اسم اعظم کیا ہے؟

حصول سعادت اور حل المشکلات کے لیے اسم اعظم معلوم کرنے کا طریق کار مع اسمائے الٰہی

یہ وہ سوال ہے جو برسوں سے زیر بحث چلا آرہا ہے۔ اس حد تک تو اس سوال کے جواب میں مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ا سم اعظم خالق کائنات کا نام ہے اور وہ ’’اﷲ‘‘ ہے جسے اسم ذات قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس ذاتی باری تعالیٰ کے بے شمار صفاتی نام بھی ہیں۔ زمانہ قدیم سے علما اور صوفیا ان صفاتی ناموں میں سب سے بڑے صفاتی نام یعنی اسم اعظم کی تلاش میں مصروف ہیں۔ اس حوالے سے علما اور صوفیا میں خاصا اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اہل تصوف کے مختلف سلسلوں میں اسم اعظم کے طور پر مختلف اسمائے الٰہی مروج ہیں جن کے مستقل ورد کی مریدین کو تاکید کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ علمائے جفر نے بھی اسم اعظم معلوم کرنے کے لیے بعض اصول وقواعد بتائے ہیں۔ الغرض اسم اعظم کا مسئلہ خاصا پیچیدہ اور متنازعہ ہے۔
جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ مختلف سلسلوں میں مختلف اسمائے الٰہی‘ اسم اعظم کے طور پر پڑھے جاتے ہیں اور انہیں پڑھنے کا مقصد مرید کی روحانی تربیت یعنی کہ اس کا اﷲ سے ایک ربط خاص قائم کرنا ہوتا ہے لیکن علمائے جفر نے اسم اعظم معلوم کرنے کے جو اصول وقواعد بیان کیے ہیں‘ ان کا مقصد صرف اﷲ سے بندے کا رابطہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اپنی جائز حاجتوں میں اﷲ سے مدد اور اعانت چاہنا بھی ہوتا ہے۔علمائے علم جفر کے نزدیک وہ اسم الٰہی (ایک یا ایک سے زیادہ) جو کسی شخص کے نام کے موافق یعنی اپنی عنصری اور عددی قوت میں برابر ہوں‘ اس کا ورد نہایت مفید اور موافق ہوتا ہے۔
اسمائے الٰہی کو ویسے بھی اپنے ورد میں رکھنا باعث رحمت وبرکت ہے کہ اﷲ رب العزت نے خود فرمایا ہے کہ میرے بہت اچھے اچھے نام ہیں‘ تم مجھے ان ناموں سے پکارو۔
ماہرین روحانیات اس بات پر متفق ہیں کہ اسمائے الٰہی سے بڑھ کر مشکل کشائی کا اور کوئی ذریعہ نہیں لہٰذا ہم یہاں اسم اعظم معلوم کرنے کا وہ سادہ اور آسان طریقہ بتانا چاہتے ہیں جس کے ذریعے انسان (عورت یا مرد) اپنے نام کے ذریعے اپنا اسم اعظم معلوم کرسکتا ہے اور اس کے ورد سے فیوض وبرکات حاصل کرسکتا ہے۔
ہم لکھ چکے ہیں کہ علمائے جفر نے بھی کسی خاص شخص کے لیے اسم اعظم معلوم کرنے کے مختلف طریقے بیان کیے ہیں جن میں سے اکثر نہایت مشکل اور پیچیدہ ہیں۔ ہمیں ان طریقوں کی تاثیر سے انکار نہیں مگر ان طریقوں پر عمل پیرا ہونا عام لوگوں کے بس کی بات نہیں‘ اہل علم وفن ہی ان سے کام لے سکتے ہیں لہٰذا یہاں ہم ان طریقوں میں سب سے آسان طریقہ دے رہے ہیں جس پر تھوڑی سی محنت سے بہ آسانی عمل پیرا ہواجاسکتا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ سمجھ لیجئے کہ جفری طریقے کے مطابق آپ کے لیے اﷲ تعالیٰ کے ذاتی اور صفاتی ناموں میں سے وہ نام موافق‘ مفید اور موثر ہوں گے جو آپ کے اصل نام کے ہم اعداد اور ہم مزاج ہوں گے۔ مزاج سے مراد اس نام کے عنصر اور آپ کے نام کے عنصر کا ایک ہونا یا موافق ہونا ہے۔ اس کی مزید تفصیل آگے آئے گی۔
سب سے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ آپ کا اصل نام کیا ہے؟کیونکہ اس سلسلے میں بھی اکثر لوگ غلطی کرتے ہیں۔
آپ کا اصل نام وہ ہے جو آپ کے شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات میں استعمال ہوتا ہے۔ لاڈ پیار میں پکارے جانے والے نام یا لقب اور خطاب کے طور پر مشہور ہوجانے والے نام آپ کے اصل نام نہیں ہیں۔ مثلاً کسی کا نام آمنہ ہے مگر اسے گھر میں ’’گڈو‘ شہزادی‘ لاڈلی‘‘ وغیرہ کہہ کر پکارا جاتا ہے تو اس پکارے جانے والے نام کو اصل نام تصور نہیں کیا جائے گا۔ اصل نام وہی ہوگا جو شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات پر درج ہے اور اس نام میں بھی خالص نام صرف وہ ہوگا جس میں خاندان‘ قبیلہ‘ذات یا علاقے کی شناخت کے لفظ شامل نہ ہوں مثلاً سید‘ شیخ‘ خان‘ مغل‘ مرزا‘ بیگ‘ چغتائی‘ سومرو‘ چاچڑ‘ آرائیں‘ بٹ‘ چانڈیو‘ جوکھیو‘ کھوسہ‘ یوسف زئی وغیرہ۔ یہ تمام اضافے انسان نام میں اپنی مخصوص خاندانی شناخت کے لیے لگاتا ہے لہٰذا انہیں اصل نام میں شمار نہیں کیا جائے گا لیکن اکثر لوگوں کے نام دولفظی یا تین لفظی ہوتے ہیں مثلاً محمد احمد‘ محمد صدیق‘ محمود احمد‘ علی حیدر‘ کنیز فاطمہ‘ نسیم اختر‘ عائشہ کنول‘ نعیم الدین وغیرہ وغیرہ۔ ایسی صورت میں نام کے دونوں یا تینوں جز شامل کیے جائیں گے۔
ایک اور غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے۔ دو لفظی یا تین لفظی نام کی صورت میں لوگ اکثر اپنے آدھے نام ہی کواہمیت دیتے ہیں یعنی جس سے وہ پکارے جارہے ہوں مثلا نام محمد طارق۔ طارق کے نام سے پکارے جارہے ہیں لہٰذا محمد کو اپنے نام کا حصہ ہی نہیں سمجھ رہے یا نام عبدالرحمن مگر رحمن کے نام سے پکارے جارہے ہیں اور صرف اسی کو اپنا نام سمجھ رہے ہیں لہٰذا یہ غلطی کبھی نہ کریں۔ نام کا پہلا حرف وہی ہوگا جو پورے نام کے پہلے لفظ کے شروع میں آئے گا۔
اس وضاحت کے بعد آپ اپنا اصل نام سامنے رکھتے ہوئے سب سے پہلے اس کے اعداد معلوم کریں اور نام کا پہلا حرف معلوم کریں۔ نام کے اعداد معلوم کرنے کا طریقہ اور اعداد کی قیمتوں کاچارٹ ہم پہلے بھی دے چکے ہیں اور دوبارہ یہاں درج کررہے ہیں۔

ابجد قمری اور حروف سے متعلق ستارہ‘ عنصر اور اعداد

اس چارٹ کے ذریعے آپ کو بہ آسانی یہ معلوم ہوسکے گا کہ آپ کے نام میں موجود حروف کی عددی قیمت کیا ہے اور نام کے پہلے حرف سے متعلقہ ستارہ اور متعلقہ دن کیا ہوگا؟ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ نام کے پہلے حرف کی عنصری حیثیت کیا ہے؟ یعنی وہ آتشی ہے یا بادی‘ آبی ہے یا خاکی‘ اس چارٹ کی مدد سے آپ ہر نام کے اعداد معلوم کرسکتے ہیں۔ وہ آپ کا نام ہو یا اسمائے الٰہی ہوں یا کسی قرآنی آیت کے اعداد نکالنا مقصود ہوں جب آپ اپنے نام کے اعداد معلوم کرلیں تو پھر اپنے مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے اسم الٰہی کا انتخاب کریں جس کے اعداد آپ کے نام کے اعداد کے برابر ہوں اور اس اسم الٰہی کا پہلا حرف آپ کے نام کے پہلے حرف کے عنصر کا ہو یا پھر موافق عنصر کا ہو۔ مخالف عنصر کا اسم الٰہی نہ لیں۔ اسمائے الٰہی کا انتخاب کرتے ہوئے اپنے مقصد کو بھی مدنظر رکھیں یعنی ایسے اسمائے الٰہی لیں جو مقصد میں معاون ہوسکتے ہیں جیسے کشادگی رزق کے لیے باسط‘ رزاق‘ شادی کے لیے ودود‘ علی‘ معطی‘ مصور‘ لطیف وغیرہ۔
اس سلسلے میں دشواری یہ پیش آئے گی کہ آپ کے نام کے اعداد کے مطابق کوئی ایک اسم الٰہی ملنا مشکل ہوگا۔ ایسی صورت میں ایک سے زیادہ اسمائے الٰہی لے کر ان کے اعداد کا مجموعہ اپنے نام کے اعداد کے مجموعے کے مطابق کرلیں۔
اب ایک مثال کے ذریعے اس سارے طریقہ کار کو سمجھ لیں۔ مثلاً ہمارا نام سید انور فراز ہے۔ اس میں خالص نام ’’انور فراز‘‘ ہوا۔ سید کا لفظ ذات کی شناخت ظاہر کرتا ہے لٰہذاصرف اصل نام ’’انور فراز‘‘ کے اعداد معلوم کیے جائیں گے جو مندرجہ بالا چارٹ کے مطابق 545 ہوں گے۔
نام کا پہلا حرف الف ہوگا۔ خواہ پکارنے میں ہمیں لوگ فراز کہیں یا انور یا کسی اور بھی نام سے پکارتے ہوں تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ اب نام کے پہلے حرف کا عنصر آتش ہے۔ متعلقہ ستارہ زحل ہے اور اس ستارے کا متعلقہ دن ہفتہ ہے۔ہم اپنا اسم اعظم معلوم کرنا چاہتے ہیں اورہمارا بنیادی مقصد رزق کی فراوانی ہے لہٰذا مقصد کے مطابق اسمائے الٰہی میں سرفہرست رزاق یا رازق اسم الٰہی ہیں۔ عدد ان کے تین سو آٹھ ہیں۔ پہلا حرف’’ر‘‘ خاکی ہے جو آتش سے مخالفت نہیں رکھتا۔ عناصر کی باہمی دوستی ودشمنی کے اصول یہ ہیں۔
آگ اور پانی میں مخالفت ہے اور خاک اور باد دونوں بھی ایک دوسرے کے مخالف ہیں لٰہذا جن لوگوں کے نام کا پہلا حرف آتشی ہو‘ وہ ایسا اسم الٰہی منتخب نہ کریں جس کا پہلا حرف آبی ہو یا آبی حرف رکھنے والے آتشی حرف کااسم الٰہی نہ لیں۔ یہی احتیاط خاکی اور بادی کے سلسلے میں کی جائے۔
ہمارے نام کے کل اعداد 545 ہیں اور اسم الٰہی رزاق کے308لہٰذا یہ ہمارے نام کے اعداد کے مطابق نہیں ہوا۔ اس لیے ہمیں مزید اسمائے الٰہی شامل کرکے545 کا ہدف پوراکرنا ہوگا لہٰذا ہم سب سے پہلے اپنے نام کے پہلے حرف کی مناسبت سے اسم ذات’’اﷲ‘‘ کو لیں گے جس کے اعداد66 ہیں۔ اس کے بعد اسم الٰہی کو لیں گے اور اس سے پہلے الف اور لام کا اضافہ کرکے اسے الرزاق پڑھیں گے پھر مزید اسم الٰہی حنان الف لام کا اضافہ کرکے اسے شامل کرلیں گے۔ اس طرح ہمارے مقصد اور نام کے مطابق موافق اسمائے الٰہی کا ایک مجموعہ ہمارے سامنی آئے گا‘ وہ یہ ہوگا۔
یااﷲُ الرّزاقُ الحنّانُ
اسمائے الٰہی کا یہی مجموعہ ہمارے لیے اسم اعظم ہے۔ ہمیں اسے545 مرتبہ روزانہ اول وآخر گیارہ بار درود شریف کے ساتھ پڑھنا چاہیے اور اس کا آغاز نوچندے ہفتے سے اس طرح کرنا چاہیے کہ فرصت کا کوئی ایک وقت مقرر کرکے یعنی کسی بھی نماز کے بعد پہلے دن حضورﷺ کے نام پر کسی میٹھی چیز پر فاتحہ دیں اور بعد ازاں اول وآخر گیارہ بار درود شریف کے ساتھ اسمائے الٰہی کا ورد شروع کریں اوراپنے مقصد کے لیے عاجزی اور انکساری سے گڑگڑا کر دعا کریں۔
یہ ورد اصولاً تو عمر بھر جاری رکھنا چاہیے کیونکہ یہ کوئی مخصوص چلہ یاوظیفہ نہیں ہے۔ اس میں عبادت کا پہلو بھی موجود ہے اور سعادت کا بھی کہ آپ اپنے پروردگار کو اس کے صفاتی ناموں سے روزانہ پکار رہے ہیں۔ اس طریقہ کار میں چلّوں اور وظیفوں والی ایسی شرائط بھی نہیں کہ آپ کو کوئی مخصوص احتیاط اور پرہیز لازمی طور پر کرنا پڑے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ اس طریقہ کار کے مطابق اپنا اسم اعظم معلوم کرکے جو لوگ اسے مستقل اپنے ورد میں رکھیں گے‘ وہ ہر طرح کی آفات ومصائب سے محفوظ رہیں گے۔
اس کے علاوہ ہمارے تجرے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ اگر کسی کے پیدائشی زائچے میں سیارگان ناقص اثرات ڈال رہے ہوں یا حال میں ان کی گردش مخالف سمت چل رہی ہو اور اس کی وجہ سے حالات خراب چل رہے ہوں تو ایسی صورت میں بھی اپنے نام کے اسم اعظم کا ورد مددگار ثابت ہوتا ہے۔ سیارگان کی نحوست پیدائشی ہو یا حالیہ‘ اسم اعظم کا مستقل ورد اس سے نجات دلانے کا سبب بن سکتا ہے‘ بشرطیکہ کوئی شخص یہ کام تواتر اور پابندی کے ساتھ مستقل طور پر کرے۔
مطلوبہ تعداد میں روزانہ اپنے اسم اعظم کا ورد کرتے ہوئے جب تعداد سوا لاکھ تک پہنچ جائے تو ایک بار پھر حضورﷺ کے نام پر ختم وفاتحہ دلائیں اور شکرانے کے نفل ادا کریں۔ اس کے بعد کل اعداد کو مفرد کرلیں۔ مثلاً ہمارے نام کے اعداد545 ہیں۔ انہیں مفرد کیا جائے تو5+4+5=14 بنتے ہیں۔ اب روزانہ 14 مرتبہ یا صرف5 مرتبہ پڑھتے رہنا بھی ہمارے لیے کافی ہوگا یا 41،23 مرتبہ بھی اپنے ورد میں رکھ سکتے ہیں۔ ہاں البتہ کسی خاص مقصد میں کامیابی کا مسئلہ درپیش ہو تو ہمیں 14 دن یا 41 دن روزانہ اصل تعداد کے مطابق پڑھ کر دعا کرنی چاہیے تو انشاء اﷲ جلد کامیابی نصیب ہوگی،چوں کہ ہم نے اپنی مثال پیش کی ہے لہٰذا نام کے اعداد کے مطابق کسی اور شخص کے لیے روزانہ ورد کا طریقہ اس کے نام کے اعداد کے مطابق ہوگا۔
آخر میں ہم یہ وضاحت بھی کردیں کہ اﷲ کے صفاتی نام صرف ننانوے نہیں ہیں بلکہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اس موضوع پر اسمائے الٰہی کی کتابیں بازار میں مل جاتی ہیں پھر بھی ہم مختلف مقاصد کے پیش نظر کچھ اسمائے الٰہی لکھ رہے ہیں تاکہ اپنے مقصد کے موافق اسم اعظم ترتیب دینے میں آسانی ہو۔
حصول خیروبرکت اور رزق کی فراوانی کے لیے اسمائے الٰہی
’’سبحان‘ سبوح‘ شکور‘ صبور‘ باسط‘ بدیع‘ جواد‘ غنی‘ مغنی‘ فتاح‘ رازق‘متعالی‘ مغنی‘ معطی‘ منعم‘ نافع‘ رؤف‘ رفیق‘ رافع‘ وہاب‘ علی‘ رحیم‘ رحمن‘ کریم‘ لطیف وغیرہ ہیں۔
شادی اور ازدواجی زندگی میں کامیابی کے لیے
’’اول‘ صمد‘ بدوح‘ قادر‘ قیوم‘ مقتدر‘ قدیر‘ جمیل‘ جامع‘ معز‘ معید‘ محی‘ دائم‘ نادر‘ ودود‘ رفیق‘ واسع‘ والی‘ عزیز‘ قریب‘ لطیف وغیرہ۔
اپنے حق کے حصول‘ مقدمات وامتحانات میں کامیابی کے لیے
‘ اکرم‘ کریم‘ اکبر‘ قابض‘ مقتدر‘ جلیل‘ حاکم‘ حق‘ مقوی‘ قوی‘ ناصر‘ نصیر‘ وکیل‘ والی‘ ولی‘ صادق‘ عظیم‘ عادل‘ عفو‘ غالب‘ غفور‘ کافی‘ کفیل‘ متکبر‘ مالک‘ مالک الملک‘منتقم‘ محیط وغیرہ۔
اولاد یا حقِ وراثت کے لیے
شافی‘ صبور‘ باعث‘ باقی‘ جواد‘ فتاح‘ قیوم‘ حکیم‘ محطی‘ منعم‘ معید‘ نور‘ نافع‘ وارث‘ طبیب‘ کفیل‘ مہدی‘ مصور‘ خالق‘ حی‘محی وغیرہ
قرض سے نجات کے لیے
شکور‘ صبور‘ صمد‘ باعث‘ باسط‘ باری‘ باقی‘ غنی‘ مقتدر‘ حلیم‘ معز‘ مانع‘ رؤف‘ رزاق‘ کفیل‘ مقسط وغیرہ۔
صحت اور بیماریوں سے نجات کے لیے
سبحان‘ سبوح‘ سلام‘ مومن‘ شافی‘ تواب‘ حی‘ قیوم‘ حفیظ‘ رحیم‘ کریم‘ رقیب‘ لبیب‘ طیب‘ لطیف‘ ممیت وغیرہ۔

نام اور اعداد کے دیگر مسائل

ضرورت کے مطابق ان اسمائے الٰہی میں سے کوئی بھی اسم لیا جاسکتا ہے۔یہاں ایک بات اور سمجھ لیں۔اگر آپ کے نام کے اعداد کم ہوں اور مقصد کے موافق اسمائے الٰہی جو آپ لینا چاہتے ہوں‘ اس کے اعداد زیادہ ہوں تو اپنے نام کے ساتھ والدہ کے نام کے اعداد بھی شامل کیے جاسکتے ہیں۔
ناموں کے اعداد نکالنے میں اکثر لوگوں کو جو الجھنیں درپیش ہوسکتی ہیں‘ ان کی بھی پہلے سے وضاحت ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو ہمزہ‘ کھڑا مد جیسا کہ رحمن‘ اعلیٰ وغیرہ ہوتا ہے یا دوسرا ’’مد‘‘ جو آمنہ کے الف پر ہے الجھن پیدا کرسکتا ہے یعنی اس کے کتنے عدد شمار کیے جائیں؟ پھر تشدید سے جو حرف مکرر بولنے میںآتے ہیں‘ ان کی الجھن بھی درپیش ہوسکتی ہے‘ جیسے محمد‘ مصور‘ جبار‘ مبشر وغیرہ میں م‘ و‘ ب‘ اور ش پر تشدید کی وجہ سے یہ حروف دوبار آواز دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اصول ذہن نشین کرلیں‘ وہ یہ کہ صرف ان حروف کے اعداد وشمار ہوں گے جو لکھنے مین آتے ہیں۔ صرف آواز کی بنیاد پر کسی حرف کا عدد نہیں لیا جائے گا۔ یعنی محمد میں صرف م+ ح+م+د کے اعداد شمار ہوں گے اور رحمن یا آمنہ میں ’’مد‘‘ کی وجہ سے زائد الف کا عدد بھی نہیں لیا جائے۔ اب رہا مسئلہ ہمزہ(ء) کا تو حمزہ جب حروف کے درمیان ’’ی‘‘ کی حیثیت سے آئے گا تو اس کے دس عدد شمار ہوں گے۔ مثلاً عائشہ‘ صائمہ‘ رئیس‘ نائمہ وغیرہ کی صورت میں لیکن کسی بھی لفظ کے آخر میں جب یہ الف کے ساتھ آئے تو اس کا کوئی عدد نہیں لیا جائے گا جب یہ درمیان میں الف کی آواز دے گا تو بھی کوئی عدد شمار نہیں ہوگا مثلا زیب النساء‘ یا موخر وغیرہ میں۔
امید ہے کہ اس قدر تفصیل اور وضاحت کے بعد ہمارے بھائی بہن بہ آسانی اپنے نام کی مناسبت سے اپنے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے لیے اسم اعظم حاصل کرسکیں گے اور ہمارے لیے بھی دعائے خیر کریں گے۔
نام کے اعداد‘ نام کا پہلا حرف اور اسمائے الٰہی اپنے مقصد کے موافق منتخب کرنے کا طریقہ ہم بہت تفصیل سے سمجھا چکے ہیں اور اپنے نام کی مثال بھی پیش کی ہے مگر مزید وضاحت کی غرض سے یہاں صرف کسی ایک نام کو مثال بناکر سارا عمل تفصیل سے دہرائیں گے۔ امید ہے اس کے بعد جو لوگ بھی اس طریقے کو سمجھ نہیں سکے ہیں وہ سمجھ جائیں گے۔
مثلاً کسی لڑکی کا نام ’’عائشہ سلطانہ‘‘ ہے اور اس کا مقصدشادی‘ ازدواجی زندگی کی خوشیاں اوردیگر خیر وبرکت ہے جس کے لیے اسے اپنا اسم اعظم معلوم کرنا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنے نام کے اعداد ہمارے دیے ہوئے ابجد قمری کے چارٹ کے ذریعے حاصل کرے۔ عائشہ سلطانہ کے حروف اور ان کے اعداد یہ ہیں۔
541=5+50+1+9+30+60+5+30+10+1+70
نام کا پہلا حرف ’’ع‘‘ خاکی ہے لہٰذا ہم کوئی ایسا اسم الٰہی نہیں لیں گے جس کا پہلا حرف بادی ہو۔ بہتر ہوگا کہ خاکی حرف کا اسم الٰہی ہی لیں ورنہ آتشی یا آبی بھی لے سکتے ہیں۔ مقصد کے موافق اسم الٰہی پر نظر ڈالیں۔ شادی کے لیے اسم الٰہی ’’یا لطیف‘‘ موزوں ہے۔ اس کے اعداد129 ہیں۔ اب یہ 622 کی تعداد پوری کرنے کے لیے ہم یہ طریقہ اختیار کریں گے۔
یا عزیز اللطیف النور
ابتدا میں ’’یا‘‘ کا اضافہ ہے۔ یہ حرف ندا ہے۔ اس کے اعدادنہیں لیے جائیں گے۔ باقی کی مثال یہ ہے۔ عزیز کے94 پھر ال کے31 لطیف کے129 عدد پھر ال کے31 اور اسم الٰہی نور کے اعداد 256۔
یعنی622=256+31+129+31+94
اب یہ تعداد نام کے اعداد کے برابر ہوگئی اور مقصد کے موافق اسمائے الٰہی بھی منتخب ہوگئے۔ اس اسم اعظم کو ملا کر پڑھا جائے گا بالکل اسی طرح جیسے قرآن کریم میں اسمائے الٰہی کو باہم ملا کر پڑھتے ہیں۔ ابتدا میں یا کا اضافہ ہے پھر ہر اسم کے بعد اور دوسرے اسم سے پہلے ’’ال‘‘ موجود ہے۔ بعض لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ اسمائے الٰہی کو ملا کر پڑھنے کے بجائے الگ الگ کرکے پڑھتے ہیںیعنی اللطیف۔ الدافع۔ القائم۔ یہ غلط ہے۔ عزیز کے آخر’’ز‘‘ پر پیش لگا کر لطیف سے پہلے الف لام ہیں اس سے ملا کر عزیز ل لطیفل نور….. پڑھا جائے گا۔ یہی اپنا اسم اعظم پڑھنے کا درست طریقہ ہے۔
اگر کوئی ایسا اسم الٰہی لینا مقصود ہو جس کے اعداد زیادہ ہوں اور آپ کے نام کے اعداد کم ہوں تو اپنی والدہ یا شوہر کا نام ساتھ لگالیں اور اس کے اعداد کا بھی اضافہ کرلیں مثلاً عائشہ سلطانہ کے نام کے اعداد 622 ہیں مگر اس کا مقصد رزق میں اضافہ‘ گردش وقت سے نجات ہے۔
اور وہ اسمائے الٰہی ’’فتاح اور رزاق‘‘ کو اپنے اسم اعظم میں شامل کرنا چاہتی ہیں۔ ان کی والدہ کا نام رضیہ بیگم ہے۔ رضیہ بیگم کے اعداد1087 ہیں622 میں انہیں جمع کرلیں۔ یہ تعداد1709 ہوجائے گی اور اس طرح ’’فتاح الرزاق‘، جن کے اعداد 828 بنتے ہیں۔ ’’ال‘‘کے اضافہ سے اپنے اسم اعظم میں شامل کیے جاسکتے ہیں۔ بس اسی طریقے کے مطابق ہر مشکل اور مقصد کے لیے اسم اعظم ترتیب دیا جاسکتا ہے۔
اسمائے الٰہی کے فیوض وبرکات پر تفصیلی گفتگوکرنے سے ہمارا قلم قاصر ہے۔ علمائے تصوف و روحانیات اس پرمتفق ہیں کہ تخلیق کائنات کے تمام فارمولے اسمائے الٰہی سے وابستہ ہیں اور کوئی بنددروازہ ایسا نہیں جو ان کنجیوں سے نہ کھل سکے۔ شرط صرف ایمان واعتقاد کی ہے اور خشوع وخضوع سے‘ لگن اورتواتر کے ساتھ اس ذات باری تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی ہے جس کی بے شمار صفات ہیں۔ صرف ایک صفت اس میں موجود نہیں ہے اور وہ ہے‘ عاجزی وانکساری لٰہذا یہی اسے مرغوب ہے اور ہمیں اس کے حضور اس کی مرغوب اور پسندیدہ شے کے ساتھ حاضر ہونا چاہیے۔
اکثر لوگ ورد وظائف میں عمر بھر مشغول رہتے ہیں لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ ان کا انداز ایک مشینی عمل کی طرح ہوتا ہے جیسے جلدی جلدی میں کوئی ناگوار ڈیوٹی بحالت مجبوری بھگتا رہے ہوں اور بعض تو اس کا اظہار بھی کچھ ایسے انداز میں کرتے ہیں جیسے وہ یہ سب کچھ کرکے کسی پر یا اﷲ پر کوئی احسان کررہے ہوں۔ یاد رکھیں کہ ایسے ہی لوگ کبھی فیض نہیں پاتے اور بعد میں یہ کہتے نظر آتے ہ یں کہ ہم نے تو بڑے بڑے وظیفے‘ چلّے کیے‘ بڑی بڑی سورتیں پڑھی ہیں اور پڑھتے ہی رہتے ہیں مگر ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوا‘ ہمارے حالات تو جوں کے توں ہیں۔ حالانکہ اگر وہ اﷲ کے اس احسان پر غور کریں کہ اس نے انہیں عزت سے زندہ رکھا ہوا ہے‘ کھانے پینے کو دے رہا ہے اور بھی دنیا بھر کی نعمتوں سے استفادہ کررہے ہیں تو یہی شکر کا بہت بڑا مقام ہے۔ اب اگر آپ کی پسندیدہ خواہشات پوری نہیں ہورہی ہیں تو اس میں اﷲ کی کیا مصلحت ہے‘ یہ وہی بہتر جانتا ہے۔ وہ اپنے بندوں‘ اپنے تخلیق کردہ جان داروں سے کائنات میں سب سے زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ قرآن حکیم میں اس کا یہ ارشاد موجود ہے کہ ’’اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ تمہارے لیے کیا بہتر ہے۔‘‘
علمائے کرام اس بات پر بھی متفق ہیں کہ انسان اپنے لیے جو بھی دعا کرتا ہے‘ وہ ضائع نہیں ہوتی لیکن یہ پروردگار ہی بہتر سمجھ سکتا ہے کہ ہمارے لیے کیا بہتر ہے۔ ہم خود تو اپنے لیے ایک مناسب رشتے کا بھی انتخاب نہیں کرسکتے جسے ہم ہر طرح بہترین تصور کرتے ہوئے اپنے شریک حیات کے طور پر منتخب کرتے ہیں‘ وہ بھی اکثر بعد کے تجربے سے غلط ثابت ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی نوبت علیحدگی اور طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ تو ہماری نظر انتخاب اور پسند ناپسند کا تو یہ حال ہے جس کے لیے ہم جذبات کی رو میں بہہ کر اندھے ہورہے ہوتے ہیں۔