران میں ہو تو مثبت 4یونٹس۔
(15)کوکب، مشتری یا زہرہ کے ساتھ تثلیث کی نظر رکھتا ہو تو مثبت 4یونٹس۔
(16)کوکب، مشتری اور زہرہ کے ساتھ تسدیس کی نظر رکھتا ہو تو مثبت 3 یونٹس۔
(17)کوکب،ثابت کوکب ریگولس سے قران رکھتا ہو تو مثبت 6یونٹس۔
(18)کوکب، ثابت کوکب اسپیکا سے قران رکھتا ہو تو مثبت 5یونٹس۔
اتفاقی یا عارضی منفی یونٹس
(1)کوکب بارھویں گھر میں ہو تو منفی 5 یونٹس۔
(2)کوکب چھٹے یا آٹھویں گھر میں ہو تو منفی 2 یونٹس۔
(3)کوکب رجعت میں ہو تو منفی 5 یونٹس۔
(4)کوکب اپنی رفتار میں کم ہو تو منفی 2 یونٹس۔
(5)زحل ، مشتری اور مریخ غربی سمت ہوں تو منفی 2 یونٹس۔
(6)عطارداور زہرہ شرقی سمت ہوں تو منفی 2 یونٹس۔
(7)قمر ناقص النور ہو تو منفی 2 یونٹس۔
(8)کوکب تحت الشعاع ہو یعنی تقریباً 8درجہ 30دقیِقِہ شمس سے فاصلہ ہو تو منفی 5یونٹس۔
(9)کوکب غروب ہو یعنی 17درجہ یا بعض کے نزدیک 15درجہ شمس کے قریب ہو تو منفی 4 یونٹس۔
(10)کوکب زحل یا مریخ سے جزوی قران میں ہو تو منفی 5یونٹس۔
(11)کوکب،ذنب کے ساتھ جزوی قران رکھتا ہو تو منفی 5یونٹس۔
(12)کوکب، زحل اور مریخ سے نحس نظر تربیع یا مقابلے کی رکھتا ہو تو منفی 4یونٹس۔
(13)کوکب متعلقہ، ثابت کوکب الگول کے ساتھ قران میں ہو تو منفی4 یونٹس۔واضح رہے کہ ثابت کوکب الگول نہایت منحوس اور خطرناک تصور کیا جاتا ہے یہ برج ثور کے تقریباً 27 درجے پر موجود ہے۔

قواعدِ اعمالِ سیارگان

اس موضوع پر گفتگو کرنے کی اگر چہ ضرورت نہیں تھی ، ہمارے ملک میں یقیناً اعلیٰ پائے کہ عاملین و جفار موجود ہیں جو اس موضوع پر مکمل دسترس رکھتے ہیں لیکن کچھ عرصے سے ایسی تحریریں بھی نظر سے گزر رہی ہیں جن میں قواعد کو نظر انداز کردیا جاتا ہے، چناں چہ اس اہم ترین موقع پر چند موٹی موٹی باتوں کو دہرا دینا بہتر ہوگا تاکہ اعمالِ زحل کے لیے موزوں و مناسب اوقات کے استخراج میں کوئی دشواری نہ ہو۔
حضرت کاش البرنیؒ لکھتے ہیں ’’علم النقوش میں علمِ نجوم کی بہت ضرورت پڑتی ہے اور بغیر اس کے کام نہیں چل سکتا ، جب تک کوئی شخص سیارگان کی حرکات اور ان کی طبع سے واقفیت نہ رکھے گا وہ اعمال میں کمالیت حاصل نہیں کرسکتا،نہ وہ مؤثر ہوتے ہیں، قرآنِ کریم میں سیارگان کو فاَلْمْدَبِِراتِ اَمراً کہا گیا ہے یعنی وہ امر کی تدبیریں ہیں اور تدبیر کا مطلب ہے کہ مقصد کے موافق وقت حاصل کرنا‘‘
’’اگر آپ علمِ نجوم سے ابتدائی واقفیت نہیں رکھتے تو صحیح وقت کا استخراج آپ کے بس کی بات نہ ہوگی،لازم ہے کہ اول علمِ نجوم اس قدر ضرور سیکھیں کہ وقت کا استخراج کرسکیں اس کے بعد نقوش اور الواح کے علم کو ہاتھ لگائیں (قواعدِ عملیات از حضرت کاش البرنیؒ )
’’عمل یا تعویذ کے لیے تعین اوقات سب سے مشکل مسئلہ ہے جب تک قانونِ عملیات اور نجوم سے واقفیت نہ ہو ، کسی عمل یا نقش کے لیے وقت مقرر نہیں کیا جاسکتا،عملیات و طلسمات اس بات کے محتاج ہوتے ہیں کہ ان کے لیے پوری موافقت کے سامان مہیّا کیے جائیں۔ان موازین میں جو اثرات پیدا کرتے ہیں ، وقت کا استخراج سب سے اہم ہے‘‘(کاش البرنیؒ )
ایک اور اقتباس دیکھیے ’’حکیم ہُرمس فرماتے ہیں ، جب کوئی روحانی عمل خیر یا شر کے واسطے کرنا ہو تب لازم ہے کہ موافق اوقات اور ساعات کی پابندی کریں‘‘
ایضاً: ’’ طلسم اس بات کے محتاج ہوتے ہیں کہ ان کے لیے پوری پوری موافقت کے سامان مہیّا کیے جائیں۔ان موازین کے مہیّا کرنے میں جو اثر پیدا کرتے ہیں، وقت کا استخراج سب سے اہم اور مشکل ہے،یہ جان لیں کہ قمر ہماری دنیا کے فعلی نظام کا حکمران ہے جب تک یہ موافق نہ ہو افعال میں تاثیریں پیدا نہیں ہوتیں‘‘(کاش البرنیؒ )
عزیزان من! مندرجہ بالا اصول و قواعد اپنی جگہ مسلّم الثبوت اور مستند ہیں اور ان کی پابندی ایک بیش قیمت تحفے کے حصول کا باعث بنتی ہے مگر منجمین اور جفار اس حقیقت سے بھی اچھی طرح آگاہ ہیں کہ کسی عمل کے لیے تمام کے تمام موافق موازین کسی ایک وقت میں ملنا بڑا ہی مشکل اور تقریباً ناممکن کام ہے لہٰذا اکابر ماہرین کی رائے یہ ہے کہ جس قدر بھی مناسب موازین مہیّا ہوجائیں ، اْن پر گزارا کرلیا جائے اور بہتر سے بہتر وقت کی تلاش جاری رکھی جائے،ہم آخر میں اس مضمون کا اختتام کتاب عامل کامل حصہ دوم از کاش البرنیؒ کے ایک اقتباس سے کریں گے۔
’’اگر مندرجہ بالا اوقات جملہ قواعد کے ماتحت ہاتھ نہ آسکیں اور نزدیکی وقت میں بھی کوئی امید نہ ہو تو تمام امور میں سے جو بھی ایک وقت موافق مل سکے اس کو کافی سمجھ لیں ، بس اس قدر تاثیر اس سے کم ظاہر ہوگی اور جب کبھی مکمل وقت ہاتھ لگ جائے تو جان لیں کہ آتشِ سوزاں اور تیغِ برّاں ہاتھ آگئی‘‘۔