استخارہ، فال، کہانت اور حاضرات

20 ویں صدی کے غیر معمولی کاہن راسپوتین کا ماجرا

کہانت کے حوالے سے یہ سلسلہ ءمضامین تحریر کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ لوگ جان سکیں اور سمجھیں کہ علم نجوم ایک سائنسی علم ہے جب کہ استخارہ ، فال ، کہانت اور حاضرات وغیرہ کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہے ، یہ عامل یا کاہن کی اپنی روحی یا روحانی صلاحیت پر منحصر ہیں اور ان کے جوابات ہمیشہ گول مول قسم کے ہوتے ہیں۔
کبھی کبھی کاہنائیں ایسا جواب دیتی تھیں جو سوال سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ مثال کے طور پر جب بیٹس نامی ایک یونانی نے اپنی زبان میںموجود لکنت کا علاج دریافت کیا تو کاہنہ نے جواب دیا کہ وہ شمالی افریقہ میں ایک شہر بسائے گا۔ بیٹس نے اس پیش گوئی کو پورا کرنے کے لیے لیبیا میں ایک شہر سائرن بسایا لیکن وہ اپنی لکنت پر کبھی قابو نہ پاسکا۔
480 ق م زر زس XERXES کی سربراہی میں فارس کی فوجوں کی چڑھائی کے خطرے کے پیش نظر ایتھنز کے لیڈروں نے کاہنہ سے رجوع کیا جس نے انہیں یہ بتانے کے بعد کہ سب کچھ تباہ ہوجائے گا، ایک نرم اور لچک دار پیش گوئی کی۔ ”سب دیکھنے والا XEUS ایتھنز والوں کی یہ دعا قبول کرتا ہے کہ نہ صرف لکڑی کی دیواریں نہیں گریں گی بلکہ تمہیں اور تمہارے بچوں کا تحفظ کریں گی۔ دیوتاوں کے سلامس تم عورتوں کے بیٹوں کے لیے موت لاوگے“۔
جنرل تھیمس ٹوکلس نے اس پیش گوئی سے یہ مطلب اخذ کیا کہ ایتھنز والوں کو فتح نصیب ہوگی ورنہ سلامس کو اتنی محبت سے آفاقی کیوں کہا گیا؟ دوسروں نے اس سے اختلاف کیا لیکن تھیمس ٹوکلس بحث جیت گیا اور اس جنگ میں جو ایک بحری جنگ تھی ، فارس کی افواج کو شکست فاش ہوئی۔تھیمس ٹوکلس نے اس پیش گوئی سے کہ لکڑی کی دیواریں نہیں گریں گی، صحیح مطلب اخذ کیا تھا کہ انہیں لکڑی کے بحری جہازوں ( لکڑی کی دیواروں ) سے فتح حاصل ہوگی۔
اگرچہ دارالاستخارہ بدنام تھا اور مشہور عالم یونانی المیہ نگار یوریپائڈس Euripides حتیٰ کہ افلاطون PLATO اور سقراط جیسے فلسفی بھی جو مذہب اور روایات کی صحت کو شک و شبے کی نظر سے دیکھتے تھے اسے بدنام کرنے میں پیش پیش تھے پھر بھی دارالاستخارہ کا احترام کیا جاتا تھا۔ بعد میں رومن سیسرو ROMAN CICERO نے کہا ”اگر دارالاستخارہ سچا نہ ہوتا تو لوگ اس پر اتنی دولت نہ لٹارہے ہوتے۔
روم کے لوگ کاہنہ سے ہمیشہ اچھا سلوک نہیں کرتے تھے۔ مثال کے طور پر نیرو کی ماں کو جب خود نیرو کے حکم پر قتل کردیا گیا تو اس کے بعد وہ ڈیلفی گیا جہاںاسے یہ پیش گوئی سننے کو ملی ”تمہاری موجودگی اس دیوتا کو غضب ناک کر رہی ہے جس سے تم مدد مانگتے آئے ہو۔اپنی ماں کے قاتل، واپس جاو۔ 73 کا عدد تمہاری تباہی و بربادی کا پیغام ہے“۔
اگرچہ نیرو نے سوچا کہ 73 سے مراد اس کی عمر ہے جب وہ فوت ہوگا اور اس وقت وہ صرف 30 سال کا تھا۔ تاہم وہ کاہنہ کی پیش گوئی سے خوش نہیں تھا۔ اس نے اس کاہنہ کو اس کے مذہبی پیشواوں سمیت زندہ دفن کروادیا جن کے ہاتھ اور پاوں دفن کیے جانے سے پہلے کاٹ دیے گئے تھے۔ جیسا کہ ظاہر ہوا نمبر 73 سے مراد نیرہ کا جانشین گالبا GALBA تھا جس کی عمر 73 سال تھی اور جو 68 صدی عیسوی میں اسی سال شہنشاہ بنا جس سال نیرو 31 سال کی عمر میں فوت ہوا۔
362 صدی عیسوی میں دارالاستخارہ نے شہنشاہ جو لین کے معالج کو ایک حتمی اعلان جاری کیا” اپنے آقا سے کہہ دو، اتنے چاو اور اشتیاق سے تعمیر کیا جانے والا مندر زمین بوس ہوگیا ہے۔ ذہین اپولو کے سر پر چھت نہیں رہی، پیش گوئی کی بڑبڑاہٹ کے سوتے خشک ہوگئے ہیں۔ قلقل مینا کی آواز والے چشمے بھی نہیں رہے۔ ہاں، وہ گنگتاتے چشمے بھی خشک ہوگئے ہیں“
شہنشاہ جولین نے مندر کی تعمیر نو کرائی اور چشموں کو بھی رواں کردیا لیکن ڈیلفی کے دن گنے جاچکے تھے۔
1890 میں فرانسیسی ماہر تعمیر نے ڈیلفی کی کھدائی کی اور اس نے دیکھا کہ مشہور زمانہ مندر کو ایک سے زیادہ مرتبہ تباہ کیا گیا تھا اور وہاں ایسا کوئی شگاف نہیں تھا جس میں سے ”متعفن یا بدبو دار گیس“ نکل رہی ہو، حالاں کہ یہ ممکن تھا کہ زلزلوں کی وجہ سے وہ شگاف بند ہوگیا ہو۔ پھر بھی سرسبزوشاداب زیتون کے درختوں کے جھنڈ سے بلندی پر ، جس کے نیچے، بہت نیچے خلیج کا رنتھ GULF OF CORNITH بہہ رہا ہو، مندر کے کھنڈرات دیکھے جاسکتے ہیں جہاں چپلیں چکر کاٹتی ہیں اور بجلیاں گرتی ہیں۔ اتنے حسین منظر کو دیکھ کر انسان یہ یقین کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ واقعی کسی زمانے میں ڈیلفی میں دیوتا، عالم وجد میں جھومتی ہوئی کاہناوں کی زبان سے بولتے ہوں گے۔
قدیم زمانے کے ایک شہرہ آفاق دارالاستخارہ کے بارے میں نہایت تفصیل کے ساتھ بتانے کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ فی زمانہ ہمارے معاشرے میں کچھ اسی قسم کی کہانت استخارے کے نام پر رائج ہوگئی ہے جس میں کسی کاہن یا کاہنہ کے بجائے مذہبی یا روحانی لبادہ اوڑھے کوئی باجی اللہ والی یا روحانی بابا لوگوں کو ان کے مسائل اور مشکلات کی وجوہات اور پھر اس کا حل بتارہے ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ سلسلہ نیا نہیں ہے مگر گزشتہ چند برسوں سے بہت زیادہ رواج پاگیاہے۔
استخارہ بے شک اسلامی تعلیمات میں ایک خاص ضرورت کے تحت اور ایک خاص انداز سے موجود ہے، یعنی اگر آپ کسی اہم ترین معاملے میں کوئی فیصلہ نہیں کر پارہے ہوں یا دو چیزوں میں سے یا دوراستوں میں سے کسی ایک راستے کا یا ایک چیز کا انتخاب مقصود ہو اور تمام مادی کوششوں کے باوجود کوئی فیصلہ کرتے ہوئے آپ کو اطمینان قلب میسر نہ آرہا ہو تو ایسی صورت میں اللہ سے رجوع کرکے مشورہ طلب کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے نہایت سادہ طریقہ کار موجود ہے۔ جن میں سے ایک طریقہ تو یہ ہے کہ باوضو ہوکر سورئہ فاتحہ پڑھیں پھر سورئہ اخلاص پڑھیں۔اس کے بعد اللہ سے دعا کریں کہ وہ مطلوبہ معاملے میں رہنمائی فرمائے پھر قرآن کریم کو اندازاً کسی بھی جگہ سے کھول لیں اور دائیں ہاتھ کے پہلے صفحے پر جو پہلی آیت موجود ہو اس سے رہنمائی لیں۔ آیت اگر پچھلے صفحے سے شروع ہورہی ہو تو پوری آیت پڑھیں۔ اس کا ترجمہ اور تفسیر و تفہیم دیکھیں۔ انشاءاللہ مناسب اشارہ مل جائے گا لیکن اس طریقے میں اکثر عام لوگوں کو جو عقل و دانش اور فہم و فراست کی کمی کا شکار ہوتے ہیں، ان کے لیے درست مطلب یا اشارہ اخذ کرنا مشکل ہوتا ہے کیوں کہ بعض اوقات ایسی آیت سامنے آجاتی ہے جس کا متعلقہ مسئلے سے بظاہر کوئی تعلق نظر نہیں آتا ہے۔ اس وقت ذہانت کے ساتھ فہم و فراست اور علم کی ضرورت ہوتی ہے، جب ہی درست جواب اخذ کیا جاسکتا ہے۔
دوسرا طریقہ خواب کے ذریعے ہدایت لینے کا ہے، اس میں سونے سے پہلے استخارے کی نیت سے ضروری آیات یا اسمائے الٰہی یا قرآن کریم کی سورتوں وغیرہ سے مدد لی جاتی ہے۔ اس کے بعد کسی سے بات چیت کیے بغیر سونے کے لیے لیٹ جاتے ہیں۔ اب خواب میں جو بھی مثبت یا منفی اشارہ ملے اسی کو اللہ کی رضا یا ہدایت سمجھ لیا جاتا ہے۔
اس طریقہ کار میں کئی دشواریاں اور خرابیاں ہیں۔ استخارہ کرنے والا ذہنی و جذباتی، صحت کے اعتبار سے کیسا ہے؟ خود صاحب معاملہ ہے یا جس کے لیے استخارہ کر رہا ہے اس سے کیسی نسبت و تعلق رکھتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ایسی ہی کئی باتیں اس نوعیت کے استخارے پر مثبت یا منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں تقریباً تمام ہی مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں میں شادی بیاہ یا اور دیگر ایسے کاموں میں جہاں کسی فیصلے پر پہنچنا مشکل ہورہا ہو، استخارے کی یہ دونوں صورتیں رائج ہیں اور عموماً سمجھ دار لوگ اگر خود کو استخارہ کرنے کا اہل نہیں پاتے تو کسی نیک و پرہیز گار، عبادت گزار عمر رسیدہ شخصیت سے جس سے کوئی دنیاوی رشتے داری یا تعلق خاص نہ ہو، استخارہ کرواتے ہیں، دوسرے طریقے میں اگر پہلی ہی رات کوئی واضح جواب نہ ملے تو 3 راتوں تک استخارہ کیا جاتا ہے اور اگر 3 راتوں میں بھی جواب نہیں ملے تو اس کام کو اس وقت ترک کردینے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
اس حد تک تو استخارے کی صورت درست و جائز ہے مگر فی زمانہ جو تماشے دیکھنے میں آرہے ہیں اس میں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے حال و مستقبل یا ماضی کے معاملات کے بارے میں پیش گوئی کی جارہی ہے، روزگار کی بندش کا سبب بتایا جارہا ہے، شادی میں رکاوٹ کے اسباب پر روشنی ڈالی جارہی ہے، مقدمہ، دشمنی، الغرض زندگی کے تمام مادی معاملات میں رکاوٹ کی وجوہات اور کامیابی یا ناکامی کے اسباب زیر بحث آرہے ہیں اور پھر ان کے حل بھی پیش کیے جارہے ہیں۔ یہی تو کہانت یا فال ہے جسے شریعت نے ممنوع قرار دیا ہے۔ اکثر دیکھنے اور سننے میں آتا رہتا ہے کہ فلاں باجی اللہ والی یا کسی مست، مجذوب یا اللہ والے بابا، پیر فقیر، عامل کامل صاحب نے سائل کا مسئلہ سنا، نام مع والدہ پوچھا۔ تھوڑی دیر مراقبہ فرمایا یا کسی خاص کیفیت میں آگئے یا کچھ دیر تلاوت فرماکر اللہ سے رجوع کیا اور پھر بتادیا کہ مسئلے کی وجوہات یہ ہیں۔ بیماری ہے تو اس وجہ سے ہے۔ قرض و تباہی و بربادی آتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے۔ شادی نہیں ہورہی تو اس کا سبب یہ ہے اور عموماً وہ سبب یا وجہ کسی کے کیے کرائے کا نتیجہ یا کسی آسیب و جنات کی دخل اندازی و بدمعاشی ، کالے پیلے نیلے علم کی کار گزاری وغیرہ ہوتی ہے۔
ایک اور حیرت انگیز تماشا ہمارے مشاہدے میں آیا۔ ایک بابا صاحب تو علم الاعداد کے ذریعے ایسی ایسی حیرت انگیز پیش گوئیاں صرف نام مع والدہ سن کر بیان کر رہے تھے کہ ہماری عقل حیران رہ گئی ۔ ہماری زندگی کا بیشتر حصہ ان علوم کے مطالعے اور پریکٹس میں گزرتا ہے مگر یہ جرات ہم بھی نہیں کرسکتے کہ صرف کسی کے نام مع والدہ سن کر چند لمحوں میں اس کے مسئلے پر روشنی ڈالیں اور حل تجویز کردیں۔ہاں یہ کام کوئی سائیکک اپنی قوت نفسانیہ کے زور پر ضرور کرسکتا ہے مگر اس کی بات کبھی سو فیصد درست نہیں ہوسکتی کیوں کہ اس نوعیت کی کہانت بہر حال مشکوک ہوتی ہے۔
بیسویں صدی عیسوی میں اپنی نفسی یا روحی قوت سے پیش گوئی کرنے والے اور لوگوں کا علاج معالجہ کرنے والے بہت سے افراد گزرے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ مغرب تو ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے اور مشرق میں بھی ان کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہم اگر مثالیں دینے بیٹھ جائیں تو ختم ہونے میں نہیں آئیں گی۔ صرف ایک مثال پر اکتفا کریں گے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں جب روس پر شہنشاہیت مسلط تھی تو شہنشا ہ روس اور اس کے شاہی خاندان کو اپنے روحانی اثر میں لینے والا گریگوری راسپوتین بہت مشہور ہوا کیوں کہ اس نے اپنی غیر معمولی نفسی یا روحی قوت سے کام لے کر ایک ایسے شہزادے کی جان بچائی تھی جسے ڈاکٹر لا علاج قرار دے چکے تھے۔ بس یہی ایک وجہ شاہی خاندان پر اس کے اثرورسوخ کا سبب بن گئی۔
بادشاہ اوراس کا خاندان جن میں اکثریت خواتین کی تھی، راسپوتین کی محبت اور عقیدت میں سبھی اندھے ہوگئے۔ اس کے دروازے پر شہر بھر کی خواتین کا تانتا بندھ گیا اور پھر وہ ملکی اور سیاسی معاملات میں زار روس کا خصوصی مشیر بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ روس اور جاپان کی جنگوں کے دوران میں زار روس نے راسپوتین کے مشورے اور پیش گوئیوں پر بھروسا کیا اور کامیابی حاصل کی لیکن 1914 میں شروع ہونے والی پہلی عالمگیر جنگ کی ابتدا ہوئی تو روسی شہزادے چوں کہ راسپوتین کی بدکرداری اور شیطانی حرکات سے واقف ہوچکے تھے لہٰذا اس کے خلاف ہوگئے مگر زارروس اور شاہی فیملی بدستور اس کے عقیدت مند رہے۔ بالآخر 30 دسمبر 1916 کو اس کے مخالفین نے اسے دردناک طریقے سے قتل کردیا مگر اسے قتل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ متعدد مرتبہ وہ اپنے دشمنوں کے وار سے بچ نکلا۔ ایک بار اسے انتہائی خطرناک زہر دیا گیا مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا جو وائن اور کیک میں ملایا گیا تھا۔ اس کے بعد اسے گولی ماری گئی۔ شدید زخمی ہونے کے باوجود وہ زندہ تھا، بالآخر گولی کے زخم سے جب وہ ہلاک ہوگیا تب بھی مارنے والوں کو یقین نہیں تھا کہ وہ ہمیشہ کے لیے مرچکا ہے لہٰذا اس کی لاش کو برف میں گہرا گڑھا کھود کر دفن کردیا گیا۔
راسپوتین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نہایت جنس زدہ انسان تھا۔ شاہی خاندان کی کوئی بھی خوبصورت شہزادی اس کی ہوس کا شکار ہونے سے نہ بچ سکی مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنا بڑا پیش گو اور روحی معالج جو صرف اپنی پراسرار آنکھوں کی قوت سے کام لے کر اپنے مد مقابل کو مسحور کرکے اپنے زیر اثر لے آتا تھا اور دوسروں کے بارے میں پیش گوئی کیا کرتا تھا، اپنے اس بھیانک انجام سے بے خبر تھا جس وقت اسے قتل کیا گیا اس کی عمر 44 تھی۔
اپنے وقت کے اس طاقت ور کاہن اور روحانی پیشوا کا مقابلہ جب اس دور کے عظیم دست شناس، ماہر علم الاعداد اور نجوم ”کیرو“ سے ہوا تو وہ بھی ایک دلچسپ صورت حال تھی جس کا تذکرہ کیرو نے اپنی یاد داشتوں میں کیا ہے۔
کیرو نے اس کے لرزہ خیز قتل کی حرف بہ حرف پیش گوئی کر دی تھی اور خود اسے بتادیا تھا کہ تمہاری عمر زیادہ نہیں ہے۔ تمہیں پہلے زہر دیا جائے گا پھر خنجر کا وار کیا جائے گا، اس کے بعد شوٹ کردیا جائے گا۔ پھر تمہاری لاش کو کسی سرد ترین مقام پر دفن کردیا جائے گا۔
کیرو کی یہ پیش گوئی سن کر راسپوتین آگ بگولا ہوگیا اور غصے سے کانپنے لگا۔
اس نے کیرو کی باتوں کا مذاق اڑایا اور کہا ” میں عظیم قوتوں کا مالک ہوں۔ میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور میں لمبی زندگی پاوں گا“ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ ایک کاہن کے مقابلے میں ایک اہل علم کی بات درست ثابت ہوئی۔
کہانت، فال اور عملِ حاضرات
کہانت کی قسم اول و اعلیٰ تو وہی ہے جس کا بیان پہلے ہوچکا، یعنی کاہن یا کوئی روحانی پیشوا یا عامل اپنی قوت نفسانیہ یا روحانیہ سے کام لیتے ہوئے ماضی، حال یا مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرے۔ گویا اس پیش گوئی میں اس کا معاون و مددگار اس کی اپنی پراسرار قوتوں کے علاوہ کوئی دوسرا نہ ہو، خاص طور سے اس کی یہ پیش گوئیاں کسی دنیاوی، حسابی، مشاہداتی اور تجرباتی علم کے ذریعے نہ ہوں اور منجانب اللہ بھی نہ ہوں تو ہم اسے کہانت یا مکاشفہ کہیں گے۔واضح رہے کہ منجانب اللہ یہ صلاحیت یا خصوصیت صرف انبیاءکو حاصل ہوتی ہے یا پھر اولیا اللہ کو۔دنیاوی حسابی، تجرباتی اور مشاہداتی علوم میں نفسیات، علم نجوم، علم جفر، علم الاعداد، میڈیکل سائنسز اور دیگر سائنسز شامل ہیں اور یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ تمام دنیاوی سائنسز تاحال ادھوری اور نامکمل ہےں۔ گویا ان کا شمار علوم ناقصہ میں ہے اور ان کے ذریعے کامل یقین کی حد تک پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ ماضی کے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں امکانات پر بات ہوسکتی ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان توفیق الٰہی سے کائنات کے نت نئے رازوں سے آشنا ہوتا ہے اور اس کے علم میں روز بہ روز نت نئے اضافے ہوتے رہتے ہیں۔جیسا کہ صدیوں سے یہ نظریہ چلا آرہا تھا کہ زمین ساکت ہے اور سورج و دیگر تمام سیارے اس کے گرد گھوم رہے ہیں لیکن بالآخر انسان نے یہ راز پالیا کہ زمین سمیت تمام سیارے سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اسی طرح زندگی کے اور کائناتی مظاہر کے ہر شعبے میں علمی ترقی ماضی کے بہت سے نظریات و عقائد کو غلط ثابت کرتی رہتی ہے۔ اگر غلطی کا امکان نہیں ہے تو صرف علوم الٰہیہ اور انبیا میں نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انسان اپنی کم فہمی اور کج فہمی کے سبب علوم الٰہیہ کے مطالب و مفاہیم سمجھنے سے قاصر رہے اور اپنی کوتاہ عقلی کی وجہ سے اپنی دنیاوی معلومات اور تحقیقات کی بنیاد پر علم خداوندی کو مشکوک نظروں کو دیکھے جیسا کہ آج کے دور میں بھی مادہ پرست جدید سائنس سے متاثر افراد کا انداز فکر ہے کہ وہ نت نئے سائنسی انکشافات کو حتمی سمجھتے ہوئے قرآن کریم میں بیان کردہ کائناتی حقائق کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں۔

کہانت کی دوسری قسم

کہانت کی دوسری اقسام میں فال اور حاضرات کی مختلف قسمیں رائج ہیں۔ فال یا حاضرات کے طریقے بھی زمانہ ءقدیم سے دنیا کی تمام قوموں میں موجود رہے ہیں۔یہاں تک کہ طلوع اسلام سے قبل عرب و عجم بھی ان پر عمل پیرا تھے۔
فال میں مختلف طریقوں سے شگون یا اشارے لیے جاتے ہیں جن کے مفہوم کی وضاحت کوئی کاہن ٹائپ شخص کرتا ہے یا پھر فال کے ایسے طریقے بھی رائج رہے ہیں اور آج بھی ہیں جن میں فال دیکھنے والا خود ہی ان اشاروں سے کوئی معنی اخذ کرلیتا ہے۔ مثلاً برصغیر میں فال کا ایک طریقہ مشہور ایرانی شاعر خواجہ حافظ شیرازی کے کلام سے اشارے حاصل کرنے کا ہے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ باوضو ہوکر دیوان حافظ شیرازی کھولا جاتا ہے اور اس میں جو پہلا شعر نظر کے سامنے آجائے اس کے مطلب و معنی پر غور کرکے اس سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ ہمارے نزدیک تو یہ طریقہ بالکل شرکیہ ہے۔
حاضرات کے طریقے بھی نہایت قدیم اور قریباً دنیا کی ہر قوم میں رائج چلے آرہے ہیں۔ ان پر بھی طلوع اسلام کے بعد شرعی طور پر پابندی عائد کی گئی کیوں کہ ہر عمل حاضرات میں عامل یا سائیکک شخص کی مدد د و معاونت شیاطین کیا کرتے تھے لیکن پھر ایسا دور بھی آیا جس میں ان طریقوں کو مشرف بہ اسلام کرکے مسلمانوں میں رواج دیا گیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے اور اس قدر عروج پاچکا ہے کہ ہمارے اکثر عاملین و کاملین نے عمل حاضرات سے کتابیں بھر دی ہیں۔
اس طریقے میں عموماً عامل کسی معمول کو استعمال کرتا ہے یا بعض طریقے ایسے بھی ہیں جس میں عامل خود ہی معمول ہوتا ہے لیکن بنیادی طور پر ان سارے طریقوں میں جو قدر مشترک ہے وہ عامل یا معمول کی میڈیم شپ کی صلاحیت ہے۔ اعلیٰ درجے کی میڈیم شپ کی صلاحیت رکھنے والے خواتین و حضرات پر جلد ہی حاضرات کھل جاتی ہے۔ عمل خواہ کم زور ہو یا طاقت ور، اگر معمول بہترین صلاحیتوں کا حامل نہ ہو تو حاضرات کے عمل میں ناکامی ہوتی ہے۔ بات گھوم پھر کر دوبارہ وہیں آگئی ہے کہ اس کھیل کا مرکزی کردار بنیادی طور پر ”سائیکک“ یعنی روحی یا روحانی قوت کا حامل ہو اور میڈیم شپ کی صلاحیت رکھتا ہو۔ (جاری ہے)